روزنامہ مبلغ (آنلائن)
بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت
حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
منگل ،بدھ ۔۲۳ و ۲۴ ستمبر ۲۰۱۴ء
۲۷، ۲۸ ذیقعد ۱۴۳۵ ہجری
شمارہ نمبر:37
Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com
اپ ڈیٹس
حضرت مولانا محمدعلیؒ کی عظیم شاہکار کتاب
تاریخ خلافت راشدہ
کو باب وار ترتیب کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے
اس ہفتہ کی کتاب
ضرورت مجدد
از حضرت مولانا محمد علیؒ
سب سے آخری سیکشن میں ملاحظہ فرمائیں
۱:کلامِ الٰہی
يَسْأَلْكُمْ أَمْوَالَكُمْ
إِنْ يَسْأَلْكُمُوهَا فَيُحْفِكُمْ تَبْخَلُوا وَيُخْرِجْ أَضْغَانَكُمْ
ترجمہ:۔دنیا کی زندگی صرف کھیل اور بے حقیقت چیز ہے اور اگر تم ایمان لاو اور تقویٰ اختیار کرو تو وہ تمھارے اجر تمھیں دے گا اور تمھارے مال تم سے نہیں مانگےگا ۔ اگر وہ ان (اموال) کو تم سے مانگے اور تم سے الحاح کرے تو تم بخل کرو اور وہ (بخل) تمھارے کینوں کو باہر نکال دے
تفسیر
پہلی آیت میں ہے کہ اگر تم ایمان لاو تو وہ تمھیں اجر دے گا اور تمھارے مال ستم سے نہیں مانگے گا اور دوسری میں ہے کہ اگر وہ تم سے مانگے تو تم بخل کرو ۔
پس پہلی آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر تمھیں کچھ ایمان ہو تو تمھیں معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ تم سے تمھارے مال نہیں مانگتا بلکہ وہ تمھیں کچھ اجر دینا چاہتا ہے ۔لیکن اجر بغیر انسان کی محنت اور قربانی اور عمل کے نہیں ملتا ۔ اس لئے تمھیں مال خرچ کرنا پڑے گا۔
منافقوںمیں سب سے بڑا نقص یہی تھا کہ وہ اپنے مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کو بڑی بھاری مصیبت سمجھتے تھے تو انہیں بتایا ہے کہ جس ایمان کا تمھیں دعویٰ ہے ، اگرتم میں واقعی وہ ایمان ہو تمھیں کبھی یہ مصیبت معلوم نہ ہو۔ اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ اپنے لئے نہیں مانگتا، بلکہ تمھیں اجر دینے کےلئے اور تمھارے مراتب بلند کرنے کےلئے تمھیں خرچ کرنے کو کہتا ہے۔جیسا کہ آگے چل کر فرمایا
تدعون لتنفقوا فی سبیل اللہ
بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ
...................................................................................................................................................................
۲:حدیثِ نبویؐ
جابرؓ سے روایت ہے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
جنت کی چابی نماز ہے اور نماز کی چابی وضوہے
مشکوٰة ۳ بروایت احمد
کتاب: احادیث العمل صفحہ۵۷
ترجمہ و نوٹ از حضرت مولانا محمدعلیؒ
...................................................................................................................................................................
۳:سیرت خیر البشرؐ
باب چہارم
آفتاب رسالت کے طلوع سے پہلے کا زمانہ ظھرالفساد فی البر و البحر
(30:الروم:41)
برو بحر میں فساد ظاہر ہو گیا
از
حضرت مولانا محمد علی
نوٹ: حضرت مولانا محمد علیؒ کے اس عظیم الشان شاہکار اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ امی و ابی کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب سیرت خیرالبشر ؐ کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ
گزشتہ سے پیوستہ
عرب کی معاشرت اور عورت سے سلوک
"باایں مرد اور عورت کے تعلقات میں نہایت درجہ فحش بھی تھا ۔ عشق اور محبت اور ناجائز تعلقات کے نہایت گندے قصے کھلے اشعار میں فخریہ بیان کئے جاتے ۔ بڑے بڑے مشہور قصائد میں ، جو اپنے فصاحت میں لاثانی سمجھے جاتے ہیں ایسے فحش اور ننگے الفاظ میں ان کا ذکر ہے کہ جنکی برداشت زبان اور کان نہیں کر سکتے۔
پھر بلند خاندان کی خواتین سے تشبیب کرنا یعنی انکو مخاطب کر کے عشقیہ اشعار میں انکا ذکر کرنا ان میں عام رواج تھا اور سب سے بڑھ کر وحشیانہ پن میں انتہا کو پہنچا ہوا طریق لڑکی کو زندہ درگور کرنے کا تھا ۔
پانچ چھ سال کی لڑکی کو باپ جنگل کی طرف ساتھ لیجاتا اور ایک گڑھے کے کنارہ پر جو اس غرض کےلئے پہلے سے کھودا ہوا ہوتا تھا ، اسے کھڑا کر کے ، دھکا دے کر اس میں گرا دیتا اور چیختی چلاتی ہوئی لخت جگر پر مٹی ڈال کر اس سنگدلی کا ثبوت دیتا جس کے سامنے پتھر بھی شرمندہ ہوں۔
جب ہمارے نبی کریم صلعم کے سامنے ایک ایسے قصہ کا ذکر ایک صحابی نے کیا تو آپؐ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔ یہ اس درد کی وجہ سے تھا جو آپؐ کے دل میں نوع انسان کی بھلائی کےلئے تھا۔
بعض وقت نکاح کے وقت یہ معائدہ کر لیا جاتا تھا کہ جو لڑکی پیدا ہو گی اسے مارا جائے گا ۔ اس صورت میں غریب ماں سے اس وحشیانہ فعل کا ارتکاب کرایا جاتا اور اس صورت میں کنبہ کی عورتوں کو اکٹھا کر کے سب کے سامنے اس ظلم کا ارتکاب ہوتا۔
صرف اس پہلو کو لو تو کس قدر احسان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نسل انسانی پر ہے کہ نہ صرف اس خوانخوار وحشیانہ پن کا خاتمہ ہی ملک عرب سے ایک ہی آواز سے کر دیا بلکہ عورت کی عزت کو کمال تک پہنچا دیا۔ "
پھر بلند خاندان کی خواتین سے تشبیب کرنا یعنی انکو مخاطب کر کے عشقیہ اشعار میں انکا ذکر کرنا ان میں عام رواج تھا اور سب سے بڑھ کر وحشیانہ پن میں انتہا کو پہنچا ہوا طریق لڑکی کو زندہ درگور کرنے کا تھا ۔
پانچ چھ سال کی لڑکی کو باپ جنگل کی طرف ساتھ لیجاتا اور ایک گڑھے کے کنارہ پر جو اس غرض کےلئے پہلے سے کھودا ہوا ہوتا تھا ، اسے کھڑا کر کے ، دھکا دے کر اس میں گرا دیتا اور چیختی چلاتی ہوئی لخت جگر پر مٹی ڈال کر اس سنگدلی کا ثبوت دیتا جس کے سامنے پتھر بھی شرمندہ ہوں۔
جب ہمارے نبی کریم صلعم کے سامنے ایک ایسے قصہ کا ذکر ایک صحابی نے کیا تو آپؐ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔ یہ اس درد کی وجہ سے تھا جو آپؐ کے دل میں نوع انسان کی بھلائی کےلئے تھا۔
بعض وقت نکاح کے وقت یہ معائدہ کر لیا جاتا تھا کہ جو لڑکی پیدا ہو گی اسے مارا جائے گا ۔ اس صورت میں غریب ماں سے اس وحشیانہ فعل کا ارتکاب کرایا جاتا اور اس صورت میں کنبہ کی عورتوں کو اکٹھا کر کے سب کے سامنے اس ظلم کا ارتکاب ہوتا۔
صرف اس پہلو کو لو تو کس قدر احسان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نسل انسانی پر ہے کہ نہ صرف اس خوانخوار وحشیانہ پن کا خاتمہ ہی ملک عرب سے ایک ہی آواز سے کر دیا بلکہ عورت کی عزت کو کمال تک پہنچا دیا۔ "
جاری ہے
کتاب سیرت خیرالبشرؐ،باب دوئم، صفحہ24 , 25
...................................................................................................................................................................
تاریخ خلافت راشدہ
از حضرت مولانا محمد علیؒ
حضرت ابوبکر صدیقؓ
زمانہ خلافت
۲ ربیع الاول ۱۱ ہجری تا ۲۲ جمادی الثانی ۱۳ ہجری
جون ۶۳۲ء تا اگست ۶۳۴ء
نوٹ: حضرت مولانا محمد علیؒ کے اس عظیم الشان شاہکار اور خلفائے راشدین کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب تاریخ خلافت راشدہ کو کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ
اسلام لانا اور اشاعت اسلام کرنا
"اپنے گھر کے صحن میں ایک چھوٹی سی مسجد بھی بنا رکھی تھی جہاں وہ قرآن شریف ایسی بلند آواز سے ایسی رقت اور خضوع و خشوع سے پڑھتے کہ سننے والوں پر خاص اثر ہوتا۔ اس پر قریش نے اعتراض بھی کیا اور یہ کہہ کر روکنا چاہا کہ رستے کے اوپر انکے بلند آواز سے قرآن شریف پڑھنے سے انہیں ڈر ہے کہ انکے عورتیں اور بچے متاثر ہو کر اپنے آبائی مذہب کو نہ چھوڑ دیں۔ لیکن حضرت ابوبکرؓ نے یہ بات ماننے سے انکار کر دیا اور ہر ممکن طریقہ سے تبلیغ اسلام میں لگے رہے ۔
رسول اللہ صلعم سے تعلق محبت اس زمانہ میں اور بھی ترقی کرتا گیا ۔ ان خدمات نے جو تبلیغ اور مال کے خرچ کرنے میں حضرت ابوبکر ؓ نے کیں، رسول اللہ صلعم کے قلب مبارک میں انکی محبت کو اور بھی بڑھا دیا۔ یہاں تک کہ خود رسول اللہ صلعم صبح و شام حضرت ابوبکرؓ کے گھر تشریف لاتے اور بالآخرجب ہجرت کی تو حضرت ابوبکرؓ ہی کو اپنی رفاقت کےلئے چنا۔
رسول اللہ صلعم سے تعلق محبت اس زمانہ میں اور بھی ترقی کرتا گیا ۔ ان خدمات نے جو تبلیغ اور مال کے خرچ کرنے میں حضرت ابوبکر ؓ نے کیں، رسول اللہ صلعم کے قلب مبارک میں انکی محبت کو اور بھی بڑھا دیا۔ یہاں تک کہ خود رسول اللہ صلعم صبح و شام حضرت ابوبکرؓ کے گھر تشریف لاتے اور بالآخرجب ہجرت کی تو حضرت ابوبکرؓ ہی کو اپنی رفاقت کےلئے چنا۔
جاری ہے
کتاب تاریخ خلافت راشدہ ،باب اول ، صفحہ ۲ ، ۳
...................................................................................................................................................................
۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ
آسمانی گواہی
دانیال نبیؑ کی پیشگوئی کے مطابق
مسیح موعودؑ کی بعثت کا زمانہ
اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کا عین اسوقت میں ظہور
دانیال نبیؑ کی پیشگوئی کے مطابق
مسیح موعودؑ کی بعثت کا زمانہ
اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کا عین اسوقت میں ظہور
دانیال نبی کی کتاب میں مسیح موعود کے ظہور کا زمانہ وہی لکھا ہے جس میں خدا نے مجھے مبعوث فرمایا ہے اور لکھا ہے کہ اس وقت بہت لوگ پاک کئے جائیں گے اور سفید کئے جائیں گے اور آزمائے جائیں گے لیکن شریر شرارت کرتے رہیں گے اور شریروں میں سے کوئی نہیں سمجھے گا پر دانشور سمجھیں گے
اور جس وقت سے دائمی قربانی موقوف کی جائے گی اور مکر وہ چیز جو خراب کرتی ہے قائم کی جائے گی
ایک ہزار۱۲۹۰ دو سو نوے دن ہوں گے۔*
مبارک وہ جو انتظار کرتا ہے اور ایک ہزار۱۳۳۵ تین سو پینتیس روز تک آتاہے۔‘‘
اس پیشگوئی میں مسیح موعود کی خبر ہے جو آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا۔ سو دانیال نبی نے اس کا یہ نشان دیا ہے کہ اس وقت سے جو یہود اپنی رسم قربانی سوختنی (حاشیہ الف ملاحظہ ہو، ناقل) کو چھوڑ دیں گے اوربد چلنیوں میں مبتلا ہو جائیں گے۔
ایک ہزار دو سو نوے سال ہونگے جب مسیح موعود ظاہر ہوگا سو اِس عاجز کے ظہور کا یہی وقت تھا کیونکہ میری کتاب براہین احمدیہ صرف چند سال بعد میرے مامور اور مبعوث ہونے کے چھپ کر شائع ہوئی ہے اور یہ عجیب امر ہے اور میں اس کو خدا تعالیٰ کا ایک نشان سمجھتا ہوں کہ ٹھیک با۱۲۹۰رہ سو نوے ہجری میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ و مخاؔ طبہ پا چکا تھا۔
پھر سات سال بعد کتاب براہین احمدیہ جس میں میرا دعویٰ مسطور ہے تالیف ہو کر شائع کی گئی جیسا کہ میری کتاب براہین احمدیہ کے سرورق پر یہ شعر لکھا ہوا ہے:
از بس کہ یہ مغفرت کا دِکھلاتی ہے راہ
تاریخ بھی یا غفو۱۲۹۷ ر نکلی واہ واہ
سو دانیال نبی کی کتاب میں جو ظہور مسیح موعود کے لئے با۱۲۹۰رہ سو نوے برس لکھے ہیں۔ اِس کتاب براہین احمدیہ میں جس میں میری طرف سے مامور اور منجانب اللہ ہونے کا اعلان ہے صرف سات برس اِس تاریخ سے زیادہ ہیں جن کی نسبت میں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ مکالمات الٰہیہ کا سلسلہ اِن سات برس سے پہلے کا ہے یعنی با۱۲۹۰رہ سو نوے کا۔
پھر آخری زمانہ اس مسیح موعود کا دانیال ۱۳۳۵تیرہ سو پینتیس برس لکھتا ہے۔ جو خدا تعالیٰ کے اس الہام سے مشابہ ہے جو میری عمر کی نسبت بیان فرمایا ہے اور یہ پیشگوئی ظنی نہیں ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ کی پیشگوئی جو مسیح موعود کے بارہ میں انجیل میں ہے اُس کا اِس سے توارد ہو گیا ہے اور وہ بھی یہی زمانہ مسیح موعود کا قرار دیتی ہے چنانچہ اس میں مسیح موعود کے زمانہ کی یہ علامتیں لکھی ہیں کہ اُن دنوں میں طاعون پڑے گی زلزلے آئیں گے لڑائیاں ہوں گی اور چاند اور سورج کا کسوف خسوف ہوگا۔
پس اس میں کیا شک ہے کہ جس زمانہ کے آثار انجیل ظاہر کرتی ہے اُسی زمانہ کی دانیال بھی خبر دیتا ہے اور انجیل کی پیشگوئی دانیال کی پیشگوئی کو قوت دیتی ہے کیونکہ وہ سب باتیں اس زمانہ میں وقوع میں آگئیں ہیں اور ساتھ ہی یہود و نصاریٰ کی وہ پیشگوئی جو بائیبل میں سے استنباط کی گئی ہے اس کی مؤید ہے اور وہ یہ کہ مسیح موعود آدم کی تاریخ پیدائش سےؔ چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہوگا چنانچہ قمری حساب کے رُو سے جو اصل حساب اہل کتاب کا ہے میری ولادت چھٹے ہزار کے آخر میں تھی اور چھٹے ہزار کے آخر میں مسیح موعود کا پیدا ہونا ابتدا سے ارادۂِ الٰہی میںمقرر تھا۔ کیونکہ مسیح موعود خاتم الخلفاء ہے اور آخر کو اوّل سے مناسبت چاہئے۔
اور چونکہ حضرت آدم بھی چھٹے دن کے آخر میں پیدا کئے گئے ہیں اِس لئے بلحاظ مناسبت ضروری تھا کہ آخری خلیفہ جو آخری آدم ہے وہ بھی چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو۔ وجہ یہ کہ خدا کے سات دنوں میں سے ہر ایک دن ہزار برس کے برابر ہے جیسا کہ خود وہ فرماتا ہے۔33 ۔۱ ا
ور احادیث صحیحہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود چھٹے ہزار میں پیدا ہوگا*۔ اِسی لئے تمام اہل کشف مسیح موعود کا زمانہ قرار دینے میں چھٹے ہزار برس سے باہر نہیں گئے اور زیادہ سے زیادہ اُس کے ظہور کا وقت چودھویں صدی ہجری لکھا ہےؤ۔
اور اہل اسلام کے اہل کشف نے مسیح موعود کو جو آخری خلیفہ اور خاتم الخلفاء ہے صرف اِس بات میں ہی آدم سے مشابہ قرار نہیں دیا کہ آدم چھٹے دن کے آخر میں پیدا ہوا اور مسیح موعود چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہوگا بلکہ اس بات میں بھی مشابہ قرار دیا ہے کہ آدم کی طرح وہ بھی جمعہ کے دن پیدا ہوگا اور اسکی پیدائش بھی توَام کے طور پر ہوگی یعنی جیسا کہ آدم توَام کے طور پر پیدا ہوا تھا پہلے آدم اور بعد میں حوّا۔ ایسا ہی مسیح موعود بھی توَام کے طور پر پیدا ہوگا۔
سو الحمدللّٰہ والمنۃ کہ متصوفین کی اس پیشگوئی کا میں مصداق ہوں میں بھی جمعہ کے روز بوقت صبح توام پیدا ہوا تھا صرف یہ فرق ہوا کہ پہلے لڑکی پیدا ہوئی تھی جس کا نام جنت تھا۔ وہ چند روز کے بعد جنت میں چلی گئی اور بعد اس کے میں پیدا ہوا۔ اور اس پیشگوئی کو شیخ محی الدین ابن عربی نے بھی اپنی کتاب فصوص میں لکھا ہے اور لکھا ہے کہ وہ صینی الاصل ہوگا.یہ تینوں پیشگوئیاں ایک دوسری کو قوت دیتی ہیں اور بباعث تظاہر کے یقین کی حدتک پہنچ گئی ہیں جن سے کوئی عقلمند انکار نہیں کر سکتا۔
حاشیہ الف
دن سے مراد دانیال کی کتاب میں سال ہے اور اس جگہ وہ نبی ہجری سال کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اسلامی فتح اور غلبہ کا پہلا سال ہے۔ منہ ژ حاشیہ۔ یہود اپنی کتابوں کی تعلیم کے موافق قربانی سوختنی کے پابند تھے جو ہیکل کے آگے بکرے ذبح کرکے آگ میں جلاتے تھے۔ اس میں شریعت کا راز یہ تھا کہ اسی طرح انسان کو خدا تعالیٰ کے آگے اپنے نفس کی قربانی دینی چاہئے اور نفسانی جذبات اور سر کشیوں کو ؔ جلا دینا چاہئے۔ اس قربانی کا عملدرآمد کیا ظاہری طور پر اور کیا باطنی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں یہود نے ترک کر دیا تھا اور دوسری مکروہات میں مبتلا ہو گئے تھے۔ جیسا کہ ظاہر ہے پس جب حقیقی سوختنی قربانی یہود نے ترک کر دی جس سے مراد خدا کی راہ میں اپنا نفس قربان کرنا اورجذبات نفسانیہ کو جلا دینا ہے تب خدا تعالیٰ کے قہری عذاب نے جسمانی قربانی سے بھی اُن کو محروم کر دیا۔ پس یہود کی پوری بد چلنی کا وہ زمانہ تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث فرمائے گئے۔ اسی زمانہ میں یہود کا پورا استیصال ہوا اور اسلامی قربانیاں جو حج بیت اللہ میں خانہ کعبہ کے سامنے کی جاتی ہیں یہ دراصل انہیں قربانیوں کے قائم مقام ہیں جو یہودبیت المقدس کے سامنے کرتے تھے۔ صرف فرق یہ ہے کہ اسلام میں سوختنی قربانی نہیں۔ یہود ایک سرکش قوم تھی۔ اُن کے لئے نفسانی جذبات کو جلا دینا ضروری سمجھ کر یہ نشان ظاہری قربانی میں رکھا گیا تھا۔ اسلام کے لئے اس نشان کی ضرورت نہیں صرف اپنے تئیں خدا کی راہ میں قربان کر دینا کافی ہے۔ منہ
روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحات ۲۰۷ تا ۲۱۰
...................................................................................................................................................................
۵:دینی مسائل اور انکا حل
ارشاد مبارک حضرت مجدد اعظم و امام الزمان
مرزا غلام احمد قادیانی رحمتہ اللہ علیہ رشوت کی تعریف
سوال: حضرت مولانا نورالدینؒ نے عرض کی کہ حضور ایک سوال اکثر آدمی دریافت کرتے ہیں کہ انکو بعض وقت ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ جب تک وہ کسی اہلکار وغیرہ کو کچھ نہ دیں، کام نہیں ہوتا اور وہ تباہ کر دیتے ہیں
حضور عالی مقامؑ نے ارشاد فرمایا:
" میرے نزدیک رشوت کی تعریف یہ ہے کہ کسی کے حقوق کو زائل کرنے کے واسطے ، یا ناجائز طور پر گورنمنٹ کے حقوق دبانے یا لینے کوئی مابہ الااحتظاظ کسی کو دیا جاوے ۔ لیکن اگر کوئی ایسی صورت ہو کہ کسی دوسرے کا اس سے کوئی نقصان نہ ہو اور نہ کسی دوسرے کا کوئی حق ضائع ہو ۔ صرف اس لحاظ سے کہ اپنے حقوق کی حفاظت کےلئے کچھ دے دیا جاوے تو کوئی حرج نہیں اور یہ رشوت نہیں ۔بلکہ اس کی مثال ایسی ہے کہ ہم راستہ پر چلے جاویں اور اسکے شر سے محفوظ رہیں ۔
اس پر حضرت حکیم الامت مولانا نور الدینؒ نے عرض کی کہ بعض معاملات اس قسم کے ہوتے ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ اصل میں حق پر کون ہے؟
فرمایا: ایسی صورتوں میں استفتاء قلب ہی کافی ہے ۔ اسمیں شریعت کا حصہ رکھا گیا ہے ۔ میں نے جو کچھ کہا ہے اس پر اگر زیادہ غور کی جاوے تو امید ہے قرآن شریف سے بھی کوئی نص مل جاوے "
الحکم ۱۷ اگست ۱۹۰۲ ء
...................................................................................................................................................................
۶:پیغامِ امیر قومؒ
۷: عقائد حضرت مولانا محمد علی ؒ
ایک سچے رہنما کے اوصاف
"لیڈری اور رہنمائی بڑا بلند مقام ہے ۔اگرچہ ہماری آنکھوں کے سامنے جو لیڈروں کے نمونے ہیں، وہ بہت گرے ہوئے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان زندہ نہیں ہوتے ۔ کیونکہ ان کے لیڈر ایک پست مقام پر کھڑے ہیں ۔
رہنما بننے کےلئے بڑے اعلیٰ درجہ کے اوصاف بکار ہیں اور بڑا بلند کیریکٹر چاہیے ۔ ہمارے نوجوانوں کو اپنی زندگی کا مقصد ہی یہی بنانا چاہیے کہ وہ ان اوصاف کو پید ا کریں ۔ دنیا میں بڑا بننا یوں نہیں کہ محض نام سے بڑے بن گئے بلکہ اخلاق اور اپنے کاموں سے بڑا بننا چاہیے ۔ یہ منزل مقصود ہے جس پر نوجوانوں کو پہنچنے کی کوشش کرنا چاہیے ۔
وہ اخلاق جو انسان کو لیڈر یا رہنما ہونے کا منصب دیتے ہیں ان میں سے مثال کے طور پر چند باتیں بیان کرتا ہوں ۔ رہنمائی کے بڑے بڑے اوصاف یہ ہیں کہ انسان کے اندر قربانی کا مادہ ہو ۔ پھر اس قربانی کے اندر اخلاص ہو ۔یعنی ہر قسم کی خود غرضی سے ، لالچ سے اور خواہشات سے وہ قربانی بلند ہو ۔کوئی ذاتی غرض اسکے اندر نہ ہو ۔
چنانچہ قربانی کا وصف اخلاق کا وصف ہے ۔ مخلوق خدا کی تڑپ دل کے اندر ہو اور یہ کہ انسان محنت اور مشقت کرنے والا ہو ۔ بڑی زبردست محنت اور مشقت رہنمائی کےلئے بکار ہے ۔ اسکے اندر استقلال بھی ہو ۔
لہذا ان اوصاف کا ایک رہنما کے اندر ہونا از بس ضروری ہے "
رہنما بننے کےلئے بڑے اعلیٰ درجہ کے اوصاف بکار ہیں اور بڑا بلند کیریکٹر چاہیے ۔ ہمارے نوجوانوں کو اپنی زندگی کا مقصد ہی یہی بنانا چاہیے کہ وہ ان اوصاف کو پید ا کریں ۔ دنیا میں بڑا بننا یوں نہیں کہ محض نام سے بڑے بن گئے بلکہ اخلاق اور اپنے کاموں سے بڑا بننا چاہیے ۔ یہ منزل مقصود ہے جس پر نوجوانوں کو پہنچنے کی کوشش کرنا چاہیے ۔
وہ اخلاق جو انسان کو لیڈر یا رہنما ہونے کا منصب دیتے ہیں ان میں سے مثال کے طور پر چند باتیں بیان کرتا ہوں ۔ رہنمائی کے بڑے بڑے اوصاف یہ ہیں کہ انسان کے اندر قربانی کا مادہ ہو ۔ پھر اس قربانی کے اندر اخلاص ہو ۔یعنی ہر قسم کی خود غرضی سے ، لالچ سے اور خواہشات سے وہ قربانی بلند ہو ۔کوئی ذاتی غرض اسکے اندر نہ ہو ۔
چنانچہ قربانی کا وصف اخلاق کا وصف ہے ۔ مخلوق خدا کی تڑپ دل کے اندر ہو اور یہ کہ انسان محنت اور مشقت کرنے والا ہو ۔ بڑی زبردست محنت اور مشقت رہنمائی کےلئے بکار ہے ۔ اسکے اندر استقلال بھی ہو ۔
لہذا ان اوصاف کا ایک رہنما کے اندر ہونا از بس ضروری ہے "
پیغام صلح ۲۲ اپریل ۱۹۳۹ء
خطبات مولانا محمدعلیؒ جلد ۱۴ صفحہ ۷۸
...................................................................................................................................................................
۷: عقائد حضرت مولانا محمد علی ؒ
انکی اپنی قلم سے
عقیدہ کس نے بدلا ؟
قادیانی جماعت کے پیشواء ثانی اور ہمنواوں نے
یا جماعت احمدیہ لاہور نے؟
میرا عقیدہ دربارہ نبوت مسیح موعودؑ کیاتھا؟ میں نے اسکو ابتدائے اختلاف ہی میں کھول کر بیان کردیا تھا ۔میں پہلے بھی اسی پر قائم تھا، اب بھی اسی پر قائم ہوں اور انہیں الفاظ میں پھر اپنے عقیدہ کو نقل کرتا ہوں
"میں یہ مانتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ شرعی اصطلاح میں نبی اور رسول نہ تھے ۔یعنی نبی اس لئے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ پر غیب کے اخبار ظاہر کرتا تھا اور رسول اس لئے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مامور کر کے اصلاح کےلئے بھیجا تھا ۔
یعنی آپ ان معنوں میں نبی اور رسول تھے جن معنوں میں اس امت کے دوسرے مجدد بھی نبی اور رسول کہلا سکتے ہیں "
......................
"اس امت کے دوسرے مجددوں پر آپؒ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپؒ کی آمد کے متعلق صریح پیشگوئیاں موجود ہیں ۔۔۔۔ پھر جس عظیم الشان فتنہ کی اصلاح کےلئے آپکو ؒ بھیجا گیا، دوسرے کسی مجدد کو اتنا عظیم الشان کام سپرد نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔
......................
ایسا ہی آپکوؒ کو جو علم کلام دیا گیا وہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس کو لیکر مسلمان کل مذاہب پر غالب آ سکتے ہیں ، دوسرے کسی مجدد کو ایسا علم کلام نہیں دیا گیا ۔"
......................
"میں حقیقی نبوت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم یقین کرتا ہوں ۔آپؐ کے بعد نہ کوئی پرانا نبی واپس آئے گا نہ کوئی نیا نبی مبعوث ہوگا"
منقول از میرے عقائد، مطبوعہ ۳۳ اگست ۱۹۱۴ء
......................
"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر قسم اٹھاتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ میرے علم میں ۱۹۰۱ ء سے لیکر ۱۹۰۸ء تک حضرت مسیح موعودؑ کا یہی عقیدہ تھا کہ انکا نہ ماننے والا بھی مسلمان اور دائرہ اسلام میں ہے اور انکا منکر کافر اور دائرہ اسلام سے خارج نہیں اور میرا بھی یہی عقیدہ ۱۹۰۱ء سے لیکر آج تک بربنائے عقیدہ حضرت مسیح موعودؑ ہے "
پیغام صلح ۔لاہور۔۲۱ستمبر ۱۹۴۴
......................
"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اس بات پر حلف اٹھاتا ہوں کہ میرا عقیدہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب قادیانی مجدد اور مسیح موعودؑ ہیں مگر نبی نہیں اور نہ انکے انکار سے کوئی شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے
اور یہی عقیدہ حضرت مرزا صاحب کا تھا
اے خدا اگر میں نے تیر نام لیکر اس قسم کے کھانے میں جھوٹ بولا ہے تو تو اپنی طرف سے ایسی عبرت ناک سزا مجھ پر بھیج جس میں انسانی ہاتھ کا کوئی دخل نہ ہو اور جس سے دنیا سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھا کرمخلوق خدا کو دھوکہ دینے والوں پر خدا تعالیٰ کی گرفت کتنی سخت اور درد ناک ہوتی ہے "
پیغام صلح ۔لاہور۔۱۱دسمبر ۱۹۴۶
......................
"ہم اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ ۱۹۰۱ ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دعوی میں تبدیلی کی"
ستر بزرگان لاہور کا حلف
......................
......................
حضرت مولانا نور الدینؒ کا عقیدہ
انکی اپنی قلم سے
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
دل چیر کر دیکھا یا دکھانا انسانی طاقت سے باہر ہے ۔قسم پر کوئی اعتبار کرے تو واللہ العظیم کے برابر کوئی قسم مجھے نظر نہیں آتی۔نہ آپ میرے ساتھ میری موت کے بعد ہونگے نہ کوئی اور میرے ساتھ سوائے میرے ایمان و اعمال کے ہوگا۔پس یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش ہونے والا ہے ۔
میں مرزا صاحب کو مجدد اس صدی کا یقین کرتا ہوں ۔میں انکو راستباز مانتاہوں ۔
حضرت محمد الرسول اللہ النبی العربی المکی المدنی خاتم النبیین کا غلام اور اسکی شریعت کا بدل خادم مانتا ہوں اور مرزا خود اپنے آپکو جاں نثار غلام نبی عربی محمدؐ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن مناف کامانتے تھے
نبی کے لغوی معنی پیش از وقت اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر خبر دینے والا ہم لوگ یقین کرتے ہیں نہ شریعت لانے والا۔
مرزا صاحب اور میں خود جو شخص ایک نقطہ بھی قرآن شریف کا اور شریعت محمدؐ رسول کا نہ مانے، میں اسے کافر اور لعنتی اعتقاد کرتا ہوں ۔
یہی میرا اعتقاد ہے اور یہی میرے نزدیک مرزا غلام احمد کا تھا ۔
کوئی رد کرے یا نہ مانے یا منافق کہے اس کا معاملہ حوالہ بخدا۔
نورالدین بقلم خود
۲۲ اکتوبر ۱۹۱۰ء
......................
قادیانی جماعت کے پیشواء
مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کا سابقہ عقیدہ
خود انکی اپنی قلم سے
"اس آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپؐ کے بعد کوئی شخص نہیں آئے گا جس کو نبوت کے مقام پر کھڑا کیا جائے اور وہ آپؐ کی تعلیم کو منسوخ کر دے اور نئی شریعت جاری کر دے ۔بلکہ جسقدر
اولیاء اللہ
ہونگے اور متقی اور پرھیز گار لوگ ہونگے سب کو آپؐ کی غلامی میں ہی ملے گیا جو کچھ ملے گا ۔
اس طرح خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ
آپؐ کی نبوت نہ صرف اس زمانہ کےلئے ہے بلکہ
آئندہ بھی کوئی نبی نہیں آئے گا"
تشحیذ الاذہان بابت اپریل ۱۹۱۰ء
......................
قادیانی جماعت کے ھیڈ
مولوی محمد سرور شاہ صاحب کا سابقہ عقیدہ
"لفظ نبی کے معنی اپنے مصدروں کے لحاظ سے دو ہیں ۔
اول اپنے خدا سے اخبار غیب پانے والا
دوئم عالی مرتبہ شخص ۔جس شخص کو اللہ تعالیٰ بکثرت شرف مکالمہ سے ممتاز کرے اور غیب کی خبروں پر مطلع کرے ، وہ نبی ہے
اس رنگ میں میرے نزدیک تمام مجددین سابق مختلف مدارج کے انبیاء گزرے ہیں "
بدر مورخہ ۱۶ فروری ۱۹۱۱ء
......................
مفتی محمد صادق صاحب کا سابقہ عقیدہ
اس کو عربی لغت میں نبی کہتے ہیں
"شبلی نے دریافت کیا کہ کیاہم لوگ مرزا صاحب کونبی مانتے ہیں ؟
میں نے عرض کیا کہ ہمارا عقیدہ اس معاملہ میں دیگر مسلمانوں کی طرح ہے کہ آنحضرت صلعم خاتم النبیین ہیں ۔
آپکے بعد کوئی دوسرا نبی آنیوالانہیں ۔نہ نیا نہ پرانا ۔
ہاں مکالمات الٰہیہ کا سلسلہ برابر جاری ہے وہ بھی آنحضرت صلعم کے طفیل آپؐ سے فیض حاصل کر کے اس امت میں ایسے آدمی ہوتے رہے جنکو الہام الٰہی سے مشرف کیا گیا اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے ۔
چونکہ حضرت مرزا صاحب بھی الہام الہی سے مشرف ہوتے رہے اور الہام الٰہی کے سلسلہ میں آپکو خدا تعالیٰ نے بہت سی آئندہ کی خبریں بطور پیشگوئی کے بتلائی تھیں جو پوری ہوتی رہیں اس واسطے مرزا صاحب ایک پیشگوئی کرنے والے تھے اور اسکو
عربی لغت میں نبی کہتے ہیں "
بدر۔جلد نمبر ۹ ، ۵۱/۵۲
......................
۸:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)
ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام
"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "
روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹
......................
یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "
سراج منیر،صفحہ ۳
......................
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"
......................
روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209
......................
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر
روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65)
......................
انکے اپنے اشعار میں
ما مسلمانیم از فضلِ خدا
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا
اندریں دیں آمدہ از مادریم
ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم
آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست
بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست
یک قدم دوری ازاں روشن کتاب
نزد ماکفر است و خسران و تباب
آں رسولے کش محمدؐ ہست نام
دامنِ پاکش بدستِ ما مدام
مہرِ اوباشیرشداندربدن
جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن
ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام
(کتاب سراج منیر، ضمیمہ صفحہ ز)
۹:
ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف
۹:
ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف
ایک ضروری تجویز
بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ مزید جن احباب تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
No comments :
Post a Comment