Saturday, September 27, 2014

ہفتہ 27 ستمبر 2014، شمارہ: 39 المنصور


حضرت مولانا محمد علی ؒ کے خطبات کی تازہ ریکارڈنگز


لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِ

روزنامہ مبلغ (آنلائن)


روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان



بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت

 حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ

احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

ہفتہ ۔۲۷ ستمبر ۲۰۱۴ء

یکم ذوالحج ۱۴۳۵ ہجری


شمارہ نمبر:39

Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com


خوشخبری
اپ ڈیٹس


حضرت مولانا محمدعلیؒ کی عظیم شاہکار کتاب
 تاریخ خلافت راشدہ 
کو باب وار ترتیب کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے 

اس ہفتہ کی کتاب 
ضرورت مجدد 
از حضرت مولانا محمد علیؒ 
سب سے آخری سیکشن میں ملاحظہ فرمائیں 





۱:کلامِ الٰہی 

وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا


النساء: 115

ترجمہ:۔ اور جو شخص رسول کی مخالفت کرے اسکے بعد کہ اسکےلئے حق کھل چکا اور مومنوں کے رستے کے سوائے اور راستہ کی پیروی کرے ہم اسے پھیر دینگے گے جدھر وہ پھرتا ہے اور اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے 


اللہ تعالیٰ کا انسان سے  معاملہ اسکے عمل کے مطابق ہوتا ہے 
تفسیر

انسان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قانون قدرت یونہی نظر آتا ہے کہ انسان جس سے تعلق پیدا کرنا چاہے، اس سے اس کا لگاو ہو جاتا ہے ۔نیکوں کے ساتھ تعلق اور محبت پیدا کرے، انکے ساتھ ہو جاتا ہے۔ بدوں کے ساتھ تعلق پیداکرے تو ان سے ۔

پس جب ایک گروہ نے باوجود باوجود ہدایت کے کھل جانے کے، رسول اللہ صلعم کی دشمنی کے طریق کو اختیار کر لیا تو خدا انکو مجبور کر کے دوسری راہ پر نہیں ڈالتا ۔ بلکہ اسکے قانون کے مطابق انکو پھر وہی راہ اچھی لگتی ہے جسکا انجام جہنم ہے ۔

 یا یہ محاوہ ولیت وجہی کذا سے ہے جس کے معنی ہیں میں اسکی طرف متوجہ ہوا ۔ گویا جدھر انسان توجہ پھیرتا ہے اسی طر ف اللہ بھی اسکی توجہ پھیر دیتا ہے 

بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ

...................................................................................................................................................................

۲:حدیثِ نبویؐ

موعود گھڑی کی نشانی 
انسؓ سے روایت ہے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

موعود گھڑی کی نشانیوں میں سے یہ ہے علم اٹھ جائے اور جہالت قائم ہوجائے


بخاری (۳: ۲۱)

مختصر نوٹ: گویا جب کسی قوم میں علم باقی نہیں رہتا اور جہالت آجاتی ہے تو وہ اسکی تباہی کا نشان ہے ۔ علم سے قوم کو زندگی ملتی ہے اور جہالت اسکی موت کا نشان ہے 

کتاب: احادیث العمل صفحہ۵۲
ترجمہ و مختصر نوٹ 
از
 حضرت مولانا محمدعلیؒ 


...................................................................................................................................................................


۳:سیرت خیر البشرؐ
 باب چہارم
آفتاب رسالت کے طلوع سے پہلے کا زمانہ 
ظھرالفساد فی البر و البحر
(30:الروم:41)
برو بحر میں فساد ظاہر ہو گیا
از
 حضرت مولانا محمد علی 

نوٹ:  حضرت مولانا محمد علیؒ  کے اس عظیم الشان شاہکار اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ امی و ابی کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب سیرت خیرالبشر ؐ کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ

گزشتہ سے پیوستہ

توہم پرستی  

"کمال درجہ کی جہالت کی وجہ سے عرب طرح طرح کی توہم پرستیوں  میں مبتلا تھے۔دیوتاوں اور خبیث ارواح کومانتے تھے ۔ تنھائی کے مقامات پر جنوں اور خبیث روحوں کی شکلیں ان کو نظر آتی تھیں ۔ 

بعض بیماریوں کو بھی خبث ارواح کی طرف منسوب کرتے تھے اور ان سے بچنے کےلئے طرح طرح کے تعویذ اور ٹوٹکے اور منتر استعمال کرتے تھے ۔ روح انسانی کو ایک چھوٹا سا جانور سمجھتے تھے جو انسان کے پیدا ہونے کے وقت اس کے جسم میں گھس جاتا ہے اور پھر بڑھتا رہتا ہے ۔ مرنے کے وقت یہی جسم سے نکل کر قبر کے ارد گرد گھومتا رہتا ہے ۔

امساک باراں میں مینہ برسنے کا یہ ٹوٹکہ سمجھا جاتا تھا کہ ایک گائے کی دم میں سوکھی ہو ئی گھاس اور جھاڑیاں وغیرہ باندھ کر انہیں آگ لگا دیتے اور ایسی گائے کو پہاڑوں پر چھوڑ دیتے ۔ وہ سمجھتے کہ جلتی ہو ئی آگ بجلی کی چمک کے مشابہ ہے اور اسطرح پانی برسے گا۔ 

کوئی مصیبت آجائے تو گھر میں دروازہ کی راہ سے داخل نہ ہوتے تھے ۔ جانور کے اڑنے سے اچھا برا شگون لیتے تھے ۔  بائیں طرف سے دائیں طرف کو جانور کاٹ جائے تو اسے اچھا شگون سمجھتے تھے ۔اگر دائیں سے بائیں طرف کو کاٹ جائے تو براشگون لیتے تھے ۔ "

جاری ہے

کتاب سیرت خیرالبشرؐ،باب دوئم، صفحہ25



...................................................................................................................................................................

تاریخ خلافت راشدہؓ
از حضرت مولانا محمد علیؒ 
حضرت ابوبکر صدیقؓ
زمانہ خلافت
۲ ربیع الاول ۱۱ ہجری تا ۲۲ جمادی الثانی ۱۳ ہجری
جون ۶۳۲ء تا اگست ۶۳۴ء 

نوٹ:  حضرت مولانا محمد علیؒ  کے اس عظیم الشان شاہکار اور خلفائے راشدین کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب تاریخ خلافت راشدہ کو  کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ

اسلام کی وجہ سے تکلیف اٹھانا

"جب کفار نے مسلمانوں کو سخت اذیت دینا شروع کیا تو رسول اللہ صلعم نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ انکے مظالم سے بچنے کےلئے حبش ملک کی طرف ہجرت کر جائیں تو حضرت ابوبکرؓ  ہجرت کےلئے نکل پڑے۔ رستہ میں ایک رئیس ابن الدغنہ نام سے ملاقات ہو ئی تو اسکے دریافت کرنے پر فرمایا کہ قوم کے ظلم نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے ۔ابن الدغنہ نے کہا کہ تم جیسا آدمی جلا وطن نہیں کیا جا سکتا کیونکہ تم غریبوں کی امداد کرتے ہو۔ صلہ رحمی کرتے ہو ۔ جو مصیبت میں ہوں انکی مدد کرتے ہو ۔ مہمان نوازی کرتے ہو ۔ اور انہیں اپنے ساتھ مکہ میں واپس لے جا کر اعلان کیا کہ ابو بکرؓ میری امان میں ہیں ۔ 

مگر تھوڑے دن بعد اس وجہ سے کہ آپ اپنے صحن کی مسجد میں  جو بر لب سڑک تھی ، بلند  آواز سے قرآن شریف نماز میں پڑھتے تھے اور کفار اسے برداشت کرنے کو تیار نہ تھے، اپنی امان کو واپس لے لیا ۔ مگر حضرت ابوبکرؓ نے اس کی پرواہ نہیں کی اور اپنے کام میں مصروف رہے "


جاری ہے


کتاب تاریخ خلافت راشدہ ،باب اول ، صفحہ ۳




...................................................................................................................................................................

۴:کلامِ امامؒ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ 



امام الزمان کی صفات 
سلسلہ کشوف و الہامات 
سچے الہام کی دس علامات
اقتباس از
کتاب ضرورة الامام

چھٹے کشوف اور الہامات کا سلسلہ ہے جو امام الزمان کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ امام الزمان اکثر بذریعہ الہامات کے خداتعالیٰ سے علوم اور حقائق اور معارف پاتا ہے اور اس کے الہامات دوسروں پر قیاس نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ وہ کیفیت اور کمیّت میں اس اعلیٰ درجہ پر ہوتے ہیں جس سے بڑھ کر انسان کے لئے ممکن نہیں۔ اور ان کے ذریعہ سے علوم کھلتے ہیں اور قرآنی معارف معلوم ہوتے ہیں۔ اور دینی عقدے اور معضلات حل ہوتے ہیں اور اعلیٰ درجہ کی پیشگوئیاں جو مخالف قوموں پر اثر ڈال سکیں ظاہر ہوتی ہیں۔

 غرض جولوگ امام الزمان ہوں ان کے کشوف اور الہام صرف ذاتیات تک محدود نہیں ہوتے۔ بلکہ نصرت دین اور تقویت ایمان کیلئے نہایت مفید اور ؔ مبارک ہوتے ہیں اور خداتعالیٰ ان سے نہایت صفائی سے مکالمہ کرتا ہے اور ان کی دعا کا جواب دیتا ہے اور بسا اوقات سوال اور جواب کا ایک سلسلہ منعقد ہو کر ایک ہی وقت میں سوال کے بعد جواب اور پھر سوال کے بعد جواب اور پھر سوال کے بعد جواب ایسے صفا اور لذیذ اور فصیح الہام کے پیرایہ میں شروع ہوتا ہے کہ صاحب الہام خیال کرتا ہے کہ گویا وہ خداتعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔


 اور امام الزمان کا ایسا الہام نہیں ہوتا کہ جیسے ایک کلوخ انداز درپردہ ایک کلوخ پھینک جائے اور بھاگ جائے اور معلوم نہ ہو کہ وہ کون تھا اور کہا ں گیا بلکہ خداتعالیٰ ان سے بہت قریب ہو جاتا ہے اور کسی قدر پردہ اپنے پاک اور روشن چہرہ پر سے جو نور محض ہے اتار دیتا ہے۔ اور یہ کیفیت دوسروں کومیسر نہیں آتی بلکہ وہ تو بسا اوقات اپنے تئیں ایسا پاتے ہیں کہ گویا ان سے کوئی ٹھٹھا کر رہا ہے۔


 اور امام الزمان کی الہامی پیشگوئیاں اظہار علی الغیب کا مرتبہ رکھتی ہیں۔ یعنی غیب کو ہر ایک پہلو سے اپنے قبضہ میں کرلیتی ہیں۔ جیسا کہ چابک سوار گھوڑے کو قبضہ میں کرتا ہے اور یہ قوت اور انکشاف اس لئے ان کے الہام کو دیا جاتا ہے کہ تا ان کے پاک الہام شیطانی الہامات سے مشتبہ نہ ہوں اور تا دوسروں پر حجت ہو سکیں۔


واضح ہو کہ شیطانی الہامات ہونا حق ہے اور بعض ناتمام سالک لوگوں کو ہوا کرتے ہیں۔ اور حدیث النفس بھی ہوتی ہے جس کو اضغاث احلام کہتے ہیں اور جو شخص اس سے انکار کرے وہ قرآن شریف کی مخالفت کرتا ہے کیونکہ قرآن شریف کے بیان سے شیطانی الہام ثابت ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تک انسان کا تزکیہ نفس پورے اور کامل طور پر نہ ہو تب تک اس کو شیطانی الہام ہو سکتا ہے اور وہ آیت علی کل افاق اثیم (الشعرا: ۲۲۳)کے نیچے آ سکتا ہے مگر پاکوں کو شیطانی وسوسہ پر بلاتوقف مطلع کیا جاتا ہے۔ 


کتاب ضرورة الامام،روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 483 تا 484


 اس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کہ اس کثرت سے شیطانی الہام بھی ہوتے ہیں تو پھر الہام سے امان اٹھتا ہے اور کوئی الہام بھروسہ کے لائق نہیں ٹھہرتا۔ کیونکہ احتمال ہے کہ شیطانی ہو خاص کر جبکہ مسیح جیسے اولی العزم نبی کو بھی یہی واقعہ پیش آیا تو پھر اس سے تو ملہموں کی کمر ٹوٹتی ہے تو الہام کیا ایک بلا ہو جاتی ہے۔


 اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بیدل ہونے کا کوئی محل نہیں۔ دنیا میں خدا تعالیٰ کا قانون قدرت ایسا ہی واقع ہوا ہے کہ ہر ایک عمدہ جوہر کے ساتھ مغشوش چیزیں بھی لگی ہوئی ہیں۔ دیکھو ایک تو وہ موتی ہیں جو دریا سے نکلتے ہیں اور دوسرے وہ سستے موتی ہیں جو لوگ آپ بنا کر بیچتے ہیں۔ اب اس خیال سے کہ دنیا میں جھوٹے موتی بھی ہیں سچے موتیوں کی خریدوفروخت بند نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ جوہری جن کو خداتعالیٰ نے بصیرت دی ہے ایک ہی نظر سے پہچان جاتے ہیں کہ یہ سچا اوریہ جھوٹا ہے۔


سو الہامی جواہرات کا جوہری امام الزمان ہوتا ہے۔ اس کی صحبت میں رہ کر انسان جلد اصل اور مصنوعی میں فرق کر سکتا ہے۔


اے صوفیو!!! اور اس مہوّسی کے گرفتارو۔ ذرہ ہوش سنبھال کر اس راہ میں قدم رکھو اور خوب یاد رکھو کہ سچا الہام جو خالص خداتعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے مندرجہ ذیل علامتیں اپنے ساتھ رکھتا ہے:۔

 (۱) وہ اس حالت میں ہوتاہے کہ جب کہ انسان کا دل آتش درد سے گداز ہو کر مصفا پانی کی طرح خداتعالیٰ کی طرف بہتا ہے۔ اسی طرف حدیث کا اشارہ ہے کہ قرآن غم کی حالت میں نازل ہوا لہٰذا تم بھی اس کو غمناک دل کے ساتھ پڑھو۔


(۲) سچا الہام اپنے ساتھ ایک لذت اور سرور کی خاصیت لاتا ہے اور نامعلوم وجہ سے یقین بخشتا ہے اور ایک فولادی میخ کی طرح دل کے اندردھنس جاتاہے اور اس کی عبارت فصیح اور غلطی سے پاک ہوتی ہے۔


 (۳) ؔ سچے الہام میں ایک شوکت اور بلندی ہوتی ہے اور دل پر اس سے مضبوط ٹھوکر لگتی ہے اور قوت اور رعبناک آواز کے ساتھ دل پر نازل ہوتا ہے۔ مگر جھوٹے الہام میں چوروں اور مخنثوں اور عورتوں کی سی دھیمی آواز ہوتی ہے کیونکہ شیطان چور اور مخنث اور عورت ہے۔


 (۴) سچا الہام خداتعالیٰ کی طاقتوں کا اثر اپنے اندر رکھتا ہے اور ضرور ہے کہ اس میں پیشگوئیاں بھی ہوں اور وہ پوری بھی ہو جائیں۔


(۵) سچا الہام انسان کو دن بدن نیک بناتا جاتا ہے اور اندرونی کثافتیں اور غلاظتیں پاک کرتا ہے اور اخلاقی حالتوں کو ترقی دیتا ہے۔


 (۶) سچے الہام پر انسان کی تمام اندرونی قوتیں گواہ ہو جاتی ہیں اور ہر ایک قوت پر ایک نئی اور پاک روشنی پڑتی ہے اور انسان اپنے اندر ایک تبدیلی پاتا ہے اور اس کی پہلی زندگی مر جاتی ہے اور نئی زندگی شروع ہوتی ہے۔ اور وہ بنی نوع کی ایک عام ہمدردی کا ذریعہ ہوتا ہے۔


(۷) سچا الہام ایک ہی آواز پر ختم نہیں ہوتا کیونکہ خدا کی آواز ایک سلسلہ رکھتی ہے۔ وہ نہایت ہی حلیم ہے جس کی طرف توجہ کرتا ہے اس سے مکالمت کرتا ہے اور سوالات کا جواب دیتا ہے اور ایک ہی مکان اور ایک ہی وقت میں انسان اپنے معروضات کا جواب پا سکتا ہے گو اس مکالمہ پر کبھی فترت کا زمانہ بھی آجاتا ہے۔


 (۸) سچے الہام کا انسان کبھی بزدل نہیں ہوتا اور کسی مدعی الہام کے مقابلہ سے اگرچہ وہ کیسا ہی مخالف ہو نہیں ڈرتا۔ جانتا ہے کہ میرے ساتھ خدا ہے اور وہ اس کو ذلت کے ساتھ شکست دے گا۔


 (۹) سچا الہام اکثر علوم اور معارف کے جاننے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ کیونکہ خدا اپنے ملہم کو بے علم اور جاہل رکھنا نہیں چاہتا۔


(۱۰) سچے الہام کے ساتھ اور بھی بہت سی برکتیں ہوتی ہیں اور کلیم اللہ کو غیب سے عزت دی جاتی ہے اور رعب عطا کیا جاتا ہے۔ 


کتاب ضرورة الامام روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 488 تا 490

...................................................................................................................................................................


۵:دینی مسائل اور انکا حل

ارشاد مبارک حضرت مجدد اعظم و امام الزمان
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی رحمتہ اللہ علیہ  

قربانی کا جانور

سوال:اگر جانور مطابق علامات مذکورہ در حدیث نہ ملے تو کیا ناقص کو ذبح کر سکتے ہیں  ؟ 

حضور امامِ عالی مقام ؒنےارشاد فرمایا کہ ؟ 


"مجبوری کے وقت تو جانور جائز ہے مگر آج کل ایسی مجبوری کیا ہے ۔ انسان تلاش کر سکتا ہے اور دن کافی ہوتے ہیں ۔ خوامخوہ حجت کرنا یا تساہل کرنا جائز  نہیں ۔ "

البدر ۲۳  جنوری ۱۹۰۸ء 
...................................................................................................................................................................


۶:پیغامِ امیر قوم
حضرت مولانا محمدعلیؒ


المنصور یعنی محمد علیؒ

"ہمیں اعتراف ہے کہ ہم تھوڑے ہیں ۔ میں نے پچھے جمعہ میں آپ کو حضرت صاحبؒ کا ایک کشف سنایا تھا جس میں بتایا گیا ہے کہ کام کرنےوالوں کی تعداد تھوڑی ہوگی اور بڑی تعداد اس کام کو کرنے سے انکار کر دے گی۔

اسی کشف میں حضرت صاحبؒ فرماتےہیں :

"تب میں نے دل میں کہا کہ اگرچہ پانچ ہزار تھوڑے آدمی ہیں پراگرچہ اللہ تعالیٰ چاہے تو تھوڑے بہتوں پر فتح پا سکتے ہیں ۔ اس وقت میں نے یہ آیت پڑھی کم
 من فئة قلیلة غلبت فئة کثیرة بااذن اللہ" (۲: ۲۴۹)
(ازالہ اوہام صفحہ ۹۸ حاشیہ )

تو میں آپ کو بتانا چاہتاہوں کہ قلت سے گھبرانا نہیں چاہیے ۔ ہماری جماعت میں جتنے بھی آدمی ہیں، اگر اتنے ہی آدمی اپنی پوری قوت صرف کریں تو وہ دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر سکتے ہیں۔ 

اس کشف کے متعلق میں ایک اور بات بتانا چاہتا ہوں۔ یہ کشف ازالہ اوھام میں ہے ۔ حضرت مسیح موعود ابوداود کی حارث والی حدیث بیان کر کے فرماتے ہیں:

"فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ایک شخص پیچھے نہر کے سے نکلے گا یعنی بخارا یا سمر قند اس کا اصل وطن ہو گا اور وہ حارث کے نام سے پکارا جاوے گا۔یعنی با اعتبار اپنے آباو اجداد کے پیشہ کے افواہ عام میں یا اس گورنمنٹ کی نظر میں حارث زمیندار کہلائےگا۔

 پھر آگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کیوں حارث کہلائے گا ۔ اس وجہ سے کہ وہ حراث ہوگا یعنی ممیز زمینداروں میں سے ہوگا اور کھیتی کرنے والوں میں سے ایک معزز خاندان کا آدمی شمار کیا جاوے گا۔ 

پھر اس کے بعد فرمایا کہ اسکے لشکر یعنی اس کی جماعت کا سردار و سرگروہ ایک توفیق یافتہ شخص ہو گا جس کو آسمان پر منصور کے نام سے پکارا جاوے گا کیونکہ خدا تعالیٰ اسکے خادمانہ ارادوں کا جو اسکے دل میں ہونگے آپ ناصر ہوگا "


(ازالہ اوہام صفحہ ۹۶، ۹۷ حاشیہ ) 

پھر اس منصو کے ارادوں کی تشریح یوں فرمائی ہے 

"اس جگہ اگرچہ اس منصور کو سپہ سالار کے طور پر بیان کیا ہے مگر
ا س مقام میں درحقیقت کوئی جنگ و جدل مراد نہیں ہے بلکہ یہ ایک روحانی فوج ہو گی کہ اس حارث کو دی جائے گی"

پھر اس کے آگے حضرت صاحبؒ کا وہ کشف آتا ہے جس کا ذکر میں نے پچھلےخطبہ میں کیا تھا ۔ حضرت صاحبؒ فرماتے ہیں 

"جیسا کہ کشفی حالت میں اس عاجز نے دیکھا کہ انسان کی صورت پر دو شخص ایک مکان میں بیٹھے ہیں ایک زمین پر اور ایک چھت کے قریب بیٹھا ہے ۔ تب میں نے اس شخص کو جو زمین پر تھا مخاطب کر کے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے مگر وہ چپ رہا اور اس نے کچھ جواب نہ دیا۔ تب میں نے اس دوسرے کی طرف رخ کیا جو چھت کے قریب آسمان کی طرف تھا اور اسے میں نے مخاطب کر کے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے  وہ  میری اس بات کو سن کر بولا کہ ایک لاکھ نہیں ملے گی مگر پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا۔ "

اسکے آگے وہی الفاظ آتےہیں :

"تب میں نے دل میں کہا کہ اگرچہ پانچ ہزار تھوڑے آدمی ہیں پراگرچہ اللہ تعالیٰ چاہے تو تھوڑے بہتوں پر فتح پا سکتے ہیں ۔ اس وقت میں نے یہ آیت پڑھی کم
 من فئة قلیلة غلبت فئة کثیرة بااذن اللہ (۲: ۲۴۹) "

اسکے آگے لکھتے ہیں 

"پھر وہ منصور مجھے کشفی رنگ میں دکھایاگیا اور کہا گیا کہ خوش حال ہے خوش حا ل ہے مگر خدا تعالیٰ کی کسی حکمت خفیہ نے میری نظر کو اس کے پہچاننے سے قاصر رکھا ۔ لیکن امید رکھتاہوں کہ کسی دوسرے وقت دکھایاجائے گا۔ "

اب حضرت صاحبؒ نے یہ جو کشف بیان فرمایا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ منصور دوسرے وقت میں دکھایا جائے گا سو وہ فی الحقیقت دوسرے وقت میں دکھایا گیا ۔ حضرت صاحبؒ کا رویاء ہے ۔

"مولوی محمد علی صاحب کو رویاء میں کہا


 آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے آو اور ہمارے ساتھ بیٹھ جاو"
البدر ۱۶ جولائی ۱۹۰۴ء

قادیانی اس کی یہ تشریح کرتے ہیں کہ آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے کسی پہلے زمانہ میں مگر اب نہیں ۔ اب ناپاک ہو گئے ہیں اور ہمارے ساتھ بیٹھ جاو کا مطلب یہ بیان کرتےہیں کہ حضرت صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بیٹھ جاو مگر نہیں بیٹھتا۔ 

اگر اسطرح اپنے پاس سے الفاظ بڑھا کر کسی کلام کی تشریح کرنی ہو تو جس کلام سے جو معنے چاہو کر لو ۔ یہاں تو بات صاف ہے ۔ حضرت صاحب مجھے اپنی معیت میں مجھے لیتے ہیں اس لئے کہ میں صالح تھا اور نیک ارادے رکھتے تھا ۔ اپنے پاس بٹھاتے ہیں ۔

یہاں ایک واقعہ یاد آیا۔ حضرت مسیح موعودکے زمانہ میں ایک مولوی صاحب تھے ۔ انکو الہام ہوا 


"مرزا کافر" (نعوذباللہ، ناقل)

حضرت صاحبؒ فرماتے تھے یہ عجب بات ہے کہ خدا نے کافر کہنا تھا تو اس قدر ادب کے ساتھ صاحب کا لفظ بڑھایا۔

یہاں اگر میرا فاسق ہونا اور مفسد ہونا بیان کرنا تھا تو پاس بٹھانے کےکیا معنے؟؟

لیکن میں ایک اور بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں ۔ اس منصور والے رویاء میں بھی یہ لفظ ہیں 

"خدا تعالیٰ اس کے خادمانہ ارادوں کا جو اسکے دل میں ہونگے آپ ناصر ہوگا"

اس کی وجہ سے اسکی نصرت فرمائے گا اور یہاں بھی نیک ارادوں کا ذکر ہے تو اس سے اور پانچ ہزار کی تعداد سے جو ہماری جماعت پر صادق آتی ہے یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ دونوں رویاء ایک ہی شخص سے متعلق ہیں 

پیغام صلح  ۲۸ جنوری ۱۹۴۳ء

خطبات مولانا محمدعلیؒ جلد ۱۷ صفحہ ۲۴ تا ۲۷

"یہ کشف مت تک اخفاء کی حالت میں رہا ۔ چند سال قبل ہماری نظروں سے گزرا ۔ غالباً ۱۹۳۵ء کا واقعہ ہے کہ جناب میاں صاحب (مرزا بشیرالدین محمود صاحب، ناقل)نے کسی انگریز  یا امریکن سے گفتگو کرتے ہوئے جماعت لاہور کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کہ یہ لوگ یعنی جماعت لاہور کے افراد بانی سلسلہ کو صرف مجدد مانتے ہیں، نبی نہیں مانتے ۔ ہماری تعداد سے متعلق اس شخص سے میاں صاحب نے یہ بھی کہا کہ جماعت لاہور کی تعداد پانچ ہزار کے قریب ہے ۔ انکی یہ گفتگو رسالہ ریویو آف ریلیجنز ۱۹۳۵ ء میں چھپی ہوئی موجود  ہے ۔ 

اسکے بعد یہ کشف ہماری نظروں سے گزرا ۔اگرچہ ہمیں میاں صاحب کے مکالمہ کا کوئی علم نہ تھا، ہم نے اس کشف کو شائع کیا اور لکھا کہ  اس کشف میں حضرت صاحبؒ کو دو آدمی دکھائے گئے ہیں ۔ایک زمین پر ہے اور دوسرا چھت کے قریب ۔ 

پہلا کثیر تعداد کا مالک ہے لیکن اسکے باوجود مسیح موعودکے مطالبہ پر بالکل خاموش رہتا ہے اور دوسرا ایک قلیل گروہ کا نمائندہ ہے وہ حضرت مسیح موعو د کے ارشاد پر عرض کرتا ہے ۔ میں پانچ ہزار سپاہی پیش کرسکتاہوں بات بالکل صاف ہے ۔ 

ہمیں پہلے اس طرف توجہ نہیں ہوئی ۔ لیکن جب ہوئی تو ادھر سے کہا گیا کہ پانچ ہزار فوج کس کی ہے ؟ 
دل میں چور تھا ۔ اب "تحریک جدید" پانچ ہزار پورا کیا جارہا ہے جسے اخبار الفضل میں پانچ ہزاری فوج لکھا جاتا ہے ۔ 

لیکن سمجھ نہیں آتا ۔ کشف میں دو الگ الگ شخص ہیں ۔ ایک چھت پر ہے اور ایک زمین پر ۔ زمین والا خاموش ہے ۔ جس فرض کےلئے حضرت صاحبؒ کو فوج کی ضرورت ہے، وہ اسکےلئے فوج دینے کو تیار نہیں ۔ اس سے مایوس ہو کر حضرت صاحبؒ چھت والے شخص کی طرف متوجہ ہوتے ہیں وہ کہتا ہے کہ پانچ ہزار حاضر ہیں ۔ 

یہ کشف اس طرح جماعت احمدیہ لاہور کو متشخص کر دیتا ہے ۔ نام لے کر یاد کرنے سے بھی زیادہ واضح کشف ہے ۔

 اور یوں بھی دیکھ لیجئے ۔ ایک شخص زمین پر بیٹھا ہے یعنی اسکی توجہ دنیا کی طرف زیادہ ہے اور دنیا کس قدر آئی ہے ؟ دولت، صنعت، حرفت، جتھا، عہدے، مرتبے سب کچھ قادیان میں موجود ہے۔

ہاں دنیا حاصل کرنا بھی خوشی کی بات ہے وکان ابوھما صالحا (۱۸: ۸۲) ۔ میاں صاحب ایک صالح انسان کی اولاد ہیں  ۔ اگر خدا نے انکو مال و دولت دی ہے تو صالح باپ کی وجہ سے ہے ۔ وہ بڑا عظیم الشان صالح تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق دولت دی ہے 

لیکن میں آپکو پھر اصل بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ قرآن مجید بھی ایک جماعت کا ذکر کرتا ہے ۔ حضرت مسیح موعود کا کشف بھی ایک جماعت کو ظاہر کرتا ہے جنکی نظر اونچی ہو ۔ زمینی چیزوں کی طرف نظر نہ ہو بلکہ صرف خدا کے دین اور اسکے غلبہ کی طر ف ہو ۔ وہ کونسی جماعت ہے ؟ یہ بات آج کے دن کی طرح روشن ہے ۔ 

بالخصوص اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ یہ جو حضرت صاحبؒ کا کشف ہے کہ پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا ۔ ہمیں فی الواقعہ اپنے آپ کو سپاہی بنانا چاہیے ۔ کیا کام ہے سپاہی کا ؟ میں انشا اللہ پھر کسی وقت بتاوں گا ۔

اگر کوئی شخص اپنی زندگی کو خدا کےلئے وقف کر تا ہے یا کوئی شخص مال کما کر اسے خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے یہ سب سپاہی ہیں ۔ حضرت مسیح موعود کی جماعت میں ہو کر سپاہی نہ بننا ، اس عہد کو توڑنا ہے کہ دین کو دنیا پ رمقدم رکھوں گا۔

اگر قادیانی جماعت کو اس بات کا خیال ہے کہ انکے دس لاکھ بیعت کنندگان میں صرف پانچ ہزار سپاہی رہ گئے ہیں تو انہیں چھوڑ دو۔ 

مگر ہم میں سے ہر ایک کو سپاہی بننا چاہیے ۔ جو فی الواقعہ خدا کی راہ میں جنگ کرنے والا ہو ۔جہاں مغربی اقوام کی موجودہ جنگ ختم ہوتی ہے وہاں سے درحقیقت آپکی جنگ شروع ہوتی ہے ۔ حق و باطل کی جنگ فی الحقیقت اس وقت شروع ہو گی جب یہ جنگ ختم ہو کر تبلیغ کے رستے کھل جائیں گے ۔

آپ کو اسکے لئے اپنے آپ کو تیار رکھنا چاہیے ۔ یہ ہماری تیاری کا زمانہ ہے ۔ یہ تیاری کسطرح پر کرنی چاہیے ۔ یہ انشا اللہ پھر کسی وقت بتاوں گا ۔ کیونکہ ایک خطبہ اس سارے مضمون کا متحمل نہیں ہو سکتا۔"

خطبات مولانا محمدعلیؒ جلد ۱۷ صفحہ ۱۹ تا ۲۱
پیغام صلح  ۲۱جنوری ۱۹۴۳ء

...................................................................................................................................................................

۷: عقائد حضرت مولانا محمد علی ؒ 
انکی اپنی قلم سے 

تبدیلی عقیدہ کے ناپاک الزام پر حلف
عقیدہ کس نے بدلا ؟
قادیانی جماعت کے پیشواء ثانی اور ہمنواوں نے 
یا جماعت احمدیہ لاہور نے؟



میرا عقیدہ دربارہ نبوت مسیح موعودؑ کیاتھا؟ میں نے اسکو ابتدائے اختلاف ہی میں کھول کر بیان کردیا تھا ۔میں پہلے بھی اسی پر قائم تھا، اب بھی اسی پر قائم ہوں اور انہیں الفاظ میں پھر اپنے عقیدہ کو نقل کرتا ہوں 



"میں یہ مانتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ شرعی اصطلاح میں نبی اور رسول نہ تھے ۔یعنی نبی اس لئے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ پر غیب کے اخبار ظاہر کرتا تھا اور رسول اس لئے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مامور کر کے اصلاح کےلئے بھیجا تھا ۔

یعنی آپ ان معنوں میں نبی اور رسول تھے جن معنوں میں اس امت کے دوسرے مجدد بھی نبی اور رسول کہلا سکتے ہیں "
......................

"اس امت کے دوسرے مجددوں پر آپؒ   کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپؒ   کی آمد کے متعلق صریح پیشگوئیاں موجود ہیں ۔۔۔۔ پھر جس عظیم الشان فتنہ کی اصلاح کےلئے آپکو ؒ بھیجا گیا، دوسرے کسی مجدد کو اتنا عظیم الشان کام سپرد نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔


......................

ایسا ہی آپکوؒ کو جو علم کلام دیا گیا وہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس کو لیکر مسلمان کل مذاہب پر غالب آ سکتے ہیں ، دوسرے کسی مجدد کو ایسا علم کلام نہیں دیا گیا ۔"


......................
"میں حقیقی نبوت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم یقین کرتا ہوں ۔آپؐ    کے بعد نہ کوئی پرانا نبی واپس آئے گا نہ کوئی نیا نبی مبعوث ہوگا"

منقول از میرے عقائد، مطبوعہ ۳۳ اگست ۱۹۱۴ء



......................

"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر قسم اٹھاتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ میرے علم میں ۱۹۰۱ ء سے لیکر ۱۹۰۸ء تک حضرت مسیح موعودؑ کا یہی عقیدہ تھا کہ انکا نہ ماننے والا بھی مسلمان اور دائرہ اسلام میں ہے اور انکا منکر کافر اور دائرہ اسلام سے خارج نہیں اور میرا بھی یہی عقیدہ ۱۹۰۱ء سے لیکر آج تک بربنائے عقیدہ حضرت مسیح موعودؑ ہے "

پیغام صلح ۔لاہور۔۲۱ستمبر ۱۹۴۴



......................

"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اس بات پر حلف اٹھاتا ہوں کہ میرا عقیدہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب قادیانی مجدد اور مسیح موعودؑ ہیں مگر نبی نہیں اور نہ انکے انکار سے کوئی شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے 
اور یہی عقیدہ حضرت مرزا صاحب کا تھا



اے خدا اگر میں نے تیر نام لیکر اس قسم کے کھانے میں جھوٹ بولا ہے تو تو اپنی طرف سے ایسی عبرت ناک سزا مجھ پر بھیج جس میں انسانی ہاتھ کا کوئی دخل نہ ہو اور جس سے دنیا سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھا کرمخلوق خدا کو دھوکہ دینے والوں پر خدا تعالیٰ کی گرفت کتنی سخت اور درد ناک ہوتی ہے "

پیغام صلح ۔لاہور۔۱۱دسمبر ۱۹۴۶



......................

"ہم اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ ۱۹۰۱ ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دعوی میں تبدیلی کی"

ستر بزرگان لاہور کا حلف

......................


......................

حضرت مولانا نور الدینؒ کا عقیدہ
انکی اپنی قلم سے 

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ


دل چیر کر دیکھا یا دکھانا انسانی طاقت سے باہر ہے ۔قسم پر کوئی اعتبار کرے تو واللہ العظیم کے برابر کوئی قسم مجھے نظر نہیں آتی۔نہ آپ میرے ساتھ میری موت کے بعد ہونگے نہ کوئی اور میرے ساتھ سوائے میرے ایمان و اعمال کے ہوگا۔پس یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش ہونے والا ہے ۔
میں مرزا صاحب کو مجدد اس صدی کا یقین کرتا ہوں ۔میں انکو راستباز مانتاہوں ۔
حضرت محمد الرسول اللہ النبی العربی المکی المدنی خاتم النبیین کا غلام اور اسکی شریعت کا بدل خادم مانتا ہوں اور مرزا خود اپنے آپکو جاں نثار غلام نبی عربی محمدؐ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن مناف  کامانتے تھے 



نبی کے لغوی معنی پیش از وقت اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر خبر دینے والا ہم لوگ یقین کرتے ہیں نہ شریعت لانے والا۔



مرزا صاحب اور میں خود جو شخص ایک نقطہ بھی قرآن شریف کا اور شریعت محمدؐ رسول کا نہ مانے، میں اسے کافر اور لعنتی اعتقاد کرتا ہوں ۔



یہی میرا اعتقاد ہے اور یہی میرے نزدیک مرزا غلام احمد کا تھا ۔

کوئی رد کرے یا نہ مانے یا منافق کہے اس کا معاملہ حوالہ بخدا۔

نورالدین بقلم خود 
۲۲ اکتوبر  ۱۹۱۰ء 

......................

قادیانی جماعت کے پیشواء
مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کا سابقہ عقیدہ
خود انکی اپنی قلم سے 


"اس آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپؐ    کے بعد کوئی شخص نہیں آئے گا جس کو نبوت کے مقام پر کھڑا کیا جائے اور وہ آپؐ    کی تعلیم کو منسوخ کر دے اور نئی شریعت جاری کر دے ۔بلکہ جسقدر 

اولیاء اللہ 
ہونگے  اور متقی اور پرھیز گار لوگ ہونگے سب کو آپؐ   کی غلامی میں ہی ملے گیا جو کچھ ملے گا ۔
اس طرح خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ
 آپؐ    کی نبوت نہ صرف اس زمانہ کےلئے ہے بلکہ
آئندہ بھی کوئی نبی نہیں آئے گا"

تشحیذ الاذہان بابت اپریل ۱۹۱۰ء 


......................


قادیانی جماعت کے ھیڈ 

مولوی محمد سرور شاہ صاحب کا سابقہ عقیدہ


"لفظ نبی کے معنی اپنے مصدروں کے لحاظ سے دو ہیں ۔

اول اپنے خدا سے اخبار غیب پانے والا 
دوئم عالی مرتبہ شخص ۔جس شخص کو اللہ تعالیٰ بکثرت شرف مکالمہ سے ممتاز کرے اور غیب کی خبروں پر مطلع کرے ، وہ نبی ہے 



اس رنگ میں میرے نزدیک تمام مجددین سابق مختلف مدارج کے انبیاء گزرے ہیں "
بدر مورخہ ۱۶ فروری ۱۹۱۱ء 


......................

مفتی محمد صادق صاحب کا سابقہ عقیدہ 

اس کو عربی لغت میں نبی کہتے ہیں 



"شبلی نے دریافت کیا کہ کیاہم لوگ مرزا صاحب کونبی مانتے ہیں ؟

میں نے عرض کیا کہ ہمارا عقیدہ اس معاملہ میں دیگر مسلمانوں کی طرح ہے کہ آنحضرت صلعم خاتم النبیین ہیں ۔
آپکے بعد کوئی دوسرا نبی آنیوالانہیں ۔نہ نیا نہ پرانا ۔
ہاں مکالمات الٰہیہ کا سلسلہ برابر جاری ہے وہ بھی آنحضرت صلعم کے طفیل آپؐ    سے فیض حاصل کر کے اس امت میں ایسے آدمی ہوتے رہے جنکو الہام الٰہی سے مشرف کیا گیا اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے ۔



چونکہ حضرت مرزا صاحب بھی الہام الہی سے مشرف ہوتے رہے اور الہام الٰہی کے سلسلہ میں آپکو خدا تعالیٰ نے بہت سی آئندہ کی خبریں بطور پیشگوئی کے بتلائی تھیں جو پوری ہوتی رہیں اس واسطے مرزا صاحب ایک پیشگوئی کرنے والے تھے اور اسکو 

عربی لغت میں نبی کہتے ہیں "
بدر۔جلد نمبر ۹ ، ۵۱/۵۲



......................

۸:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں 
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)

ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام

"نبوت کا دعوی نہیں بلکہ محدثیت کا دعوٰی ہے جو خدا تعالیٰ کےحکم سے کیا گیاہے"

"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "

" یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے؟"

روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹

......................

"میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اورنبی کے میری الہام میں میری نسبت خدا تعالٰی کی طرف سے بے شک ہیں  لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں اور جیسے یہ محمول نہیں ایسا ہی نبی کر کے پکارنا  جو حدیثوں میں مسیح موعودؑ کےلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔
 یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "

سراج منیر،صفحہ ۳
......................
"سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں ۔ آنے والے مسیح موعودؑ  کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویؐ سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور معمولی محاوہ مکالمات الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا؟"
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"
......................

یہ بھی یاد رہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے"
روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209



......................

"سمیت نبیا من اللہ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ"
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر 


روحانی خزائن جلد 22 صفحہ  689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65) 
......................
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب
 انکے اپنے اشعار میں 

ما مسلمانیم از فضلِ خدا 
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا

اندریں دیں آمدہ از مادریم 

ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم

آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست

بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست

یک قدم دوری ازاں روشن کتاب

نزد ماکفر است و خسران و تباب

آں رسولے کش محمدؐ ہست نام

دامنِ پاکش بدستِ ما مدام

مہرِ اوباشیرشداندربدن

 جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن 

ہست اوخیرالرسل خیرالانام

ہر نبوت را بروشد اختتام

(کتاب سراج منیر، ضمیمہ صفحہ ز)
۹:
 ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف

اس ہفتہ کی کتاب

 ایک ضروری تجویز

بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین 
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

No comments :

Post a Comment