شرائط بیعت


وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
آل عمران: 104

"اور چاہیے کہ تم میں سےایک جماعت ہو جو بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکیں اور وہی کامیاب ہونے والے ہیں "


شرائط بیعت

اول:
بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت تک جب تک کہ قبر میں داخل ہو جائے شرک سے مجتنب رہے گا ۔

دوئم:

یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجوراور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہوگا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے۔

سوئم :

یہ کہ بلاناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول صلعم کے ادا کررتا رہے گا اور نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے اور اپنے گناہوں کی معافی اور استغفار کرنے مداومت اختیار کرے گا اور دلی محبت سے اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اسکی حمد اور تعریف کو ہر روز اپنا ورد بنائے گا۔

چہارم:

یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا۔نہ زبان سے، نہ ہاتھ سے، نہ اور کسی طریق طرح سے ۔

پنجم:

یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اور عُسر اور یُسر اور نعمت اور بلا میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضاء ہو گا۔اور ہر ایک ذلت اور دکھ کے قبول کرنے کےلئے اسکی راہ میں تیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ قدم آگے بڑھائے گا۔

ششم:

یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آجائیگا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے اوپر قبول کر لے گا اور قال اللہ و قال الرسول کو اپنی ہر ایک راہ میں دستور العمل قرار دے گا۔

ہفتم:

یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سےزندگی بسر کرے گا۔

ہشتم:

یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنےمال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر ایک عزیز سے زیادہ تر عزیز تر سمجھے گا ۔(دوسرے لفظوں میں دین کو دنیا پر مقدم رکھے گا)

نہم:

یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔

دہم:

اس عاجز (یعنی حضرت مجدد اعظم مرزا غلام احمدؒ، ناقل) سے عقد اخوت محض للہ  باقرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تادم مرگ قائم رہے گا ۔اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو۔

No comments :

Post a Comment