Thursday, September 25, 2014

جمعرات 25 ستمبر 2014، شمارہ: 38


حضرت مولانا محمد علی ؒ کے خطبات کی تازہ ریکارڈنگز


لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِ

روزنامہ مبلغ (آنلائن)


روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان



بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت

 حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ

احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

جمعرات ۔۲۵ ستمبر ۲۰۱۴ء

۲۹ ذیقعد ۱۴۳۵ ہجری


شمارہ نمبر:38

Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com


خوشخبری
اپ ڈیٹس


حضرت مولانا محمدعلیؒ کی عظیم شاہکار کتاب
 تاریخ خلافت راشدہ 
کو باب وار ترتیب کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے 

اس ہفتہ کی کتاب 
ضرورت مجدد 
از حضرت مولانا محمد علیؒ 
سب سے آخری سیکشن میں ملاحظہ فرمائیں 





۱:کلامِ الٰہی 

وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ كَذَٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِمْ مَرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ


الانعام: 108

ترجمہ:۔ اور انکو گالی نہ دو جنکو یہ اللہ کے سوائے پکارتے ہیں(ایسا نہ ہو) کہ وہ زیادتی کر کرے بے علمی سے اللہ کو گالی دیں ۔ اس طرح ہم نے ہر ایک گروہ کےلئے انکا عمل اچھا کر کے دکھایا ہے ۔پھر انکے رب کی طرف انکا لوٹ کر آنا ہے ۔سو وہ انھیں بتادے گا جو وہ کرتے تھے 


دوسرے معبودوں کو گالیاں نہ دینے کی تعلیم

تفسیر

مخالفین کی باتین نہایت درجہ دکھ دینے والی تھیں ۔ برا کہتے تھے، ہنسی اڑاتے تھے، گالیاں دیتے تھے۔ اس لئے مسلمانوں کو اب ایک اصول بتایا کہ ایسا نہ ہو تم بھی انکے معبودانِ باطل کو اسی طرح شب شتم کرنے لگو ۔

 اور چونکہ برائیوں کا ذکر تھا اس لئے ساتھ ہی یہ بتانے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ دوسرے کے عقائد میں جو برائی ہو، اسکی اصلاح کےلئے اسکا بیان کر دینا تو ضروری ہے مگر حد سے تجاوز نہ ہو ۔ گالی تک نوبت نہ پہنچے ۔ 

ایک غلطی کااظہار اور چیز ہے جس کی ضرورت ہمیشہ دنیا میں رہے گی ۔مگر خوامخواہ دوسرے کے دل کو دکھ پہنچانا جائز نہیں ۔ 

یوں قرآن کریم ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیم بھی دیتا چلاجاتا ہے۔ ایک ایسا عمدہ اصول بیان کردیا ہے کہ جس سے مذہبی تنافر کی بجائے انسانوں میں باہم محبت پیدا ہو ۔

عام طور رپر اس اصول کو مدنظر نہ رکھنے سے مذہب کی خاطر انسان ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے ہیں۔ حالانکہ مذہب کی غرض یہ تھی کہ تمام انسانوں سے محبت اور آشتی ہو۔ 

اس زمانہ میں آریوں اور عیسائیوں نے اس اصول کو توڑ کر باہم بغض و تنفر کا خطرناک بیج بو دیا ہے ۔ سینکڑوں کتابیں صرف دوسروں کی برائیاں بیان کرنے، ان پر ہنسی کرنے پر شائع ہوتی ہیں ۔ اصول سے بحث نہیں کیونکہ وہاں اپنی کمزوری کو جانتے ہیں 

بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ

...................................................................................................................................................................

۲:حدیثِ نبویؐ

سرکارِ دو عالم ؐ کی پسند

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہا کہ:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پسند ہوتا تھا کہ جوتا پہننے میں اور کنگھی کرنے میں اور وضو کرنے میں غرض ہر کام میں دائیں طرف سے شروع کریں


بخاری (۴: ۳۱)

ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

جب تم کپڑنے پہنو اور جب تم وضو کرو تو اپنی دائیں جانب سے شروع کرو۔
مشکوٰة (۳: ۴ بروایت مسلم )

کتاب: احادیث العمل صفحہ۶۷
از
 حضرت مولانا محمدعلیؒ 


...................................................................................................................................................................


۳:سیرت خیر البشرؐ
 باب چہارم
آفتاب رسالت کے طلوع سے پہلے کا زمانہ 
ظھرالفساد فی البر و البحر
(30:الروم:41)
برو بحر میں فساد ظاہر ہو گیا
از
 حضرت مولانا محمد علی 

نوٹ:  حضرت مولانا محمد علیؒ  کے اس عظیم الشان شاہکار اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ امی و ابی کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب سیرت خیرالبشر ؐ کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ

گزشتہ سے پیوستہ

عرب میں شراب خوری 

"عامہ حالتِ عرب پر اگر نظر کی جائے تو وہی جہالت کا نقشہ نظر آتا ہے ۔قمار بازی انکا فخر تھا جس طرح آج مہذب یورپ کا فخر ہے ۔ جو جوا نہ کھیلے،ا سےبخیل قرار دیا جاتا ہے۔ 

شراب خوری کی بلا اس قدر عام اور وسیع تھی کہ کوئی گھر اس سے خالی نہ تھااور دن میں کئی کئی مرتبہ شراب نوشی کی جاتی ۔ ہر گھر میں شراب کے مٹکے رہتے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ جب قرآن میں شراب کی ممانعت کا حکم نازل ہوا تو مدینہ کی گلیوں میں شراب اس طرح بہتی تھی جیسے بارش کا پانی۔

یہاں بھی وہی طاقت کام کرتی ہوئی نظر آتی ہے جو انسان کے ادراک سے بالا تر ہے کہ کسطرح صدیوں کے شراب نوشی کے عادی ایک آن کی آن میں ایسے تارکِ   شراب ہوئے کہ پرانے شراب کے برتن تک بھی گھروں میں نہ رکھے  "

جاری ہے

کتاب سیرت خیرالبشرؐ،باب دوئم، صفحہ25



...................................................................................................................................................................

تاریخ خلافت راشدہؓ
از حضرت مولانا محمد علیؒ 
حضرت ابوبکر صدیقؓ
زمانہ خلافت
۲ ربیع الاول ۱۱ ہجری تا ۲۲ جمادی الثانی ۱۳ ہجری
جون ۶۳۲ء تا اگست ۶۳۴ء 

نوٹ:  حضرت مولانا محمد علیؒ  کے اس عظیم الشان شاہکار اور خلفائے راشدین کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب تاریخ خلافت راشدہ کو  کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ

اسلام کی وجہ سے تکلیف اٹھانا

"گو حضرت ابو بکرؓ کی عزت نہ صرف خاندانی لحاظ سے بلکہ انکے ذاتی جوہروں اور اخلاق اور مال کی وجہ سے بھی تھی ۔ مگر اسلام کے لئے انہیں بھی دکھ اٹھانے پڑے ۔ 

انکی والدہ ام الخیر کے مسلمان ہونے کے ذکرمیں لکھا ہے کہ ایک دن حضرت ابوبکرؓ نے علی الاعلان لوگوں کو اسلام کی طرف بلانا شروع کیا اور یہ وہ زمانہ تھا جب خود رسول اللہ صلعم بھی چھپ کر زید بن ارقم کے گھر میں دعوت اسلام دیتے اور نمازپڑھتے، تو مشرکوں نے حضرت ابوبکرؓ پر حملہ کیا اور سخت مارا ۔یہاں تک کے انکے قبیلہ کے لوگ انہیں اٹھا کر لے گئے ۔ اور جب گھر جا کر انہیں ہوش آئی تو سب سے پہلے یہ پوچھا کہ رسول اللہ صلعم  کہاں ہیں؟انکی والدہ نے دریافت کر کے پتہ نکالا تو انہیں ساتھ لے کر فوراً زید بن ارقم کے گھر پہنچے جہاں انکی والدہ نے اسلام قبول کیا۔ 
 "


جاری ہے


کتاب تاریخ خلافت راشدہ ،باب اول ، صفحہ ۳




...................................................................................................................................................................

۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ 



آسمانی گواہی

دانیال نبیؑ کی پیشگوئی کے مطابق
مسیح موعودؑ کی بعثت کا زمانہ
اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کا عین اسوقت میں ظہور

 دانیال نبی کی کتاب میں مسیح موعود کے ظہور کا زمانہ وہی لکھا ہے جس میں خدا نے مجھے مبعوث فرمایا ہے اور لکھا ہے کہ اس وقت بہت لوگ پاک کئے جائیں گے اور سفید کئے جائیں گے اور آزمائے جائیں گے لیکن شریر شرارت کرتے رہیں گے اور شریروں میں سے کوئی نہیں سمجھے گا پر دانشور سمجھیں گے

اور جس وقت سے دائمی قربانی موقوف کی جائے گی اور مکر وہ چیز جو خراب کرتی ہے قائم کی جائے گی 

ایک ہزار۱۲۹۰ دو سو نوے دن ہوں گے۔*

مبارک وہ جو انتظار کرتا ہے اور ایک ہزار۱۳۳۵ تین سو پینتیس روز تک آتاہے۔‘‘

 اس پیشگوئی میں مسیح موعود کی خبر ہے جو آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا۔ سو دانیال نبی نے اس کا یہ نشان دیا ہے کہ اس وقت سے جو یہود اپنی رسم قربانی سوختنی (حاشیہ الف ملاحظہ ہو، ناقل) کو چھوڑ دیں گے اوربد چلنیوں میں مبتلا ہو جائیں گے۔

 ایک ہزار دو سو نوے سال ہونگے جب مسیح موعود ظاہر ہوگا سو اِس عاجز کے ظہور کا یہی وقت تھا کیونکہ میری کتاب براہین احمدیہ صرف چند سال بعد میرے مامور اور مبعوث ہونے کے چھپ کر شائع ہوئی ہے اور یہ عجیب امر ہے اور میں اس کو خدا تعالیٰ کا ایک نشان سمجھتا ہوں کہ ٹھیک با۱۲۹۰رہ سو نوے ہجری میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ و مخاؔ طبہ پا چکا تھا۔

پھر سات سال بعد کتاب براہین احمدیہ جس میں میرا دعویٰ مسطور ہے تالیف ہو کر شائع کی گئی جیسا کہ میری کتاب براہین احمدیہ کے سرورق پر یہ شعر لکھا ہوا ہے:

 از بس کہ یہ مغفرت کا دِکھلاتی ہے راہ
 تاریخ بھی یا غفو۱۲۹۷ ر نکلی واہ واہ

سو دانیال نبی کی کتاب میں جو ظہور مسیح موعود کے لئے با۱۲۹۰رہ سو نوے برس لکھے ہیں۔ اِس کتاب براہین احمدیہ میں جس میں میری طرف سے مامور اور منجانب اللہ ہونے کا اعلان ہے صرف سات برس اِس تاریخ سے زیادہ ہیں جن کی نسبت میں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ مکالمات الٰہیہ کا سلسلہ اِن سات برس سے پہلے کا ہے یعنی با۱۲۹۰رہ سو نوے کا۔

پھر آخری زمانہ اس مسیح موعود کا دانیال ۱۳۳۵تیرہ سو پینتیس برس لکھتا ہے۔ جو خدا تعالیٰ کے اس الہام سے مشابہ ہے جو میری عمر کی نسبت بیان فرمایا ہے اور یہ پیشگوئی ظنی نہیں ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ کی پیشگوئی جو مسیح موعود کے بارہ میں انجیل میں ہے اُس کا اِس سے توارد ہو گیا ہے اور وہ بھی یہی زمانہ مسیح موعود کا قرار دیتی ہے چنانچہ اس میں مسیح موعود کے زمانہ کی یہ علامتیں لکھی ہیں کہ اُن دنوں میں طاعون پڑے گی زلزلے آئیں گے لڑائیاں ہوں گی اور چاند اور سورج کا کسوف خسوف ہوگا۔

 پس اس میں کیا شک ہے کہ جس زمانہ کے آثار انجیل ظاہر کرتی ہے اُسی زمانہ کی دانیال بھی خبر دیتا ہے اور انجیل کی پیشگوئی دانیال کی پیشگوئی کو قوت دیتی ہے کیونکہ وہ سب باتیں اس زمانہ میں وقوع میں آگئیں ہیں اور ساتھ ہی یہود و نصاریٰ کی وہ پیشگوئی جو بائیبل میں سے استنباط کی گئی ہے اس کی مؤید ہے اور وہ یہ کہ مسیح موعود آدم کی تاریخ پیدائش سےؔ چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہوگا چنانچہ قمری حساب کے رُو سے جو اصل حساب اہل کتاب کا ہے میری ولادت چھٹے ہزار کے آخر میں تھی اور چھٹے ہزار کے آخر میں مسیح موعود کا پیدا ہونا ابتدا سے ارادۂِ الٰہی میںمقرر تھا۔ کیونکہ مسیح موعود خاتم الخلفاء ہے اور آخر کو اوّل سے مناسبت چاہئے۔

اور چونکہ حضرت آدم بھی چھٹے دن کے آخر میں پیدا کئے گئے ہیں اِس لئے بلحاظ مناسبت ضروری تھا کہ آخری خلیفہ جو آخری آدم ہے وہ بھی چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو۔ وجہ یہ کہ خدا کے سات دنوں میں سے ہر ایک دن ہزار برس کے برابر ہے جیسا کہ خود وہ فرماتا ہے۔33 ۔۱؂ ا

ور احادیث صحیحہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود چھٹے ہزار میں پیدا ہوگا*۔ اِسی لئے تمام اہل کشف مسیح موعود کا زمانہ قرار دینے میں چھٹے ہزار برس سے باہر نہیں گئے اور زیادہ سے زیادہ اُس کے ظہور کا وقت چودھویں صدی ہجری لکھا ہےؤ۔

 اور اہل اسلام کے اہل کشف نے مسیح موعود کو جو آخری خلیفہ اور خاتم الخلفاء ہے صرف اِس بات میں ہی آدم سے مشابہ قرار نہیں دیا کہ آدم چھٹے دن کے آخر میں پیدا ہوا اور مسیح موعود چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہوگا بلکہ اس بات میں بھی مشابہ قرار دیا ہے کہ آدم کی طرح وہ بھی جمعہ کے دن پیدا ہوگا اور اسکی پیدائش بھی توَام کے طور پر ہوگی یعنی جیسا کہ آدم توَام کے طور پر پیدا ہوا تھا پہلے آدم اور بعد میں حوّا۔ ایسا ہی مسیح موعود بھی توَام کے طور پر پیدا ہوگا۔

سو الحمدللّٰہ والمنۃ کہ متصوفین کی اس پیشگوئی کا میں مصداق ہوں میں بھی جمعہ کے روز بوقت صبح توام پیدا ہوا تھا صرف یہ فرق ہوا کہ پہلے لڑکی پیدا ہوئی تھی جس کا نام جنت تھا۔ وہ چند روز کے بعد جنت میں چلی گئی اور بعد اس کے میں پیدا ہوا۔ اور اس پیشگوئی کو شیخ محی الدین ابن عربی نے بھی اپنی کتاب فصوص میں لکھا ہے اور لکھا ہے کہ وہ صینی الاصل ہوگا.یہ تینوں پیشگوئیاں ایک دوسری کو قوت دیتی ہیں اور بباعث تظاہر کے یقین کی حدتک پہنچ گئی ہیں جن سے کوئی عقلمند انکار نہیں کر سکتا۔


حاشیہ الف

 دن سے مراد دانیال کی کتاب میں سال ہے اور اس جگہ وہ نبی ہجری سال کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اسلامی فتح اور غلبہ کا پہلا سال ہے۔ منہ ژ حاشیہ۔ یہود اپنی کتابوں کی تعلیم کے موافق قربانی سوختنی کے پابند تھے جو ہیکل کے آگے بکرے ذبح کرکے آگ میں جلاتے تھے۔ اس میں شریعت کا راز یہ تھا کہ اسی طرح انسان کو خدا تعالیٰ کے آگے اپنے نفس کی قربانی دینی چاہئے اور نفسانی جذبات اور سر کشیوں کو ؔ جلا دینا چاہئے۔ اس قربانی کا عملدرآمد کیا ظاہری طور پر اور کیا باطنی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں یہود نے ترک کر دیا تھا اور دوسری مکروہات میں مبتلا ہو گئے تھے۔ جیسا کہ ظاہر ہے پس جب حقیقی سوختنی قربانی یہود نے ترک کر دی جس سے مراد خدا کی راہ میں اپنا نفس قربان کرنا اورجذبات نفسانیہ کو جلا دینا ہے تب خدا تعالیٰ کے قہری عذاب نے جسمانی قربانی سے بھی اُن کو محروم کر دیا۔ پس یہود کی پوری بد چلنی کا وہ زمانہ تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث فرمائے گئے۔ اسی زمانہ میں یہود کا پورا استیصال ہوا اور اسلامی قربانیاں جو حج بیت اللہ میں خانہ کعبہ کے سامنے کی جاتی ہیں یہ دراصل انہیں قربانیوں کے قائم مقام ہیں جو یہودبیت المقدس کے سامنے کرتے تھے۔ صرف فرق یہ ہے کہ اسلام میں سوختنی قربانی نہیں۔ یہود ایک سرکش قوم تھی۔ اُن کے لئے نفسانی جذبات کو جلا دینا ضروری سمجھ کر یہ نشان ظاہری قربانی میں رکھا گیا تھا۔ اسلام کے لئے اس نشان کی ضرورت نہیں صرف اپنے تئیں خدا کی راہ میں قربان کر دینا کافی ہے۔ منہ 



کتاب حقیقتہ الوحی
روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحات ۲۰۷ تا ۲۱۰



...................................................................................................................................................................


۵:دینی مسائل اور انکا حل

ارشاد مبارک حضرت مجدد اعظم و امام الزمان
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی رحمتہ اللہ علیہ  

تعویز باندھنا اور دم کرنا

سوال: تعویز باندھنا یا دم وغیرہ کرنا کیسا ہے ؟ 

حضور امامِ عالی مقامؑ نے حضرت حکیم مولوی نورالدینؒ  کی طرف مخاطب ہو کر پوچھا کہ آپ نے احادیث میں اس کے متعلق کچھ پڑھا ہے ؟ 

حضرت نورالدین ؒ نے عرض کیا کہ حضرت خالد بن ولیدؓ جب کبھی جنگوں میں جایا کرتے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک پگڑی یا ٹوپی میں رکھ لیا کرتے تھے اور آگے کی طرف لٹکا لیتے۔ 
اور جب ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سر منڈھوایا تو آدھے سر کے کٹے ہوئے بال ایک شخص کو دے دئیے اور آدھے دوسرے حصہ کے باقی اصحاب کو بانٹ دئیے ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات جبہ شریف دھو کر مریضوں کو بھی پلایا کرتے تھے اور وہ شفا یاب ہوجایا کرتے تھے۔

ایسا ہی ایک دفعہ ایک عورت نے بھی آپؐ   کا پسینہ جمع کیا :

یہ سب سن کر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا:

" ان تعویز دموں کی اصل کچھ نہ کچھ ضرور ہے جو خالی از فائدہ نہیں ۔ میرے الہام میں جو ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اس سے بھی تو معلوم ہوتا ہے کہ کچھ تو ہوگا جو بادشاہ ایسا کریں گے ۔ 
اصل بات یہ ہے کہ ان باتوں کی بنا محبت اور اخلاص پر ہے ۔
صادقوں کی نکتہ چینی کرنےوالوں کے جواب میں فرمایا  کہ بزرگوں کے صفائر پر نظر کرنے سے سلب ایمان کا اندیشہ ہے  "

الحکم ۱۷ جولائی  ۱۹۰۳ ء 
...................................................................................................................................................................


۶:پیغامِ امیر قوم
حضرت مولانا محمدعلیؒ


قرض کی لعنت 

مسلمانوں کو اس بات کا عہد کر لینا چاہیے کہ ہم آئندہ قرضہ اور خصوصاً سودی قرضہ ہر گز نہیں لیں گے 

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص کا جنازہ لایا گیا ۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ مقروض مر گیا ہے تو آپؐ   نے فرمایا کہ تم لوگ اس کا جنازہ پڑھ لو ۔ یعنی خود جنازہ پڑھنا بھی پسند نہ کیا۔ اس سے یہ ظاہر ہے کہ آپؐ   نے قرض کو کسقدر ناپسند کیا ہے۔

مقروض ہونے کی حالت آپؐ   کو اس قدر ناپسندیدہ تھی کہ اس کا جنازہ بھی خود نہ پڑھا لیکن اس وقت کتنے مسلمان ہونگے جو اس قابل ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج دنیا میں تشریف لائیں، انکا جنازہ پڑھیں؟ 

اور پھر یہ قرضہ بھی جو لیا جاتا ہے تو کوئی مجبوری کی ضروریا ت کےلئے نہیں لیا جاتا بلکہ اس کا بیشتر حصہ فضول خرچ یا رسم و رواج کی پابندیوں کےلئے لیا جاتا ہے ۔ شہروں میں دیکھو تو مسلمانوں کی حالت تباہی اور بربادی کی نظر آتی ہے اور جائدادیں ہاتھوں سے نکلی جا رہی ہیں ۔ اور اگر گاوں دیکھو تو مسلمانوں کی حالت اس سے خراب ہے ۔جو کچھ کماتے ہیں وہ سب کچھ سود میں ساہو کار کو چلا جاتاہے ۔

غرض جدھر دیکھو یہی حالت نظر آتی ہے ۔ جب تک ان میں قوت عمل پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک یہ قوم قرضہ سے باہر نہیں نکل سکتی ۔

میں احباب کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ ہر جگہ مسلمانوں کو اس بلا سے بچانے کی کوشش کریں ۔ کوئی بڑے سے بڑا خزانہ بھی مسلمانوں کو قرضہ سے باہر نہیں نکال سکتا ۔ جس شخص کا یہ خیال ہے کہ کوئی بڑا خزانہ مل جانے سے یہ حالت بدل جائے گی، یہ غلط اور خام خیال ہے ۔ خزانہ ملنے سے بھی حالت وہیں کی وہیں رہے گی ۔ کیونکہ یہ دیکھا  گیا ہے کہ جہاں بھی امدادی بنک اور سوسائٹیاں بنتی ہیں، مسلمان زیادہ سے زیادہ مقروض ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ 

اگر اس قرضہ کی لعنت سے نکلنا چاہتے ہو ، تو اسکےلئے مسلمانوں کے دل و دماغ میں یہ تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور انکے اندر یہ ذہنیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنا خرچ آمدنی کے اندر رکھیں۔ 

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مجبوریاں ہر شخص کو پیش آتی ہیں ۔ کبھی بیماریاں آجاتی ہیں، کبھی مقدمات چل جاتےہیں ۔ لیکن یہ جو مسلمانوں کو آخرت پر اس قدر ایمان لانے کی اسقدر تاکید کی گئی ہے، کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان ہر کام میں انجام کار کو سوچ لے اورجو آنے والا وقت ہے، اسکے لئے پہلے سے تیاری کرے ۔

دکھ اور تکلیف کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ   کے صحابہؓ صرف کھجور اور پانی پر گزار کر لیتے تھے۔اگر اس طرح گزر کرنا ہو تو ہر شخص کر سکتاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب مسلمانوں کی نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ تنگی کے ساتھ گزارہ کریں اور قرض کو ایک بہت بڑی لعنت سمجھیں کہ جس کے نیچے وہ دن بدن دبتے چلے جاتےہیں۔  بغیر سادہ زندگی اختیار کئے وہ کبھی اس کے نیچے سے نکل نہیں سکتے اور نہ اپنا حق دوسروں سے لے سکتے ہیں ۔ 

مسلمان کبھی بھی اس مقابلہ میں کامیاب نہ ہونگے جب تک وہ قرضہ کو ایک بدترین لعنت نہ سمجھیں گے اور یہ نہ سمجھ لیں کہ مقروض کا جنازہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےپڑھنا پسند نہیں کیا۔ 

جہاں تک ہو سکے اپنی آمدنی سے کچھ نہ کچھ بچانے کی کوشش کروتاکہ وہ تمھاری تکلیف کے وقت میں کام آئے ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پر  بھی روپیہ خرچ نہ کیا جائے۔ مثلاً پیدائش کے وقت میں یہ کفائت سوچی جائے کہ ڈاکٹر کو بلا کر کیا کرنا ہے ؟ نہیں اس قسم کی ضروریات میں روپیہ خرچ کرنے میں حرج نہیں۔ لیکن ان رسوم کو ترک کرو جو بھاجی کی ، آمین کی، بسم اللہ کی، ختنہ کی، بیاہ شادی اور موت کی رسومات ہیں۔
ان پر قرضہ اٹھانا چھوڑ دو۔ اور سودی قرض کو ایک بہت بڑی لعنت قرار دو۔ 

حدیث میں سود دینے اور لکھنے کو بھی ناجائز ٹھہرایا ہے ۔ اضطرار کی حالت الگ ہے۔ لیکن کیا یہ بھاجی اور دوسری رسوم اضطرار کی رسوم ہیں ؟ 

موت پر تو کفن کےلئے بھی نئی چادر کی ضرورت نہیں ۔ پرانی چادر دھو کر استعمال ہو سکتی ہیں ۔نئی چادروں کی زندوں کےلئے ضرورت ہے ۔ مردوں کےلئے اس کی بھی نہیں ۔  سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک گھر سے ایک آدمی چلا گیا اور پھر اس پر قرضہ اٹھا کر دسویں اور چالیسویں اور برسیاں ہوتی ہیں ۔

خود ہی اپنے آپ کو دکھوں اور تکلیفوں میں ڈالتے جاتے ہیں ۔ مسلمانوں کو اس بات کا عہد کر لینا چاہیے کہ ہم آئندہ قرضہ اور خصوصاً سودی قرضہ ہر گز نہیں لیں گے ۔ ان رسومات بدمیں اضطرار کی حالت کہاں؟ یہ تو سب اپنے ہاتھوں بلائیں خریدی ہوئی ہیں ۔ قوم اگر ان بلاوں سے نجات پاجائے اور اسکے ہاتھ مضبوط ہوجائیں تو بڑا کام دے سکتی ہے ۔ "

پیغام صلح  ۱۵ مارچ ۱۹۳۱ء
خطبات مولانا محمدعلیؒ جلد ۱۴ صفحہ ۷۸


...................................................................................................................................................................

۷: عقائد حضرت مولانا محمد علی ؒ 
انکی اپنی قلم سے 

تبدیلی عقیدہ کے ناپاک الزام پر حلف
عقیدہ کس نے بدلا ؟
قادیانی جماعت کے پیشواء ثانی اور ہمنواوں نے 
یا جماعت احمدیہ لاہور نے؟



میرا عقیدہ دربارہ نبوت مسیح موعودؑ کیاتھا؟ میں نے اسکو ابتدائے اختلاف ہی میں کھول کر بیان کردیا تھا ۔میں پہلے بھی اسی پر قائم تھا، اب بھی اسی پر قائم ہوں اور انہیں الفاظ میں پھر اپنے عقیدہ کو نقل کرتا ہوں 



"میں یہ مانتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ شرعی اصطلاح میں نبی اور رسول نہ تھے ۔یعنی نبی اس لئے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ پر غیب کے اخبار ظاہر کرتا تھا اور رسول اس لئے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مامور کر کے اصلاح کےلئے بھیجا تھا ۔

یعنی آپ ان معنوں میں نبی اور رسول تھے جن معنوں میں اس امت کے دوسرے مجدد بھی نبی اور رسول کہلا سکتے ہیں "
......................

"اس امت کے دوسرے مجددوں پر آپؒ   کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپؒ   کی آمد کے متعلق صریح پیشگوئیاں موجود ہیں ۔۔۔۔ پھر جس عظیم الشان فتنہ کی اصلاح کےلئے آپکو ؒ بھیجا گیا، دوسرے کسی مجدد کو اتنا عظیم الشان کام سپرد نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔


......................

ایسا ہی آپکوؒ کو جو علم کلام دیا گیا وہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس کو لیکر مسلمان کل مذاہب پر غالب آ سکتے ہیں ، دوسرے کسی مجدد کو ایسا علم کلام نہیں دیا گیا ۔"


......................
"میں حقیقی نبوت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم یقین کرتا ہوں ۔آپؐ    کے بعد نہ کوئی پرانا نبی واپس آئے گا نہ کوئی نیا نبی مبعوث ہوگا"

منقول از میرے عقائد، مطبوعہ ۳۳ اگست ۱۹۱۴ء



......................

"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر قسم اٹھاتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ میرے علم میں ۱۹۰۱ ء سے لیکر ۱۹۰۸ء تک حضرت مسیح موعودؑ کا یہی عقیدہ تھا کہ انکا نہ ماننے والا بھی مسلمان اور دائرہ اسلام میں ہے اور انکا منکر کافر اور دائرہ اسلام سے خارج نہیں اور میرا بھی یہی عقیدہ ۱۹۰۱ء سے لیکر آج تک بربنائے عقیدہ حضرت مسیح موعودؑ ہے "

پیغام صلح ۔لاہور۔۲۱ستمبر ۱۹۴۴



......................

"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اس بات پر حلف اٹھاتا ہوں کہ میرا عقیدہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب قادیانی مجدد اور مسیح موعودؑ ہیں مگر نبی نہیں اور نہ انکے انکار سے کوئی شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے 
اور یہی عقیدہ حضرت مرزا صاحب کا تھا



اے خدا اگر میں نے تیر نام لیکر اس قسم کے کھانے میں جھوٹ بولا ہے تو تو اپنی طرف سے ایسی عبرت ناک سزا مجھ پر بھیج جس میں انسانی ہاتھ کا کوئی دخل نہ ہو اور جس سے دنیا سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھا کرمخلوق خدا کو دھوکہ دینے والوں پر خدا تعالیٰ کی گرفت کتنی سخت اور درد ناک ہوتی ہے "

پیغام صلح ۔لاہور۔۱۱دسمبر ۱۹۴۶



......................

"ہم اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ ۱۹۰۱ ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دعوی میں تبدیلی کی"

ستر بزرگان لاہور کا حلف

......................


......................

حضرت مولانا نور الدینؒ کا عقیدہ
انکی اپنی قلم سے 

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ


دل چیر کر دیکھا یا دکھانا انسانی طاقت سے باہر ہے ۔قسم پر کوئی اعتبار کرے تو واللہ العظیم کے برابر کوئی قسم مجھے نظر نہیں آتی۔نہ آپ میرے ساتھ میری موت کے بعد ہونگے نہ کوئی اور میرے ساتھ سوائے میرے ایمان و اعمال کے ہوگا۔پس یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش ہونے والا ہے ۔
میں مرزا صاحب کو مجدد اس صدی کا یقین کرتا ہوں ۔میں انکو راستباز مانتاہوں ۔
حضرت محمد الرسول اللہ النبی العربی المکی المدنی خاتم النبیین کا غلام اور اسکی شریعت کا بدل خادم مانتا ہوں اور مرزا خود اپنے آپکو جاں نثار غلام نبی عربی محمدؐ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن مناف  کامانتے تھے 



نبی کے لغوی معنی پیش از وقت اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر خبر دینے والا ہم لوگ یقین کرتے ہیں نہ شریعت لانے والا۔



مرزا صاحب اور میں خود جو شخص ایک نقطہ بھی قرآن شریف کا اور شریعت محمدؐ رسول کا نہ مانے، میں اسے کافر اور لعنتی اعتقاد کرتا ہوں ۔



یہی میرا اعتقاد ہے اور یہی میرے نزدیک مرزا غلام احمد کا تھا ۔

کوئی رد کرے یا نہ مانے یا منافق کہے اس کا معاملہ حوالہ بخدا۔

نورالدین بقلم خود 
۲۲ اکتوبر  ۱۹۱۰ء 

......................

قادیانی جماعت کے پیشواء
مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کا سابقہ عقیدہ
خود انکی اپنی قلم سے 


"اس آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپؐ    کے بعد کوئی شخص نہیں آئے گا جس کو نبوت کے مقام پر کھڑا کیا جائے اور وہ آپؐ    کی تعلیم کو منسوخ کر دے اور نئی شریعت جاری کر دے ۔بلکہ جسقدر 

اولیاء اللہ 
ہونگے  اور متقی اور پرھیز گار لوگ ہونگے سب کو آپؐ   کی غلامی میں ہی ملے گیا جو کچھ ملے گا ۔
اس طرح خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ
 آپؐ    کی نبوت نہ صرف اس زمانہ کےلئے ہے بلکہ
آئندہ بھی کوئی نبی نہیں آئے گا"

تشحیذ الاذہان بابت اپریل ۱۹۱۰ء 


......................


قادیانی جماعت کے ھیڈ 

مولوی محمد سرور شاہ صاحب کا سابقہ عقیدہ


"لفظ نبی کے معنی اپنے مصدروں کے لحاظ سے دو ہیں ۔

اول اپنے خدا سے اخبار غیب پانے والا 
دوئم عالی مرتبہ شخص ۔جس شخص کو اللہ تعالیٰ بکثرت شرف مکالمہ سے ممتاز کرے اور غیب کی خبروں پر مطلع کرے ، وہ نبی ہے 



اس رنگ میں میرے نزدیک تمام مجددین سابق مختلف مدارج کے انبیاء گزرے ہیں "
بدر مورخہ ۱۶ فروری ۱۹۱۱ء 


......................

مفتی محمد صادق صاحب کا سابقہ عقیدہ 

اس کو عربی لغت میں نبی کہتے ہیں 



"شبلی نے دریافت کیا کہ کیاہم لوگ مرزا صاحب کونبی مانتے ہیں ؟

میں نے عرض کیا کہ ہمارا عقیدہ اس معاملہ میں دیگر مسلمانوں کی طرح ہے کہ آنحضرت صلعم خاتم النبیین ہیں ۔
آپکے بعد کوئی دوسرا نبی آنیوالانہیں ۔نہ نیا نہ پرانا ۔
ہاں مکالمات الٰہیہ کا سلسلہ برابر جاری ہے وہ بھی آنحضرت صلعم کے طفیل آپؐ    سے فیض حاصل کر کے اس امت میں ایسے آدمی ہوتے رہے جنکو الہام الٰہی سے مشرف کیا گیا اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے ۔



چونکہ حضرت مرزا صاحب بھی الہام الہی سے مشرف ہوتے رہے اور الہام الٰہی کے سلسلہ میں آپکو خدا تعالیٰ نے بہت سی آئندہ کی خبریں بطور پیشگوئی کے بتلائی تھیں جو پوری ہوتی رہیں اس واسطے مرزا صاحب ایک پیشگوئی کرنے والے تھے اور اسکو 

عربی لغت میں نبی کہتے ہیں "
بدر۔جلد نمبر ۹ ، ۵۱/۵۲



......................

۸:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں 
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)

ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام

"نبوت کا دعوی نہیں بلکہ محدثیت کا دعوٰی ہے جو خدا تعالیٰ کےحکم سے کیا گیاہے"

"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "

" یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے؟"

روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹

......................

"میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اورنبی کے میری الہام میں میری نسبت خدا تعالٰی کی طرف سے بے شک ہیں  لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں اور جیسے یہ محمول نہیں ایسا ہی نبی کر کے پکارنا  جو حدیثوں میں مسیح موعودؑ کےلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔
 یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "

سراج منیر،صفحہ ۳
......................
"سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں ۔ آنے والے مسیح موعودؑ  کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویؐ سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور معمولی محاوہ مکالمات الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا؟"
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"
......................

یہ بھی یاد رہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے"
روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209



......................

"سمیت نبیا من اللہ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ"
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر 


روحانی خزائن جلد 22 صفحہ  689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65) 
......................
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب
 انکے اپنے اشعار میں 

ما مسلمانیم از فضلِ خدا 
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا

اندریں دیں آمدہ از مادریم 

ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم

آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست

بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست

یک قدم دوری ازاں روشن کتاب

نزد ماکفر است و خسران و تباب

آں رسولے کش محمدؐ ہست نام

دامنِ پاکش بدستِ ما مدام

مہرِ اوباشیرشداندربدن

 جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن 

ہست اوخیرالرسل خیرالانام

ہر نبوت را بروشد اختتام

(کتاب سراج منیر، ضمیمہ صفحہ ز)
۹:
 ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف

اس ہفتہ کی کتاب

 ایک ضروری تجویز

بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین 
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

No comments :

Post a Comment