Monday, September 1, 2014

سوموار۔ 1 ستمبر 2014، شمارہ: 20

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِ

روزنامہ مبلغ (آنلائن)


روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان

بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت

 حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ

احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

سواموار۔یکم ستمبر۲۰۱۴ء

۵ ذیقعد ۱۴۳۵ ہجری


شمارہ نمبر:۲۰
Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com

خوشخبری
اپ ڈیٹ

بلاگ پر نیا اضافہ
احباب جماعت احمدیہ لاہور کو یہ جان کر از حد خوشی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس بلاگ کے آڈیو ویڈیو سیکشن میں  خطباتِ حضرت مولانا محمدعلیؒ کی آڈیو ریکارڈنگز کی اشاعت کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔
 خطبات کو باقاعدہ کیٹیگرائزڈ(categorized) کیا جارہا ہے جسکےلئے متعلقہ بلاگ پر سیلیکٹ کیٹیگری(select category) کا آپشن موجود ہے ۔علاوہ ازیں کسی خاص خطبہ کی تلاش کےلئے سرچ کا آپشن بھی موجود ہے ۔

 براہ کرم آڈیو ویڈیو سیکشن کو وزٹ فرمائیں اور اس سلسلہ کو بہتر سے بہتر بنانے کےلئے ہمیں اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ فرمائیں ۔

جزاکم اللہ تعالیٰ خیرا کثیرا





۱:کلامِ الٰہی 


وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

آل عمران: 103

ترجمہ:۔ اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کروجب تم باہم دشمن تھے پھر اس نے تمھارے دلوں میں الفت ڈال دی تو تم اسکی نعمت سے بھائی بھائی ہو گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے تو اس نے تم کو بچا لیا اسی طرح اللہ تمھارے لئے  اپنی باتیں کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاو
تفسیر: 
قرآن میں اتحاد پیدا کرنے کی طاقت 

 اس حصہ آیت میں مسلمانوں کو یہ توجہ دلائی ہے کہ ہم نے جو تم کو حبل اللہ یعنی قرآن کو اپنے اتحاد کی بنیاد قرار دینے کو کہا ہے تو یہ اس لئے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی طاقت رکھی ہے کہ یہ سخت سےسخت دشمنوں کو بھی بھائی بھائی بنا دیتا ہے ۔عرب کی قومیں اور قبیلے جن کی دشمنیوں پر صدیاں گزر کر ایک دوسرے کی عداوت انکے خونوں میں داخل ہو چکی تھی اور دن رات وہ ایک دوسرے سے جنگ پر آمادہ رہتی تھیں گویا آگ کے گڑھے میں گر کر بالکل بھسم ہو جانے کو تھیں بیس سال کے عرصہ میں قرآن کریم نے ان کے اندر ایک ایسا اتفاق اور اخوت پیدا کر دی کہ جسکی نذیر دنیا کی تاریخ میں نہیں۔
پھر کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ایسی پاک کتاب کے پاس ہوتے ہوئے مسلمان ایک دوسرے کی تخریب کے در پے ہیں اور ایک دوسرے کو ہی دنیا سے نابود کرنا چاہتےہیں ۔پہلے حصہ میں دعوی تھا کہ قرآن کریم تم میں اتحاد پیدا کر سکتاہے ۔دوسرے حصہ میں دلیل ہے کہ عرب جیسی جنگجو قوموں کے اندر اس نے اتحاد پیدا کر کے دکھایا۔

بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ


۲:حدیثِ نبویؐ

حضرت ابو ھریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"احسان کے معنی یہ ہیں کہ تو خدا کی عبادت ایسے رنگ میں کرے کہ صرف خدا ہی تجھے نہیں دیکھ رہا بلکہ تو خود بھی خدا کو دیکھ رہا ہے اور اگر ایسا نہیں تو کم از کم اسقدر احساس تو ہو کہ خدا تجھے دیکھ رہا ہے "
صحیح بخاری کتاب الایمان باب سوال جبرائیل حدیث نمبر : 48


۳:سیرت خیر البشرؐ
 باب چہارم
آفتاب رسالت کے طلوع سے پہلے کا زمانہ 
ظھرالفساد فی البر و البحر
(30:الروم:41)
برو بحر میں فساد ظاہر ہو گیا
از
 حضرت مولانا محمد علی 

نوٹ: آج سے حضرت مولانا محمد علیؒ  کے اس عظیم الشان شاہکار اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ امی و ابی کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے  عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب سیرت خیرالبشر ؐ کو باب وار ترتیب سے سے شائع کیا جائے گا۔انشا للہ


" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے تمام دنیا پر جہالت کی تاریکی چھائی ہوی تھی ۔نہ صرف دنیا کی علمی اور اخلاقی ترقی رک چکی تھی بلکہ ان دونوں کے لحاظ سے سارا عالم اسفل سافلین کی حالت تک پہنچا ہوا تھا ۔ وہ چراغ جو مختلف ملکوں اور قوموں میں خدا کے فرستادوں نے اپنے اپنے وقت پر جلائے تھے سب کے سب بجھ چکے تھے اور کسی میں وہ نور باقی نہ رہا تھا جو مخلوق کےلئے موجب ہدایت ہوتا۔ساری دنیا میں کوئی ملک یا مذہب ایسا نہ تھا جس میں توحید خالص کا عقیدہ باقی رہ گیا ہو ۔ہندو مذہب میں تینتیس کروڑ دیوتا بن چکے تھے ۔بدھ مذہب میں خدا کی ہستی کا ہی انکار ہو گیا تھا ۔زرتشت کے مذہب میں دو خداوں کی حکومت تھی ۔عیسائیت خدائے واحدہ کے عقیدہ کو کھو کر تثلیث کے کامل تصرف میں تھی۔یہودی مذہب جس نے اپنی ساری عملی کمزوریوں کے ساتھ توحید کو عقیدہ کو ایک مدت تک قائم رکھا تھا، عیسائیت کے قدم بقدم چل کر اب عزیز  کو ابن اللہ کے مرتبہ تک پہنچانے لگا۔باقی دنیا میں بھی بت پرستی، توہم پرستی بلکہ ہر ایک من دون اللہ کی پرستش کا دور دورہ تھا خواہ پتھر ہو، درخت یا جانور ۔ زمیں کا کوئی انسان ہو یا آسمان کا کوئی ستارہ۔ توحید کو دنیا بکلی کھو چکی تھی اور اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں دوبارہ توحید کی روشنی نہ لاتے تو دنیا ہمیشہ کےلئے اس اصول سے جو تمام نیکیوں کی جڑ ہے محروم رہ جاتی  "
جاری ہے 

کتاب سیرت خیرالبشرؐ،باب دوئم، صفحہ 17


۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ 
ا ۔یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں ہو گی کہ چالیس۰۴ برس سے پہلے اکثر انسان پر ظلمت کا زمانہ غالب رہتا ہے کیونکہ سات آٹھ برس توطفولیت میں ہی بسر ہوتے ہیں پھر پچیس چھبیس برس تک علمی تحصیلوں میں مشغول رہتا ہے یا لہوولعب میں ضائع کرتا ہے اور پھر اس زمانہ کے بعد بباعث شادی ہونے اور بیوی بچہ ہو جانے کے یا یوں ہی طبعاً دنیا کی خواہشیں اس پر غلبہ کرتی ہیں اور دنیاوی مالوں اور عزتوں کے لئے طرح طرح کی خواہشیں اور امنگیں پیدا ہوتی ہیں اور لذتوں کے پورا کرنے کے لئے خیال افراط تک پہنچ جاتا ہے اور اگر خداتعالیٰ کی طرف رجوع بھی کرے تو دنیا کی آرزوئیں کسی قدر ساتھ ہوتی ہیں۔ اگر دعا بھی کرے تو غالباً دنیا کے لئے بہت کرتا ہے اور اگررووے بھی تو غالباً کچھ دنیا کے اغراض اس میں ملے ہوتے ہیں۔ معاد کے دن پر بہت کمزور ایمان ہوتا ہے اور اگر ہو بھی تو مرنے میں ابھی لمبا عرصہ معلوم ہوتا ہے اور جس طرح کسی نہر کا بند ٹوٹ کر اردگرد کی زمین کو تباہ کرتا چلا جاتاہے اسی طرح نفسانی جذبات کاسیلاب نہایت خطرہ میں زندگی کو ڈال دیتا ہے۔ اس حالت میں و ہ معاد کے باریک باریک امور کا کب قائل ہو سکتا ہے بلکہ دینیات پر ہنستا اور ٹھٹھا کرتا ہے اور اپنی خشک منطق اور بیہودہ فلسفہ کو دکھلاتا ہے ۔ ہاں اگر نیک فطرت ہو تو خدا کو بھی مانتا ہے مگر دل کے صدق اور وفا سے نہیں مانتا بلکہ صرف اپنی کامیابیوں کی شرط سے۔ اگر دنیا کی مرادیں مل گئیں تو خدا کا ورنہ شیطان کا۔ غرض اس جوانی کی عمر میں بہت نازک حال ہوتا ہے اور اگر خدا کی عنایت دستگیری نہ کرے تو جہنم کے گڑھے میں گر جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہی عمر تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ اسی عمر میں انسان اکثر بدنی بیماریاں اور قابل شرم روگ خرید لیتا ہے۔ اسی کچی عمر کی غلطیوں سے کبھی سچے اور غیرمتغیر خدا سے منہ پھیر لیتا ہے ۔ غرض یہ وہ زمانہ ہے جس میں خدا کا خوف کم اور شہوت طالب اور نفس غالب ہوتا ہے اور کسی ناصح کی نہیں سنتا۔ اسی زمانہ کی خطاؤں کا خمیازہ ساری عمر بھگتنا پڑتا ہے ۔ پھر جب چالیس برس تک پہنچتا ہے تو جوانی کے پروبال کچھ کچھ گرنے شروع ہو جاتے ہیں ۔ اب خود ہی ان بہت سی خطاؤں پر نادم ہوتا ہے جن پر نصیحت کرنے والے سرپیٹ کر رہ گئے تھے۔ اور خود بخود نفس کے جوش کم ہوتے چلے جاتے ہیں کیونکہ جسمانی حالت کی رو سے انحطاط عمر کا زمانہ بھی شروع ہو جاتا ہے وہ خون شرانگیز اب کہاں پیدا ہوتا ہے جو پہلے پیدا ہوتا تھا وہ اعضاء کی طاقت اور جوانی کی مستانہ نشاط کہاں باقی رہتی ہے جو پہلے تھی ۔ اب تو تنزل اور گھاٹے کا زمانہ آتاجاتا ہے اور اس پر متواتر ان بزرگوں کی موتیں دیکھنی پڑتی ہیں جو اپنی عمر سے بہت زیادہ تھے بلکہ بعض وقت قضاوقدر سے چھوٹوں کی موتیں بھی کمروں کو توڑتی ہیں اور غالباً اس زمانہ میں والدین بھی قبروں میں جا لیٹتے ہیں اور دنیا کی ناپائیداری کے بہت سے نمونے ظاہر ہو جاتے ہیں اور خداتعالیٰ اس کے سامنے ایک آئینہ رکھ دیتا ہے کہ دیکھ دنیا کی یہ کہانی ہے۔ اور جس کے لئے تو مرتا ہے اس کا انجام یہ ہے۔ تب اپنی گذشتہ غلطیوں کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتا اور ایک بھاری انقلاب اس پر آتا ہے اور ایک نئی دنیا شروع ہوتی ہے بشرطیکہ خمیر میں سعادت رکھتا ہو
کتاب : اسلامی اصول کی فلاسفی
 روحانی خزائن، جلد10 صفحہ 322 الف،ب،ج

۵:دینی مسائل اور انکا حل
حضرت ابو ھریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

نماز میں اگر امام بھول جائے تو مرد سبحان اللہ کہیں اور عورتیں تالی بجائیں 

صحیح بخاری ،کتاب الجمعہ، باب التصفیق للنساء ،حدیث نمبر : 1128




۶:پیغامِ امیر قومؒ
حضرت مولانا محمد علیؒ

دعوت الی اللہ میں کامیابی کاگرُ
غیراحمدی اور قادیانی دوستوں کی سخت کلامی پر ہمارا طرز عمل


"خدا تعالیٰ نے ایک اصول بتایا ہے ان لوگوں کو جو دوسروں کو خدا کی طرف بلاتے ہیں، حق کی دعوت دیتے ہیں اور سچے مذہب کو ان کے آگے پیش کرتےہیں کہ جب انکو دوسروں کی طرف سے بری باتیں سننی پڑیں، سختی کا برتاو ہو تو انہیں اسکو برداشت کر کے اچھی باتیں کہنا چاہیں اور نرمی کا برتاو کرنا چاہیے۔
ان دونوں باتوں کو جمع کرنے سے مقصد یہی ہے ۔پہلے فرماتا ہے کہ دعوت الی اللہ کرنے والے سے بڑھ کر خوبصورت بات اور کسی کی نہیں ہو سکتی ۔پھر فرماتا ہے کہ اس کام کے کرنے میں برا کہا جائے، یا گالی دی جائے اور سختی کی جائے تو اسکا جواب اچھے طریق سے دینا چاہیے۔
یہی طریق ہے جس سے عداوت کی جگہ دوستی پیدا ہو سکتی ہے ۔یہ بڑا ہی مشکل کام ہے ۔وما یلقھا الا الذین صبرو ا و ما یلقھا الا ذو حظ عظیم یہ خوبی پیدا نہیں ہو سکتی مگر ان لوگوں میں، جنکے اندر قوت برداشت ہو اور دوسرے کی سختی کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہوں ۔جس کو یہ حاصل ہو جائے وہ بڑا ہی خوش قسمت ہے۔ بڑا بلند مرتبہ اس نے حاصل کر لیا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت الی اللہ کےکام میں بغیر اسکے کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی ۔ اور جن لوگوں کو تجربہ ہے خدا کی طرف بلانے کا، شائد انکو یہ بھی تجربہ ہو کہ دوسروں کی سختی برداشت کرنے اور سختی کا جواب نرمی سے دینے میں کتنا بڑا فائدہ ہے اور اس طریق کو اختیار کرنا کس قدر مشکل۔ 
قدرتی طور پر جو شخص گالی دیتا ہے، اسکے خلاف ایک جوش پیدا ہوتا ہے اور دل چاہتا ہے کہ اسکاجواب سختی سے دیا جائے ۔اس جذبہ اور جوش کو دبانے کی بڑی تعلیم قرآن کے اندر پائی جاتی ہے ۔ دوسری جگہ فرماتا ہے  "
لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ۚ وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ 
عَزْمِ الْأُمُورِ
(آل عمران: 186)
بڑی بڑی دکھ کی باتیں اور گالیاں سنو گے ، اہل کتاب سے کیا اور مشرکوں سے کیا ۔اس موقع پر اگر تم برداشت اور تقوی سے کام لو، تو یہ بہت بڑا بلند کام ہے ۔ اسی طرح پر اور بھی جگہ جگہ ایسی تعلیم پائی جاتی ہے کہ دکھ اور تکلیف کو برداشت کر کے جو دوسرے کے ساتھ بھلائی کرتا ہے، وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور جو انتقام کرنے کی کوشش کرتاہے، خدا اسکا مدد گار نہیں ہوتا۔
مباحثات میں پڑ کر عموماً انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے، اور آج مسلمانوں کی بالخصوص یہ عادت ہو گئی ہے کہ معمولی معمولی باتوں پر ایک دوسرے کو گالیاں دینا اور برا کہنا انکا شعار ہے ۔ہماری جماعت تو ساری کی ساری مبلغ ہے ۔اس جماعت میں دعوت الی اللہ کسی ایک فرد کا کام نہیں بلکہ ساری جماعت ہی اس کام میں شامل ہے ۔اس لئے اس جماعت کے ہر فرد کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ سختی کا برتاو سن کر نرمی کا برتاو کرے اور حتی الوسع اس بات سے پرھیز کیا جائے جس میں انتقام کا جذبہ پایا جاتا ہے اسی کو صبر کہتے ہیں ۔طبیعت کو ایک برے کام یا بری بات سے روک لینے کا نام ہی صبر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو گروہ اس وقت ہمارے سامنے موجود ہیں۔ دونوں کیطرف سے سختی کا دیکھنا ضروری ہے اور دیکھ رہے ہیں ۔غیر احمدی طبقہ حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق عموماً سخت کلامی سے کام لیتا ہے جو دل کو سخت دکھانے والی ہوتی ہیں ۔دوسری طرف ہمارے قادیانی دوست ہمارے متعلق سخت کلامی کرتے ہیں اور برا بھلا کہتے رہتے ہیں ۔ اس دوسری سختی کو برداشت کرنا اتنا مشکل نہیں، جتنا اپنے امام کے متعلق سخت کلامی کو برداشت کرنا مشکل ہے ۔لیکن جب ہمارے مدنظر یہ ہے کہ ان دونوں جماعتوں کو حق کی طرف بلایا جائے تو دونوں کے متعلق ہمیں یہی طریق اختیار کرنا چاہیے جسکا حکم قرآن کریم نے دعوت الی اللہ کے پاکیزہ کام کے ساتھ کیا ۔عمدہ طریق سے مدافعت کرو۔تمھارے اس طریق کو اختیار کرنے کا یہ طریق ہو گا کہ دشمن بھی دوست بن جائے گا۔اور سچی بات یہ ہے کہ اس کا اثر اپنے اخلاق پر بھی پڑتا ہے ۔جب ایک انسان درشت کلامی کے بالمقابل درشت کلامی سے کام لے ، سختی کا جواب سختی سے دے تو اسکا اثر محدود نہیں رہتا بلکہ اپنے اوپر بھی پڑتا ہے ۔اپنے اخلاق بھی آہستہ آہستہ سخت ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تویہ جو فرمایا کہ  ومن احسن قولا ممن دعا الی اللہ ۔اس میں بتایا کہ دعوت الی اللہ کا کام بے شک خوبصورت کام ہے لیکن اسکے ساتھ یہ بھی ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی طرف بلاتا ہے، اسکی تمام باتیں خوبصورت ہو جاتی ہیں ۔جنگ و جدل اور بحث مباحثہ کے وقت ایک جوش انسان کے اندر ہوتا ہے ۔اس وقت جو شخص اپنی طبیعت پر قابو پا لیتا ہے، وہ بہترین نمونہ اخلاق کا دکھاتا ہے اور اسکی تبلیغ زیادہ اثر پیدا کرتی ہے ۔ 

پیغامِ صلح ، ۳۰ جنوری ۱۹۴۱ ء
خطبات مولانا محمد علیؒ
جلد ۱۶، اقباس از صفحہ ۱۶ تا ۱۹


۷:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں 
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)

ہست اوخیرالرسل خیرالانام

ہر نبوت را بروشد اختتام

"نبوت کا دعوی نہیں بلکہ محدثیت کا دعوٰی ہے جو خدا تعالیٰ کےحکم سے کیا گیاہے"

"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "

" یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے؟"
روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹

"میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اورنبی کے میری الہام میں میری نسبت خدا تعالٰی کی طرف سے بے شک ہیں  لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں اور جیسے یہ محمول نہیں ایسا ہی نبی کر کے پکارنا  جو حدیثوں میں مسیح موعودؑ کےلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔ یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "
سراج منیر،صفحہ ۳

"سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں ۔ آنے والے مسیح موعودؑ  کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویؐ سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور معمولی محاوہ مکالمات الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا؟"
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"

یہ بھی یاد رہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے"

روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209
"سمیت نبیا من اللہ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ"
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر 




روحانی خزائن جلد 22 صفحہ  689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65) 

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب
 انکے اپنے اشعار میں 

ما مسلمانیم از فضلِ خدا 
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا

اندریں دیں آمدہ از مادریم 
ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم

آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست
بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست

یک قدم دوری ازاں روشن کتاب
نزد ماکفر است و خسران و تباب

آں رسولے کش محمدؐ ہست نام
دامنِ پاکش بدستِ ما مدام

مہرِ اوباشیرشداندربدن
 جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن 

ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام

(کتاب سراج منیر، ضمیمہ صفحہ ز)

 ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف


 ایک ضروری تجویز

بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین 
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

No comments :

Post a Comment