Sunday, September 14, 2014

اتوار 14ستمبر 2014، شمارہ: 31


حضرت مولانا محمد علی ؒ کے خطبات کی تازہ ریکارڈنگز


لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِ










روزنامہ مبلغ (آنلائن)


روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان



بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت

 حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ

احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

اتوار۔۱۴ستمبر ۲۰۱۴ء

۱۸ذیقعد ۱۴۳۵ ہجری

شمارہ نمبر:31

Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com


    خوشخبری
اپ ڈیٹ
بلاگ پر نیا اضافہ
احباب جماعت احمدیہ لاہور کو یہ جان کر از حد خوشی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس بلاگ کے آڈیو ویڈیو سیکشن میں  خطباتِ حضرت مولانا محمدعلیؒ کی آڈیو ریکارڈنگز کی اشاعت کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔
 خطبات کو باقاعدہ کیٹیگرائزڈ(categorized) کیا جارہا ہے جسکےلئے متعلقہ بلاگ پر سیلیکٹ کیٹیگری(select category) کا آپشن موجود ہے ۔علاوہ ازیں کسی خاص خطبہ کی تلاش کےلئے سرچ کا آپشن بھی موجود ہے ۔

 براہ کرم آڈیو ویڈیو سیکشن کو وزٹ فرمائیں اور اس سلسلہ کو بہتر سے بہتر بنانے کےلئے ہمیں اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ فرمائیں ۔

جزاکم اللہ تعالیٰ خیرا کثیرا




۱:کلامِ الٰہی 

إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلًا كَرِيمًا

النساء: 31

ترجمہ:۔ اگر تم ان بڑی بدیوں سے بچتے رہو جن سے تم کو روکا جاتا ہے تو ہم تمھاری برائیاں تم سے دور کر دیں گے اور تم کو عزت کی جگہ میں داخل کریں گے ۔
تفسیر
اس آیت میں ایک پرحکمت فلسفہ بدی سے بچنے کا پایا جاتا ہے ۔بدی کسی ایک چیز کا نام نہیں، ہر شے کا نیک و بد استعمال ہوسکتا ہے اور ہر انسان کی زندگی میں الگ الگ موقعے پیدا ہوتے رہتے ہیں جہاں وہ نیکی یا بدی کرسکتا ہے ۔اس لئے اگر کوئی مذہب تمام بدیوں کو گننے لگتا اور اپنے پیرووں کو یہ کہتا، اب تم ان تمام باتوں سے بچو، تو یہ ایک نہایت ہی ناکام کوشش ہوتی۔

قرآن نے یہ پرحکمت طریق اختیار کیا کہ چند موٹی موٹی بدیوں سے جن کو ہر انسان جانتا ہے، روک کر یہ فرمایا ہے کہ اگر تم ان بچو تو ہم تمھاری بدیاں دور کر دیں گے ۔۔ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ حکمت کیا ہے؟ یہ تو ایک فرضی بات ہے کہ بڑی بڑی بدیوں سے بچ جاو گے تو ساری بدیاں دور کر دیں گے مگر ایسا اعتراض وہی کرے گا جس نے بدی کے فلسفہ پر غور نہیں کیا۔ظاہر ہے کہ بدی جس قدر زیادہ بین ہوگی یا جس قدر بری ہوگی، اسی قدر انسان اسکا آسانی سے مقابلہ کر سکے گا۔ جو شخص فطرت انسانی پر غور نہیں کرتا وہ اسے مستبعد خیال کرے گا مگر فطرت انسانی ایسی ہی ہے کہ جس چیز کا نقصان بہت بین ہوتا ہے، اس سے بچنا انسان کے لئے آسان ہوتا ہے۔کیونکہ فطرت کے اندر خالق نے جو طاقتیں ودیعت کر رکھی ہیں وہ ایک کھلے نقصان کو دیکھ کر مقابلہ کےلئے باہر نکل پڑتی ہیں ۔اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جس چیز کا نقصان بہت بین ہوگا، وہی بڑی بدی کہلائے گی ۔

پس اصل یوں ہے کہ بڑی بدی کا نقصان بہت کھلا ہوتا ہے اور کھلے نقصان کو دیکھ کر انسان کے اندر جو نیکی کی طاقتیں ہیں وہ مقابلہ کےلئے نکل آتی ہیں اور جب نیکی کی طاقتیں مقابلہ کےلئے نکل آئیں تو گو اگر فطرت بدی کےنیچے دبی ہوتی ہے تو ابتدا میں وہ کمزور ہونے کی وجہ سے دب بھی جائیں ، مگر آخر مقابلہ کرتے کرتے ان میں طاقت آجائےگی ۔جس طرح بچا کھڑا ہونے لگتا ہے یا چلنے لگتا ہے تو پہلے پہلے گرتا ہے، مگر اسکی بار بار کی کوشش اسکی طاقت کو مضبوط کر دیتی ہے ۔ اسی طرح انسان کی روحانی طاقتیں مقابلہ کے وقت نشونما پاتی ہیں ۔

پس جب ایک شخص بڑی بدیوں کا مقابلہ کرنے کا اپنے آپ کو عادی بنائے گا تو اسکی نیکی کی اندرونی قوتیں نشونما پائیں گی اور ان قویٰ کے نشوونما کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان چھوٹی بدیوں سے بھی بچ جائے گا جن کے نتائج ایسے بین نہیں کیونکہ اسکے اندر سے آہستہ آہستہ بدی کا میلان ہی دور ہو جائے گا اور اسکی بدی کی طاقتیں بالکل مر جائیں گی اور یہی وہ مقام ہے جس پراسلام پہنچانا چاہتا ہے  

بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ

//////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////

۲:حدیثِ نبویؐ

بیمار کےلئے دعا
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی مریض کے پاس جاتے تو یہ دعا کرتے:
ائے لوگوں کے رب اس تکلیف کو دور کر دے اور خود شفا دے کیونکہ تو شافی ہے تیرے علاوہ کوئی شفاء نہیں د ے سکتا ۔ایسی شفا دے جو کوئی کمی نہ چھوڑے 
بخاری کتاب المرضی باب دعا العائذ للمریض حدیث نمبر 5243



//////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////

۳:سیرت خیر البشرؐ
 باب چہارم
آفتاب رسالت کے طلوع سے پہلے کا زمانہ 
ظھرالفساد فی البر و البحر
(30:الروم:41)
برو بحر میں فساد ظاہر ہو گیا
از
 حضرت مولانا محمد علی 

نوٹ:  حضرت مولانا محمد علیؒ  کے اس عظیم الشان شاہکار اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ امی و ابی کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب سیرت خیرالبشر ؐ کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ

گزشتہ سے پیوستہ

عرب کی اصل اور مذہبی حالت

"گو بت پرستی انکا عام شیوہ تھا مگر ان میں بعض لوگ ستاروں کی پرستش بھی کرتے تھے اور اسی وجہ سے عرب میں یہ بھی عام عقیدہ ہو گیا تھا کہ ستاروں کی گردش کا اثر انسانوں کی قسمت پر پڑتا ہے ۔

مینہ برسنا وغیرہ یہ تمام باتیں جو برائی بھلائی سے تعلق رکھتی ہیں ان کو وہ ستاروں کی طرف مبعوث کرتے تھے۔ان میں لامذہب اور دہریہ لوگ بھی تھے جہاں ایک طرف ذلیل ترین بت پرستی نے عام طور پر لوگوں کو اپنا غلام بنا رکھا تھا،وہاں دوسری طرف ان میں بعض لوگ اللہ تعالیٰ کی ہستی ، روح کی بقا اور جزا کے بھی منکر تھے اور مذہب کی کچھ بھی حیثیت نہ سمجھتے تھے بلکہ خود بت پرست بعض وقت بتوں کے ساتھ استہزا کر لیتے تھے ۔چنانچہ مشہور شاعر امراالقیس کا قصہ لکھا ہے کہ جب اس کا باپ مارا گیا تو اس نے عرب کے دستو کے مطابق بت کے سامنے جا کر فال نکال لی کہ وہ اپنے باپ کے خون کا قصاص لے یا نہیں ۔

فال نکالنے کا یہ دستور تھا کہ جب کبھی کوئی بڑا کام کرنا ہوتا تھا تو تین تیر لئے جاتے تھے جن میں سے ایک پر لا لکھا ہوتا تھا یعنی نہیں ۔دوسرے پر نعم یعنی ہاں، تیسرا خالی ہوتا تھا ۔اگر لا والا تیر نکلتی تو وہ کام نہ کیا جاتا۔نعم والا نکلتا تو کر لیا جاتا، خالی نکلتا تو پھر فال نکالی جاتی ۔
جب امراالقیس نے فال نکالی تو تین مرتبہ ہ لا والا تیر نکلا تب اس نے جھنجلا کر تیر کو پھینک دیا اور بت کومخاطب کر کےکہاکہ کمبخت اگر تیرا باپ مارا جاتا تو قصاص کےلئے لا کا حکم نہ دیتا  " 

جاری ہے

کتاب سیرت خیرالبشرؐ،باب دوئم، صفحہ22

//////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////

۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ 

ہر صدی کے سر پر ایک مجدد کی بعثت
صدی کے سر پر مجدد کی آمد کا بے چینی اور بے قراری کے ساتھ انتظار
 اورمجدد کی اہمیت 

یہ کہنا کہ مجددوں پر ایمان لانا کچھ فرض نہیں خدا تعالیٰ کے حکم سے انحراف ہے کیونکہ وہ فرماتا ہے 
ومن کفر بعد ذالک فاولئک    ھم الفاسقون (النور: ۵۶)
یعنی بعد اسکے جو خلیفے بھیجے جائیں پھر جو شخص انکا منکر رہے وہ فاسقوں میں سے ہے ۔

کتاب : شہادة القرآن 
روحانی خزائن جلد 6،صفحہ 348

خدا تعالی نے الہام کے ذریعہ سے مجھے خبر دی کہ تو اس صدی کا مجدد ہے" 

تذکرہ صفحہ ۳۵

"میں جو کچھ اس وقت کہنا چاہتا ہوں وہ کوئی معمولی اور سرسری نگاہ سے دیکھنے کےقابل بات نہیں بلکہ بہت بڑی اور عظیم الشان بات ہے ۔میری اپنی بنائی ہوئی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی بات ہے ۔اس لئے جو اس کی تکذیب کےلئے جرات اور دلیری کرتا ہے وہ میری تکذیب نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب پر دلیری کرتا ہے ۔مجھے اس کی تکذیب سے کوئی رنج نہیں ہو سکتا۔
یہ بات مسلمانوں میں سے ہر شخص جانتا ہے اور غالباً کسی کو بھی اس سے بے خبری نہ ہوگی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر ایک مجدد کو بھیجتا ہے جو دین کے اس حصہ کو تازہ کرتا ہے جس پر کوئی آفت آئی ہوتی ہے ۔یہ سلسلہ مجددوں کے بھیجنے کا اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کے موافق ہے جو اس نے انا نحن نزلناالذکر و انا لہ لحافظون میں فرمایا ۔
پس اس وعدہ کے موافق اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم کی اس پیشگوئی کےمطابق جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے وحی پا کر فرمائی تھی، یہ ضروری ہوا کہ اس صدی کے سر پرجس میں سے انیس برس گزر گئے کوئی مجدد اصلاح دین اور تجدید ملت کےلئے مبعوث ہوتا ۔

اس سے پہلے کہ  خدا تعالیٰ کا مامور اسکے الہام اور وحی سے مطلع ہو کر اپنے آپ کو ظاہر کرتا، مستعد اور سعید فطرتوں کے لئے ضروری تھا کہ وہ صدی کا سر آجانے پر نہایت اضطراب اور بے قراری کے ساتھ اس مرد آسمانی کی تلاش کرتے اور اس آواز کے سننے کےلئے ہمہ تن گوش ہوجاتے جو انہیں یہ مژدہ سناتی کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے وعدہ کے موافق آیا ہوں "
ملفوظات جلد ۴، صفحات ۱۔۳

“ہاں یہ بات بھی درست ہے کہ قرآن ہدایت کےلئے نازل ہوا ہے مگر قرآن کی ہدایتیں اس شخص کے وجود کے ساتھ وابستہ ہیں جس پر قرآن نازل ہو یا وہ شخص جو منجانب اللہ اس کا قائم مقام ٹھہرایا گیا۔اگر قران اکیلا ہی کافی ہوتا تو خدا تعالٰی قادر نہ تھا کہ قدرتی طور پر درختوں کےپتوں پر قرآن لکھا جاتا یا لکھا لکھایا آسمان سے نازل ہو جاتا مگر خدا تعالٰی نے ایسا نہیں کیا بلکہ قرآن کو دنیا میں نہیں بھیجا جب تک معلم القرآن دنیا میں نہیں بھیجا۔ قرآن کو کھول کر دیکھو کتنے مقام میں اس مضمون کی آیتیں ہیں کہ یعلمھم الکتب و الحکمة یعنی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن اور قرآنی حکمت لوگوں کو سکھلاتا ہے ۔اور پھر ایک جگہ اور فرماتا ہے لایمسہ الا المطھرون یعنی قرآن کے حقائق و دقائق ان ہی پر کھلتے ہیں جو پاک کئے گئے ہیں ۔

پس ان آیات سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کی سمجھنے کےلئے ایک ایسے معلم کی ضرورت ہے جس کو خدا تعالٰی نے اپنے ہاتھ سے پاک کیا ہو ۔اگر قرآن کے سیکھنے کےلئے معلم کی حاجت نہ ہوتی تو ابتد زمانہ میں بھی نہ ہوتی۔

اور یہ کہنا کہ ابتداء میں تو حل مشکلات قرآن کےلئے ایک معلم  کی ضرورت تھی لیکن جب حل ہو گئیں تو اب کیا ضرورت ہے اس کا جواب یہ ہے کہ حل شدہ بھی ایک مدت کے بعد پھر قابل حل ہوجاتی ہیں ماسوا اس امت کو ہر ایک زمانہ میں نئی مشکلات بھی تو پیش آتی ہیں اور قرآن جامع جمیع علوم تو ہے لیکن یہ ضروری نہیں  کہ ایک ہی  زمانہ میں اس کے تمام علوم ظاہر ہوجائیں بلکہ جیسی جیسی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے  ویسے ویسے قرآنی علوم کھلتے ہیں

 اور ہر یک زمانہ کی مشکلات کے مناسب حال ان مشکلات کو حل کرنے والے روحانی معلم بھیجے جاتے ہیں جو وارث رسل ہوتے ہیں اور ظلی طور پر رسولوں کے کمالات کو پاتے ہیں اور جس مجدد کی کاروائیاں کسی ایک رسول کی منصبی کاروائیوں سے شدید مشابہت رکھتی ہیں و عند اللہ اسی رسول کے نام سے پکارا جاتا ہے " 


کتاب : شہادة القرآن 
روحانی خزائن جلد 6،صفحہ 347 تا  348 


//////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////

۵:دینی مسائل اور انکا حل
ارشاد مبارک حضرت مجدد اعظم و امام الزمان
مرزا غلام احمد قادیانی رحمتہ اللہ علیہ  

قربانی کا بکرا کتنی عمر کا ہو؟ 
کیا ایک سال کا بکر ابھی قربانی کےلئے جائز ہے؟

" مولوی صاحب سے پوچھ لو۔ اہلحدیث و حنفا کا اس میں اختلاف ہے ۔ مولوی صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ دو سال سے کم کا بکرا قربانی کےلئے اہلحدیث کےنزدیک جائز نہیں "

بدر ۲۳ جنوری ۱۹۰۸ء  
//////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////

۶:پیغامِ امیر قومؒ
حضرت مولانا محمد علیؒ

حضرت مرزا صاحبؒ پر مراق  کے الزام کا نہایت زبردست جواب

"حضرت مرزا صاحبؒ کے بارے میں بڑے بڑے عقلمند یہ رائیں لگارہے ہیں کہ آپ مراقی تھے۔میں حیران ہوتا ہوں کہ بھلا کیسے اس بات کا یقین دلائیں گے انکو ، جو آپکے پاس بیٹھے ہیں ۔انکے تو چہرے پر ہی تبسم کھیلتا تھا ۔ہر وقت دوستوں میں خوش خوش رہتے اور ہنستے ہوئے باتیں کرتیں ۔ہم تو دن رات آپؒ   کے پاس بیٹھے رہے ہیں ۔نہ صرف یہ کہ آپؒ   کے اپنے چہرے پر کبھی پژ مردگی اور غم کے آثار نہ ہوتے تھے بلکہ آپکے چہرے کی طرف دیکھنے سے دوسروں کا بھی غم دور ہو جاتا تھا۔

پھر جو کام آپؒ   نے کیا ، جس طرح قرآن کی محبت دلوں میں ڈالی اور اسکو پھیلانے کا ایک جوش اور ولولہ پیدا کر دیا، اگر فی الوقعی مراقی اور مجنون بھی یہ کام کرلیا کرتے ہیں، تو میں کہتا ہوں کہ ان کم بختوں تندرستوں کو کیا ہو گیا ہے ؟ کہ ان سے کوئی اس قسم کا کام نہیں ہو سکتا ؟ 

آپ ؒ کی مجلس اور صحبت کے اندر وہ اثر تھا کہ میں علیٰ وجہ البصیرت گواہی دیتا ہوں کہ محض آپکی صحبت میں بیٹھنے سے ہی لوگوں کی زندگیاں بدل گئیں ۔ جو رشوت لینے کے عادی تھے، جب آپکی صحبت میں آکر بیٹھے تو رشوت کی عادت ان سے چھوٹ گئی ۔چور اور ڈاکو جب آپؒ   کی صحبت سے متاثر ہوئے ، تو چوری اور ڈاکہ زنی سے وہ تائب ہو گئے ۔کیا کسی کبھی کسی مراقی اور مجنون کی یہ کیفیت آپ نے دیکھی ۔ لیکن نہیں ۔ان باتوں سے تو کوئی مطلب ہی نہیں ۔انہیں چند جہلا کو خوش کرنا مقصود ہے ۔

میں پوچھتا ہوں کہ اگر مراق کی بیماری حضرت مرزا صاحبؒ کو ہوتی، تو کس طرح اتنا بڑا کام کر سکتے تھے؟ کیونکر اتنے لوگ آپکے گرد جمع ہو سکتے تھے ۔ہاں اس میں شک نہیں کہ آپکو دوران سر کا مرض تھا لیکن اسکو مراق کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔جب وہ حالت دور ہو جاتی تھی تو پھر وہی مرزا صاحب ایسے ہشاش بشاش ہوتے تھے کہ گویا کوئی تکلیف ہی نہیں تھی ۔یہ مراق والے کی حالت نہیں ہوتی ۔لیکن لوگوں نے کسی نہ کسی طریق سے جھٹلانا ہے ۔ کسی نے مراق کہہ دیا ، کسی نے افتراء کہہ دیا، کسی نے سحر اور مسمریزم قرار دے دیا ۔ 

اصل بات یہ ہے کہ ایک صادق انسان کا معاملہ اس قدر مشکل ہوتا ہے کہ سوائے صحیح حل کے اور کسی بات پر انسان قائم نہیں رہ سکتا ۔تاہم یہی باتیں انکے پاس لے دے کے رہ گئی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صرف جھوٹا کہہ لینے سے کچھ نہیں بنتا، جب تک غور اور توجہ سے اسکے کلام کونہ دیکھا جائے، اسکے خیالات کو نہ سنا جائے، اسکے اعمال کو نہ دیکھا جائے۔افسوس کہ ہمارے مخالفین کو اس سے کچھ غرض نہیں ۔

لیکن یاد رکھئیے کہ آج یہ لوگ حضرت مرزاصاحب ؒ کو مفتری اور کذاب کہتے ہیں، کل انکی اولادیں ہونگی، جن کے سامنے جب حقائق آئیں گے اور جب اسکی خدمت اسلام کے کھلے اور روشن نتائج انکے سامنے ہونگے، تو وہ ان لوگوں کو ملامت کریں گے اور محسوس کریں گے کہ پھر ایک دفعہ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔اور وہ آخر کار غور کر کے حق و صداقت کو پا لیں گے ۔

ایک بیج ابتدا میں حقیر چیز سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جس بیج کو پانی مل جائے، وہ درخت بننے سے نہیں رہتا۔اسی طرح صداقت بھی ایک بیج ہے ۔یہ بھی ایک درخت بن کر رہتی ہے ۔راستبازوں کے ساتھ ہمیشہ یہی سلوک ہوتا چلا آیا ہے ۔ہر ایک راست باز کی یہی حالت ہے ۔تاہم اسکی راستبازی کو کوئی مٹا نہیں سکتا، اور آخرکار کامیاب ہو کر رہتا ہے ۔ 
"

پیغامِ صلح ، ۱۶ جولائی    ۱۹۳۵ ء
خطبات مولانا محمد علیؒ
جلد ۱۳، اقباس از صفحہ ۱۳۹ تا ۱۴۱


۷:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں 
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)

ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام

"نبوت کا دعوی نہیں بلکہ محدثیت کا دعوٰی ہے جو خدا تعالیٰ کےحکم سے کیا گیاہے"

"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "

" یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے؟"
روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹

"میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اورنبی کے میری الہام میں میری نسبت خدا تعالٰی کی طرف سے بے شک ہیں  لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں اور جیسے یہ محمول نہیں ایسا ہی نبی کر کے پکارنا  جو حدیثوں میں مسیح موعودؑ کےلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔ یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "
سراج منیر،صفحہ ۳

"سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں ۔ آنے والے مسیح موعودؑ  کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویؐ سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور معمولی محاوہ مکالمات الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا؟"
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"

یہ بھی یاد رہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے"

روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209
"سمیت نبیا من اللہ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ"
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر 




روحانی خزائن جلد 22 صفحہ  689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65) 

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب
 انکے اپنے اشعار میں 

ما مسلمانیم از فضلِ خدا 
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا

اندریں دیں آمدہ از مادریم 
ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم

آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست
بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست

یک قدم دوری ازاں روشن کتاب
نزد ماکفر است و خسران و تباب

آں رسولے کش محمدؐ ہست نام
دامنِ پاکش بدستِ ما مدام

مہرِ اوباشیرشداندربدن
 جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن 

ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام

(کتاب سراج منیر، ضمیمہ صفحہ ز)
۸:
 ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف

اس ہفتہ کی کتاب

 ایک ضروری تجویز

بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین 
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام


No comments :

Post a Comment