Friday, September 12, 2014

جمعہ 12ستمبر 2014، شمارہ: 30


حضرت مولانا محمد علی ؒ کے خطبات کی تازہ ریکارڈنگز


لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِ

















روزنامہ مبلغ (آنلائن)


روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان



بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت

 حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ

احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

جمعہ۔۱۲ستمبر ۲۰۱۴ء

۱۶ذیقعد ۱۴۳۵ ہجری

شمارہ نمبر:30

Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com


    خوشخبری
اپ ڈیٹ
بلاگ پر نیا اضافہ
احباب جماعت احمدیہ لاہور کو یہ جان کر از حد خوشی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس بلاگ کے آڈیو ویڈیو سیکشن میں  خطباتِ حضرت مولانا محمدعلیؒ کی آڈیو ریکارڈنگز کی اشاعت کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔
 خطبات کو باقاعدہ کیٹیگرائزڈ(categorized) کیا جارہا ہے جسکےلئے متعلقہ بلاگ پر سیلیکٹ کیٹیگری(select category) کا آپشن موجود ہے ۔علاوہ ازیں کسی خاص خطبہ کی تلاش کےلئے سرچ کا آپشن بھی موجود ہے ۔

 براہ کرم آڈیو ویڈیو سیکشن کو وزٹ فرمائیں اور اس سلسلہ کو بہتر سے بہتر بنانے کےلئے ہمیں اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ فرمائیں ۔

جزاکم اللہ تعالیٰ خیرا کثیرا




۱:کلامِ الٰہی 

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
النحل: 90 

ترجمہ:۔  اللہ تمھیں عدل اور احان اور قر یبیوں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برائی اور زیادتی سے روکتا ہے ۔وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔
تفسیر
جب قرآن کریم کو تبیانا لکل شئی کہا تو اب اسکی جامع تعلیم کا ایک نمونہ پیش کیا ہے اور اس آیت میں خیر اور شر کو پورے طور پر جمع کیا ہے ۔خیرکی اقسام میں عدل اور احسان اور ایتاذی القربیٰ کو بیان کیا ہے اور شر میں فحشاء اور منکر اور بغی اور تینوں باتیں ایک ترتیب میں ہیں ۔
عدل ادنیٰ درجہ کی نیکی ہے جو مساوات کے رنگ میں ہے یعنی جو کوئی تمھارے ساتھ نیکی کرے کرنا یا احسان کے عوض احسان۔ احسان وہ نیکی ہے جو بطور ابتداء بغیر کسی معاوضہ کے یا معاوضہ کے خیال کے کی جائے اور ایتاذالقربیٰ سے مراد صرف قریبیوں کو دینا نہیں گو صلہ رحمی بجائے خود ایک ایسی اعلیٰ درجہ کی نیکی ہے جس سے سب نیکیاں پیداہوتی ہیں ، بلکہ ایسا ایتاء مراد ہے جیسے ذی القربیٰ کا ہوتا ہے ۔
قریبیوں کا انسان کسی احسان کے خیال سے نہیں دیتا ۔یہ بھی نہیں سمجھتا کہ میں کوئی  نیکی کر رہاہوں بلکہ یہ ایک فطری خواہش کےما تحت ہوتا ہے۔
 پس یہ تیسرا مرتبہ یہ چاہتا ہے کہ نیکی انسان میں فطری خواہش کی طرح بن جائے ۔ایک کام کو جب انسان بار بار کرتاہے تو آخر ہوتے ہوتے وہ اسکی طبیعت کا جزو بن جاتا ہے ۔پس انسان اس قدر احسان کی عادت کر ے اور اسقدر بار بار اس کا اعادہ کرے کہ آخر ہوتے ہوتے احسان کرنا اسکی فطری خواہش کی طرح ہوجائے ۔
اور اقسام شر میں سب سے پہلے فحشاء کا ذکر کیا۔ یعنی ہر ایک فعل جو بذات خود قبیح ہے گو اسکا اثر دوسروں پر ہو یا نہ ہو اور دوسری ۱سم منکر ہے جسے دوسرے منائیں اور اسکا انکار کیا جائے ۔ گویا اس کا اثر دوسروں پر بھی پڑتاہے ۔

اور تیسری قسم بغی ہے جس میں انسان حد سے نکلنا چاہتا ہے ۔وہ گیا ایسا تجاوز ہے جس کا اثر بہت ہی وسیع ہے  ۔ایک دوسرے رنگ میں فحشاء قوت شہویہ سےپیدا ہوتا ہے۔ منکر قوت غضبیہ سے، بغی قوت وہمیہ سے ۔
شہوت کا اثر بد دوسرے انسانوں پر بہت کم پڑتا ہے اور عموماً اس میں ظلم کر رنگ بہت کم ہوتا ہے۔ غضب کے اثر بد کا دائرہ وسیع ہو جاتا ہے اور عموماً اس سے دوسرے انسانوں کو تکلیف پہنچتی ہے مگر سب سے بڑے مظالم دنیا میں قوت وہیمہ سے پیدا ہوتے ہیں، جسکی وجہ سے قوموں کی قومیں اور ملکوں کے ملک صرف ایک وہی کے ماتحت تباہ کردئیے جاتے ہیں ۔اور اگر یہ تینوں قوتیں حالت اعتدال پر آجائیں تو انسان بدی کی تمام راہوں سے بچ سکتا ہے ۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اس آیت کو خطبہ جمعہ کے آخر میں داخل کیا ہے ۔

بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ


۲:حدیثِ نبویؐ

سب سے بڑا عبادت گزار اور صحیح مومن

حضرت امیر معاویہؓ  بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جس شخص کو اللہ تعالیٰ بھلائی اور ترقی دینے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرماتا ہے۔

بخاری کتاب العلم  باب من یرداللہ بہ خیرا حدیث نمبر ۲۸۳۰

۳:سیرت خیر البشرؐ
 باب چہارم
آفتاب رسالت کے طلوع سے پہلے کا زمانہ 
ظھرالفساد فی البر و البحر
(30:الروم:41)
برو بحر میں فساد ظاہر ہو گیا
از
 حضرت مولانا محمد علی 

نوٹ:  حضرت مولانا محمد علیؒ  کے اس عظیم الشان شاہکار اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ امی و ابی کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب سیرت خیرالبشر ؐ کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ

گزشتہ سے پیوستہ

عرب کی اصل اور مذہبی حالت

"خانہ کعبہ کے تین سو ساٹھ بتوں کے علاوہ قبیلے اپنے بت الگ بھی رکھتے تھے بلکہ ہر گھر میں الگ الگ بت بھی رہتا تھا جہاں دودھ وغیرہ اشیاء کے چڑھاوے چڑھتے تھے اور وہاں پروہت کوئی نہ ہونے کی وجہ سے ان چیزوں کو کتے کھا جاتے تھے غرض بت پرستی ان لوگوں کے خون کے اندر ایسی رچی ہوئی تھی کہ انکی روز مرہ زندگی کے تمام کاروبار پر اس کا اثر تھا۔

انکا یہ اعتقاد تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام کاروبارِ عالم کو اور اپنی قدرتوں کو ،جیسے بیمار کو شفا دینا، اولاد دینا، قحط و وبا کو دور کرنا، دوسروں کےسپرد کر رکھا ہے اور یہ بھی کہ بتوں کی پرستش سے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے ۔وہ بتوں کو سجدہ بھی کرتے ، انکے گرد طواف بھی کرتے، ان پر قربانیاں بھی کرتے تھے۔
کھیتوں کی پیداوار میں سے اور مویشیوں کی نسل میں سے انکے لئے نذریں مانتے اور ان پر چڑھاوے چڑھاتے۔
اس ذلیل کن بت پرستی سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیس سال کے عرصہ میں سارے ملک عرب کو آزاد کر دیا اور نہ صر ف ہمیشہ کےلئے بت پرستی ملک عرب سے رخصت ہوئی بلکہ توحید کی ایک ایسی آگ انکے سینوں کے اندر لگا دی کہ وہ چاروں طرف دنیا میں پھیل گئے اور خدا کے نام کو ہر طرف بلند کیا۔
بت پرست بت شکن بن گئے ۔بارہ لاکھ مربہ میل میں سے ایسی گہری اور دیرینہ بت پرستی کو بیس سال کے عرصہ میں ایسا نکالنا کہ پھر اسکا نام تک وہاں نہ آئے، انسان کی طاقت میں نہ تھا۔ " 

جاری ہے

کتاب سیرت خیرالبشرؐ،باب دوئم، صفحہ21


۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ 

کثرت اختلاف کا سبب

" اے معزز صاحبان! مجھے بہت سے غور کے بعد اورنیز خدا کی متواتر وحی کے بعدمعلوم ہوا ہے کہ اگرچہ اس ملک میں مختلف فرقے بکثرت پائے جاتے ہیں اور مذہبی اختلافات ایک سیلاب کی طرح حرکت کررہے ہیں تاہم وہ امر جو اس کثرتِ اختلافات کا موجب ہے وہ درحقیقت ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ اکثر انسانوں کے اندر سے قوّت روحانیت اور خدا ترسی کی کم ہوگئی ہے۔ اور وہ آسمانی نور جس کے ذریعہ سے انسان حق اور باطل میں فرق ؔ کر سکتا ہے وہ قریباً بہت سے دلوں میں سے جاتا رہا ہے۔ اور دنیا ایک دہریت کا رنگ پکڑتی جاتی ہے یعنی زبانوں پر تو خدا اور پرمیشر ہے اور دلوں میں ناستک مت کے خیالات بڑھتے جاتے ہیں۔

اس بات پر یہ امر گواہ ہے کہ عملی حالتیں جیسا کہ چاہئے درست نہیں ہیں۔ سب کچھ زبان سے کہا جاتا ہے مگر عمل کے رنگ میں دکھلایا نہیں جاتا۔ اگر کوئی پوشیدہ راستباز ہے تو مَیں اُس پر کوئی حملہ نہیں کرتا۔ مگر عام حالتیں جو ثابت ہورہی ہیں وہ یہی ہیں کہ جس غرض کے لئے مذہب کو انسان کے لازم حال کیا گیا ہے وہ غرض مفقود ہے دل کی حقیقی پاکیزگی اور خدا تعالیٰ کی سچی محبت اور اس کی مخلوق کی سچی ہمدردی اور حلم اور رحم اور انصاف اور فروتنی اور دوسرے تمام پاک اخلاق اور تقویٰ اور طہارت اور راستی جو ایک رُوح مذہب کی ہے اُس کی طرف اکثر انسانوں کو توجہ نہیں۔

جاری ہے 
کتاب : سیرة الابدال 
 روحانی خزائن، جلد ۲۰صفحہ ۱۴۷، ۱۴۸

۵:دینی مسائل اور انکا حل
ارشاد مبارک حضرت مجدد اعظم و امام الزمان
مرزا غلام احمد قادیانی رحمتہ اللہ علیہ  

ماتم اور ناپا ک رسمیں  

"ماتم کی حالت میں جزع فزع  اور نوحہ یعنی سیاپا کرنا اور چیخیں مار کر رونا اور بے صبری کےکلمات زبان پر لانا یہ سب ایسی باتیں ہیں جن سے ایمان کے جانے کا اندیشہ ہے اور یہ سب رسمیں ہندووں سے لی گئی ہیں۔جاہل مسلمان نے اپنے دین کو بھلا دیا اور ہندووں کی رسمیں اختیا کر لیں ۔
کسی عزیز اور پیارے کی موت کی حالت میں مسلمانوں کےلئے یہ حکم قرآن شریف میں ہے کہ صرف انا للہ وانا الیہ راجعون کہیں ۔یعنی ہم خدا کا مال اور ملک ہیں ۔اسے اختیا رہے۔ جب چاہے اپنا مال لے لے ۔
اور اگر رونا ہو تو صر ف آنکھوں سے آنسو بہانا جائز ہے اور جو اس سے زیادہ کرے وہ شیطان ہے ۔
برابر ایک سال تک سوگ رکھنا اور نئی نئی عورتوں کے آنے کے وقت یا بعض خاص دنوں میں سیاپا کرنا اور باہم عورتوں کا سر ٹکڑانا، رونا اور کچھ کچھ منہ سے بھی بکواس کرنا اور پھر برابر ایک برس تک بعض چیزوں کا پکانا چھوڑ دینا، اس عذر سے کہ ہمارے گھر میں یا ہماری برادری میں ماتم ہو گیا ہے ،یہ سب ناپاک رسمیں اور گناہ کی باتیں ہیں جن سے پرھیز کرنا چاہیے۔ "

بدر ۱۹۰۵ء 

۶:پیغامِ امیر قومؒ
حضرت مولانا محمد علیؒ

حضرت مرزا صاحبؒ پر مراق  کے الزام کا نہایت زبردست جواب

"حضرت مرزا صاحبؒ کے بارے میں بڑے بڑے عقلمند یہ رائیں لگارہے ہیں کہ آپ مراقی تھے۔میں حیران ہوتا ہوں کہ بھلا کیسے اس بات کا یقین دلائیں گے انکو ، جو آپکے پاس بیٹھے ہیں ۔انکے تو چہرے پر ہی تبسم کھیلتا تھا ۔ہر وقت دوستوں میں خوش خوش رہتے اور ہنستے ہوئے باتیں کرتیں ۔ہم تو دن رات آپؒ   کے پاس بیٹھے رہے ہیں ۔نہ صرف یہ کہ آپؒ   کے اپنے چہرے پر کبھی پژ مردگی اور غم کے آثار نہ ہوتے تھے بلکہ آپکے چہرے کی طرف دیکھنے سے دوسروں کا بھی غم دور ہو جاتا تھا۔

پھر جو کام آپؒ   نے کیا ، جس طرح قرآن کی محبت دلوں میں ڈالی اور اسکو پھیلانے کا ایک جوش اور ولولہ پیدا کر دیا، اگر فی الوقعی مراقی اور مجنون بھی یہ کام کرلیا کرتے ہیں، تو میں کہتا ہوں کہ ان کم بختوں تندرستوں کو کیا ہو گیا ہے ؟ کہ ان سے کوئی اس قسم کا کام نہیں ہو سکتا ؟ 

آپ ؒ کی مجلس اور صحبت کے اندر وہ اثر تھا کہ میں علیٰ وجہ البصیرت گواہی دیتا ہوں کہ محض آپکی صحبت میں بیٹھنے سے ہی لوگوں کی زندگیاں بدل گئیں ۔ جو رشوت لینے کے عادی تھے، جب آپکی صحبت میں آکر بیٹھے تو رشوت کی عادت ان سے چھوٹ گئی ۔چور اور ڈاکو جب آپؒ   کی صحبت سے متاثر ہوئے ، تو چوری اور ڈاکہ زنی سے وہ تائب ہو گئے ۔کیا کسی کبھی کسی مراقی اور مجنون کی یہ کیفیت آپ نے دیکھی ۔ لیکن نہیں ۔ان باتوں سے تو کوئی مطلب ہی نہیں ۔انہیں چند جہلا کو خوش کرنا مقصود ہے ۔

میں پوچھتا ہوں کہ اگر مراق کی بیماری حضرت مرزا صاحبؒ کو ہوتی، تو کس طرح اتنا بڑا کام کر سکتے تھے؟ کیونکر اتنے لوگ آپکے گرد جمع ہو سکتے تھے ۔ہاں اس میں شک نہیں کہ آپکو دوران سر کا مرض تھا لیکن اسکو مراق کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔جب وہ حالت دور ہو جاتی تھی تو پھر وہی مرزا صاحب ایسے ہشاش بشاش ہوتے تھے کہ گویا کوئی تکلیف ہی نہیں تھی ۔یہ مراق والے کی حالت نہیں ہوتی ۔لیکن لوگوں نے کسی نہ کسی طریق سے جھٹلانا ہے ۔ کسی نے مراق کہہ دیا ، کسی نے افتراء کہہ دیا، کسی نے سحر اور مسمریزم قرار دے دیا ۔ 

اصل بات یہ ہے کہ ایک صادق انسان کا معاملہ اس قدر مشکل ہوتا ہے کہ سوائے صحیح حل کے اور کسی بات پر انسان قائم نہیں رہ سکتا ۔تاہم یہی باتیں انکے پاس لے دے کے رہ گئی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صرف جھوٹا کہہ لینے سے کچھ نہیں بنتا، جب تک غور اور توجہ سے اسکے کلام کونہ دیکھا جائے، اسکے خیالات کو نہ سنا جائے، اسکے اعمال کو نہ دیکھا جائے۔افسوس کہ ہمارے مخالفین کو اس سے کچھ غرض نہیں ۔

لیکن یاد رکھئیے کہ آج یہ لوگ حضرت مرزاصاحب ؒ کو مفتری اور کذاب کہتے ہیں، کل انکی اولادیں ہونگی، جن کے سامنے جب حقائق آئیں گے اور جب اسکی خدمت اسلام کے کھلے اور روشن نتائج انکے سامنے ہونگے، تو وہ ان لوگوں کو ملامت کریں گے اور محسوس کریں گے کہ پھر ایک دفعہ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔اور وہ آخر کار غور کر کے حق و صداقت کو پا لیں گے ۔

ایک بیج ابتدا میں حقیر چیز سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جس بیج کو پانی مل جائے، وہ درخت بننے سے نہیں رہتا۔اسی طرح صداقت بھی ایک بیج ہے ۔یہ بھی ایک درخت بن کر رہتی ہے ۔راستبازوں کے ساتھ ہمیشہ یہی سلوک ہوتا چلا آیا ہے ۔ہر ایک راست باز کی یہی حالت ہے ۔تاہم اسکی راستبازی کو کوئی مٹا نہیں سکتا، اور آخرکار کامیاب ہو کر رہتا ہے ۔ 
"

پیغامِ صلح ، ۱۶ جولائی    ۱۹۳۵ ء
خطبات مولانا محمد علیؒ
جلد ۱۳، اقباس از صفحہ ۱۳۹ تا ۱۴۱


۷:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں 
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)

ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام

"نبوت کا دعوی نہیں بلکہ محدثیت کا دعوٰی ہے جو خدا تعالیٰ کےحکم سے کیا گیاہے"

"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "

" یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے؟"
روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹

"میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اورنبی کے میری الہام میں میری نسبت خدا تعالٰی کی طرف سے بے شک ہیں  لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں اور جیسے یہ محمول نہیں ایسا ہی نبی کر کے پکارنا  جو حدیثوں میں مسیح موعودؑ کےلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔ یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "
سراج منیر،صفحہ ۳

"سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں ۔ آنے والے مسیح موعودؑ  کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویؐ سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور معمولی محاوہ مکالمات الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا؟"
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"

یہ بھی یاد رہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے"

روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209
"سمیت نبیا من اللہ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ"
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر 




روحانی خزائن جلد 22 صفحہ  689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65) 

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب
 انکے اپنے اشعار میں 

ما مسلمانیم از فضلِ خدا 
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا

اندریں دیں آمدہ از مادریم 
ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم

آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست
بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست

یک قدم دوری ازاں روشن کتاب
نزد ماکفر است و خسران و تباب

آں رسولے کش محمدؐ ہست نام
دامنِ پاکش بدستِ ما مدام

مہرِ اوباشیرشداندربدن
 جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن 

ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام

(کتاب سراج منیر، ضمیمہ صفحہ ز)
۸:
 ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف

اس ہفتہ کی کتاب

 ایک ضروری تجویز

بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین 
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام


No comments :

Post a Comment