روزنامہ مبلغ (آنلائن)
بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت
حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
ہفتہ۔۲۰ ستمبر ۲۰۱۴ء
۲۴ذیقعد ۱۴۳۵ ہجری
شمارہ نمبر:35
Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com
اپ ڈیٹس
حضرت مولانا محمدعلیؒ کی عظیم شاہکار کتاب
تاریخ خلافت راشدہ
کو باب وار ترتیب کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے
اس ہفتہ کی کتاب
ضرورت مجدد
از حضرت مولانا محمد علیؒ
سب سے آخری سیکشن میں ملاحظہ فرمائیں
۱:کلامِ الٰہی
ترجمہ:۔ وہ لوگ ضرور گھاٹے میں رہے جنھوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا یہاں تک کہ جب (مقررہ) گھڑی ان پر یکایک آجائے گی کہیں گے ، ائے ہم پر افسوس اس پر جو ہم نے اس میں کمی کی۔۔اور وہ اپنے بوجھ اپنی پیٹھوں پر اٹھائیں گے ۔سنو وہ بوجھ برا ہے جو اٹھائیں گے ۔
تفسیر
اللہ کی ملاقات یا لقاء اللہ کا مرتبہ انسان کے اعلیٰ سے علیٰ کمال کا مرتبہ ہے اور اس کاجھٹلانا گویا انسان کے کمال کی ترقیات کو جھٹلانا ہے ۔جتنی اعلیٰ غرض انسان اپنے ساتھ رکھتا ہے اسی قدر اپنے خداداد قویٰ سے زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے اور لقاء اللہ سے یا اخلاق اللہ میں رنگین ہونے سے بڑھ کر کوئی مقصد انسانی زندگی کا نہیں ہو سکتا۔
جو شخص اس مقصد کو چھوڑتا ہے وہ اپنی اغراض کو صرف دنیوی زندگی تک محدوود کر لیتا ہے اور اپنے اعلیٰ قوی کو بے کارکر دیتاہے اور جس بوجھ سے وہ بچنا چاہتا ہے، یعنی خدا کے لئے جدوجہد، اس سے بڑھ کر بوجھ اسے اٹھانا پڑتا ہے ۔
جو شخص اس مقصد کو چھوڑتا ہے وہ اپنی اغراض کو صرف دنیوی زندگی تک محدوود کر لیتا ہے اور اپنے اعلیٰ قوی کو بے کارکر دیتاہے اور جس بوجھ سے وہ بچنا چاہتا ہے، یعنی خدا کے لئے جدوجہد، اس سے بڑھ کر بوجھ اسے اٹھانا پڑتا ہے ۔
بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ
...................................................................................................................................................................
۲:حدیثِ نبویؐ
ابو سعید خدری سے روایت ہے کہا کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا فرمایا۔۔۔۔۔۔۔۔
مسجد میں کوئی دروازہ نہ چھوڑا جائے سوائے ابوبکر کے دروازے کے
مختصر نوٹ:
یعنی مسجد کے اندر سے گھروں گھروں میں آمدو رفت کے راستے نہ ہوں ۔حضرت ابوبکرؓ کو مستثنیٰ کیا اس لئے کہ حضرت ابوبکرؓ کے دل میں آپؐ نے مسجد کےلئے اتنا احترام دیکھا کہ انکے متعلق یہ خیال نہ کیا جاسکتا تھا کہ وہ احترام مسجد میں کوئی کوتاہی کر سکتے ہیں ۔ اس سے حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے
بخاری (۸۰:۸)
کتاب: احادیث العمل صفحہ ۲۹۹
ترجمہ و نوٹ از حضرت مولانا محمدعلیؒ
...................................................................................................................................................................
۳:سیرت خیر البشرؐ
باب چہارم
آفتاب رسالت کے طلوع سے پہلے کا زمانہ ظھرالفساد فی البر و البحر
(30:الروم:41)
برو بحر میں فساد ظاہر ہو گیا
از
حضرت مولانا محمد علی
نوٹ: حضرت مولانا محمد علیؒ کے اس عظیم الشان شاہکار اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ امی و ابی کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب سیرت خیرالبشر ؐ کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ
گزشتہ سے پیوستہ
عرب کی معاشرت اور عورت سے سلوک
"تمدن سے اتر کر معاشرت کا پہلو قوم کی تہذیب یا جہالت کا فیصلہ کرتاہے سو اس پہلو سے عرب کی زندگی اسی جاہلیت کے فتویٰ کے نیچے آتی ہے جسکے نیچے وہ اپنے مذہب اور تمدن کی رو سے ہے ۔
ملک عرب میں عورتوں کی حالت یہاں تک ذلیل تھی کہ سوائے اسکے کہ اغراض شہوانی کےلئے کوئی اپنی محبوبہ کی تعریف میں شعر لکھ دے، عملی رنگ میں انکے ساتھ حیوانوں کا سا سلوک ہوتا تھا۔
ایک عورت کے ایک سے زیادہ خاوند ہونے کا رواج جو نہایت ادنیٰ قوموں میں پایا جاتاہے، ان میں موجود تھا ۔ ایک مرد جس قدر عورتوں سے چاہتا شادی کر سکتا تھا اور اسکے علاوہ جیسا یورپ میں رواج ہے، اپنے لئے محبوبہ بھی رکھ سکتا تھا۔
زنا کاری یورپ کے اکثر بلاد کی طرح بطور بطور پیشہ ان میں مروج تھی اور لونڈیوں سے جہاں یعنی دوسروی قوموں کی گرفتارکردہ عورتوں سے جہاں اور ذلیل کام لیتے تھے وہاں ان سے زنا کاری کرا کر اس حرامکاری کی کمائی کو اپنا جائز مال سمجھتے تھے "
جاری ہے
کتاب سیرت خیرالبشرؐ،باب دوئم، صفحہ24
...................................................................................................................................................................
تاریخ خلافت راشدہ
از حضرت مولانا محمد علیؒ
حضرت ابوبکر صدیقؓ
زمانہ خلافت
۲ ربیع الاول ۱۱ ہجری تا ۲۲ جمادی الثانی ۱۳ ہجری
جون ۶۳۲ء تا اگست ۶۳۴ء
نوٹ: حضرت مولانا محمد علیؒ کے اس عظیم الشان شاہکار اور خلفائے راشدین کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب تاریخ خلافت راشدہ کو کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ
ابتدائی حالات
"اسلام کے پہلے خلیفہ اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے پہلے جانشین حضرت ابوبکر صدیق ہیں۔اصلی نام عبداللہ تھا ۔ابوبکر کنیت تھی اور صدیق لقب تھا۔دوسرا لقب عتیق (آزاد تھا)۔ باپ کا نام عثمان تھا اور کنیت ابو قحافہ جس سے وہ مشہور ہیں۔ والدہ کا نام ام الخیر سلمیٰ تھا ۔
یہ معزز گھرانہ خاندان قریش کےقبیلہ بنی تیم سے تھا جو عرب میں اپنی وجاہت کے لحاظ سے ممتاز تھا ۔ قتل کے مقدمات میں خون بہا کا فیصلہ اسی قبیلہ کے سپرد تھااور ابو قحافہ اس کے مہتمم تھے ۔
حضرت ابوبکر صدیق عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ سے قریباً دو سال چھوٹے تھے، بڑے بلند اخلاق رکھتے تھے ۔بلکہ اپنے اخلا ق کی وجہ سے خاص عزت اور شہرت رکھتے تھے ۔غرباء اور مساکین کی مدد ، قریبیوں سے احسان اور نیکی، مصیبت زدوں کی امانت ، مہمان نوازی ، سچائی کی صفات سے متصف تھے۔
حضرت ابوبکر صدیق عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ سے قریباً دو سال چھوٹے تھے، بڑے بلند اخلاق رکھتے تھے ۔بلکہ اپنے اخلا ق کی وجہ سے خاص عزت اور شہرت رکھتے تھے ۔غرباء اور مساکین کی مدد ، قریبیوں سے احسان اور نیکی، مصیبت زدوں کی امانت ، مہمان نوازی ، سچائی کی صفات سے متصف تھے۔
بچپن ہی سے کبھی شراب نے نزدیک تک نہیں گئے۔ یہ وہی خوبیاں ہیں جن کے متعلق تاریخ سے شہادت ملتی ہے کہ قبل از نبوت رسواللہ صلعم میں بھی پائی جاتی تھیں اور یوں حضرت ابو بکرؓ کو رسول اللہ صلعم سے گویا ایک فطری مناسبت تھی۔
معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم بھی حاصل کی تھی ۔لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ قریش کے نسب ناموں کا علم سب سے بڑھکر رکھتے تھے ۔
ان کے علم اور تجربہ کی وجہ سے لوگ انکی بہت عزت کرتے تھے ۔کپڑ ے کی سوداگری کا کام کرتے تھے اور تجارت کے ذریعہ سے مالدار ہو گئے تھے ۔یہاں تک کہ جب مسلمان ہوئے تو چالیس ہزار درھم کے مالک تھے۔ ان کا اپنا قول ہے کہ میں قریش میں سب سے مالدار تاجر تھا"
جاری ہے
کتاب تاریخ خلافت راشدہ ،باب اول ، صفحہ۱ تا ۲
...................................................................................................................................................................
۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ
آسمانی گواہی
ماہ رمضان میں نبی کریم ؐ کی پیشگوئی کے عین مطابق
حضرت مرزا غلام احمدقادیانیؒ کے دعوی مہدویت کی صداقت کے ثبوت میں کسوف و خسوف کا بے نظیر نشان
ماہ رمضان میں نبی کریم ؐ کی پیشگوئی کے عین مطابق
حضرت مرزا غلام احمدقادیانیؒ کے دعوی مہدویت کی صداقت کے ثبوت میں کسوف و خسوف کا بے نظیر نشان
صحیح دارقطنی میں یہ ایک حدیث ہے کہ امام محمد باقر فرماتے ہیں
انّ لمھدینا اٰیتین لم تکونا منذ خلق السماوات والارض ینکسف القمر لاوّل لیلۃٍ من رمضان وتنکسف الشمس فی النصف منہ۔
ترجمہ یعنی ہمارے مہدی کے لئے دو نشان ہیں اور جب سے کہ زمین و آسمان خدا نے پیدا کیا یہ دو نشان کسی اور مامور اور رسول کے وقت میں ظاہر نہیں ہوئے ان میں سے ایک یہ ہے کہ مہدی معہود کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند کا گرہن اُس کی اوّل رات میں ہوگا یعنی تیرھویں تاریخ میں اور سورج کا گرہن اُس کے دِنوں میں سے بیچ کے دن میں ہوگا۔
یعنی اسی رمضان کے مہینہ کی اٹھائیسویں تاریخ کو اور ایسا واقعہ ابتدائے دنیا سے کسی رسول یا نبی کے وقت میں کبھی ظہور میں نہیں آیا صرف مہدی معہود کے وقت اُس کا ہونا مقدر ہے۔
اب تمام انگریزی اور اُردو اخبار اور جملہ ماہرین ہیئت اِس بات کے گواہ ہیں کہ میرے زمانہ میں ہی جس کو عرصہ قریباً با ۱۲ رہ سال کا گذر چکا ہے اِسی صفت کا چاند اور سورج کا گرہن رمضان کے مہینہ میں وقوع میں آیا ہے اورؔ جیسا کہ ایک اور حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ گرہن دو مرتبہ رمضان میں واقع ہو چکا ہے۔ اول اِس ملک میں دوسرے امریکہ میں اور دونوں مرتبہ انہیں تاریخوں میں ہوا ہے جن کی طرف حدیث اشارہ کرتی ہے اور چونکہ اس گرہن کے وقت میں مہدی معہود ہونے کا مدعی کوئی زمین پر بجز میرے نہیں تھا اور نہ کسی نے میری طرح اس گرہن کو اپنی مہدویت کا نشان قرار دیکر صدہا اشتہار اور رسالے اُردو اور فارسی اور عربی میں دنیا میں شائع کئے اِس لئے یہ نشانِ آسمانی میرے لئے متعین ہوا۔
دوسری اس پر دلیل یہ ہے کہ با۱۲ رہ برس پہلے اِس نشان کے ظہور سے خدا تعالیٰ نے اِس نشان کے بارے میں مجھے خبر دی تھی کہ ایسا نشان ظہور میں آئے گا۔ اور وہ خبر براہین احمدیہ میں درج ہو کر قبل اس کے جو یہ نشان ظاہر ہو لاکھوں آدمیوں میں مشتہر ہو چکی تھی۔
اور بڑا افسوس ہے کہ ہمارے مخالف سراسر تعصب سے یہ اعتراض کرتے ہیں۔ اوّل یہ کہ حدیث کے لفظ یہ ہیں کہ چاند گرہن پہلی رات میں ہوگا اور سُورج گرہن بیچ کے دن میں مگر ایسا نہیں ہوا یعنی اُن کے زعم کے موافق ’’چاند گرہن شبِ ہلال کو ہونا چاہئے تھا جو قمری مہینہ کی پہلی رات ہے اور سُورج گرہن قمری مہینہ کے پندرھویں دن کو ہونا چاہئے تھا جو مہینہ کا بیچواں دن ہے۔
مگر اس خیال میں سراسر ان لوگوں کی نا سمجھی ہے کیونکہ دنیا جب سے پیدا ہوئی ہے چاند گرہن کے لئے تین راتیں خدا تعالیٰ کے قانون قدرت میں مقرر ہیں یعنی تیرھویں چودھویں پندرھویں اور چاند گرہن کی پہلی رات جو خدا کے قانونِ قدرت کے مطابق ہے وہ قمری مہینے کی تیرھویں رات ہے اور سورج کے گرہن کے لئے تین دن خدا کے قانون قدرت میں مقرر ہیں۔ یعنی قمری مہینے کا ستائیسواں اٹھائیسواں اور انتیسواں دن۔
اور سورج کے تین دن گرہن میں سے قمری مہینہ کے رُو سے اٹھائیسواں دن بیچ کا دن ہے۔ سو ا نہیں تاریخوں میں عین حدیث کے منشاء کے موافق سورج اور چاند کا رمضان میں گرہن ہوا۔ یعنی چاند گرہن رمضان کی تیرھویں رات میں ہوا اور سورج گرہن اسی رمضان کے اٹھائیسویں دن ہوا۔
اور عرب کے محاورہ میں پہلی رات کا چاند قمر کبھی نہیں کہلاتا بلکہ تین دن تک اُس کا نامؔ ہلال ہوتا ہے اور بعض کے نزدیک سات دن تک ہلال کہلاتا ہے۔
دوسرا یہ اعتراض ہے کہ اگر ہم قبول کر لیں کہ چاند کی پہلی رات سے مُراد تیرھویں رات ہے اور سورج کے بیچ کے دن سے مُراد اٹھائیسواں دن ہے تو اس میں خارق عادت کونسا امر ہوا کیا رمضان کے مہینہ میں کبھی چاند گرہن اور سورج گرہن نہیں ہوا تو اِس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ رمضان کے مہینہ میں کبھی یہ دونوں گرہن جمع نہیں ہوئے بلکہ یہ مطلب ہے کہ کسی مُدعی رسالت یا نبوت کے وقت میں کبھی یہ دونوں گرہن جمع نہیں ہوئے جیسا کہ حدیث کے ظاہر الفاظ اِسی پر دلالت کر رہے ہیں۔
اگر کسی کا یہ دعویٰ ہے کہ کسی مدعی نبوت یا رسالت کے وقت میں دونوں گرہن رمضان میں کبھی کسی زمانہ میں جمع ہوئے ہیں تو اس کا فرض ہے کہ اس کا ثبوت دے۔
خاص کر یہ امر کس کومعلوم نہیں کہ اسلامی سن یعنی تیرہ سو برس میں کئی لوگوں نے محض افترا کے طور پر مہدی موعود ہونے کا دعویٰ بھی کیا بلکہ لڑائیاں بھی کیں۔ مگر کون ثابت کر سکتا ہے کہ اُن کے وقت میں چاند گرہن اور سورج گرہن رمضان کے مہینہ میں دونوں جمع ہوئے تھے۔ اور جب تک یہ ثبوت پیش نہ کیا جائے تب تک بلا شبہ یہ واقعہ خارق عادت ہے کیونکہ خارق عادت اسی کو توکہتے ہیں کہ اس کی نظیر دنیا میں نہ پائی جائے
اور صرف حدیث ہی نہیں بلکہ قرآن شریف نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ دیکھو آیت
وَخَسَفَ الْقَمَرُۙ ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُۙ
تیسرا یہ اعتراض پیش کیا جاتا ہے کہ یہ حدیث مرفوع متصل نہیں ہے صرف امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کا قول ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ائمہ اہل بیت کا یہی طریق تھا کہ وہ بوجہ اپنی وجاہت ذاتی کے سلسلہ حدیث کو نام بنام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانا ضروری نہیں سمجھتے تھے ان کی یہ عادت شائع متعارف ہے چنانچہ شیعہ مذہب میں صدہا اسی قسم کی حدیثیں موجود ہیں اور خودامام دارقطنی نے اس کو احادیث کے سلسلہ میں لکھا ہے
ماسوا اس کے یہ حدیث ایک غیبی امر پر مشتمل ہے جو تیرہ سو برس کے بعد ظہور میں آگیا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس وقت مہدیؔ موعود ظاہر ہوگا اُس کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند گرہن تیرھویں رات کو ہوگا اور اسی مہینہ میں سورج گرہن اٹھائیسویں دن ہوگا اور ایسا واقعہ کسی مدعی کے زمانہ میں بجز مہدی معہود کے زمانہ کے پیش نہیں آئیگا
اور ظاہر ہے کہ ایسی کھلی کھی غیب کی بات بتلانا بجز نبی کے اور کسی کا کام نہیں ہے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے یعنی خدا اپنے غیب پر بجز برگزیدہ رسولوں کے کسی کو مطلع نہیں فرماتا پس جبکہ یہ پیشگوئی اپنے معنوں کے رو سے کامل طور پر پوری ہو چکی تو اب یہ کچے بہانے ہیں کہ حدیث ضعیف ہے یا امام محمد باقر کا قول ہے۔
بات یہ ہے کہ یہ لوگ ہر گز نہیں چاہتے کہ کوئی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری ہو یا کوئی قرآن شریف کی پیشگوئی پوری ہو۔ دنیا ختم ہونے تک پہنچ گئی مگر بقول اُن کے اب تک آخری زمانہ کے متعلق کوئی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ اور اس حدیث سے بڑھ کر اور کونسی حدیث صحیح ہوگی جس کے سر پر محدثین کی تنقید کا بھی احسان نہیں بلکہ اُس نے اپنی صحت کو آپ ظاہر کرکے دکھلا دیا کہ وہ صحت کے اعلیٰ درجہ پر ہے۔*
خدا کے نشانوں کو قبول نہ کرنا یہ اور بات ہے ورنہ یہ عظیم الشان نشان ہے جو مجھ سے پہلے ہزاروں علماء اور محدثین اس کے وقوع کے اُمید وار تھے اور منبروں پر چڑھ چڑھ کر اور رو رو کر اس کو یاد دلایا کرتے تھے چنانچہ سب سے آخر مولوی محمد لکھوکے والے اسی زمانہ میں اسی گرہن کی نسبت اپنی کتاب احوال الآخرت میں ایک شعر لکھ گئے ہیں جس میں مہدی موعود کا وقت بتایا گیا ہے اور وہ یہ ہے:
تیرھویں چند ستیہویں ژ سورج گرہن ہو سی
اُس سالے اندر ماہ رمضانے لِکھیا ہک روایت والے
پھر دوسرے بزرگ جن کا شعر صدہا سال سے مشہور چلا آتا ہے۔ یہ لکھتے ہیں:
در۱۳۱۱سنِ غاشی ہجری دو قِران خواہدبود
از پئے مہدی و دجّال نشان خواہدبود
یعنی چو۱۳۱۱ دھویں صدی میں جب چاند اور سُورج کا ایک ہی مہینہ میں گرہن ہوگا تب وہ مہدی معہود اوردجّال کے ظہور کا ایک نشان ہوگا۔ اِس شعر میں ٹھیک سن کسوف و خسوف درج ہوا ہے۔
خدا تعالیٰ نے مختصر لفظوں میں فرما دیا کہ آخری زمانہ کی نشانی یہ ہے کہ ایک ہی مہینہ میں شمس اور قمر کے کسوف خسوف کا اجتماع ہوگا اور اسی آیت کے اگلے حصہ میں فرمایا کہ اس وقت مکذب کو فرار کی جگہ نہیں رہے گی جس سے ظاہر ہے کہ وہ کسوف خسوف مہدی معہود کے زمانہ میں ہوگا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ وہ کسوف خسوف خدا کی پیشگوئی کے مطابق واقع ہوگا اس لئے مکذبوں پر حجت پوری ہو جائے گی۔منہ
کتاب حقیقتہ الوحی
روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحات ۲۰۲ تا ۲۰۵
...................................................................................................................................................................
۵:دینی مسائل اور انکا حل
ارشاد مبارک حضرت مجدد اعظم و امام الزمان
مرزا غلام احمد قادیانی رحمتہ اللہ علیہ غیر کفو میں نکاح
ایک دوست کا سوال پیش ہوا کہ ایک احمدی اپنی لڑکی غیر کفو کے ایک احمدی کے ہاں دینا چاہتا ہے حالانکہ اپنی کفو میں رشتہ موجود ہے ۔اس کے متعلق آپکا کیا حکم ہے
" اگر حسب مراد رشتہ ملے تو اپنی کفو میں کرنا بہ نسبت غیر کفو میں کرنے سے بہتر ہے لیکن یہ ایسا امر نہیں کہ بطور فرض کےہو۔
ہر ایک شخص ایسے معاملات میں اپنی مصلحت اور اپنی اولاد کی بہتری کو خوب سمجھ سکتاہے ۔
اگر کفو میں وہ کسی کو اس لائق نہیں دیکھتا تو دوسری جگہ دینے میں حرج نہیں اور ایسے شخص کو مجبور کرنا کہ وہ بہر حال اپنی کفو میں اپنی لڑکی دیوے، جائز نہیں "
البدر ۱۱ اپریل ۱۹۰۷ ء ص۳
...................................................................................................................................................................
۶:پیغامِ امیر قومؒ
۷: عقائد حضرت مولانا محمد علی ؒ
انقلابِ نماز
نماز انسان کے کیریکٹر میں استقلال پیدا کرتی ہے
"مذہب جو عظیم الشان انقلاب پیدا کرتا ہے وہ ہے انسان کے کیریکٹر کی مضبوط کرنا۔نماز انسان کے کیریکٹر کو اس قدر مضبوط کر دیتی ہے کہ وہ خدا کے سوائے کسی کے سامنے نہیں جھکتا اور خدا کے سامنے جھکتا ہوا اپنے مال میں دوسرے کا حق سمجھتا ہے ۔پھر وہ انسانوں کے ساتھ تعلقات میں بھی پختہ اور مضبوط ہوتاہے۔
امانت میں خیانت نہیں کرتا۔عہد کو پورا کرتاہے ۔شہادت پر مضبوط کھڑا ہوتاہے ۔دونوں تعلقات میں یعنی خدا کے ساتھ تعلق میں اور انسان کے ساتھ تعلق میں استقلال، ہمیشگی اور مضبوطی ہوتی ہے اور کوئی چیز اس کے قدم کو لغزش نہیں دے سکتی۔
سخت ترین دشمن بھی جب آپؐ کی سیرت کو لکھنے بیٹھتے ہیں، تو ایک عجیب چیز جو انھیں نظر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ نہایت درجہ کی غربت، بے کسی اور بغیر مال کے ان حالات میں جو آپؐ کے تھے ، وہی اخلاق اس وقت بھی قائم رہے جب آپؐ بادشاہ بن گئے۔خزانہ مال اور دولت کی کوئی کمی نہ رہی ۔
سخت سے سخت متعصب سیرت نویس نے بھی اس کو محسوس کیا ہے کہ آپؐ کی حالت دونوں وقتوں میں ایک ہی رہی ۔
آپؐ تو خدا کے رسول تھےمگر آپؐ نے جن لوگوں کی تربیت کی انہی صفات سے انہیں بھی متصف کر دیا اور ان میں استقلال پیدا کر کے پہاڑ کی طرح انھیں مضبوط کر دیا ۔
یہی نماز جو آج لوگوں کو بے سود نظر آتی ہے، اسی سے کیسا بلند کیریکٹر پیدا ہوا صحابہ ؓ میں ۔ مال کا خرچ کرنا، امانتوں میں خیانت نہ کرنا، ایفائے عہد، اخلاص، شہادتوں میں صداقت، دوسرے کے مال پر نظر نہ اٹھانا۔ یہ تمام خوبیاں اس قوم میں نماز ہی سے پیدا ہوئیں اور ایسی پیدا ہوئیں کہ انکی نظیر نہیں ملتی۔
دوسرے لوگ کیا؟ مسلمان بھی آج اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ آنحضرت صلعم سے پیشتر اہل عرب میں بلند صفات موجود تھیں۔محمدرسول اللہ صلی اللہ صلعم نے انہیں ذرا سا بیدار کر دیا۔
یہ درست نہیں ۔عرب کے اندر اعلیٰ صفات آپؐ کی تعلیم ہی سے پیدا ہوئیں
ولیم میور ایک متعصب سیرت نویس نے لکھا ہے کہ محمد(رسول اللہ صلعم) نے جو انقلاب پیدا کر دیا اس بارے میں جو لو گ یہ سمجھتے ہیں کہ عرب کی حالت پہلے ہی سے ایسی تھی ، آپؐ نے صرف ایک حرکت دی اور انقلاب برپا ہو گیا، وہ غلطی پر ہیں ۔یعنی جو تحریکات عرب کے اندر پیدا ہوئیں ان میں سےکوئی ان پر اثر انداز نہ ہو سکی ۔یہودیوں کے پاس دولت تھی،عیسائیوں کی پشت پر سلطنتیں تھیں ۔ان سب نے عرب کی اصلاح کی کوشش کی مگر عرب کی بت پرستی پر اثر نہ ڈال سکے ۔ نہ انکی خانہ جنگیوں کو دور کر کے ان میں اتفاق پیدا کر سکے ۔
ایک اندرونی تحریک ان لوگوں کی بھی پیدا ہوئی، جو اپنے آپ کو حنیف کہتے تھے مگر عرب کی حالت ویسی ہی گری ہوئی رہی ۔محمد رسول اللہ صلعم کی تشریف آوری سے اور آپؐ کی تعلیم سے یہی لوگ بلند سے بلند ترقی کے مینار پر پہنچ گئے ۔
وہ عرب کے لوگ جو کیریکٹریس(characterless) تھے، جواء، شراب خوری، زنا ، جنگ وجدال میں پیش پیش تھے، قرآن کریم کے ذریعہ سے ان کے اندر ایسے اخلاق پیدا ہو گئے کہ دنیا کے اخلاق انکے آگے جھک گئے ۔لڑائیوں میں بھی انکے اندر ایسے اخلاق پیدا ہوگئے کہ دنیا انکے اخلاق کے آگے جھک گئی ۔لڑائیوں میں بھی انکے اخلاق ہی انکی امداد کرتےتھے ۔انکا استقلال دشمن کے پاوں اکھاڑ دیتا تھا ۔
یہ اخلاق پیدا ہوئے کن چیزوں سے ؟ ان چیزوں سے جنھیں تم چھوٹی سمجھ رہے ہو ۔یہ نماز! جن لوگوں پر نئی تعلیم اور روشنی کا اثر ہے ، کہتے ہیں کہ نماز سے کچھ نہیں بنتا ۔ خدا سے تعلق تو ایک طرف نماز انسان کے کیریکٹر میں استقلال پیدا کرتی ہے ۔انسان پہاڑ بن جاتا ہے ۔دکھوں اور تکلیفوں میں پیچھے نہیں ہٹتا ۔دنیا کی تمام طاقتوں کا مقابلہ کر سکتا ہے ۔ "
پیغام صلح ۹ مارچ ۱۹۳۹ء
خطبات مولانا محمدعلیؒ جلد ۱۴ صفحہ ۳۷
...................................................................................................................................................................
۷: عقائد حضرت مولانا محمد علی ؒ
انکی اپنی قلم سے
عقیدہ کس نے بدلا ۔قادیانی جماعت کے پیشواء ثانی اور ہمنواوں نے
یا جماعت
میرا عقیدہ دربارہ نبوت مسیح موعودؑ کیاتھا؟ میں نے اسکو ابتدائے اختلاف ہی میں کھول کر بیان کردیا تھا ۔میں پہلے بھی اسی پر قائم تھا، اب بھی اسی پر قائم ہوں اور انہیں الفاظ میں پھر اپنے عقیدہ کو نقل کرتا ہوں
"میں یہ مانتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ شرعی اصطلاح میں نبی اور رسول نہ تھے ۔یعنی نبی اس لئے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ پر غیب کے اخبار ظاہر کرتا تھا اور رسول اس لئے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مامور کر کے اصلاح کےلئے بھیجا تھا ۔
یعنی آپ ان معنوں میں نبی اور رسول تھے جن معنوں میں اس امت کے دوسرے مجدد بھی نبی اور رسول کہلا سکتے ہیں "
......................
......................
......................
منقول از میرے عقائد، مطبوعہ ۳۳ اگست ۱۹۱۴ء
......................
پیغام صلح ۔لاہور۔۲۱ستمبر ۱۹۴۴
......................
اور یہی عقیدہ حضرت مرزا صاحب کا تھا
اے خدا اگر میں نے تیر نام لیکر اس قسم کے کھانے میں جھوٹ بولا ہے تو تو اپنی طرف سے ایسی عبرت ناک سزا مجھ پر بھیج جس میں انسانی ہاتھ کا کوئی دخل نہ ہو اور جس سے دنیا سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھا کرمخلوق خدا کو دھوکہ دینے والوں پر خدا تعالیٰ کی گرفت کتنی سخت اور درد ناک ہوتی ہے "
پیغام صلح ۔لاہور۔۱۱دسمبر ۱۹۴۶
......................
ستر بزرگان لاہور کا حلف
......................
......................
انکی اپنی قلم سے
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
دل چیر کر دیکھا یا دکھانا انسانی طاقت سے باہر ہے ۔قسم پر کوئی اعتبار کرے تو واللہ العظیم کے برابر کوئی قسم مجھے نظر نہیں آتی۔نہ آپ میرے ساتھ میری موت کے بعد ہونگے نہ کوئی اور میرے ساتھ سوائے میرے ایمان و اعمال کے ہوگا۔پس یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش ہونے والا ہے ۔
میں مرزا صاحب کو مجدد اس صدی کا یقین کرتا ہوں ۔میں انکو راستباز مانتاہوں ۔
حضرت محمد الرسول اللہ النبی العربی المکی المدنی خاتم النبیین کا غلام اور اسکی شریعت کا بدل خادم مانتا ہوں اور مرزا خود اپنے آپکو جاں نثار غلام نبی عربی محمدؐ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن مناف کامانتے تھے
نبی کے لغوی معنی پیش از وقت اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر خبر دینے والا ہم لوگ یقین کرتے ہیں نہ شریعت لانے والا۔
مرزا صاحب اور میں خود جو شخص ایک نقطہ بھی قرآن شریف کا اور شریعت محمدؐ رسول کا نہ مانے، میں اسے کافر اور لعنتی اعتقاد کرتا ہوں ۔
یہی میرا اعتقاد ہے اور یہی میرے نزدیک مرزا غلام احمد کا تھا ۔
کوئی رد کرے یا نہ مانے یا منافق کہے اس کا معاملہ حوالہ بخدا۔
نورالدین بقلم خود
۲۲ اکتوبر ۱۹۱۰ء
......................
مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کا سابقہ عقیدہ
خود انکی اپنی قلم سے
"اس آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپؐ کے بعد کوئی شخص نہیں آئے گا جس کو نبوت کے مقام پر کھڑا کیا جائے اور وہ آپؐ کی تعلیم کو منسوخ کر دے اور نئی شریعت جاری کر دے ۔بلکہ جسقدر
اولیاء اللہ
ہونگے اور متقی اور پرھیز گار لوگ ہونگے سب کو آپؐ کی غلامی میں ہی ملے گیا جو کچھ ملے گا ۔
اس طرح خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ
آپؐ کی نبوت نہ صرف اس زمانہ کےلئے ہے بلکہ
آئندہ بھی کوئی نبی نہیں آئے گا"
تشحیذ الاذہان بابت اپریل ۱۹۱۰ء
......................
قادیانی جماعت کے ھیڈ
مولوی محمد سرور شاہ صاحب کا سابقہ عقیدہ
"لفظ نبی کے معنی اپنے مصدروں کے لحاظ سے دو ہیں ۔
اول اپنے خدا سے اخبار غیب پانے والا
دوئم عالی مرتبہ شخص ۔جس شخص کو اللہ تعالیٰ بکثرت شرف مکالمہ سے ممتاز کرے اور غیب کی خبروں پر مطلع کرے ، وہ نبی ہے
اس رنگ میں میرے نزدیک تمام مجددین سابق مختلف مدارج کے انبیاء گزرے ہیں "
بدر مورخہ ۱۶ فروری ۱۹۱۱ء
......................
اس کو عربی لغت میں نبی کہتے ہیں
"شبلی نے دریافت کیا کہ کیاہم لوگ مرزا صاحب کونبی مانتے ہیں ؟
میں نے عرض کیا کہ ہمارا عقیدہ اس معاملہ میں دیگر مسلمانوں کی طرح ہے کہ آنحضرت صلعم خاتم النبیین ہیں ۔
آپکے بعد کوئی دوسرا نبی آنیوالانہیں ۔نہ نیا نہ پرانا ۔
ہاں مکالمات الٰہیہ کا سلسلہ برابر جاری ہے وہ بھی آنحضرت صلعم کے طفیل آپؐ سے فیض حاصل کر کے اس امت میں ایسے آدمی ہوتے رہے جنکو الہام الٰہی سے مشرف کیا گیا اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے ۔
چونکہ حضرت مرزا صاحب بھی الہام الہی سے مشرف ہوتے رہے اور الہام الٰہی کے سلسلہ میں آپکو خدا تعالیٰ نے بہت سی آئندہ کی خبریں بطور پیشگوئی کے بتلائی تھیں جو پوری ہوتی رہیں اس واسطے مرزا صاحب ایک پیشگوئی کرنے والے تھے اور اسکو
عربی لغت میں نبی کہتے ہیں "
بدر۔جلد نمبر ۹ ، ۵۱/۵۲
......................
۸:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)
ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام
"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "
روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹
......................
یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "
سراج منیر،صفحہ ۳
......................
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"
......................
روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209
......................
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر
روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65)
......................
انکے اپنے اشعار میں
ما مسلمانیم از فضلِ خدا
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا
اندریں دیں آمدہ از مادریم
ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم
آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست
بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست
یک قدم دوری ازاں روشن کتاب
نزد ماکفر است و خسران و تباب
آں رسولے کش محمدؐ ہست نام
دامنِ پاکش بدستِ ما مدام
مہرِ اوباشیرشداندربدن
جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن
ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام
(کتاب سراج منیر، ضمیمہ صفحہ ز)
۹:
ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف
۹:
ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف
ایک ضروری تجویز
بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ مزید جن احباب تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
No comments :
Post a Comment