Wednesday, September 17, 2014

بدھ 17 ستمبر 2014، شمارہ: 33 دعوی مجددیت


حضرت مولانا محمد علی ؒ کے خطبات کی تازہ ریکارڈنگز


لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِ

روزنامہ مبلغ (آنلائن)


روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان



بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت

 حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ

احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

بدھ۔۱۷ستمبر ۲۰۱۴ء

۲۰ذیقعد ۱۴۳۵ ہجری


شمارہ نمبر:33

Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com


    خوشخبری
اپ ڈیٹ

اس ہفتہ کی کتاب 
ضرورت مجدد 
از حضرت مولانا محمد علیؒ 
سب سے آخری سیکشن میں ملاحظہ فرمائیں 





۱:کلامِ الٰہی 

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَٰذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ

حم السجدہ: 26

ترجمہ:۔ اور جو کافر ہیں وہ کہتے ہیں اس قرآن کو مت سنو، اور اس میں شور ڈالو شائد تم غالب آجاو
تفسیر
قرآن کریم کے اثر کو باطل کرنے کی تدابیر

لغا آواز کو کہتے ہیں اور الغوا فیہ کے معنی یہاں کئے ہیں الغطوا فیہ 
یعنی اس میں شور ڈالو اور باتیں کرنے لگ جاو
 اور حدیث میں ہے 
من قال یوم الجمعہ والامام یخطب لصاحبہ صہ فقد لغا
یعنی جس نے جمعہ کے دن، جب امام خطبہ پڑھ رہا ہواپنے ساتھ کو کہا چپ، اس نے بھی بات کی۔ اور اس کے معنی یہ بھی کئے گئے کہ وہ صحیح راہ سے ہٹ گیا۔

قرآن کریم کا اثر چونکہ قلوب پر بہت ہوتا تھا۔ ابھی عتبہ جیسے دشمن کا ذکر ہوچکا ۔حضرت ابوبکرؓ کا  واقعہ بھی اسی طرح کا ہے کہ آپ اپنے گھر کے صحن میں بلند آواز سے قرآن شریف پڑھتے تھے تو کفار نے یہ کہہ کر روک دیا کہ ہماری عورتوں اور بچوں پر اس کا اثر ہوتا ہے۔ اس لئے ان لوگوں نے یہ علاج سوچا کہ جب بلند آواز سے قرآن شریف پڑھا جائے تو دوسرے لوگ شور ڈالنے لگیں یا سیٹیاں اور تالیاں بجانے لگیں ۔ یا اور بے ہودہ باتوں میں لگ جائیں جن کی غرض شور پیدا کرنا تھا تاکہ کوئی شخص قرآن کو نہ سن سکے ۔ اسے وہ اپنے غلبہ کا ذریعہ سمجھتے تھے۔


بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ

...................................................................................................................................................................

۲:حدیثِ نبویؐ

راز کی باتیں 

انس سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 تم میں سے کوئی جب نماز پڑھے تو وہ اپنے رب سے راز کی باتیں کرتا ہے 


مختصر نوٹ:

نجاء اور مناجا علیحدگی میں کسی سے باتیں کرنا ہے اور اسکا اصل نجوہ یعنی بلند زمین پر کسی سے خلوت ہے ۔تو نماز میں انسان گویا اپنے دل کے راز کھول کر اپنے مولیٰ  کے سامنے رکھ دیتا ہے اور اپنی ہر مشکل کو بارگاہ الٰہی میں پیش کرتا ہے کہ حقیقی مشکل کشا وہی ہے 

بخاری (۸:۹)

کتاب: احادیث العمل صفحہ ۱۳۸
ترجمہ و نوٹ از حضرت مولانا محمدعلیؒ 


...................................................................................................................................................................


۳:سیرت خیر البشرؐ
 باب چہارم
آفتاب رسالت کے طلوع سے پہلے کا زمانہ 
ظھرالفساد فی البر و البحر
(30:الروم:41)
برو بحر میں فساد ظاہر ہو گیا
از
 حضرت مولانا محمد علی 

نوٹ:  حضرت مولانا محمد علیؒ  کے اس عظیم الشان شاہکار اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ امی و ابی کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب سیرت خیرالبشر ؐ کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ

گزشتہ سے پیوستہ

عرب اور تمدن

"اگر مذہب میں اہل عرب کی یہ حالت تھی اور نہایت ذلیل بت پرستی نے انکو انسانیت کے مرتبہ سے گرا رکھا تھا تو باقی امور میں بھی ان کی حالت جاہلیت کے مرتبہ سے اوپر نہ تھی ۔ تہذیب کا سب سے نمایاں اثر تمدن پر پڑتا ہے لیکن غور کیا جائے تو تمدن کے وہ ابتدائی اصولوں تک سے ناواقف تھے اور تمدن ان میں کیونکر پیدا ہو سکتا جہاں شب و روز ایک دوسرے سے برسر پیکار رہتے تھے اور ایک لمحہ کےلئے بھی یہ اطمینان نہ تھا کہ فلاں قوم سے فلاں وقت جنگ نہ چھڑ جائے گی۔

اول تو عرب کے اکثر لوگ بدوی تھے جو خانہ بدوشی کی حالت میں رہتے ۔جہاں مویشیوں کےلئے سبزی اور چارہ دیکھا وہیں اونٹ کے چمڑے کا خیمہ لگایااور کچھ دن بسر کر لئے ۔وہاں سے چارہ ختم ہوا دوسری جگہ پر ڈیرہ لگایا ۔بہت تھوڑے لوگ دیہات کی صورت میں اور اس سے بھی تھوڑےشہروں میں آباد تھے ۔

ایسی آبادی کے اندر تمدن کسطرح پیدا ہوتا ۔پھر یہ نقص تھا کہ اتفاق کا نام تک نہیں ۔ سارے ملک میں ایک حکومت تو ایک طرف رہی، صوبوں کے اندر بھی جو حکومتیں تھیں وہاں بھی کوئی انتظام حق رسی کا نہ تھا ۔اپنا حق دوسروں سے لینے کےلئے صرف انکی قوت بازو کام آتی تھی ۔ہر ایک قوم یا قبیلہ کا الگ سردار تھا جو ان کو وقت پر کسی دوسری قوم یا قبیلہ سے حق لینے کےلئے لڑائی کےلئے لے جاتا۔ 

قوم میں افراد اور ملک میں قومیں عموماً کسی قانون کے جوئے کے نیچے اپنی گردن کو نہ سمجھتی تھیں ۔ایک متعصب عیسائی آنحضرت صلعم کی زندگی کے واقعات لکھتا ہوا صاف الفاظ میں اس کا اعتراف کرتا ہے 

"سب سے پہلی خصوصیت جو ہماری توجہ کو کھینچتی ہے وہ عربوں کے بے شمار جتھوں میں تقسیم ہونا ہے جو ایک ہی زبان کے بولنے والے اپنے حالات و اطوار میں قریباً یکساں ہیں مگر ہر ایک بجائے خودمختار ہے ۔کبھی اپنی  حالت پر قانع نہیں اور اکثر ایک دوسرے کے ساتھ جنگ میں مشغول ہیں ۔ بلکہ جہاں رشتہ داری کی وجہ سے یا کسی فائدہ کی غرض سے ایک قوم کے دوسری قوم کے ساتھ تعلقات بھی پیدا ہوئے ہیں وہاں بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تعلقات کے قطع کرنے  اور جنگ کرنے کےلئے ہر وقت تیار بیٹھے ہیں ۔یہی حالت اسلام کے زمانہ تک چلی آئی ہے کہ کبھی کوئی سی دو قوموں میں اتفاق ہوا بھی ہے تو چند دنوں میں وہ خطرناک جنگ میں مبتلا ہو گئی ہیں اور تما کوششیں جو اسلام سے پہلے انکے ایک کرنے کےلئے کی گئیں وہ بے سود اور ناکام ثابت ہوئیں   "
" 

جاری ہے

کتاب سیرت خیرالبشرؐ،باب دوئم، صفحہ23



...................................................................................................................................................................


۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ 



آسمانی گواہی 

 خدا تعالیٰ کے آسمانی نشان ہماری شہادت کے لئے کسی قدر ہیں لیکن افسوس کہ اگر وہ سب کے سب لکھے جائیں تو ہزار جزو کی کتاب میں بھی ان کی گنجائش نہیں ہو سکتی اس لئے ہم محض بطور نمونہ کے ایک سو چالیس نشان اُن میں سے لکھتے ہیں۔ اُن میں سے بعض وہ پہلے نبیوں کی پیشگوئیاں ہیں جو میرے حق میں پوری ہوئیں۔ اور بعض اس اُمت کے اکابر کی پیشگوئیاں ہیں اور بعض وہ نشان خدؔ ا تعالیٰ کے ہیں جو میرے ہاتھ پر ظہور ہیں آئے اور چونکہ میری پیشگوئیوں پر اُن پیشگوئیوں کو تقدّم زمانی ہے اِس لئے مناسب سمجھا گیا کہ تحریری طور پر بھی اُنہیں کو مقدم رکھا جائے اور یہ تمام پیشگوئیاں ایک ہی سلسلہ میں نمبروار لکھی جائیں گی۔ اور وہ یہ ہیں۔
۱ ۔ پہلا نشان۔

قال رسُول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم انّ اللّٰہ یبعث لھٰذہ الامۃ علٰی رأس کُلّ ماءۃ سنۃ من یجدّ د لھا دینھا۔ رواہ ابو دا ؤد

 یعنی خدا ہر ایک صدی کے سر پر اِس اُمّت کے لئے ایک شخص مبعوث فرمائے گا جو اُس کے لئے دین کو تازہ کرے گا

 اور اب اِس صدی کا چوبیسواں سال جاتا ہے اورممکن نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ میں تخلّف ہو۔ اگر کوئی کہے کہ اگر یہ حدیث صحیح ہے تو بارہ صدیوں کے مجددوں کے نام بتلاویں۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث علماء اُمت میں مسلّم چلی آئی ہے اب اگر میرے دعوے کے وقت اس حدیث کو وضعی بھی قرار دیا جائے تو ان مولوی صاحبوں سے یہ بھی سچ ہے بعض اکابر محدثین نے اپنے اپنے زمانہ میں خود مجدد ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ بعض نے کسی دوسرے کے مجدد بنانے کی کوشش کی ہے۔

پس اگر یہ حدیث صحیح نہیں تو انہوں نے دیانت سے کام نہیں لیا اور ہمارے لئے یہ ضروری نہیں کہ تمام مجددین کے نام ہمیں یاد ہوں یہ علم محیط تو خاصہ خدا تعالیٰ کا ہے ہمیں عالم الغیب ہونے کا دعویٰ نہیں مگر اُسی قدر جو خدا بتلاوے

 ماسوا اسکے یہ اُمت ایک بڑے حصہ دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور خدا کی مصلحت کبھی کسی ملک میں مجدّد پیدا کرتی ہے اور کبھی کسی ملک میں پس خدا کے کاموں کا کون پورا علم رکھ سکتا ہے اور کون اُس کے غیب پرا حاطہ کر سکتا ہے۔

بھلا یہ تو بتلاؤ کہ حضرت آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر ایک قوم میں نبی کتنے گذرے ہیں۔ اگر تم یہ بتلا دو گے تو ہم مجدّد بھی بتلا دیں گے۔ ظاہر ہے کہ عدم علم سے عدم شئے لازم نہیں آتا

اور یہ بھی اہل سنت میں متفق علیہ امر ہے کہ آخری مجدد اِس اُمت کا مسیح موعود ہے جو آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا۔

 اب تنقیح طلب یہ امر ہے کہ یہ آخری زمانہ ہے یا نہیں یہود و نصاریٰ دونوں قومیں اس پر اتفاق رکھتی ہیں کہ یہ آخری زمانہ ہے اگر چاہو تو پوچھ کر دیکھ لو۔ مَری پڑ رہی ہے زلزلے آرہے ہیں۔ ہر اؔ یک قسم کی خارق عادت تباہیاں شروع ہیں پھر کیا یہ آخری زمانہ نہیں؟ اور صلحاء اسلام نے بھی اس زمانہ کو آخری زمانہ قرار دیا ہے اور چودھویں صدی میں سے بھی تئیس ۳۲ سال گذر گئے ہیں۔

پس یہ قوی دلیل اِس بات پر ہے کہ یہی وقت مسیح موعود کے ظہور کا وقت ہے اور مَیں  ہی وہ ایک شخص ہوں جس نے اِس صدی کے شروع ہونے سے پہلے دعویٰ کیا۔ اور مَیں ہی وہ ایک شخص ہوں جس کے دعوے پر پچیس ۵۲ برس گذر گئے اور اب تک زندہ موجود ہوں اور مَیں ہی وہ ایک ہوں جس نے عیسائیوں اور دوسری قوموں کو خدا کے نشانوں کے ساتھ ملزم کیا۔

پس جب تک میرے اِس دعوے کے مقابل پر انہیں صفات کے ساتھ کوئی دوسرا مدعی پیش نہ کیا جائے تب تک میرا یہ دعویٰ ثابت ہے کہ وہ مسیح موعود جو آخری زمانہ کا مجدّد ہے وہ میں ہی ہوں۔ 

زمانہ میں خدا نے نوبتیں رکھی ہیں ایک وہ وقت تھا کہ خدا کے سچے مسیح کو صلیب نے توڑا اور اس کو زخمی کیاتھا اور آخری زمانہ میں یہ مقدر تھا کہ مسیح صلیب کو توڑے گا یعنی آسمانی نشانوں سے کفارہ کے عقیدہ کو دُنیا سے اُٹھا وے گا۔ عوض معاوضہ گلہ ندارد۔ 

کتاب حقیقتہ الوحی
روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحات ۲۰۰ تا ۲۰۲



...................................................................................................................................................................


۵:دینی مسائل اور انکا حل

ارشاد مبارک حضرت مجدد اعظم و امام الزمان
مرزا غلام احمد قادیانی رحمتہ اللہ علیہ  

سجدہ لغیر اللہ


"ظہر کے وقت حضرت مسیح موعودؑ تشریف لائے تو آپکے ایک خادم آمدہ از کشمیر  نے سر بسجود ہو کر خدا تعالیٰ کے کلام اسجدو ا لآدم کو اسکے ظاہر الفاظ پر پورا کرنا چاہا اور نہایت گریہ و زاری سے اظہار محبت کیا مگر حضرت مسیح موعودؑ نے اس حرکت سے منع کیا اور کہا کہ 
یہ مشرکانہ باتیں ہیں۔ ان سے پرھیز کرنا چاہیے  "

الحکم ۸ فروری ۱۹۰۵ ء
...................................................................................................................................................................


۶:پیغامِ امیر قومؒ
حضرت مولانا محمد علیؒ

تبدیلی عقیدہ کے ناپاک الزام پر حلف

میرا عقیدہ دربارہ نبوت مسیح موعودؑ کیاتھا؟ میں نے اسکو ابتدائے اختلاف ہی میں کھول کر بیان کردیا تھا ۔میں پہلے بھی اسی پر قائم تھا، اب بھی اسی پر قائم ہوں اور انہیں الفاظ میں پھر اپنے عقیدہ کو نقل کرتا ہوں 


"میں یہ مانتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ شرعی اصطلاح میں نبی اور رسول نہ تھے ۔یعنی نبی اس لئے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ پر غیب کے اخبار ظاہر کرتا تھا اور رسول اس لئے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مامور کر کے اصلاح کےلئے بھیجا تھا ۔
یعنی آپ ان معنوں میں نبی اور رسول تھے جن معنوں میں اس امت کے دوسرے مجدد بھی نبی اور رسول کہلا سکتے ہیں "
......................

"اس امت کے دوسرے مجددوں پر آپؒ   کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپؒ   کی آمد کے متعلق صریح پیشگوئیاں موجود ہیں ۔۔۔۔ پھر جس عظیم الشان فتنہ کی اصلاح کےلئے آپکو ؒ بھیجا گیا، دوسرے کسی مجدد کو اتنا عظیم الشان کام سپرد نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔


......................

ایسا ہی آپکوؒ کو جو علم کلام دیا گیا وہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس کو لیکر مسلمان کل مذاہب پر غالب آ سکتے ہیں ، دوسرے کسی مجدد کو ایسا علم کلام نہیں دیا گیا ۔"


......................
"میں حقیقی نبوت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم یقین کرتا ہوں ۔آپؐ    کے بعد نہ کوئی پرانا نبی واپس آئے گا نہ کوئی نیا نبی مبعوث ہوگا"

منقول از میرے عقائد، مطبوعہ ۳۳ اگست ۱۹۱۴ء



......................

"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر قسم اٹھاتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ میرے علم میں ۱۹۰۱ ء سے لیکر ۱۹۰۸ء تک حضرت مسیح موعودؑ کا یہی عقیدہ تھا کہ انکا نہ ماننے والا بھی مسلمان اور دائرہ اسلام میں ہے اور انکا منکر کافر اور دائرہ اسلام سے خارج نہیں اور میرا بھی یہی عقیدہ ۱۹۰۱ء سے لیکر آج تک بربنائے عقیدہ حضرت مسیح موعودؑ ہے "

پیغام صلح ۔لاہور۔۲۱ستمبر ۱۹۴۴



......................

"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اس بات پر حلف اٹھاتا ہوں کہ میرا عقیدہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب قادیانی مجدد اور مسیح موعودؑ ہیں مگر نبی نہیں اور نہ انکے انکار سے کوئی شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے 
اور یہی عقیدہ حضرت مرزا صاحب کا تھا

اے خدا اگر میں نے تیر نام لیکر اس قسم کے کھانے میں جھوٹ بولا ہے تو تو اپنی طرف سے ایسی عبرت ناک سزا مجھ پر بھیج جس میں انسانی ہاتھ کا کوئی دخل نہ ہو اور جس سے دنیا سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھا کرمخلوق خدا کو دھوکہ دینے والوں پر خدا تعالیٰ کی گرفت کتنی سخت اور درد ناک ہوتی ہے "


پیغام صلح ۔لاہور۔۱۱دسمبر ۱۹۴۶



......................

"ہم اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ ۱۹۰۱ ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دعوی میں تبدیلی کی"

ستر بزرگان لاہور کا حلف

......................


......................

حضرت مولانا نور الدینؒ کا عقیدہ
انکی اپنی قلم سے 

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
دل چیر کر دیکھا یا دکھانا انسانی طاقت سے باہر ہے ۔قسم پر کوئی اعتبار کرے تو واللہ العظیم کے برابر کوئی قسم مجھے نظر نہیں آتی۔نہ آپ میرے ساتھ میری موت کے بعد ہونگے نہ کوئی اور میرے ساتھ سوائے میرے ایمان و اعمال کے ہوگا۔پس یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش ہونے والا ہے ۔
میں مرزا صاحب کو مجدد اس صدی کا یقین کرتا ہوں ۔میں انکو راستباز مانتاہوں ۔
حضرت محمد الرسول اللہ النبی العربی المکی المدنی خاتم النبیین کا غلام اور اسکی شریعت کا بدل خادم مانتا ہوں اور مرزا خود اپنے آپکو جاں نثار غلام نبی عربی محمدؐ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن مناف  کامانتے تھے 

نبی کے لغوی معنی پیش از وقت اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر خبر دینے والا ہم لوگ یقین کرتے ہیں نہ شریعت لانے والا۔

مرزا صاحب اور میں خود جو شخص ایک نقطہ بھی قرآن شریف کا اور شریعت محمدؐ رسول کا نہ مانے، میں اسے کافر اور لعنتی اعتقاد کرتا ہوں ۔

یہی میرا اعتقاد ہے اور یہی میرے نزدیک مرزا غلام احمد کا تھا ۔
کوئی رد کرے یا نہ مانے یا منافق کہے اس کا معاملہ حوالہ بخدا۔

نورالدین بقلم خود 
۲۲ اکتوبر  ۱۹۱۰ء 

......................

قادیانی جماعت کے پیشواء
مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کا سابقہ عقیدہ
خود انکی اپنی قلم سے 

"اس آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپؐ    کے بعد کوئی شخص نہیں آئے گا جس کو نبوت کے مقام پر کھڑا کیا جائے اور وہ آپؐ    کی تعلیم کو منسوخ کر دے اور نئی شریعت جاری کر دے ۔بلکہ جسقدر 
اولیاء اللہ 
ہونگے  اور متقی اور پرھیز گار لوگ ہونگے سب کو آپؐ   کی غلامی میں ہی ملے گیا جو کچھ ملے گا ۔
اس طرح خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ
 آپؐ    کی نبوت نہ صرف اس زمانہ کےلئے ہے بلکہ
آئندہ بھی کوئی نبی نہیں آئے گا"

تشحیذ الاذہان بابت اپریل ۱۹۱۰ء 


......................

قادیانی جماعت کے ھیڈ 
مولوی محمد سرور شاہ صاحب کا سابقہ عقیدہ

"لفظ نبی کے معنی اپنے مصدروں کے لحاظ سے دو ہیں ۔
اول اپنے خدا سے اخبار غیب پانے والا 
دوئم عالی مرتبہ شخص ۔جس شخص کو اللہ تعالیٰ بکثرت شرف مکالمہ سے ممتاز کرے اور غیب کی خبروں پر مطلع کرے ، وہ نبی ہے 

اس رنگ میں میرے نزدیک تمام مجددین سابق مختلف مدارج کے انبیاء گزرے ہیں "
بدر مورخہ ۱۶ فروری ۱۹۱۱ء 


......................

مفتی محمد صادق صاحب کا سابقہ عقیدہ 

اس کو عربی لغت میں نبی کہتے ہیں 

"شبلی نے دریافت کیا کہ کیاہم لوگ مرزا صاحب کونبی مانتے ہیں ؟
میں نے عرض کیا کہ ہمارا عقیدہ اس معاملہ میں دیگر مسلمانوں کی طرح ہے کہ آنحضرت صلعم خاتم النبیین ہیں ۔
آپکے بعد کوئی دوسرا نبی آنیوالانہیں ۔نہ نیا نہ پرانا ۔
ہاں مکالمات الٰہیہ کا سلسلہ برابر جاری ہے وہ بھی آنحضرت صلعم کے طفیل آپؐ    سے فیض حاصل کر کے اس امت میں ایسے آدمی ہوتے رہے جنکو الہام الٰہی سے مشرف کیا گیا اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے ۔

چونکہ حضرت مرزا صاحب بھی الہام الہی سے مشرف ہوتے رہے اور الہام الٰہی کے سلسلہ میں آپکو خدا تعالیٰ نے بہت سی آئندہ کی خبریں بطور پیشگوئی کے بتلائی تھیں جو پوری ہوتی رہیں اس واسطے مرزا صاحب ایک پیشگوئی کرنے والے تھے اور اسکو 

عربی لغت میں نبی کہتے ہیں "
بدر۔جلد نمبر ۹ ، ۵۱/۵۲



......................

۷:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں 
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)

ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام

"نبوت کا دعوی نہیں بلکہ محدثیت کا دعوٰی ہے جو خدا تعالیٰ کےحکم سے کیا گیاہے"

"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "

" یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے؟"

روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹

......................

"میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اورنبی کے میری الہام میں میری نسبت خدا تعالٰی کی طرف سے بے شک ہیں  لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں اور جیسے یہ محمول نہیں ایسا ہی نبی کر کے پکارنا  جو حدیثوں میں مسیح موعودؑ کےلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔
 یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "

سراج منیر،صفحہ ۳
......................
"سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں ۔ آنے والے مسیح موعودؑ  کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویؐ سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور معمولی محاوہ مکالمات الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا؟"
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"
......................

یہ بھی یاد رہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے"
روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209



......................

"سمیت نبیا من اللہ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ"
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر 


روحانی خزائن جلد 22 صفحہ  689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65) 
......................
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب
 انکے اپنے اشعار میں 

ما مسلمانیم از فضلِ خدا 
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا

اندریں دیں آمدہ از مادریم 

ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم

آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست

بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست

یک قدم دوری ازاں روشن کتاب

نزد ماکفر است و خسران و تباب

آں رسولے کش محمدؐ ہست نام

دامنِ پاکش بدستِ ما مدام

مہرِ اوباشیرشداندربدن

 جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن 

ہست اوخیرالرسل خیرالانام

ہر نبوت را بروشد اختتام

(کتاب سراج منیر، ضمیمہ صفحہ ز)
۸:
 ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف

اس ہفتہ کی کتاب

 ایک ضروری تجویز

بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین 
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

No comments :

Post a Comment