Sunday, September 21, 2014

اتوار و سوامور۔ 21, 22 ستمبر 2014، شمارہ: 36


حضرت مولانا محمد علی ؒ کے خطبات کی تازہ ریکارڈنگز


لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِ

روزنامہ مبلغ (آنلائن)


روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان



بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت

 حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ

احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

اتوار و سوامور۔۲۱ و ۲۲ ستمبر ۲۰۱۴ء

۲۵، ۲۶ ذیقعد ۱۴۳۵ ہجری


شمارہ جات نمبر: 35 ,36

Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com


خوشخبری
اپ ڈیٹس


حضرت مولانا محمدعلیؒ کی عظیم شاہکار کتاب
 تاریخ خلافت راشدہ 
کو باب وار ترتیب کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے 

اس ہفتہ کی کتاب 
ضرورت مجدد 
از حضرت مولانا محمد علیؒ 
سب سے آخری سیکشن میں ملاحظہ فرمائیں 





۱:کلامِ الٰہی 

وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِنْ رَبِّهِ ۗ إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ ۖ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ

الرعد: 7

ترجمہ:۔ اور جو کافر ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس پر اپنے رب کی طرف سے نشان کیوں نہیں اتارا جاتا تو صرف ڈارنے والا ہے اور ہر قوم کےلئے راہ دکھانے والا ہے 

تفسیر

آیتہ سے مراد یہاں وہی نشان ہلاکت ہے جس کی طرف پچھلی آیت میں بھی اشارہ  ہے

یستعجلونک بالسیة 

یعنی حق کی مخالفت کرتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ اپنی مغفرت کی وجہ سے پکڑنے میں جلدی نہیں کرتا تو کہتے ہیں وہ نشان ہلاکت کیوں نہیں آتا جس سے ڈرایا گیا تھا؟ 

اس کا جواب دیا ہے کہ نبی صرف منذر ہے یعنی بدی کے بد انجام سے ڈرا دینا اس کا کام ہے اس انجام کو لانا اسکے اختیار میں نہیں ۔ 

یہ نشان کا انکار نہیں بلکہ بتایا ہے کہ جب ڈرایا جاتا ہے تو وہ عذاب بھی آکر ہی رہے گا ۔
اور یہ جو بڑھایا کہ ولکل قوم ھاد تو مطلب یہ ہے کہ چونکہ آپکو ہرقوم کا ہادی بنا کر بھیجا گیا ہے اس لئے وہ باتیں جن سے آپ ڈراتے ہیں وہ بھی ہر قوم کےلئے ہیں ۔ پس جو کوئی قوم بھی آپ کی مخالفت کرے گی اسی کےلئے یہ انذار بھی ہے ۔

ختم نبوت پر دلیل 

یہ آیت علاوہ اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت عامہ کا ذکر کرتی ہے ختم نبوت پر بھی دلیل ہے ۔ اسلئے کہ کل اقوام عالم کی ہدایت اور انذار ہمیشہ کےلئے آپکے سپرد کیا گیا ۔عذب انذار کا نتیجہ ہے ۔جب انذار آپؐ   کی طرف سے ہوا تو عذاب بھی جو آئے گا ، وہ آپکے انکار کی وجہ سے آئے گا۔ اور یہ انذار اگر آپؐ   کے پیرو کریں، تو بھی آپکی طرف سے ہی ہوگا کیونکہ اس حق کے بعد جو نبی صلعم لائے ، دوسرا کوئی حق آنے والا نہیں ۔ 

بعض نے ولکل قوم ھاد کے معنی یوں بھی کئےہیں کہ ہر قوم میں ایک ہادی ہوگزرا ہے مگر یہ معنی یہاں درست نہیں ۔


بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ

...................................................................................................................................................................

۲:حدیثِ نبویؐ

امامت کےلئے معیار

ابو مسعود ؓ سے روایت ہے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :


قوم کی امامت وہ کرے جو ان میں سے کتاب اللہ کو سب سے زیادہ جاننے والا ہو۔ پھر اگر وہ قرات میں برابر ہوں تو ان میں سے وہ امامت کرے جو سنت کو زیادہ جانتا ہو ۔ پھر اگر وہ سنت میں بھی برابر ہوں تو جو ان میں ہجرت میں سب سےپہلا ہے ۔پھر اگروہ ہجرت میں بھی برابر ہیں تو وہ امامت کرے جو ان میں عمر میں بڑا ہے اور ایک شخص دوسرے کی  حکومت میں امات نہ کرے اور اسکے گھر میں اسکی مسند پر اسکی اجازت کے بغیر نہ بیٹھے 
 


مختصر نوٹ:

امامت کو ایک سرداری قرار دیا۔ اس لئے جہاں جو امام مقرر ہے وہی نماز پڑھائیگا ۔ سوائے اس کے کہ وہ خود دوسرے کو آگے کرے 

مشکوٰة (۲۶:۴)

کتاب: احادیث العمل صفحہ۱۲۷، ۱۲۸
ترجمہ و نوٹ از حضرت مولانا محمدعلیؒ 


...................................................................................................................................................................


۳:سیرت خیر البشرؐ
 باب چہارم
آفتاب رسالت کے طلوع سے پہلے کا زمانہ 
ظھرالفساد فی البر و البحر
(30:الروم:41)
برو بحر میں فساد ظاہر ہو گیا
از
 حضرت مولانا محمد علی 

نوٹ:  حضرت مولانا محمد علیؒ  کے اس عظیم الشان شاہکار اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ امی و ابی کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب سیرت خیرالبشر ؐ کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ

گزشتہ سے پیوستہ

عرب کی معاشرت اور عورت سے سلوک


"نیوگ کی رسم جو ہندوستان میں پائی جاتی ہے اور جس پر اس تعلیم اور روشنی کے زمانہ میں بھی آریہ سماج کے بانی سوامی دیانند جی نے بہت زور دیا ہے، وہ بھی ان میں مروج تھی ۔ 



اسکےلئے وہ لفظ استبضاع استعمال کرتے تھے جسکی تشریح میں اہل لغت لکھتے ہیں کہ 

عورت صرف خواہش اولاد کےلئے دوسرے سے تعلق چاہے 


بلکہ لکھا ہے کہ مرد خود اپنی عورت یا لونڈی سے کہہ دیتا تھا 

ارسلی الی فلان فاستبضغی منہ
فلاں کو بلا بھیجو اور اس سے اولاد حاصل کرنے کےلئے تعلق پیدا کرو۔


پھر عورت محض ایک جائداد کے طور پر سمجھی جاتی تھی اور نہ صرف اسکا اپنے متوفی خاوند یا اور رشتہ داروں کی وراثت میں کوئی حصہ تسلیم نہ کیا جاتا تھا، بلکہ وہ خود جائداد موروثہ کا ایک حصہ قرار پا کر ورثہ میں چلی جاتی اور وارث چاہتا تو خود اس سے نکاح کر لیتا اور چاہتا تو کسی دوسرے سے کرا دیتا ۔یہاں تک کہ باپ کی عورتوں کو بیٹے ورثہ سمجھ کر ا نکے ساتھ شادی کر لیتے اور انہیں انکار کا حق نہ تھا ۔



طلاق دینے کا طریق بھی ظالمانہ تھا ۔ ایک مرد اگر چاہتا تو ہزار مرتبہ بھی طلاق دے کر پھر عدت کے اندر رجوع کر لیتا ۔ بعض وقت یوں قسم کھا لیتا کہ میں اس کے قریب نہیں جاوں گا اور وہ عورت نہ مطلقہ کے حکم میں ہوتی نہ منکوحہ کے ۔



بعض اوقات عورت کو ماں کہہ دیا جاتا اور اسے معلقہ کی حالت میں چھوڑ دیا جاتا۔

ان تمام طریقوں کے اختیار کرنے سے عورت ایک ایسی مظلومانہ حالت میں ہوجاتی جس سے نکلنے کےلئے انکے پاس کوئی علاج نہ ہوتااور اسکی وجہ یہ تھی کہ وہ اس بات کو اپنی غیرت کے خلاف سمجھتے تھے کہ عورت طلاق لے کر دوسرے خاوند کے پاس جائے "


جاری ہے

کتاب سیرت خیرالبشرؐ،باب دوئم، صفحہ24



...................................................................................................................................................................

تاریخ خلافت راشدہ
از حضرت مولانا محمد علیؒ 
حضرت ابوبکر صدیقؓ
زمانہ خلافت
۲ ربیع الاول ۱۱ ہجری تا ۲۲ جمادی الثانی ۱۳ ہجری
جون ۶۳۲ء تا اگست ۶۳۴ء 

نوٹ:  حضرت مولانا محمد علیؒ  کے اس عظیم الشان شاہکار اور خلفائے راشدین کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب تاریخ خلافت راشدہ کو  کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ

اسلام لانا اور اشاعت اسلام کرنا

"جب رسول اللہ صلعم نے نبوت کا دعوٰی کیا تو مردوں میں حضرت ابوبکر پہلے شخص تھے جو اسلام لائے۔ اس سے پیشتر حضرت خدیجہ رسول اللہ صلعم کی بیوی ایمان لا چکی تھیں ۔


مسلمان ہوتے ہی اپنا  وقت اور مال دونوں خدا کی راہ میں لگا دئیے چنانچہ بہت سے لوگوں کو اسلام میں لانے کا موجب ہوئے ۔حضرت عثمانؓ ، حضرت زبیرؓ، حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ   ، حضرت سعد بن ابی وقاص انہی کی تبلیغ سے مسلمان ہوئے ۔ خود انکی والدہ ماجدہ ام الخیر سلمیٰ حضرت ابوبکر ؓ کی تبلیغ سے ابتدا میں ہی مسلمان ہو گئیں۔ البتہ انکے والد ابو قحافہ فتح مکہ کے بعداسلام میں داخل ہوئے ۔



بہت سے غلاموں اور لونڈیوں کو جنھیں مسلمان ہونے پرانکے مالک سخت تکلیف دیتے تھے ، حضرت ابوبکرؓ نے خرید کر آزاد کیا۔ان میں سے سات کے نام تاریخ میں موجود ہیں ۔ انہی میں حضرت بلالؓ  تھے۔


اسلام کےلئے حضرت ابوبکرؓ نے اسقدر مال خر چ کیا کہ ہجر ت کے وقت صرف پانچ ہزار درھم پاس رہ گیا تھا ۔خود رسول اللہ صلعم نے انکی مالی خدمات کا اعتراف ان الفاظ میں فرمایا کہ


ابوبکر کے مال سے بڑھ کر کسی کے مال نے مجھے نفع نہیں پہنچایا 

کنزل الاعمال جلد ۶ صفحہ ۳۱۶"



جاری ہے


کتاب تاریخ خلافت راشدہ ،باب اول ، صفحہ ۲




...................................................................................................................................................................

۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ 



آسمانی گواہی 
ماہ رمضان میں نبی کریم ؐ کی پیشگوئی کے عین مطابق
حضرت مرزا غلام احمدقادیانیؒ  کے دعوی مہدویت کی صداقت کے ثبوت میں کسوف و خسوف کا بے نظیر نشان

 صحیح دارقطنی میں یہ ایک حدیث ہے کہ امام محمد باقر فرماتے ہیں

 انّ لمھدینا اٰیتین لم تکونا منذ خلق السماوات والارض ینکسف القمر لاوّل لیلۃٍ من رمضان وتنکسف الشمس فی النصف منہ۔

ترجمہ یعنی ہمارے مہدی کے لئے دو نشان ہیں اور جب سے کہ زمین و آسمان خدا نے پیدا کیا یہ دو نشان کسی اور مامور اور رسول کے وقت میں ظاہر نہیں ہوئے ان میں سے ایک یہ ہے کہ مہدی معہود کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند کا گرہن اُس کی اوّل رات میں ہوگا یعنی تیرھویں تاریخ میں اور سورج کا گرہن اُس کے دِنوں میں سے بیچ کے دن میں ہوگا۔


یعنی اسی رمضان کے مہینہ کی اٹھائیسویں تاریخ کو اور ایسا واقعہ ابتدائے دنیا سے کسی رسول یا نبی کے وقت میں کبھی ظہور میں نہیں آیا صرف مہدی معہود کے وقت اُس کا ہونا مقدر ہے۔



 اب تمام انگریزی اور اُردو اخبار اور جملہ ماہرین ہیئت اِس بات کے گواہ ہیں کہ میرے زمانہ میں ہی جس کو عرصہ قریباً با ۱۲ رہ سال کا گذر چکا ہے اِسی صفت کا چاند اور سورج کا گرہن رمضان کے مہینہ میں وقوع میں آیا ہے اورؔ جیسا کہ ایک اور حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ گرہن دو مرتبہ رمضان میں واقع ہو چکا ہے۔ اول اِس ملک میں دوسرے امریکہ میں اور دونوں مرتبہ انہیں تاریخوں میں ہوا ہے جن کی طرف حدیث اشارہ کرتی ہے اور چونکہ اس گرہن کے وقت میں مہدی معہود ہونے کا مدعی کوئی زمین پر بجز میرے نہیں تھا اور نہ کسی نے میری طرح اس گرہن کو اپنی مہدویت کا نشان قرار دیکر صدہا اشتہار اور رسالے اُردو اور فارسی اور عربی میں دنیا میں شائع کئے اِس لئے یہ نشانِ آسمانی میرے لئے متعین ہوا۔



 دوسری اس پر دلیل یہ ہے کہ با۱۲ رہ برس پہلے اِس نشان کے ظہور سے خدا تعالیٰ نے اِس نشان کے بارے میں مجھے خبر دی تھی کہ ایسا نشان ظہور میں آئے گا۔ اور وہ خبر براہین احمدیہ میں درج ہو کر قبل اس کے جو یہ نشان ظاہر ہو لاکھوں آدمیوں میں مشتہر ہو چکی تھی۔



اور بڑا افسوس ہے کہ ہمارے مخالف سراسر تعصب سے یہ اعتراض کرتے ہیں۔ اوّل یہ کہ حدیث کے لفظ یہ ہیں کہ چاند گرہن پہلی رات میں ہوگا اور سُورج گرہن بیچ کے دن میں مگر ایسا نہیں ہوا یعنی اُن کے زعم کے موافق ’’چاند گرہن شبِ ہلال کو ہونا چاہئے تھا جو قمری مہینہ کی پہلی رات ہے اور سُورج گرہن قمری مہینہ کے پندرھویں دن کو ہونا چاہئے تھا جو مہینہ کا بیچواں دن ہے۔



 مگر اس خیال میں سراسر ان لوگوں کی نا سمجھی ہے کیونکہ دنیا جب سے پیدا ہوئی ہے چاند گرہن کے لئے تین راتیں خدا تعالیٰ کے قانون قدرت میں مقرر ہیں یعنی تیرھویں چودھویں پندرھویں اور چاند گرہن کی پہلی رات جو خدا کے قانونِ قدرت کے مطابق ہے وہ قمری مہینے کی تیرھویں رات ہے اور سورج کے گرہن کے لئے تین دن خدا کے قانون قدرت میں مقرر ہیں۔ یعنی قمری مہینے کا ستائیسواں اٹھائیسواں اور انتیسواں دن۔ 



اور سورج کے تین دن گرہن میں سے قمری مہینہ کے رُو سے اٹھائیسواں دن بیچ کا دن ہے۔ سو ا نہیں تاریخوں میں عین حدیث کے منشاء کے موافق سورج اور چاند کا رمضان میں گرہن ہوا۔ یعنی چاند گرہن رمضان کی تیرھویں رات میں ہوا اور سورج گرہن اسی رمضان کے اٹھائیسویں دن ہوا۔



 اور عرب کے محاورہ میں پہلی رات کا چاند قمر کبھی نہیں کہلاتا بلکہ تین دن تک اُس کا نامؔ ہلال ہوتا ہے اور بعض کے نزدیک سات دن تک ہلال کہلاتا ہے۔



 دوسرا یہ اعتراض ہے کہ اگر ہم قبول کر لیں کہ چاند کی پہلی رات سے مُراد تیرھویں رات ہے اور سورج کے بیچ کے دن سے مُراد اٹھائیسواں دن ہے تو اس میں خارق عادت کونسا امر ہوا کیا رمضان کے مہینہ میں کبھی چاند گرہن اور سورج گرہن نہیں ہوا تو اِس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ رمضان کے مہینہ میں کبھی یہ دونوں گرہن جمع نہیں ہوئے بلکہ یہ مطلب ہے کہ کسی مُدعی رسالت یا نبوت کے وقت میں کبھی یہ دونوں گرہن جمع نہیں ہوئے جیسا کہ حدیث کے ظاہر الفاظ اِسی پر دلالت کر رہے ہیں۔



 اگر کسی کا یہ دعویٰ ہے کہ کسی مدعی نبوت یا رسالت کے وقت میں دونوں گرہن رمضان میں کبھی کسی زمانہ میں جمع ہوئے ہیں تو اس کا فرض ہے کہ اس کا ثبوت دے۔



 خاص کر یہ امر کس کومعلوم نہیں کہ اسلامی سن یعنی تیرہ سو برس میں کئی لوگوں نے محض افترا کے طور پر مہدی موعود ہونے کا دعویٰ بھی کیا بلکہ لڑائیاں بھی کیں۔ مگر کون ثابت کر سکتا ہے کہ اُن کے وقت میں چاند گرہن اور سورج گرہن رمضان کے مہینہ میں دونوں جمع ہوئے تھے۔ اور جب تک یہ ثبوت پیش نہ کیا جائے تب تک بلا شبہ یہ واقعہ خارق عادت ہے کیونکہ خارق عادت اسی کو توکہتے ہیں کہ اس کی نظیر دنیا میں نہ پائی جائے



اور صرف حدیث ہی نہیں بلکہ قرآن شریف نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ دیکھو آیت



وَخَسَفَ الْقَمَرُۙ ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُۙ 



تیسرا یہ اعتراض پیش کیا جاتا ہے کہ یہ حدیث مرفوع متصل نہیں ہے صرف امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کا قول ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ائمہ اہل بیت کا یہی طریق تھا کہ وہ بوجہ اپنی وجاہت ذاتی کے سلسلہ حدیث کو نام بنام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانا ضروری نہیں سمجھتے تھے ان کی یہ عادت شائع متعارف ہے چنانچہ شیعہ مذہب میں صدہا اسی قسم کی حدیثیں موجود ہیں اور خودامام دارقطنی نے اس کو احادیث کے سلسلہ میں لکھا ہے



 ماسوا اس کے یہ حدیث ایک غیبی امر پر مشتمل ہے جو تیرہ سو برس کے بعد ظہور میں آگیا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس وقت مہدیؔ موعود ظاہر ہوگا اُس کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند گرہن تیرھویں رات کو ہوگا اور اسی مہینہ میں سورج گرہن اٹھائیسویں دن ہوگا اور ایسا واقعہ کسی مدعی کے زمانہ میں بجز مہدی معہود کے زمانہ کے پیش نہیں آئیگا



 اور ظاہر ہے کہ ایسی کھلی کھی غیب کی بات بتلانا بجز نبی کے اور کسی کا کام نہیں ہے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے  یعنی خدا اپنے غیب پر بجز برگزیدہ رسولوں کے کسی کو مطلع نہیں فرماتا پس جبکہ یہ پیشگوئی اپنے معنوں کے رو سے کامل طور پر پوری ہو چکی تو اب یہ کچے بہانے ہیں کہ حدیث ضعیف ہے یا امام محمد باقر کا قول ہے۔



 بات یہ ہے کہ یہ لوگ ہر گز نہیں چاہتے کہ کوئی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری ہو یا کوئی قرآن شریف کی پیشگوئی پوری ہو۔ دنیا ختم ہونے تک پہنچ گئی مگر بقول اُن کے اب تک آخری زمانہ کے متعلق کوئی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ اور اس حدیث سے بڑھ کر اور کونسی حدیث صحیح ہوگی جس کے سر پر محدثین کی تنقید کا بھی احسان نہیں بلکہ اُس نے اپنی صحت کو آپ ظاہر کرکے دکھلا دیا کہ وہ صحت کے اعلیٰ درجہ پر ہے۔*



خدا کے نشانوں کو قبول نہ کرنا یہ اور بات ہے ورنہ یہ عظیم الشان نشان ہے جو مجھ سے پہلے ہزاروں علماء اور محدثین اس کے وقوع کے اُمید وار تھے اور منبروں پر چڑھ چڑھ کر اور رو رو کر اس کو یاد دلایا کرتے تھے چنانچہ سب سے آخر مولوی محمد لکھوکے والے اسی زمانہ میں اسی گرہن کی نسبت اپنی کتاب احوال الآخرت میں ایک شعر لکھ گئے ہیں جس میں مہدی موعود کا وقت بتایا گیا ہے اور وہ یہ ہے:



تیرھویں چند ستیہویں ژ سورج گرہن ہو سی

 اُس سالے اندر ماہ رمضانے لِکھیا ہک روایت والے


 پھر دوسرے بزرگ جن کا شعر صدہا سال سے مشہور چلا آتا ہے۔ یہ لکھتے ہیں:



 در۱۳۱۱سنِ غاشی ہجری دو قِران خواہدبود

 از پئے مہدی و دجّال نشان خواہدبود


 یعنی چو۱۳۱۱ دھویں صدی میں جب چاند اور سُورج کا ایک ہی مہینہ میں گرہن ہوگا تب وہ مہدی معہود اوردجّال کے ظہور کا ایک نشان ہوگا۔ اِس شعر میں ٹھیک سن کسوف و خسوف درج ہوا ہے۔




 خدا تعالیٰ نے مختصر لفظوں میں فرما دیا کہ آخری زمانہ کی نشانی یہ ہے کہ ایک ہی مہینہ میں شمس اور قمر کے کسوف خسوف کا اجتماع ہوگا اور اسی آیت کے اگلے حصہ میں فرمایا کہ اس وقت مکذب کو فرار کی جگہ نہیں رہے گی جس سے ظاہر ہے کہ وہ کسوف خسوف مہدی معہود کے زمانہ میں ہوگا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ وہ کسوف خسوف خدا کی پیشگوئی کے مطابق واقع ہوگا اس لئے مکذبوں پر حجت پوری ہو جائے گی۔منہ 



کتاب حقیقتہ الوحی
روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحات ۲۰۲ تا ۲۰۵



...................................................................................................................................................................


۵:دینی مسائل اور انکا حل

ارشاد مبارک حضرت مجدد اعظم و امام الزمان
مرزا غلام احمد قادیانی رحمتہ اللہ علیہ  

شرطی طلاق


" اگر شرط ہو کہ فلاں بات ہو تو طلاق ہے اور وہ بات ہو جائے تو پھر واقعی طلاق ہوجاتی ہے ۔جیسے کوئی شخص کہے کہ اگر فلاں پھل کھاوں تو طلاق ہے اور پھر وہ پھل کھا لے تو طلاق ہوجاتی ہے  "

البدر ۱۲ جون ۱۹۰۳ ء ص۱۲۶
...................................................................................................................................................................


۶:پیغامِ امیر قومؒ
اپنے گھر کےاندر تبلیغ میں کامیابی 
گھر سے باہر تبلیغ میں کامیابی کی ضمانت ہے 

" ضرورت ہے کہ ہم میں تھوڑی سی حرکت ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو دماغ دیا ہے ۔ اس میں اچھی اچھی تجویزیں آتی رہتی ہیں ۔ اگر کسی انسان کو کسی قسم کا فکر ہو، تو اسکو سوچتے سوچتے اچھی بات سوجھ سکتی ہے ۔ پچھلے مہینہ میں نے آپ لوگوں میں لفافے تقسیم کئے تھے جن سے یہ مقصود تھا کہ جماعت کے اندر کوئی حرکت پیداہو۔ وہ اپنے گھر کے اندر تبلیغ شروع کریں ۔ میں یہ بتلانا چاہتا ہوں کہ تجویز میری نہیں بلکہ میری بیوی کی ہے ۔


اپنے گھر کے اندر تبلیغ کرنا بہت آسان بھی ہے اور بہت مشکل بھی ۔ جس شخص کے اندر کوئی درد اور تڑپ ہے، اوروہ اپنے گھر میں کوئی اچھا نمونہ دکھلا سکتا ہے، اسکے لئے اپنے گھر کے اندر تبلیغ آسان ہے ۔کیونکہ اسکا بھائی اسکی بیوی اسکے بیٹے جانتے ہیں کہ اسکے اعمال و افعال نیک ہیں ۔ یہ کسی اچھے کام کےلئے کوشاں رہتا ہے ۔ انکو سمجھانا اور مقصد بتلانا آسان ہوتا ہے کہ ہم احمدی یہ چاہتے ہیں ۔ اور یہ کام کر رہے ہیں ۔ مگر کسی غیر کو جو آپ سے ناواقف ہو اسکو سمجھانا مشکل ہوتا ہے ۔کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ آپ کے اعمال و افعال کیسے ہیں ۔



اگر آپ سچے احمدی ہیں اور آپکو دین کی فکر ہے تو لازمی طور پر آپکے خاندان کے ہر ایک فرد کو پتہ ہوگا۔ لیکن اگر کسی شخص میں خود قوت عمل موجود نہیں ہے اور وہ اپنے متعلقین اور افراد خاندان کے سامنے کوئی اچھا نمونہ پیش نہیں کرتا، تو اسکے لئے گھر کے اندر تبلیغ کرنا  بہت مشکل ہے ۔ اگر آپ اپنے گھر کے اندر تبلیغ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ،تو پھر باہر بھی کامیابی کے سے تبلیغ کر سکیں گے ۔ "

پیغام صلح۲۷ مارچ ۱۹۳۶ء
خطبات مولانا محمدعلیؒ جلد ۱۱ صفحہ ۱۷، ۱۸


...................................................................................................................................................................

۷: عقائد حضرت مولانا محمد علی ؒ 
انکی اپنی قلم سے 

تبدیلی عقیدہ کے ناپاک الزام پر حلف
عقیدہ کس نے بدلا ؟
قادیانی جماعت کے پیشواء ثانی اور ہمنواوں نے 
یا جماعت احمدیہ لاہور نے؟



میرا عقیدہ دربارہ نبوت مسیح موعودؑ کیاتھا؟ میں نے اسکو ابتدائے اختلاف ہی میں کھول کر بیان کردیا تھا ۔میں پہلے بھی اسی پر قائم تھا، اب بھی اسی پر قائم ہوں اور انہیں الفاظ میں پھر اپنے عقیدہ کو نقل کرتا ہوں 




"میں یہ مانتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ شرعی اصطلاح میں نبی اور رسول نہ تھے ۔یعنی نبی اس لئے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ پر غیب کے اخبار ظاہر کرتا تھا اور رسول اس لئے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مامور کر کے اصلاح کےلئے بھیجا تھا ۔

یعنی آپ ان معنوں میں نبی اور رسول تھے جن معنوں میں اس امت کے دوسرے مجدد بھی نبی اور رسول کہلا سکتے ہیں "
......................

"اس امت کے دوسرے مجددوں پر آپؒ   کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپؒ   کی آمد کے متعلق صریح پیشگوئیاں موجود ہیں ۔۔۔۔ پھر جس عظیم الشان فتنہ کی اصلاح کےلئے آپکو ؒ بھیجا گیا، دوسرے کسی مجدد کو اتنا عظیم الشان کام سپرد نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔


......................

ایسا ہی آپکوؒ کو جو علم کلام دیا گیا وہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس کو لیکر مسلمان کل مذاہب پر غالب آ سکتے ہیں ، دوسرے کسی مجدد کو ایسا علم کلام نہیں دیا گیا ۔"


......................
"میں حقیقی نبوت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم یقین کرتا ہوں ۔آپؐ    کے بعد نہ کوئی پرانا نبی واپس آئے گا نہ کوئی نیا نبی مبعوث ہوگا"

منقول از میرے عقائد، مطبوعہ ۳۳ اگست ۱۹۱۴ء



......................

"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر قسم اٹھاتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ میرے علم میں ۱۹۰۱ ء سے لیکر ۱۹۰۸ء تک حضرت مسیح موعودؑ کا یہی عقیدہ تھا کہ انکا نہ ماننے والا بھی مسلمان اور دائرہ اسلام میں ہے اور انکا منکر کافر اور دائرہ اسلام سے خارج نہیں اور میرا بھی یہی عقیدہ ۱۹۰۱ء سے لیکر آج تک بربنائے عقیدہ حضرت مسیح موعودؑ ہے "

پیغام صلح ۔لاہور۔۲۱ستمبر ۱۹۴۴



......................

"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اس بات پر حلف اٹھاتا ہوں کہ میرا عقیدہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب قادیانی مجدد اور مسیح موعودؑ ہیں مگر نبی نہیں اور نہ انکے انکار سے کوئی شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے 
اور یہی عقیدہ حضرت مرزا صاحب کا تھا



اے خدا اگر میں نے تیر نام لیکر اس قسم کے کھانے میں جھوٹ بولا ہے تو تو اپنی طرف سے ایسی عبرت ناک سزا مجھ پر بھیج جس میں انسانی ہاتھ کا کوئی دخل نہ ہو اور جس سے دنیا سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھا کرمخلوق خدا کو دھوکہ دینے والوں پر خدا تعالیٰ کی گرفت کتنی سخت اور درد ناک ہوتی ہے "


پیغام صلح ۔لاہور۔۱۱دسمبر ۱۹۴۶



......................

"ہم اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ ۱۹۰۱ ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دعوی میں تبدیلی کی"

ستر بزرگان لاہور کا حلف

......................


......................

حضرت مولانا نور الدینؒ کا عقیدہ
انکی اپنی قلم سے 

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ


دل چیر کر دیکھا یا دکھانا انسانی طاقت سے باہر ہے ۔قسم پر کوئی اعتبار کرے تو واللہ العظیم کے برابر کوئی قسم مجھے نظر نہیں آتی۔نہ آپ میرے ساتھ میری موت کے بعد ہونگے نہ کوئی اور میرے ساتھ سوائے میرے ایمان و اعمال کے ہوگا۔پس یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش ہونے والا ہے ۔
میں مرزا صاحب کو مجدد اس صدی کا یقین کرتا ہوں ۔میں انکو راستباز مانتاہوں ۔
حضرت محمد الرسول اللہ النبی العربی المکی المدنی خاتم النبیین کا غلام اور اسکی شریعت کا بدل خادم مانتا ہوں اور مرزا خود اپنے آپکو جاں نثار غلام نبی عربی محمدؐ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن مناف  کامانتے تھے 



نبی کے لغوی معنی پیش از وقت اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر خبر دینے والا ہم لوگ یقین کرتے ہیں نہ شریعت لانے والا۔




مرزا صاحب اور میں خود جو شخص ایک نقطہ بھی قرآن شریف کا اور شریعت محمدؐ رسول کا نہ مانے، میں اسے کافر اور لعنتی اعتقاد کرتا ہوں ۔




یہی میرا اعتقاد ہے اور یہی میرے نزدیک مرزا غلام احمد کا تھا ۔

کوئی رد کرے یا نہ مانے یا منافق کہے اس کا معاملہ حوالہ بخدا۔

نورالدین بقلم خود 
۲۲ اکتوبر  ۱۹۱۰ء 

......................

قادیانی جماعت کے پیشواء
مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کا سابقہ عقیدہ
خود انکی اپنی قلم سے 


"اس آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپؐ    کے بعد کوئی شخص نہیں آئے گا جس کو نبوت کے مقام پر کھڑا کیا جائے اور وہ آپؐ    کی تعلیم کو منسوخ کر دے اور نئی شریعت جاری کر دے ۔بلکہ جسقدر 

اولیاء اللہ 
ہونگے  اور متقی اور پرھیز گار لوگ ہونگے سب کو آپؐ   کی غلامی میں ہی ملے گیا جو کچھ ملے گا ۔
اس طرح خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ
 آپؐ    کی نبوت نہ صرف اس زمانہ کےلئے ہے بلکہ
آئندہ بھی کوئی نبی نہیں آئے گا"

تشحیذ الاذہان بابت اپریل ۱۹۱۰ء 


......................


قادیانی جماعت کے ھیڈ 

مولوی محمد سرور شاہ صاحب کا سابقہ عقیدہ


"لفظ نبی کے معنی اپنے مصدروں کے لحاظ سے دو ہیں ۔

اول اپنے خدا سے اخبار غیب پانے والا 
دوئم عالی مرتبہ شخص ۔جس شخص کو اللہ تعالیٰ بکثرت شرف مکالمہ سے ممتاز کرے اور غیب کی خبروں پر مطلع کرے ، وہ نبی ہے 



اس رنگ میں میرے نزدیک تمام مجددین سابق مختلف مدارج کے انبیاء گزرے ہیں "

بدر مورخہ ۱۶ فروری ۱۹۱۱ء 


......................

مفتی محمد صادق صاحب کا سابقہ عقیدہ 

اس کو عربی لغت میں نبی کہتے ہیں 



"شبلی نے دریافت کیا کہ کیاہم لوگ مرزا صاحب کونبی مانتے ہیں ؟

میں نے عرض کیا کہ ہمارا عقیدہ اس معاملہ میں دیگر مسلمانوں کی طرح ہے کہ آنحضرت صلعم خاتم النبیین ہیں ۔
آپکے بعد کوئی دوسرا نبی آنیوالانہیں ۔نہ نیا نہ پرانا ۔
ہاں مکالمات الٰہیہ کا سلسلہ برابر جاری ہے وہ بھی آنحضرت صلعم کے طفیل آپؐ    سے فیض حاصل کر کے اس امت میں ایسے آدمی ہوتے رہے جنکو الہام الٰہی سے مشرف کیا گیا اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے ۔



چونکہ حضرت مرزا صاحب بھی الہام الہی سے مشرف ہوتے رہے اور الہام الٰہی کے سلسلہ میں آپکو خدا تعالیٰ نے بہت سی آئندہ کی خبریں بطور پیشگوئی کے بتلائی تھیں جو پوری ہوتی رہیں اس واسطے مرزا صاحب ایک پیشگوئی کرنے والے تھے اور اسکو 


عربی لغت میں نبی کہتے ہیں "
بدر۔جلد نمبر ۹ ، ۵۱/۵۲



......................

۸:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں 
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)

ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام

"نبوت کا دعوی نہیں بلکہ محدثیت کا دعوٰی ہے جو خدا تعالیٰ کےحکم سے کیا گیاہے"

"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "

" یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے؟"

روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹

......................

"میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اورنبی کے میری الہام میں میری نسبت خدا تعالٰی کی طرف سے بے شک ہیں  لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں اور جیسے یہ محمول نہیں ایسا ہی نبی کر کے پکارنا  جو حدیثوں میں مسیح موعودؑ کےلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔
 یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "

سراج منیر،صفحہ ۳
......................
"سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں ۔ آنے والے مسیح موعودؑ  کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویؐ سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور معمولی محاوہ مکالمات الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا؟"
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"
......................

یہ بھی یاد رہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے"
روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209



......................

"سمیت نبیا من اللہ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ"
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر 


روحانی خزائن جلد 22 صفحہ  689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65) 
......................
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب
 انکے اپنے اشعار میں 

ما مسلمانیم از فضلِ خدا 
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا

اندریں دیں آمدہ از مادریم 

ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم

آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست

بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست

یک قدم دوری ازاں روشن کتاب

نزد ماکفر است و خسران و تباب

آں رسولے کش محمدؐ ہست نام

دامنِ پاکش بدستِ ما مدام

مہرِ اوباشیرشداندربدن

 جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن 

ہست اوخیرالرسل خیرالانام

ہر نبوت را بروشد اختتام

(کتاب سراج منیر، ضمیمہ صفحہ ز)
۹:
 ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف

اس ہفتہ کی کتاب

 ایک ضروری تجویز

بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین 
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

No comments :

Post a Comment