روزنامہ مبلغ (آنلائن)
بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت
حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
ہفتہ۔۶ ستمبر ۲۰۱۴ء
۱۰ذیقعد ۱۴۳۵ ہجری
شمارہ نمبر:24
Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com
اپ ڈیٹ
بلاگ پر نیا اضافہ
احباب جماعت احمدیہ لاہور کو یہ جان کر از حد خوشی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس بلاگ کے آڈیو ویڈیو سیکشن میں خطباتِ حضرت مولانا محمدعلیؒ کی آڈیو ریکارڈنگز کی اشاعت کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔خطبات کو باقاعدہ کیٹیگرائزڈ(categorized) کیا جارہا ہے جسکےلئے متعلقہ بلاگ پر سیلیکٹ کیٹیگری(select category) کا آپشن موجود ہے ۔علاوہ ازیں کسی خاص خطبہ کی تلاش کےلئے سرچ کا آپشن بھی موجود ہے ۔
براہ کرم آڈیو ویڈیو سیکشن کو وزٹ فرمائیں اور اس سلسلہ کو بہتر سے بہتر بنانے کےلئے ہمیں اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ فرمائیں ۔
جزاکم اللہ تعالیٰ خیرا کثیرا
۱:کلامِ الٰہی
مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا ۖ وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوتِ ۖ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ
ترجمہ:۔ ان لوگوں کی مثال جو اللہ کے سوائے دوست بناتے ہیں، مکڑ ی کی مثال کی طرح ہے ۔وہ ایک گھر بناتی ہے اور یقیناً سب گھروں سے کمزور مکڑی کا گھر ہے کاش یہ جانتے
تفسیر:
عقائد باطلہ کی کمزوری کی مثال
اس میں ایک نہایت زبردست پیشگوئی کی ہے کہ شرک آخر کار دنیا سے اٹھ جائےگا کیونکہ عنکبوت یعنی مکڑے کے جالے کی طرح ہے جو نہایت کمزور چیز ہے ۔ایک طرف مسلمانوں پر سخت مشکلات اور مصائب کا زمانہ ہے ، کفر کا زور ہے، مسلمان کفار کے سامنے کچھ حیثیت نہیں رکھتے ، دوسری طرف بتایا جاتا ہے کہ ان کے شریک جنھیں وہ اپنے مددگار سمجھتے ہیں انکی کمزوری مکڑے کے جالے کی طرح ہے جو ایک ہوا کے جھونکے کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتا ۔
اس مثال میں ایک لطیف اشارہ بھی ہے کہ مشرک بلکہ ہر ایک غلط عقیدہ کا پیرو کبھی ایک حالت پر قائم نہیں رہتا۔جسطرح مکڑی کاجالا ایک اشارہ سے ٹوٹ جاتا ہے تو پھر دوسری دفعہ اسے ایک اور ہی رنگ میں تنتی ہے، اسی طرح جب شرک پر یا کسی غلط عقیدہ پر ایک دلیل سے الزام قائم کیا جاتا ہے تو پھر اسکا پیرو دوسرا رنگ اختیار کر لیتا ہے اور ایک حالت پر اس کا قیام نہیں ہوتا۔کیونکہ اس چیزوں کی بنیاد کسی علمی دلیل پر نہیں ۔اور دوسری طرف اوپر بھی مخالفین انبیاء کے انجام کا ذکر کر کے یہ بتایا ہے کہ مخالفین اسلام کی اسلام کے خلاف ایک مکڑی کے جالے سے بڑھ کر نہیں اور یوں اسلام کی آخری کامیابی کو یقینی ٹھہرایا ہے ۔
بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ
۲:حدیثِ نبویؐ
مسلمان کو تکلیف پہنچنے کی حقیقت
حضرت ابو ھریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
کسی مسلمان کو کوئی تھکان،کوئی رنج،کوئی تکلیف اور کوئی غم نہیں پہنچتا، یہاں تک کہ ایک کانٹا بھی جو اسے چبھے، مگر اللہ اسکے ذریعہ سے اس سے گناہوں کو ڈھانک لیتا ہے
بخاری کتاب المرضی باب ماجا فی کفارہ حدیث نمبر 5641
۳:سیرت خیر البشرؐ
باب چہارم
آفتاب رسالت کے طلوع سے پہلے کا زمانہ
ظھرالفساد فی البر و البحر
(30:الروم:41)
برو بحر میں فساد ظاہر ہو گیا
نوٹ: حضرت مولانا محمد علیؒ کے اس عظیم الشان شاہکار اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ امی و ابی کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب سیرت خیرالبشر ؐ کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ
گزشتہ سے پیوستہ
یورپ اور عیسائیت کی حالت
"یورپ کی اس زمانہ کی حالت تو ناگفتہ بہ ہے۔ اس کا اکثر حصہ وحشیانہ پن کی حالت میں تھا اور عیسائیت نے صدیوں تک کسی قسم کی اخلاقی یا علمی ترقی کی طرف ان قوموں کا قدم نہ بڑھایا۔ہاں ایک رومن ایمپائر میں کچھ تہذیب کی روشنی تھی مگر وہ بھی آہستہ آہستہ زوال پذیر ہوتی چلی گئی ۔تین سو سال سے یہ سلطنت کامل طور پر عیسائیت کے اثر کے نیچے آچکی تھی مگر اخلاقی اور علمی لحاظ سے اپنے پہلے مقام سے گرتی چلی گئی ۔آزادی رائے کا حق روز بروز کم ہوتا چلا گیا اور علم صرف حضرت عیسیؑ کی الوہیت اور بشریت کے تعلقات کے جھگڑوں تک محدود ہو گیا ۔
کہلانے کو تو وہ کتابیں کہلاتی تھیں مگر انکا نہ ہونا انکے ہونے سے بہتر تھا۔ان جھگڑوں نے نہ صرف انسان کے تعلقات محبت کو برباد کیا بلکہ قوائے انسانی کو ایسی ذلیل حالت تک پہنچا دیا کہ ان میں نشوونما کی قوت بالکل دب گئی۔۔
رہبانیت نے مذہبی رہنماوں کے اندر ایسی برائیاں پیدا کر دیں کہ عام لوگوں کو بدی سے بچانے کی بجائے وہ بدی میں گرانے کے محرک ہو گئے ۔ظاہر طور پر تجرد کی حالت میں رہتے مگر اندرونی طورپر سیاہ ترین بدکاریوں کا ارتکاب کرتے ۔
ایک عیسائی نے اس حالت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے کہ کنواریاں پادریوں کے پاس اقرار گناہ کےلئے جاتیں مگر کنواریاں واپس نہ آتیں ۔۔
انسانیت کمال درجہ کی ذلت تک پہنچ چکی تھی ۔ ایک بشپ اس زمانہ کی عیسائیت کے متعلق لکھتا ہے کہ اندرونی فسادوں کے سبب سے آسمانی سلطنت پوری ابتری بلکہ عین دوزخ کا نمونہ بن رہی تھی ۔
سر ولیم میور لکھتا ہے ساتویں صدی کی عیسائیت خود گری ہوئی اور بگڑی ہوئی تھی ۔اسکو باہم لڑنے جھگڑنے والے فرقوں نے نکما کر رکھا تھا اور ابتدائی زمانہ کے پاک اور فراخ ایمان کی جگہ توہم پرستی کی بے ہودگیوں نے لے لی تھی "
جاری ہے
آفتاب رسالت کے طلوع سے پہلے کا زمانہ
ظھرالفساد فی البر و البحر
(30:الروم:41)
برو بحر میں فساد ظاہر ہو گیا
از
حضرت مولانا محمد علی
نوٹ: حضرت مولانا محمد علیؒ کے اس عظیم الشان شاہکار اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ امی و ابی کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب سیرت خیرالبشر ؐ کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ
گزشتہ سے پیوستہ
یورپ اور عیسائیت کی حالت
"یورپ کی اس زمانہ کی حالت تو ناگفتہ بہ ہے۔ اس کا اکثر حصہ وحشیانہ پن کی حالت میں تھا اور عیسائیت نے صدیوں تک کسی قسم کی اخلاقی یا علمی ترقی کی طرف ان قوموں کا قدم نہ بڑھایا۔ہاں ایک رومن ایمپائر میں کچھ تہذیب کی روشنی تھی مگر وہ بھی آہستہ آہستہ زوال پذیر ہوتی چلی گئی ۔تین سو سال سے یہ سلطنت کامل طور پر عیسائیت کے اثر کے نیچے آچکی تھی مگر اخلاقی اور علمی لحاظ سے اپنے پہلے مقام سے گرتی چلی گئی ۔آزادی رائے کا حق روز بروز کم ہوتا چلا گیا اور علم صرف حضرت عیسیؑ کی الوہیت اور بشریت کے تعلقات کے جھگڑوں تک محدود ہو گیا ۔
کہلانے کو تو وہ کتابیں کہلاتی تھیں مگر انکا نہ ہونا انکے ہونے سے بہتر تھا۔ان جھگڑوں نے نہ صرف انسان کے تعلقات محبت کو برباد کیا بلکہ قوائے انسانی کو ایسی ذلیل حالت تک پہنچا دیا کہ ان میں نشوونما کی قوت بالکل دب گئی۔۔
رہبانیت نے مذہبی رہنماوں کے اندر ایسی برائیاں پیدا کر دیں کہ عام لوگوں کو بدی سے بچانے کی بجائے وہ بدی میں گرانے کے محرک ہو گئے ۔ظاہر طور پر تجرد کی حالت میں رہتے مگر اندرونی طورپر سیاہ ترین بدکاریوں کا ارتکاب کرتے ۔
ایک عیسائی نے اس حالت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے کہ کنواریاں پادریوں کے پاس اقرار گناہ کےلئے جاتیں مگر کنواریاں واپس نہ آتیں ۔۔
انسانیت کمال درجہ کی ذلت تک پہنچ چکی تھی ۔ ایک بشپ اس زمانہ کی عیسائیت کے متعلق لکھتا ہے کہ اندرونی فسادوں کے سبب سے آسمانی سلطنت پوری ابتری بلکہ عین دوزخ کا نمونہ بن رہی تھی ۔
سر ولیم میور لکھتا ہے ساتویں صدی کی عیسائیت خود گری ہوئی اور بگڑی ہوئی تھی ۔اسکو باہم لڑنے جھگڑنے والے فرقوں نے نکما کر رکھا تھا اور ابتدائی زمانہ کے پاک اور فراخ ایمان کی جگہ توہم پرستی کی بے ہودگیوں نے لے لی تھی "
جاری ہے
کتاب سیرت خیرالبشرؐ،باب دوئم، صفحہ 19
۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ
ان دوستوں کےلئےجو سلسلہ بیعت میں داخل ہیں
نصیحت کی باتیں
عزیزاں بے خلوص و صدق نکشا یند راہے
را مصفّا قطرۂ باید کہ تا گوہر شود پیدا
اے میرے دوستو! جو میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو۔ خدا ہمیں اور تمہیں اُن باتوں کی توفیق دے جن سے وہ راضی ہوجائے۔ آج تم تھوڑے ہو اور تحقیر کی نظر سے دیکھے گئے ہو اور ایک ابتلاء کاوقت تم پر ہے اسی سُنّت اللہ کے موافق جو قدیم سے جاری ہے۔ ہر یکطرف سے کوشش ہوگی کہ تم ٹھوکرکھاؤ اور تم ہر طرح سے ستائے جاؤ گے اور طرح طرح کی باتیں تمہیں سننی پڑیں گی اور ہریکؔ جو تمہیں زبان یا ہاتھ سے دکھ دے گا وہ خیال کرے گا کہ اسلام کی حمایت کر رہا ہے۔
اور کچھ آسمانی ابتلاء بھی تم پر آئیں گے تا تم ہر طرح سے آزمائے جاؤ۔ سو تم اس وقت سُن رکھو کہ تمہارے فتح مند اور غالب ہوجانے کی یہ راہ نہیں کہ تم اپنی خشک منطق سے کام لو یا تمسخر کے مقابل پر تمسخر کی باتیں کرو۔ یا گالی کے مقابل پر گالی دو۔ کیونکہ اگر تم نے یہی راہیں اختیار کیں تو تمہارے دل سخت ہوجائیں گے اور تم میں صرف باتیں ہی باتیں ہوں گی جن سے خدا تعالیٰ نفرت کرتا ہے اور کراہت کی نظر سے دیکھتا ہے۔
سو تم ایسا نہ کرو کہ اپنے پر دو لعنتیں جمع کر لو ایک خلقت کی اور دوسری خدا کی بھی۔ یقیناًیاد رکھو کہ لوگوں کی لعنت اگر خدائے تعالیٰ کی لعنت کے ساتھ نہ ہو کچھ بھی چیز نہیں اگر خدا ہمیں نابود نہ کرنا چاہے تو ہم کسی سے نابود نہیں ہو سکتے۔ لیکن اگر وہی ہمارا دشمن ہوجائے توکوئی ہمیں پناہ نہیں دے سکتا۔
ہم کیوں کر خدائے تعالیٰ کو راضی کریں اورکیونکروہ ہمارے ساتھ ہو۔ اِس کا اُس نے مجھے بار بار یہی جواب دیا کہ تقویٰ سے۔ سو اے میرے پیارے بھائیو کوشش کرو تا متقی بن جاؤ۔ بغیر عمل کے سب باتیں ہیچؔ ہیں اور بغیر اخلاص کے کوئی عمل مقبول نہیں۔ سو تقویٰ یہی ہے کہ ان تمام نقصانوں سے بچکر خدا تعالیٰ کی طرف قدم اُٹھاؤ۔ اور پرہیزگاری کی باریک راہوں کی رعایت رکھو۔
سب سے اوّل اپنے دلوں میں انکسار اور صفائی اوراخلاص پیدا کرو اور سچ مچ دلوں کے حلیم اورسلیم اور غریب بن جاؤ کہ ہر یک خیر اور شرکا بیج پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے اگر تیرا دل شر سے خالی ہے تو تیری زبان بھی شر سے خالی ہو گی اور ایسا ہی تیری آنکھ اور تیرے سارے اعضاء۔ ہر یک نور یا اندھیرا پہلے دل میں ہی پیداہوتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ تمام بدن پر محیط ہوجاتا ہے۔
سو اپنے دلوں کو ہر دم ٹٹولتے رہو اور جیسے پان کھانے والااپنے پانوں کو پھیرتا رہتا ہے اور ردّی ٹکڑے کو کاٹتاہے اور باہر پھینکتا ہے۔ اسی طرح تم بھی اپنے دلوں کے مخفی خیالات اور مخفی عادات اور مخفی جذبات اور مخفی ملکات کو اپنی نظر کے سامنے پھیرتے رہو اور جس خیال یا عادت یا ملکہ کو ردّی پاؤ اس کو کا ٹ کر باہر پھینکو ایسا نہ ہو کہ وہ تمہارے سارے دل کو ناپاک کر دیوے اور پھر تم کاٹے جاؤ۔
( مضمون جاری ہے )
کتاب : ازالہ اوھام
۵:دینی مسائل اور انکا حل
ارشاد مبارک حضرت مجدد اعظم و امام الزمان
مرزا غلام احمد قادیانی رحمتہ اللہ علیہ
قبر میں سوال وجواب؟
"اس پر ایمان لانا چاہیے کہ قبر میں انسان سے سوال و جواب ہوتا ہے لیکن اسکی تفصیل اور کیفیت کو خدا پر چھوڑنا چاہیے۔یہ معاملہ انسان کا خدا کے ساتھ ہوتا ہے وہ جسطرح چاہتا ہے کرتا ہے ۔
پھر قبر کا لفظ وسیع ہے جب انسان مر جاتا ہے تو اسکی حالت تو اسکی حالت بعد الموت میں جہاں خدا اسکو رکھتا ہے وہ قبر ہے خواہ دریا میں غرق ہو جاوے خواہ زمین پر پڑا رہے ۔
دنیا سے انتقال کے بعد انسان قبر میں ہے اور اس سے مطالبات و مواخذات جوہوتے ہیں اسکی تفصیل کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ۔
انسان کو چاہیے کہ اس دنیا کےلئے تیار کر ے نہ کہ اسکی کیفیت معلوم کرنے کے پیچھے پڑے"
بدر ۱۴ فروری ۱۹۰۷ء
ارشاد مبارک حضرت مجدد اعظم و امام الزمان
مرزا غلام احمد قادیانی رحمتہ اللہ علیہ
قبر میں سوال وجواب؟
"اس پر ایمان لانا چاہیے کہ قبر میں انسان سے سوال و جواب ہوتا ہے لیکن اسکی تفصیل اور کیفیت کو خدا پر چھوڑنا چاہیے۔یہ معاملہ انسان کا خدا کے ساتھ ہوتا ہے وہ جسطرح چاہتا ہے کرتا ہے ۔
پھر قبر کا لفظ وسیع ہے جب انسان مر جاتا ہے تو اسکی حالت تو اسکی حالت بعد الموت میں جہاں خدا اسکو رکھتا ہے وہ قبر ہے خواہ دریا میں غرق ہو جاوے خواہ زمین پر پڑا رہے ۔
دنیا سے انتقال کے بعد انسان قبر میں ہے اور اس سے مطالبات و مواخذات جوہوتے ہیں اسکی تفصیل کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ۔
انسان کو چاہیے کہ اس دنیا کےلئے تیار کر ے نہ کہ اسکی کیفیت معلوم کرنے کے پیچھے پڑے"
بدر ۱۴ فروری ۱۹۰۷ء
۶:پیغامِ امیر قومؒ
حضرت مولانا محمد علیؒ
ہم میں سے ہر ایک کو مبلغ ہونا چاہیے"تبلیغ اس کا نام نہیں کہ ہم لوگوں کو صرف لٹریچر دیں۔ بلکہ تبلیغ یہ ہے کہ ان سے بار بار ملیں اور ان سے تعلق پیدا کریں ۔آج کچھ اس قسم کا زمانہ ہے کہ لوگوں کا خود بخود دین کی طرف توجہ کرنا بہت مشکل ہے ۔جماعت کی طرف اس کام کےلئے حرکت پیدا کریں ۔دو چیزیں مرکز میں موجود ہیں ۔ایک ہمارے مبلغین کا گروہ اور دوسرے دفاتر اور سکول کا گروہ۔مبلغین کا تو یہ کام ہی ہے اور دوسرے بھی یہ کام کر سکتے ہیں ۔
دونوں سکولوں کے اساتذہ سینکڑوں لوگوں کو جماعت میں لانے کا باعث ہو سکتے ہیں ۔ جن والدین کے بچے انکے ہاں تعلیم پاتے ہیں، انکا فرض ہے کہ وہ ان سے تعلقات محبت پیدا کریں اور انکو بتائیں کہ ہم کیا کام کر رہے ہیں ؟
اگر لوگوں کے ساتھ ہمارے تعلقات ہو ں تو میں نہیں سمجھتا کہ ہم انکو اپنے جلسہ میں نہ لے آئیں۔ سب سے بڑھ کر ذمہ داری مبلغین پر ہے ۔ میں بھی اپنے آپ کو مبلغین میں شامل کرتا ہوں اور باقی ہمارے کارکن بھی درحقیقت مبلغ ہیں۔لیکن جہاں مبلغین اور کارکنان دفاتر کا یہ کام ہے ، وہاں جماعت کے ہر ایک فرد کا بھی کام ہے ۔ہر ایک احمدی کا فرض ہے کہ وہ اپنے وقت کا کچھ حصہ توسیع جماعت کےلئے دے۔ناواقف لوگوں تک اپنا لٹریچر پہنچائے۔ان سے بار بار ملے ۔
حضرت مسیح موعودؑ کےزمانہ میں کوئی مبلغ نہ تھا، نہ کوئی دفتر تھا۔لیکن جہاں کوئی آدمی تھا وہ اپنی ذات میں مبلغ تھا۔اورا پنی ذات میں دفترتھا۔ جب تک یہ حالت نہ آئے گی، اسوقت تک کامیابی نہ ہوگی۔ہمارے اندر وہ جوشِ اسلام ہو جو اس زمانہ میں تھا تو جماعت دنوں میں ترقی کر سکتی ہے اور اسکی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو سکتا ہے
میں دیکھتاہوں کہ جماعتوں سے ملاقات ہوتی ہے تو ایک جماعت کہتی ہے کہ ایک مبلغ ہماری جماعت میں ہونا چاہیے اور دوسری کہتی ہے کہ ایک مبلغ ہمارے اندر بھیجا جائے۔یعنی ہر ایک جماعت مبلغ کی محتاج نظر آتی ہے حالانکہ ہم میں سے ہر ایک کو مبلغ ہونا چاہیے۔اگر ہم آج سے سب ملکر تبلیغ شروع کر دیں، تو اس سال اگر دو سو یا تین سو آدمی شامل ہوئے ہوں تو آئندہ سال ہم ایک ہزار لوگ اپنے اندر جذب کر سکتے ہیں اور اپنی جماعت کو مظبوط کر سکتے ہیں
اس وقت میں توجہ دلاتا ہوں اس عظیم الشان کام کی طرف، جسکا میں نے ابھی ذکر کیا ہے ۔ابھی سے ہمیں کوشش کرنا چاہیے۔سال کے بعد جو ہمارا سالانہ اجتماع ہو، اسکےلئے ابھی سے لوگوں کو تیار کرنا چاہیے تاکہ وہ اس جماعت میں شامل ہوں اور اعلاءکلمتہ اللہ کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیں ۔
میں یہ نہیں کہتا کہ اپنے کاروبار کو چھوڑ دو۔بلکہ زائد وقت کو بجائے ضائع کرنے کے اس کام پرلگا دو ، تاکہ ہم اپنی جماعت کو پھیلا سکیں۔جس قدر یہ جماعت ترقی کرے گی، اسی نسبت سے یہ کام ترقی کرے گا، جس کا ذمہ آپ لوگوں نے اٹھایا ہے ۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں وہ سکینت عطا فرمائےجس سے لوگ بڑے بڑے مصائب کو برداشت کر سکتے ہیں ۔سب سے بڑی قربانی وقت کی قربانی ہے جس سے ہم بنی نوع انسان کی بہتری اور بہبودی کےلئے کوشش کر سکتے ہیں اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپکو بھی اس کی توفیق دے ۔ "
پیغامِ صلح ، ۲۱ جنوری ۱۹۴۱ ء
خطبات مولانا محمد علیؒ
خطبات مولانا محمد علیؒ
جلد ۱۶، اقباس از صفحہ۵، ۶
۷:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)
ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام
"نبوت کا دعوی نہیں بلکہ محدثیت کا دعوٰی ہے جو خدا تعالیٰ کےحکم سے کیا گیاہے"
"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "
" یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے؟"
روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹
"میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اورنبی کے میری الہام میں میری نسبت خدا تعالٰی کی طرف سے بے شک ہیں لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں اور جیسے یہ محمول نہیں ایسا ہی نبی کر کے پکارنا جو حدیثوں میں مسیح موعودؑ کےلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔ یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "
سراج منیر،صفحہ ۳
"سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں ۔ آنے والے مسیح موعودؑ کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویؐ سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور معمولی محاوہ مکالمات الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا؟"
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"
یہ بھی یاد رہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے"
روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209
"سمیت نبیا من اللہ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ"
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب
انکے اپنے اشعار میں
ما مسلمانیم از فضلِ خدا
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا
اندریں دیں آمدہ از مادریم
ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم
آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست
بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست
یک قدم دوری ازاں روشن کتاب
نزد ماکفر است و خسران و تباب
آں رسولے کش محمدؐ ہست نام
دامنِ پاکش بدستِ ما مدام
مہرِ اوباشیرشداندربدن
جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن
ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)
ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام
"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "
" یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے؟"
روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹
"میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اورنبی کے میری الہام میں میری نسبت خدا تعالٰی کی طرف سے بے شک ہیں لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں اور جیسے یہ محمول نہیں ایسا ہی نبی کر کے پکارنا جو حدیثوں میں مسیح موعودؑ کےلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔ یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "
سراج منیر،صفحہ ۳
"سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں ۔ آنے والے مسیح موعودؑ کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویؐ سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور معمولی محاوہ مکالمات الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا؟"
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"
یہ بھی یاد رہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے"
روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209
"سمیت نبیا من اللہ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ"
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر
روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65)
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب
انکے اپنے اشعار میں
ما مسلمانیم از فضلِ خدا
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا
اندریں دیں آمدہ از مادریم
ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم
آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست
بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست
یک قدم دوری ازاں روشن کتاب
نزد ماکفر است و خسران و تباب
آں رسولے کش محمدؐ ہست نام
دامنِ پاکش بدستِ ما مدام
مہرِ اوباشیرشداندربدن
جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن
ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام
(کتاب سراج منیر، ضمیمہ صفحہ ز)
۸:
ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف
۸:
ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف
ایک ضروری تجویز
بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ مزید جن احباب تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
No comments :
Post a Comment