روزنامہ مبلغ (آنلائن)
بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت
حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
بدھ۔۳ ستمبر ۲۰۱۴ء
۷ ذیقعد ۱۴۳۵ ہجری
شمارہ نمبر:۲۲
Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com
اپ ڈیٹ
بلاگ پر نیا اضافہ
احباب جماعت احمدیہ لاہور کو یہ جان کر از حد خوشی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس بلاگ کے آڈیو ویڈیو سیکشن میں خطباتِ حضرت مولانا محمدعلیؒ کی آڈیو ریکارڈنگز کی اشاعت کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔خطبات کو باقاعدہ کیٹیگرائزڈ(categorized) کیا جارہا ہے جسکےلئے متعلقہ بلاگ پر سیلیکٹ کیٹیگری(select category) کا آپشن موجود ہے ۔علاوہ ازیں کسی خاص خطبہ کی تلاش کےلئے سرچ کا آپشن بھی موجود ہے ۔
براہ کرم آڈیو ویڈیو سیکشن کو وزٹ فرمائیں اور اس سلسلہ کو بہتر سے بہتر بنانے کےلئے ہمیں اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ فرمائیں ۔
جزاکم اللہ تعالیٰ خیرا کثیرا
۱:کلامِ الٰہی
قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا ۖ إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُهَا مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ
الااعراف: 128
ترجمہ:۔ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اللہ سے مدد مانگواور صبر کرو۔زمین اللہ کی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اسکا وارث بناتا ہے اور اچھا انجام متقیوں کےلئے ہے
تفسیر:
اگر یہ سچ ہے کہ آج ہماری قوم کو بالکل وہی حالات پیش آئے ہیں جو بنی اسرائیل کو فرعون کے ماتحت پیش آئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے جو حضرت موسیؑ کی زبان سے علاج بتایا ہے وہ ہماری مشکلات کا علاج ہے اور وہ علاج کیا ہے ؟ استعینوا باللہ وا لصبرو ا۔ اللہ تعالیٰ کی مدد چاہنا اور صبر اختیار کرنا، آج کل کے لیڈروں کی نظر میں یہ ایک لغو سے بات ہے ۔وہ اس طرف توجہ نہیں کرتے انکو اپنی قوت بازو پر بھروسہ ہے کہ ہم اس حاکم قوم کو عدم تعاون سے مار لیں گے، اور اگرعدم تعاون سے یہ قوم نہ مری تو پھر ہم تلوار اٹھائیں گے ۔
خدا کے کلام کی تصریح کے باوجود ان باتوں کی طرف جانا عمداً قوم کو ہلاکت میں ڈالنا ہے ۔فرعون کی اسقدر زیادتیوں کے باوجود، بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کرنے کے باوجود، خدا کی عبادت سے روکنے کے باجود، بنی اسرائیل کو جو ایک محکوم قوم تھی، یہ حکم نہیں دیا جاتا کہ تم فرعون کے خلاف جنگ کرو۔بلکہ یہ حکم دیا جاتا ہے کہ اللہ کی مدد چاہو اور صبر کرو۔
یہی علاج آج ہماری مشکلات کا تھا ۔ہم بنی اسرائیل کی طرح دوسری قوم کی غلامی میں ہیں ۔اس ذلت کی حالت سے ہم حاکم قوم سے جنگ کر کے نہیں نکل سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر کے، خدا کے آگے گر کر اور اپنی کمزوری کا علاج اللہ تعالیٰ کی قوت کو سمجھ کر نکل سکتے ہیں ۔
قرآن کریم کا ایک لفظ بھی اس بات کی تائید میں پیش نہیں کیا جاسکتا کہ محکوم ہو کر حاکم کے ساتھ جنگ کرنے کی اجازت دی جائے اور درحقیقت یہ جنگ نہ ہوگی، خود کشی ہوگی۔
بنی اسرائیل کے ذکر میں مسلمانوں کی مشکلات کا علاج
قرآن کریم نے جن گزشتہ واقعات کو بیان کیا ہے ان سب میں اور بالخصوص بنی اسرائیل کے ذکر میں اسلام کی تاریخ لکھی ہوئی ہے ۔جو کچھ حالت بنی اسرائیل کو پیش آئی وہی مسلمانوں کو پیش آنے والی تھی ۔ اس لئے بنی اسرائیل کےواقعات کا ذکر کر کے جو انکو حضرت موسیٰ ؑ کی معرفت علاج بتایا ہے وہ مسلمانوں کی مشکلات کا علاج ہے ۔
بنی اسرائیل ایک دوسری قوم کی غلامی میں تھے اور دوسری قوم ان پر حکمران تھی ۔حاکم قوم انکو روز بروز کمزور کرتی چلی جاتی تھی اور ایسی تدابیر انکے متعلق اختیار کرتی تھی کہ جن سے انکی قومی زندگی مٹتی چلی جائے ۔سب ذلت کے کام ان سے لئے جاتے تھے ۔ان کے بیٹوں کو قتل کیا جاتا اور عورتوں کو زندہ رکھا جاتا تھا تاکہ یہ قوم آہستہ آہستہ فنا ہو جائے ۔
آج یہی نقشہ مسلمانوں کا نظر آتا ہے ۔صرف اسی قدر فرق ہے جو حالات زمانہ سے پیدا ہونا لازم تھا۔آج مسلمان عموماً ساری دنیا میں اور بالخصوص اس ملک ہند میں ایک دوسری قوم کی غلامی میں ہیں۔وہ دوسری قوم ان پر حکمران ہے اور حکومت کی تدابیر اس قدر مظبوط ہیں کہ محکوم قوم انکا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔محکوم قوم کے اعلیٰ درجہ کے جوہر مٹتے چلے جارہے ہیں ۔دنیا کے مال کی خاطر وہ دین ایمان بیچتے چلے جاتے ہیں ۔شجاعت اور مردانگی کا جوہر مفقود ہوتا چلا جاتا ہے ۔دین اسلام کی محبت اور غیرت کم ہوتی چلی جاتی ہے ۔دنیوی شان و شوکت تو مدت سے رخصت ہو چکی ۔جو کچھ باقی رہی تھی اسکا جنگ نے فیصلہ کر دیا ۔ہاں وہاں اگر بیٹوں کو قتل کرتے تھے تو یہاں مجازی طور کا قتل ہے ۔کیونکہ مردانگی اور شجاعت کی اعلی صفات کا مر جانا ، یہی مجازً قوم کے فرزندوں کا قتل ہے ۔
آسائش اور زیبائش جسمانی مال دولت دنیا، دنیا کے ظاہر سامانوں پر فریفتگی یہ وہ زنانہ صفات ہیں جو نستحی نساءھم کے قام مقام ہو رہی ہیں ۔
مگر سوال یہ ہے کہ ان مشکلات کا علاج کیا ہے ؟
اگر یہ سچ ہے کہ آج ہماری قوم کو بالکل وہی حالات پیش آئے ہیں جو بنی اسرائیل کو فرعون کے ماتحت پیش آئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے جو حضرت موسیؑ کی زبان سے علاج بتایا ہے وہ ہماری مشکلات کا علاج ہے اور وہ علاج کیا ہے ؟ استعینوا باللہ وا لصبرو ا۔ اللہ تعالیٰ کی مدد چاہنا اور صبر اختیار کرنا، آج کل کے لیڈروں کی نظر میں یہ ایک لغو سے بات ہے ۔وہ اس طرف توجہ نہیں کرتے انکو اپنی قوت بازو پر بھروسہ ہے کہ ہم اس حاکم قوم کو عدم تعاون سے مار لیں گے، اور اگرعدم تعاون سے یہ قوم نہ مری تو پھر ہم تلوار اٹھائیں گے ۔
خدا کے کلام کی تصریح کے باوجود ان باتوں کی طرف جانا عمداً قوم کو ہلاکت میں ڈالنا ہے ۔فرعون کی اسقدر زیادتیوں کے باوجود، بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کرنے کے باوجود، خدا کی عبادت سے روکنے کے باجود، بنی اسرائیل کو جو ایک محکوم قوم تھی، یہ حکم نہیں دیا جاتا کہ تم فرعون کے خلاف جنگ کرو۔بلکہ یہ حکم دیا جاتا ہے کہ اللہ کی مدد چاہو اور صبر کرو۔
یہی علاج آج ہماری مشکلات کا تھا ۔ہم بنی اسرائیل کی طرح دوسری قوم کی غلامی میں ہیں ۔اس ذلت کی حالت سے ہم حاکم قوم سے جنگ کر کے نہیں نکل سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر کے، خدا کے آگے گر کر اور اپنی کمزوری کا علاج اللہ تعالیٰ کی قوت کو سمجھ کر نکل سکتے ہیں ۔
قرآن کریم کا ایک لفظ بھی اس بات کی تائید میں پیش نہیں کیا جاسکتا کہ محکوم ہو کر حاکم کے ساتھ جنگ کرنے کی اجازت دی جائے اور درحقیقت یہ جنگ نہ ہوگی، خود کشی ہوگی۔
قوم کے ملکی رہنماوں کو اور علمائے اسلام کو یہ چاہیے کہ حالات پیش آمدہ میں اپنی مشکلات کا حل قرآن کریم سے سوچیں ۔ استعانت باللہ اور صبر ہی سے قوم کے اندر وہ جوہر پیدا ہونگے جن سے یہ قوم زندہ رہنے کے قابل بنے گی ۔ رہا ان لوگوں کا سوال جو اس وقت اسلام کے دشمن ہمیں نظر آتے ہیں، اللہ تعالیٰ اس پر بھی قادر ہے کہ انکی ہلاکت کے کوئی اسباب پیدا کردے اور وہ اس پر بھی قادر ہے کہ انکو دشمنان اسلام کے حلقہ سے نکال کر حلقہ بگوشانِ اسلام بنا دے ۔
عَسَى اللَّهُ أَنْ يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِينَ عَادَيْتُمْ مِنْهُمْ مَوَدَّةً ۚ وَاللَّهُ قَدِيرٌ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ
7 الممتحنة
ترجمہ: قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھارے اور ان لوگوں کے درمیان جن کے ساتھ ان میں سے تمھاری دشمنی ہے محبت پیدا کر دے اور اللہ قادر ہے اور اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے
ہمارا فرض یہی ہے کہ ہم اپنی اصلاح کریں اور اسلام کی خوبیوں کو دوسروں کےسامنے کھول کر رکھیں ۔یہی وہ راہ ہے جو حالات پیش آمدہ میں قرآن کریم نے ہمیں صراحت سے بتا دی ہے ۔ جب تک مسلمان اس راہ سے منہ موڑے رہے ہیں ، ذلت اور ادبار کی حالت سے باہر نہیں نکل سکتے
بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ
۲:حدیثِ نبویؐ
حضرت اسامہ بن شریکؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نے آنحضرتؐ سے پوچھا کیا ہم علاج معالجہ کیا کریں تو آپؐ نے فرمایا
بیماری کا علاج ضرور کیا کرو کیونکہ اللہ نے ہر بیماری کےلئے دوا مقرر کی ہے۔کوئی اسے جانتا ہے کوئی نہیں جانتا۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ حرام کو چھوڑ کر ہر دوا ستعمال کرو
سنن ابی داود کتاب الطب باب فی الرجل یتداوی حدیث نمبر ۳۳۵۷
و باب الاودیتہ المکروھات حدیث نمبر ۳۳۷۶
بیماری کا علاج ضرور کیا کرو کیونکہ اللہ نے ہر بیماری کےلئے دوا مقرر کی ہے۔کوئی اسے جانتا ہے کوئی نہیں جانتا۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ حرام کو چھوڑ کر ہر دوا ستعمال کرو
سنن ابی داود کتاب الطب باب فی الرجل یتداوی حدیث نمبر ۳۳۵۷
و باب الاودیتہ المکروھات حدیث نمبر ۳۳۷۶
۳:سیرت خیر البشرؐ
باب چہارم
آفتاب رسالت کے طلوع سے پہلے کا زمانہ
ظھرالفساد فی البر و البحر
(30:الروم:41)
برو بحر میں فساد ظاہر ہو گیا
نوٹ: آج سے حضرت مولانا محمد علیؒ کے اس عظیم الشان شاہکار اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ امی و ابی کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب سیرت خیرالبشر ؐ کو باب وار ترتیب سے سے شائع کیا جائے گا۔انشا للہ
گزشتہ سے پیوستہ
" مرد اور عورت کے وہ مخصوص مقامات جنھیں وحشی سے وحشی قومیں پردہ میں رکھتی ہیں ، انکی ننگی تصویریں پردہ میں رکھتی ہیں، انکی ننگی تصویریں مندروں میں رکھی جاتیں۔ مرد اور عورت انہیں دیکھتے بلکہ انکی عبادت کرتے۔ اعتقادات کے لحاظ سے یہ حالت تھی کہ روئے زمین کی ذلیل سے ذلیل چیز انسان کا معبود سمجھی جاتی جس کے سامنے انسان جھکتا اور اس سے دعائیں کرتا اور اسے اپنے سے بڑھ کر طاقتوں کا مالک مانتا تھا ۔
بھلا ایسی حالت میں علمی تحقیقات اور ترقی کا وجود کیونکر باقی رہ سکتا تھا ۔علمی ترقی صرف اسی حالت میں ہو سکتی ہے جب انسان کو اپنے بلند مرتبہ کا احساس ہو اور وہ اپنے اندر یہ قوت محسوس کر ے کہ وہ روئے زمین کی تمام طاقتوں پر غالب آسکتا اور انہیں اپنے کام میں لگا سکتا ہے ۔ "
جاری ہے
آفتاب رسالت کے طلوع سے پہلے کا زمانہ
ظھرالفساد فی البر و البحر
(30:الروم:41)
برو بحر میں فساد ظاہر ہو گیا
از
حضرت مولانا محمد علی
نوٹ: آج سے حضرت مولانا محمد علیؒ کے اس عظیم الشان شاہکار اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ امی و ابی کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب سیرت خیرالبشر ؐ کو باب وار ترتیب سے سے شائع کیا جائے گا۔انشا للہ
گزشتہ سے پیوستہ
" مرد اور عورت کے وہ مخصوص مقامات جنھیں وحشی سے وحشی قومیں پردہ میں رکھتی ہیں ، انکی ننگی تصویریں پردہ میں رکھتی ہیں، انکی ننگی تصویریں مندروں میں رکھی جاتیں۔ مرد اور عورت انہیں دیکھتے بلکہ انکی عبادت کرتے۔ اعتقادات کے لحاظ سے یہ حالت تھی کہ روئے زمین کی ذلیل سے ذلیل چیز انسان کا معبود سمجھی جاتی جس کے سامنے انسان جھکتا اور اس سے دعائیں کرتا اور اسے اپنے سے بڑھ کر طاقتوں کا مالک مانتا تھا ۔
بھلا ایسی حالت میں علمی تحقیقات اور ترقی کا وجود کیونکر باقی رہ سکتا تھا ۔علمی ترقی صرف اسی حالت میں ہو سکتی ہے جب انسان کو اپنے بلند مرتبہ کا احساس ہو اور وہ اپنے اندر یہ قوت محسوس کر ے کہ وہ روئے زمین کی تمام طاقتوں پر غالب آسکتا اور انہیں اپنے کام میں لگا سکتا ہے ۔ "
جاری ہے
کتاب سیرت خیرالبشرؐ،باب دوئم، صفحہ 18
۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ
نفس لوامہ
ولا اقسم باالنفس اللوامتہ(القیمة: ۳)
یعنی میں اس نفس کی قسم کھاتا ہوں جو بدی کے کام اور ہر ایک بے اعتدالی پر اپنے تئیں ملامت کرتا ہے۔ یہ نفس لوّ امہ انسانی حالتوں کا دوسرا سرچشمہ ہے۔ جس سے اخلاقی حالتیں پیدا ہوتی ہیں اور اس مرتبہ پر انسان دوسرے حیوانات کی مشابہت سے نجات پاتا ہے۔ اور اس جگہ نفس لوّ امہ کی قسم کھانا اس کو عزت دینے کے لئے ہے گویا وہ نفس امّارہ سے نفس لوّ امہ بن کر بوجہ اس ترقی کے جناب الٰہی میں عزت پانے کے لائق ہوگیا۔ اور اس کا نام لوّ امہ اس لئے رکھا کہ وہ انسان کو بدی پر ملامت کرتا ہے اور اس بات پر راضی نہیں ہوتا کہ انسان اپنے طبعی لوازم میں ُ شتر بے مہار کی طرح چلے اور چارپایوں کی زندگی بسر کرے بلکہ یہ چاہتا ہے کہ اس سے اچھی حالتیں اور اچھے اخلاق صادر ہوں اور انسانی زندگی کے تمام لوازم میں کوئی بے اعتدالی ظہور میں نہ آوے اورطبعی جذبات اور طبعی خواہشیں عقل کے مشورہ سے ظہور پذیر ہوں۔ پس چونکہ وہ بری حرکت پر ملامت کرتا ہے۔ اس لئے اس کا نام نفس لوّ امہ ہے یعنی بہت ملامت کرنے والا۔ اور نفس لوّ امہ اگرچہ طبعی جذبات پسند نہیں کرتا بلکہ اپنے تئیں ملامت کرتا رہتا ہے لیکن نیکیوں کے بجالانے پر پورے طور سے قادر بھی نہیں ہو سکتا اور کبھی نہ کبھی طبعی جذبات اس پر غلبہ کر جاتے ہیں۔ تب گر جاتا ہے اور ٹھوکر کھاتا ہے۔ گویا وہ ایک کمزور بچہ کی طرح ہوتا ہے۔ جو گرنا نہیں چاہتا ہے۔ مگر کمزوری کی وجہ سے گرتا ہے۔ پھر اپنی کمزوری پر نادم ہوتا ہے۔ غرض یہ نفس کی وہ اخلاقی حالت ہے۔ جب نفس اخلاقِ فاضلہ کو اپنے اندر جمع کرتا ہے اور سرکشی سے بیزار ہوتا ہے مگر پورے طور پر غالب نہیں آ سکتا۔
کتاب : اسلامی اصول کی فلاسفی
روحانی خزائن، جلد10 صفحہ 317, 318
۵:دینی مسائل اور انکا حل
غیر اسلامی وظائف
شخص نے جو سورہ مزمل کا وظیفہ کیا کرتا تھا اور اب اسکو آوازیں وغیرہ سنائی دیتی ہیں اپنی ان مشکلات کو عرض کیا ۔فرمایا
اب اس شغل کو چھوڑ دو ۔شریعت نے رہبانیت کو اس لئے منع کیا ہے کہ اس سے دماغ پراگندہ ہو جاتا ہے ۔انبیاؑ اس سے مستثنیٰ ہوتے ہیں ۔
مامور من اللہ کی صداقت میں سے اسکے قویٰ بھی ہیں۔ کیونکہ غیر محل پر وہ قوت نہیں دی جاتی اور اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور حکمت کہتے ہیں وضع الشئی فی محلہ ۔پس مامور من اللہ کے قویٰ کی بناوٹ ایک نرالی قوت رکھتی ہے ۔قم قسم کی تلخیان اور مصیبتیں ان پر آتی ہیں مگر خدا کی تسلی کی غذا ان کی زندگی کا موجب ہوتی ہے اور انکے قوی کو ضعیف نہیں ہونے دیتی ۔
الحکم ۲۴ جون ۱۹۰۴ء صفحہ ۲
شخص نے جو سورہ مزمل کا وظیفہ کیا کرتا تھا اور اب اسکو آوازیں وغیرہ سنائی دیتی ہیں اپنی ان مشکلات کو عرض کیا ۔فرمایا
اب اس شغل کو چھوڑ دو ۔شریعت نے رہبانیت کو اس لئے منع کیا ہے کہ اس سے دماغ پراگندہ ہو جاتا ہے ۔انبیاؑ اس سے مستثنیٰ ہوتے ہیں ۔
مامور من اللہ کی صداقت میں سے اسکے قویٰ بھی ہیں۔ کیونکہ غیر محل پر وہ قوت نہیں دی جاتی اور اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور حکمت کہتے ہیں وضع الشئی فی محلہ ۔پس مامور من اللہ کے قویٰ کی بناوٹ ایک نرالی قوت رکھتی ہے ۔قم قسم کی تلخیان اور مصیبتیں ان پر آتی ہیں مگر خدا کی تسلی کی غذا ان کی زندگی کا موجب ہوتی ہے اور انکے قوی کو ضعیف نہیں ہونے دیتی ۔
الحکم ۲۴ جون ۱۹۰۴ء صفحہ ۲
۶:پیغامِ امیر قومؒ
حضرت مولانا محمد علیؒ
سلب ایمان کی حقیقت
حضرت مرزا غلام احمد ؒ جیسے عظیم الشان خادم اسلام سے عداوت
اور حق کی دعوت کا اصول
سلب ایمان کی حقیقت
حضرت مرزا غلام احمد ؒ جیسے عظیم الشان خادم اسلام سے عداوت
اور حق کی دعوت کا اصول
"حضرت مسیح موعودؑ نے لکھا ہے کہ اولیاء اللہ کی دشمنی سلب ایمان کا موجب ہوتی ہے تواسی کا نام سلب ایمان ہے کہ ایمان کی گرمی اور جوش سرد ہوجائے ۔یوں تو مونہہ سے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہتے ہیں لیکن جو اسکا تقاضا ہے وہ پورا نہیں ہوتا۔یہی سلب ایمان ہے ۔
دیکھو کتنا نیک کام ہے خدا کی طرف بلانا ۔
ومن احسن قولاممن دعاالی للہ
اس قدر عظیم الشان اور بلند کام کے ہوتے ہوئے کیوں دلوں میں اس شخص کی عداوت باقی رہ جاتی ہے جس نے ایسے بلند کام کی طرف لوگوں کو بلایا ؟یہ تو ہو سکتا ہے کہ وہ کہیں کہ فلاں بات سمجھ میں نہیں آتی۔یہ بالکل ممکن ہے ۔ہمیں تو قرآن کی بھی بعض باتیں اب تک سمجھ نہیں آئیں ۔لیکن اتنا ہم جانتےہیں کہ اس کے اندر صداقت کے اصول موجود ہیں جو انسان کو کامیابی کے رستہ پر لے جانے والے ہیں ۔
ایسا ہی اگر حضرت مرزا صاحبؒ کی کوئی بات سمجھ نہیں آئی تو نہ سہی ۔مگر انکے اس کام کو دیکھو کہ انھوں نے اتنا عظیم الشان انقلاب پیدا کر دیا کہ وہ مسلمان جو دبتے چلے جاتے تھے مسیحیت کے فتنہ سے ، وہ اب اسکے سامنے سر اونچا کر کے کھڑے ہیں ۔
جس وقت حضرت مرزا صاحبؒ کھڑے ہوئے، صلیب کی چڑھائی زوروں پر تھی ۔بڑے بڑے خاندانی اور مولوی لوگ تثلیث کا شکار ہوئے ۔ مولوی عماالدین، حافظ احمد مسیح اور ایسے ہی کئی اور لوگ عیسائی ہو گئے ۔
آج سے چالیس سال پہلے کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لو ۔کس زور و شور سے مسلمانوں کو مرتد کیا جا رہا تھا ۔لیکن آج اس شخص (حضرت مرزا غلام احمدؒ، ناقل) سے ، جو عیسائیت کے مقابلہ کےلئے کھڑا ہوا نہ صرف یہی کہ انکا حملہ کمزور پڑ گیا ہے، بلکہ اس شخص کی قوت ایمانی کہ وہ کہتا ہے، جس قلعہ سے یہ تثلیث کی فوج تیار ہو کر آئی ہے میں وہاں حملہ کرونگا۔۔جس شخص کے دل میں یہ ایمان اور قوت ہے کہ وہ اس قلعہ کو توڑنے کےلئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے، جہاں سے مسیحیت کا فتنہ آیا، اسکے بہترین خادم اسلام ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے ۔
مگر افسوس کہ اس شخص کو دشمن دین قرار دے رکر دجال اور کیا کیا نام رکھے جاتے ہیں ۔یہاں تک کہ جو شخص ایک کلمہ حق بھی اس جماعت کے متعلق کہہ دے اسکے ساتھ بھی مقاطعت ضروری ہے ۔اسکے متعلق کہیں گے کہ یہ مرزائیت نواز ہے مگر جانتے ہو کہ انکو اپنے اندر لانے اور حق منوانے کا اصلی گر یہی ہے
ادفع بالتی ھی احسن
وہ جو کہتے ہیں انھیں کہنے دو ۔تم نیک باتوں کی طرف انہیں توجہ دلاو اور اس سلسلہ کی خدمات اسلام اور مسیح موعودؑ کی پاکیز ہ باتیں انہیں بتاو۔یہی ایک طریق ہے جو خدا نے بتایا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے اختیار کیا"
دیکھو کتنا نیک کام ہے خدا کی طرف بلانا ۔
ومن احسن قولاممن دعاالی للہ
اس قدر عظیم الشان اور بلند کام کے ہوتے ہوئے کیوں دلوں میں اس شخص کی عداوت باقی رہ جاتی ہے جس نے ایسے بلند کام کی طرف لوگوں کو بلایا ؟یہ تو ہو سکتا ہے کہ وہ کہیں کہ فلاں بات سمجھ میں نہیں آتی۔یہ بالکل ممکن ہے ۔ہمیں تو قرآن کی بھی بعض باتیں اب تک سمجھ نہیں آئیں ۔لیکن اتنا ہم جانتےہیں کہ اس کے اندر صداقت کے اصول موجود ہیں جو انسان کو کامیابی کے رستہ پر لے جانے والے ہیں ۔
ایسا ہی اگر حضرت مرزا صاحبؒ کی کوئی بات سمجھ نہیں آئی تو نہ سہی ۔مگر انکے اس کام کو دیکھو کہ انھوں نے اتنا عظیم الشان انقلاب پیدا کر دیا کہ وہ مسلمان جو دبتے چلے جاتے تھے مسیحیت کے فتنہ سے ، وہ اب اسکے سامنے سر اونچا کر کے کھڑے ہیں ۔
جس وقت حضرت مرزا صاحبؒ کھڑے ہوئے، صلیب کی چڑھائی زوروں پر تھی ۔بڑے بڑے خاندانی اور مولوی لوگ تثلیث کا شکار ہوئے ۔ مولوی عماالدین، حافظ احمد مسیح اور ایسے ہی کئی اور لوگ عیسائی ہو گئے ۔
آج سے چالیس سال پہلے کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لو ۔کس زور و شور سے مسلمانوں کو مرتد کیا جا رہا تھا ۔لیکن آج اس شخص (حضرت مرزا غلام احمدؒ، ناقل) سے ، جو عیسائیت کے مقابلہ کےلئے کھڑا ہوا نہ صرف یہی کہ انکا حملہ کمزور پڑ گیا ہے، بلکہ اس شخص کی قوت ایمانی کہ وہ کہتا ہے، جس قلعہ سے یہ تثلیث کی فوج تیار ہو کر آئی ہے میں وہاں حملہ کرونگا۔۔جس شخص کے دل میں یہ ایمان اور قوت ہے کہ وہ اس قلعہ کو توڑنے کےلئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے، جہاں سے مسیحیت کا فتنہ آیا، اسکے بہترین خادم اسلام ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے ۔
مگر افسوس کہ اس شخص کو دشمن دین قرار دے رکر دجال اور کیا کیا نام رکھے جاتے ہیں ۔یہاں تک کہ جو شخص ایک کلمہ حق بھی اس جماعت کے متعلق کہہ دے اسکے ساتھ بھی مقاطعت ضروری ہے ۔اسکے متعلق کہیں گے کہ یہ مرزائیت نواز ہے مگر جانتے ہو کہ انکو اپنے اندر لانے اور حق منوانے کا اصلی گر یہی ہے
ادفع بالتی ھی احسن
وہ جو کہتے ہیں انھیں کہنے دو ۔تم نیک باتوں کی طرف انہیں توجہ دلاو اور اس سلسلہ کی خدمات اسلام اور مسیح موعودؑ کی پاکیز ہ باتیں انہیں بتاو۔یہی ایک طریق ہے جو خدا نے بتایا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے اختیار کیا"
پیغامِ صلح ، ۳۰ جنوری ۱۹۴۱ ء
خطبات مولانا محمد علیؒ
جلد ۱۶، اقباس از صفحہ ۲۰، ۲۱
۷:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)
ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام
"نبوت کا دعوی نہیں بلکہ محدثیت کا دعوٰی ہے جو خدا تعالیٰ کےحکم سے کیا گیاہے"
"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "
" یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے؟"
روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹
"میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اورنبی کے میری الہام میں میری نسبت خدا تعالٰی کی طرف سے بے شک ہیں لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں اور جیسے یہ محمول نہیں ایسا ہی نبی کر کے پکارنا جو حدیثوں میں مسیح موعودؑ کےلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔ یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "
سراج منیر،صفحہ ۳
"سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں ۔ آنے والے مسیح موعودؑ کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویؐ سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور معمولی محاوہ مکالمات الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا؟"
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"
یہ بھی یاد رہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے"
روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209
"سمیت نبیا من اللہ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ"
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب
انکے اپنے اشعار میں
ما مسلمانیم از فضلِ خدا
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا
اندریں دیں آمدہ از مادریم
ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم
آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست
بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست
یک قدم دوری ازاں روشن کتاب
نزد ماکفر است و خسران و تباب
آں رسولے کش محمدؐ ہست نام
دامنِ پاکش بدستِ ما مدام
مہرِ اوباشیرشداندربدن
جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن
ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)
ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام
"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "
" یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے؟"
روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹
"میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اورنبی کے میری الہام میں میری نسبت خدا تعالٰی کی طرف سے بے شک ہیں لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں اور جیسے یہ محمول نہیں ایسا ہی نبی کر کے پکارنا جو حدیثوں میں مسیح موعودؑ کےلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔ یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "
سراج منیر،صفحہ ۳
"سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں ۔ آنے والے مسیح موعودؑ کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویؐ سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور معمولی محاوہ مکالمات الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا؟"
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"
یہ بھی یاد رہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے"
روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209
"سمیت نبیا من اللہ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ"
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر
روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65)
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب
انکے اپنے اشعار میں
ما مسلمانیم از فضلِ خدا
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا
اندریں دیں آمدہ از مادریم
ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم
آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست
بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست
یک قدم دوری ازاں روشن کتاب
نزد ماکفر است و خسران و تباب
آں رسولے کش محمدؐ ہست نام
دامنِ پاکش بدستِ ما مدام
مہرِ اوباشیرشداندربدن
جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن
ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام
(کتاب سراج منیر، ضمیمہ صفحہ ز)
ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف
ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف
ایک ضروری تجویز
بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ مزید جن احباب تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
No comments :
Post a Comment