روزنامہ مبلغ (آنلائن)
بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت
حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
پیر منگل ۔۲۹، ۳۰ ستمبر ۲۰۱۴ء
۳، ۴ ذوالحج ۱۴۳۵ ہجری
شمارہ نمبر:41
Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com
اس ہفتہ کی کتاب
رد تکفیرِ اہل قبلہ
از حضرت مولانا محمد علیؒ
سب سے آخری سیکشن میں ملاحظہ فرمائیں
۱:کلامِ الٰہی
سورة النور
ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
4:آیت
إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
5:آیت
6:آیت
7:آیت
8:آیت
9:آیت
ترجمہ:۔
4:
اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ لائیں تو انھیں اسی کوڑے لگاو اور انکی گواہی کبھی قبول نہ کرو اور وہی نافرمان ہیں ۔
5:
مگر بعد میں جو توبہ کر لیں اور اصلاح کر لیں تو اللہ بخشنے والا رحم والا ہے ۔
6:
اور جو لوگ اپنی عورتوں پر تہمت لگائیں اور سوائے اپنے انکا کوئی گواہ نہ ہو تو ان (تہمت لگانے والوں) میں سے ایک کی گواہی یہ ہے کہ اللہ کی قسم کے ساتھ چار بار گواہی دے کہ وہ سچوں میں سے ہے
7:
اور پانچویں (بار یہ کہ) اللہ کی لعنت اس پر ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہے
8:
اور عورت سے یہ بات سزا کو ٹال سکتی ہے کہ وہ اللہ کی قسم کے ساتھ چار بار گواہی دے کہ وہ (مرد) جھوٹوں میں سے ہے
9:
اور پانچویں (بار یہ کہ)اللہ کا غضب اس پر ہو اگر وہ سچوں میں سے ہے
4:
اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ لائیں تو انھیں اسی کوڑے لگاو اور انکی گواہی کبھی قبول نہ کرو اور وہی نافرمان ہیں ۔
5:
مگر بعد میں جو توبہ کر لیں اور اصلاح کر لیں تو اللہ بخشنے والا رحم والا ہے ۔
6:
اور جو لوگ اپنی عورتوں پر تہمت لگائیں اور سوائے اپنے انکا کوئی گواہ نہ ہو تو ان (تہمت لگانے والوں) میں سے ایک کی گواہی یہ ہے کہ اللہ کی قسم کے ساتھ چار بار گواہی دے کہ وہ سچوں میں سے ہے
7:
اور پانچویں (بار یہ کہ) اللہ کی لعنت اس پر ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہے
8:
اور عورت سے یہ بات سزا کو ٹال سکتی ہے کہ وہ اللہ کی قسم کے ساتھ چار بار گواہی دے کہ وہ (مرد) جھوٹوں میں سے ہے
9:
اور پانچویں (بار یہ کہ)اللہ کا غضب اس پر ہو اگر وہ سچوں میں سے ہے
زنا کی تہمت
تفسیر
جسطرح زنا کی سزا سخت رکھی ہے اس طرح اس بات کی سزا بھی سخت رکھی ہے کہ خوامخوہ لوگوں پر الزام لگایا جائے اور گو یہاں صرف محصنات پر تہمت دینے کا ذکر ہے مگر مرد بھی اس میں شامل ہیں ۔ صرف عورتوں کا ذکر اس لئے کیا کہ عورتوں سے متعلق بری باتوں کی اشاعت کو زیادہ سختی سے روکنے کی ضرورت ہے ۔
اور چار گواہوں کو اس لئے ضروری ٹھہرایا تاکہ اس بات کے سچ ہونے میں کوئی شبہ نہ رہے ۔ ہاں یہ قاضی یا مجسٹریٹ کی رائے پر انحصار ہے کہ وہ قرائن کی شہادت کو بھی شامل کر لے۔
سوال ہو سکتا ہے کہ اگر ایک ہی شخص دیکھے اور اسے گواہ نہ ملیں تو وہ کیا کرے؟ حکم قرآنی یہ ہے کہ ایسی صورت میں اسے تشہیر کا کوئی حق نہیں سوائے اسکے کہ وہ اپنی عورت سے ایسے فعل کا ارتکاب دیکھے جس کا علاج آیت ۶ میں بتایا ہے ۔ کیونکہ اس طرح اسے تشہیر کا حق دے دیا جائے تو پھر ہر شخص جو چاہے کہتا پھرے اور اسکے مضرات بہت زیادہ ہیں ۔
اور ایسے کوڑے لگانے والوں کی سزا علاوہ کوڑوں کے یہ بھی ہے کہ انکی شہادت کسی معاملہ میں بھی قبول نہ کی جائے سوائے اسکے کہ وہ توبہ کریں ۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ توبہ کا معاملہ اللہ تعالیٰ سے ہے۔ شہادت پھر بھی قبول نہ کی جائے۔ مگریہ درست معلوم نہیں ہوتا۔
ان چار آیتوں میں(۶ تا ۹، ناقل) جو صورت بیان کی وہ لعان کی صورت ہے اور پانچ مرتبہ قسم اٹھانا اس لئے ہے تا دل پر واقعہ کے جھوٹ ہونے کی صورت میں خوف طاری ہو۔
لعان کے ساتھ شوہر اور عورت میں مفارقت لازم ہے اور نکا نکاح دوبارہ نہیں ہو سکتا ۔ سب سے پہلا لعان ہلال بن امیہ کا اسکی بی بی سے ہوا اور لکھا کہ یہ آیات اسکی معاملہ میں نازل ہوئیں ۔
بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ
...................................................................................................................................................................
۲:حدیثِ نبویؐ
(حضرت) انسؓ سے روایت ہے کہا رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ:
جو شخص ہماری نماز پڑھتا ہو اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرتا ہے اور ہمارا ذبیحہ کھاتا ہو تو یہ وہ مسلمان ہے کہ اسکے لئے اللہ کا عہد اور اس کے رسول کا عہد ہے ۔ سو تم اللہ کے عہد کو مت توڑو
بخاری (8: 28)
مختصر نوٹ:
گویا جس شخص میں یہ موٹا نشان پایا جاتا ہو کہ وہ مسلمانوں کی طرح نماز پڑھتا ہو اور قبلہ کی طرف منہ کرتا وہ خدا اور اسکے رسول کے نزدیک مسلم ہے اور مسلم ہونے کے لحاظ اللہ اور اسکے رسول کی امان میں ہے ۔
جو شخص اسے کافر کہتا ہے وہ اللہ اور سکے رسول کے عہد کو توڑتا ہے ۔ پس کلمہ گو کی تکفیر خدا اور اسکے رسول کے عہد کو توڑنے کے برابر ہے ۔
کتاب: احادیث العمل صفحہ39
از
حضرت مولانا محمدعلیؒ
...................................................................................................................................................................
۳:سیرت خیر البشرؐ
باب چہارم
آفتاب رسالت کے طلوع سے پہلے کا زمانہ ظھرالفساد فی البر و البحر
(30:الروم:41)
برو بحر میں فساد ظاہر ہو گیا
از
حضرت مولانا محمد علی
نوٹ: حضرت مولانا محمد علیؒ کے اس عظیم الشان شاہکار اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ امی و ابی کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب سیرت خیرالبشر ؐ کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ
گزشتہ سے پیوستہ
توہم پرستی
"جو لوگ حیات بعد موت کے قائل تھے ان میں سے کوئی مر جاتا تو اسکی قبر پر ایک اونٹ باندھ دیتے اور اسکو بھوکا پیاسا رکھ کر مارتے کہ قیامت کے دن مردہ اسی پر سوار ہو کر ۔ یہ بھی انکا عقیدہ تھا کہ مردہ کی روح قبر پر الو کی شکل میں اڑتی ہوئی پھرتی رہتی ہے اور اگر مردہ مقتول ہو وہ اسقنی اسقنی پکارتا رہتا ہے جب تک کہ مقتول کا قصاص نہ لے لیا جائے۔
کاہنوں، رمالوں پر بڑا ایمان رکھتے تھے ۔ یہ کاہن انکے خدا بنے ہوئے تھے ۔ وہ جو کہتے اس کو سچ مان لیتے تھے۔ اس قسم کی اور بہت سی توہم پرستیاں تھیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔
کہانت بیماری میں آسیب اورجنوں کے خیالات۔ خبیث ارواح کا جسم انسانی پر قبضہ۔ جادو وغیرہ ہزار ہا قسم کی توہم پرستیوں کی چند سالوں میں ایسی صفائی محمد رسول اللہ صلعم نے کی کہ گویا اس جزیرہ نما میں یہ باتیں کبھی تھیں ہی نہیں۔ اور نوع انسانی کو توہم پر ستی کی قید سے آزاد کر کے تہذیب و علم کے بلند ترین مینار پر پہنچا دیا ۔
واقعات کے رنگ میں تاریخ کوئی دوسرا ایسا انسان پیش کرنے سے عاجز ہے جس نے ہزاروں قسم کی اعتقادی اور عملی بیماریوں کا ایسے وسیع ملک میں اس قدر قلیل مدت میں اس کمال کے ساتھ علاج کر دیا ہو اور ان بیماریوں سے آزاد کر کے پھر ان لوگوں کو صحت کے کمال تک پہنچا دیا ہو ۔ اس لئے یہی انسان خیر البشر کہلانے کا مستحق ہے ۔ "
کاہنوں، رمالوں پر بڑا ایمان رکھتے تھے ۔ یہ کاہن انکے خدا بنے ہوئے تھے ۔ وہ جو کہتے اس کو سچ مان لیتے تھے۔ اس قسم کی اور بہت سی توہم پرستیاں تھیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔
کہانت بیماری میں آسیب اورجنوں کے خیالات۔ خبیث ارواح کا جسم انسانی پر قبضہ۔ جادو وغیرہ ہزار ہا قسم کی توہم پرستیوں کی چند سالوں میں ایسی صفائی محمد رسول اللہ صلعم نے کی کہ گویا اس جزیرہ نما میں یہ باتیں کبھی تھیں ہی نہیں۔ اور نوع انسانی کو توہم پر ستی کی قید سے آزاد کر کے تہذیب و علم کے بلند ترین مینار پر پہنچا دیا ۔
واقعات کے رنگ میں تاریخ کوئی دوسرا ایسا انسان پیش کرنے سے عاجز ہے جس نے ہزاروں قسم کی اعتقادی اور عملی بیماریوں کا ایسے وسیع ملک میں اس قدر قلیل مدت میں اس کمال کے ساتھ علاج کر دیا ہو اور ان بیماریوں سے آزاد کر کے پھر ان لوگوں کو صحت کے کمال تک پہنچا دیا ہو ۔ اس لئے یہی انسان خیر البشر کہلانے کا مستحق ہے ۔ "
ہست او خیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام
الحمدللہ کہ یہاں باب دوئم کا اختتام ہو چاہتا ہے ۔ باقی سلسلہ جاری ہے
کتاب سیرت خیرالبشرؐ،باب دوئم، صفحہ26
...................................................................................................................................................................
تاریخ خلافت راشدہؓ
از حضرت مولانا محمد علیؒ
حضرت ابوبکر صدیقؓ
زمانہ خلافت
۲ ربیع الاول ۱۱ ہجری تا ۲۲ جمادی الثانی ۱۳ ہجری
جون ۶۳۲ء تا اگست ۶۳۴ء
نوٹ: حضرت مولانا محمد علیؒ کے اس عظیم الشان شاہکار اور خلفائے راشدین کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب تاریخ خلافت راشدہ کو کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ
ہجرت
"جب کفار کی اذیت انتہا کو پہنچ گئی اور صحابہ ؓ نے رسول اللہ صلعم کے ارشاد کے ما تحت مدینہ کی طر ف ہجرت شروع کی تو حضرت ابوبکرؓ بھی تیار ہو گئے مگر رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ تم ٹھہرے رہو یہاں تک کہ مجھے حکم ہو۔
صحابہ سب ایک ایک دو دو کر کے نکل گئے تھے اور آنحضرت صلعم کےساتھ صرف حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ رہ گئے ۔ آخر وہ وقت آ پہنچا ۔ کفار نے رسول اللہ صلعم کے قتل کےلئے پورا انتظام کر لیا ۔ تب آنحضرت صلعم کو حکم ہوا کہ اب ہجرت کر جاو ۔
آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ کو اطلاع دی اور حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر لٹایا اور خود حضرت ابوبکر ؓ کے ساتھ رات کی تاریکی میں نکل پڑے ۔ "
صحابہ سب ایک ایک دو دو کر کے نکل گئے تھے اور آنحضرت صلعم کےساتھ صرف حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ رہ گئے ۔ آخر وہ وقت آ پہنچا ۔ کفار نے رسول اللہ صلعم کے قتل کےلئے پورا انتظام کر لیا ۔ تب آنحضرت صلعم کو حکم ہوا کہ اب ہجرت کر جاو ۔
آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ کو اطلاع دی اور حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر لٹایا اور خود حضرت ابوبکر ؓ کے ساتھ رات کی تاریکی میں نکل پڑے ۔ "
جاری ہے
کتاب تاریخ خلافت راشدہ ،باب اول ، صفحہ4
...................................................................................................................................................................
۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ
روحانی بارش کا قانون
حضرت مرزا غلام احمدؒ کی زبردست
غیرت اسلام و غیرتِ رسولؐ
غرؔ ض اے بھائیو! اس زمانہ میں وہ زہرناک ہوا اندرونی اور بیرونی طور پر پھیلی ہوئی ہے کہ جس کا استیصال انسان کے اختیار میں نہیں بلکہ اس خدائے حیّ و قیّوم قادر مطلق کے اختیار میں ہے جو موسموں کو بدلتا اور و قتوں کو پھیرتا اور خشک سالی کے بعد باران رحمت نازل کرتا ہے۔
اور جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ گرمی کی شدّ ت آخر بارش کو کھینچ لاتی ہے اس طرح پر کہ جب گرمی کمال کو پہنچتی ہے اور اس درجہ کے قریب اپنا قدم رکھنے لگتی ہے کہ جس سے قریب ہے کہ بنی آدم ہلاک ہوجائیں تب اس صانع قدیم کی حکمت کاملہ سے اس گرمی کا ایک تیز اثر سمندروں میں پڑتا ہے اور بوجہ شدّ ت اُس گرمی کے سمندروں میں سے بخارات اٹھتے ہیں تب سمندروں کی ہوا جو کہ سرد اور بھاری اور امساک کی قوت اپنے اندر رکھتی ہے ان بخارات کو اپنے میں جذب کر کے ایک حاملہ عورت کی طرح ان سے بھر جاتی ہے اور قرب و جوار کی ہوائیں قدرتی طور پر متحرک ہوکر اس کو دھکیلتی اور حرکت میں لاتی ہیں اور خود واسطہ بن کر اس بات کیلئے موجب ٹھہرتی ہیں کہ تا وہ ہوا بادلوں کی صورت میں ہو کر اپنے تئیں طبعاً اسی زمین کی طرف لاوے جہاں کی ہوا اس کی نسبت زیادہ گرم اور لطیف اور کم وزن اور کم مزاحم ہو۔ تب اُسی قدر کے موافق بارش ہوتی ہے کہ جس قدر گرمی ہوتی ہے۔
یہی صورت اُس روحانی بارش کی بھی ہے جو ظاہری بارش کی طرح قدیم سے اپنے موسموں پر برستی چلی آئی ہے یعنی اس طرح پر کہ خشک سالی کے ایام میں جب کہ خشک سالی اپنے کمال اور انتہا کو پہنچ جاتی ہے یکدفعہ مستعددلوں کی گرمی اور طلب اور خواہش کی حرارت نہایت جوش میں آجاتی ہے تب وہ گرمی رحمت کے دریا تک جو ایک سمندر ناپیدا کنار ہے اپنے التہاب اور سوز کو پہنچا دیتی ہے۔ تب دریائے رحمت اس کے تدارک کیلئے توجہ فرماتا ہے اور فیض بے علّت کے نورانی بخارات نکلنے شروع ہوجاتے ہیں تب وہ مقرب فرشتے جو اپنے نفس کی جنبش اور جوش سے سرد پڑے ہوئے اور نہایت لطیف اور یَفْعَلُوْنمَاؔ یُؤْمَرُوْنَ کا مصداق ہیں ان فیوض کو قبول کر لیتے ہیں پھر ان فرشتوں سے تعلق رکھنے والی طبیعتیں جو انبیاء اور رسل اور محدثین ہیں اپنے حقانی جوشوں سے ان کو حرکت میں لاتے ہیں اور خود واسطہ بن کر ایسے محل مناسب پر برسا دیتے ہیں جو استعداد اور طلب کی گرمی اپنے اندر رکھتا ہے یہ صورت ہمیشہ اس عالم میں بوقت ضرورت ہوتی ہی رہتی ہے
ہاں اس بھاری برسات کے بعد جو عہد مقدس نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوچکی ہے بڑی بڑی بارشوں کی ضرورت نہیں رہی۔ اور وہ مُصفّا پانی اب تک ضائع بھی نہیں ہوا مگر چھوٹی چھوٹی بارشوں کی ضرورت ہے تا زمین کی عام سرسبزی میں فرق نہ آجائے سو جس وقت خدا وند حکیم و قدیر دیکھتا ہے کہ زمین پر خشکی غالب آگئی ہے اور اس کے باغ کے پودے مرجھائے جاتے ہیں تب ضرور بارش کا سامان پیدا کردیتا ہے یہ قدیم قانون قدرت ہے جس میں تم فرق نہیں پاؤ گے۔
اسی کے موافق ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ ان دنوں میں بھی اپنے عاجز بندوں پر رحم فرماتا۔ زمانہ کی حالت کو دیکھو اور آپ ہی ایمانًا گواہی دو۔ کیا یہ وقت وہی وقت نہیں ہے جس میں الٰہی مددوں کی دین اسلام کو ضرورت ہے۔ اس زمانہ میں جو کچھ دین اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی گئی اور جس قدر شریعت ربّانی پر حملے ہوئے اور جس طور سے ارتداد اور الحاد کا دروازہ کھلا کیا اس کی نظیر کسی دوسرے زمانہ میں بھی مل سکتی ہے؟
کیا یہ سچ نہیں کہ تھوڑے ہی عرصہ میں اس ملک ہند میں ایک لاکھ کے قریب لوگوں نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا۔ اور چھ۶ کروڑ اور کسی قدر زیادہ اسلام کے مخالف کتابیں تالیف ہوئیں اور بڑے بڑے شریف خاندانوں کے لوگ اپنے پاک مذہب کو کھو بیٹھے یہاں تک کہ وہ جو آل رسول کہلاتے تھے وہ عیسائیت کا جامہ پہن کر دشمن رسول بن گئے اور اس قدر بدگوئی اور اہانت اوردُشناؔ م دہی کی کتابیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں چھاپی گئیں اور شائع کی گئیں کہ جن کے سننے سے بدن پر لرزہ پڑتا اور دل رو رو کر یہ گواہی دیتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے تو واللہ ثم واللہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دکھتا جو ان گالیوں اور اس توہین سے جو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کی گئی دُکھا۔
پس کیا ابھی اس آخری مصیبت کا وہ وقت نہیں آیا جو اسلام کیلئے دنیا کے آخری دنوں میں مقدر تھا۔ کیا کوئی ثابت کرسکتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی اور زمانہ بھی آنے والا ہے جو قرآن کریم اور حدیث کی رو سے ان موجودہ فتنوں سے کچھ زیادہ فتنے رکھتا ہوگا۔
سو بھائیو تم اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو اور خوب سوچ لو کہ وقت آگیا اور بیرونی اور اندرونی فتنے انتہا کو پہنچ گئے۔ اگر تم ان تمام فتنوں کو ایک پلہ میزان میں رکھو اور دوسرے پلہ کیلئے تمام حدیثوں اور سارے قرآن کریم میں تلاش کرو تو ان کے برابر کیا ان کا ہزارم حصہ بھی وہ فتنے قرآن اور حدیث کی رو سے ثابت نہیں ہوں گے پس وہ کونسا فساد کا زمانہ اور کس بڑے دجّال کا وقت ہے جو اس زمانہ کے بعد آئے گا اور فتنہ اندازی کی رُو سے اس سے بدتر ہوگا۔
کیا تم ثابت کرسکتے ہو کہ ان فتنوں سے بڑھ کر قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں ایسے اور فتنوں کا پتہ ملتا ہے جن کا اب نام و نشان نہیں یقیناً یاد رکھو کہ اگر تم ان فتنوں کی نظیر تلاش کرنے کیلئے کوشش کرو یہاں تک کہ اسی کوشش میں مر بھی جاؤ تب بھی قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے ہرگز ثابت نہیں ہوگا کہ کبھی کسی زمانہ میں ان موجودہ فتنوں سے بڑھ کر کوئی اور فتنے بھی آنے والے ہیں؟
روحانی خزائن جلد 5 صفحات 50 تا 52
...................................................................................................................................................................
۵:دینی مسائل اور انکا حل
ارشاد مبارک حضرت مجدد اعظم و امام الزمان
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی رحمتہ اللہ علیہ تعویز باندھنا اور دم کرنا
سوال: تعویز باندھنا یا دم وغیرہ کرنا کیسا ہے ؟
حضور امامِ عالی مقامؑ نے حضرت حکیم مولوی نورالدینؒ کی طرف مخاطب ہو کر پوچھا کہ آپ نے احادیث میں اس کے متعلق کچھ پڑھا ہے ؟
حضرت نورالدین ؒ نے عرض کیا کہ حضرت خالد بن ولیدؓ جب کبھی جنگوں میں جایا کرتے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک پگڑی یا ٹوپی میں رکھ لیا کرتے تھے اور آگے کی طرف لٹکا لیتے۔
اور جب ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سر منڈھوایا تو آدھے سر کے کٹے ہوئے بال ایک شخص کو دے دئیے اور آدھے دوسرے حصہ کے باقی اصحاب کو بانٹ دئیے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات جبہ شریف دھو کر مریضوں کو بھی پلایا کرتے تھے اور وہ شفا یاب ہوجایا کرتے تھے۔
ایسا ہی ایک دفعہ ایک عورت نے بھی آپؐ کا پسینہ جمع کیا :
یہ سب سن کر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا:
اصل بات یہ ہے کہ ان باتوں کی بنا محبت اور اخلاص پر ہے ۔
صادقوں کی نکتہ چینی کرنےوالوں کے جواب میں فرمایا کہ بزرگوں کے صفائر پر نظر کرنے سے سلب ایمان کا اندیشہ ہے "
الحکم ۱۷ جولائی ۱۹۰۳ ء
...................................................................................................................................................................
انکی اپنی قلم سے
عقیدہ کس نے بدلا ؟
قادیانی جماعت کے پیشواء ثانی اور ہمنواوں نے
یا جماعت احمدیہ لاہور نے؟
میرا عقیدہ دربارہ نبوت مسیح موعودؑ کیاتھا؟ میں نے اسکو ابتدائے اختلاف ہی میں کھول کر بیان کردیا تھا ۔میں پہلے بھی اسی پر قائم تھا، اب بھی اسی پر قائم ہوں اور انہیں الفاظ میں پھر اپنے عقیدہ کو نقل کرتا ہوں
"میں یہ مانتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ شرعی اصطلاح میں نبی اور رسول نہ تھے ۔یعنی نبی اس لئے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ پر غیب کے اخبار ظاہر کرتا تھا اور رسول اس لئے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مامور کر کے اصلاح کےلئے بھیجا تھا ۔
یعنی آپ ان معنوں میں نبی اور رسول تھے جن معنوں میں اس امت کے دوسرے مجدد بھی نبی اور رسول کہلا سکتے ہیں "
......................
"اس امت کے دوسرے مجددوں پر آپؒ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپؒ کی آمد کے متعلق صریح پیشگوئیاں موجود ہیں ۔۔۔۔ پھر جس عظیم الشان فتنہ کی اصلاح کےلئے آپکو ؒ بھیجا گیا، دوسرے کسی مجدد کو اتنا عظیم الشان کام سپرد نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔
......................
ایسا ہی آپکوؒ کو جو علم کلام دیا گیا وہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس کو لیکر مسلمان کل مذاہب پر غالب آ سکتے ہیں ، دوسرے کسی مجدد کو ایسا علم کلام نہیں دیا گیا ۔"
......................
"میں حقیقی نبوت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم یقین کرتا ہوں ۔آپؐ کے بعد نہ کوئی پرانا نبی واپس آئے گا نہ کوئی نیا نبی مبعوث ہوگا"
منقول از میرے عقائد، مطبوعہ ۳۳ اگست ۱۹۱۴ء
......................
"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر قسم اٹھاتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ میرے علم میں ۱۹۰۱ ء سے لیکر ۱۹۰۸ء تک حضرت مسیح موعودؑ کا یہی عقیدہ تھا کہ انکا نہ ماننے والا بھی مسلمان اور دائرہ اسلام میں ہے اور انکا منکر کافر اور دائرہ اسلام سے خارج نہیں اور میرا بھی یہی عقیدہ ۱۹۰۱ء سے لیکر آج تک بربنائے عقیدہ حضرت مسیح موعودؑ ہے "
پیغام صلح ۔لاہور۔۲۱ستمبر ۱۹۴۴
......................
"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اس بات پر حلف اٹھاتا ہوں کہ میرا عقیدہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب قادیانی مجدد اور مسیح موعودؑ ہیں مگر نبی نہیں اور نہ انکے انکار سے کوئی شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے
اور یہی عقیدہ حضرت مرزا صاحب کا تھا
اے خدا اگر میں نے تیر نام لیکر اس قسم کے کھانے میں جھوٹ بولا ہے تو تو اپنی طرف سے ایسی عبرت ناک سزا مجھ پر بھیج جس میں انسانی ہاتھ کا کوئی دخل نہ ہو اور جس سے دنیا سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھا کرمخلوق خدا کو دھوکہ دینے والوں پر خدا تعالیٰ کی گرفت کتنی سخت اور درد ناک ہوتی ہے "
پیغام صلح ۔لاہور۔۱۱دسمبر ۱۹۴۶
......................
"ہم اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ ۱۹۰۱ ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دعوی میں تبدیلی کی"
ستر بزرگان لاہور کا حلف
......................
......................
حضرت مولانا نور الدینؒ کا عقیدہ
انکی اپنی قلم سے
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
دل چیر کر دیکھا یا دکھانا انسانی طاقت سے باہر ہے ۔قسم پر کوئی اعتبار کرے تو واللہ العظیم کے برابر کوئی قسم مجھے نظر نہیں آتی۔نہ آپ میرے ساتھ میری موت کے بعد ہونگے نہ کوئی اور میرے ساتھ سوائے میرے ایمان و اعمال کے ہوگا۔پس یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش ہونے والا ہے ۔
میں مرزا صاحب کو مجدد اس صدی کا یقین کرتا ہوں ۔میں انکو راستباز مانتاہوں ۔
حضرت محمد الرسول اللہ النبی العربی المکی المدنی خاتم النبیین کا غلام اور اسکی شریعت کا بدل خادم مانتا ہوں اور مرزا خود اپنے آپکو جاں نثار غلام نبی عربی محمدؐ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن مناف کامانتے تھے
نبی کے لغوی معنی پیش از وقت اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر خبر دینے والا ہم لوگ یقین کرتے ہیں نہ شریعت لانے والا۔
مرزا صاحب اور میں خود جو شخص ایک نقطہ بھی قرآن شریف کا اور شریعت محمدؐ رسول کا نہ مانے، میں اسے کافر اور لعنتی اعتقاد کرتا ہوں ۔
یہی میرا اعتقاد ہے اور یہی میرے نزدیک مرزا غلام احمد کا تھا ۔
کوئی رد کرے یا نہ مانے یا منافق کہے اس کا معاملہ حوالہ بخدا۔
نورالدین بقلم خود
۲۲ اکتوبر ۱۹۱۰ء
......................
قادیانی جماعت کے پیشواء
مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کا سابقہ عقیدہ
خود انکی اپنی قلم سے
"اس آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپؐ کے بعد کوئی شخص نہیں آئے گا جس کو نبوت کے مقام پر کھڑا کیا جائے اور وہ آپؐ کی تعلیم کو منسوخ کر دے اور نئی شریعت جاری کر دے ۔بلکہ جسقدر
اولیاء اللہ
ہونگے اور متقی اور پرھیز گار لوگ ہونگے سب کو آپؐ کی غلامی میں ہی ملے گیا جو کچھ ملے گا ۔
اس طرح خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ
آپؐ کی نبوت نہ صرف اس زمانہ کےلئے ہے بلکہ
آئندہ بھی کوئی نبی نہیں آئے گا"
تشحیذ الاذہان بابت اپریل ۱۹۱۰ء
......................
قادیانی جماعت کے ھیڈ
مولوی محمد سرور شاہ صاحب کا سابقہ عقیدہ
"لفظ نبی کے معنی اپنے مصدروں کے لحاظ سے دو ہیں ۔
اول اپنے خدا سے اخبار غیب پانے والا
دوئم عالی مرتبہ شخص ۔جس شخص کو اللہ تعالیٰ بکثرت شرف مکالمہ سے ممتاز کرے اور غیب کی خبروں پر مطلع کرے ، وہ نبی ہے
اس رنگ میں میرے نزدیک تمام مجددین سابق مختلف مدارج کے انبیاء گزرے ہیں "
بدر مورخہ ۱۶ فروری ۱۹۱۱ء
......................
مفتی محمد صادق صاحب کا سابقہ عقیدہ
اس کو عربی لغت میں نبی کہتے ہیں
"شبلی نے دریافت کیا کہ کیاہم لوگ مرزا صاحب کونبی مانتے ہیں ؟
میں نے عرض کیا کہ ہمارا عقیدہ اس معاملہ میں دیگر مسلمانوں کی طرح ہے کہ آنحضرت صلعم خاتم النبیین ہیں ۔
آپکے بعد کوئی دوسرا نبی آنیوالانہیں ۔نہ نیا نہ پرانا ۔
ہاں مکالمات الٰہیہ کا سلسلہ برابر جاری ہے وہ بھی آنحضرت صلعم کے طفیل آپؐ سے فیض حاصل کر کے اس امت میں ایسے آدمی ہوتے رہے جنکو الہام الٰہی سے مشرف کیا گیا اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے ۔
چونکہ حضرت مرزا صاحب بھی الہام الہی سے مشرف ہوتے رہے اور الہام الٰہی کے سلسلہ میں آپکو خدا تعالیٰ نے بہت سی آئندہ کی خبریں بطور پیشگوئی کے بتلائی تھیں جو پوری ہوتی رہیں اس واسطے مرزا صاحب ایک پیشگوئی کرنے والے تھے اور اسکو
عربی لغت میں نبی کہتے ہیں "
بدر۔جلد نمبر ۹ ، ۵۱/۵۲
......................
۸:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)
ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام
"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "
روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹
......................
یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "
سراج منیر،صفحہ ۳
......................
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"
......................
روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209
......................
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر
روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65)
......................
انکے اپنے اشعار میں
ما مسلمانیم از فضلِ خدا
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا
اندریں دیں آمدہ از مادریم
ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم
آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست
بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست
یک قدم دوری ازاں روشن کتاب
نزد ماکفر است و خسران و تباب
آں رسولے کش محمدؐ ہست نام
دامنِ پاکش بدستِ ما مدام
مہرِ اوباشیرشداندربدن
جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن
ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام
(کتاب سراج منیر، ضمیمہ صفحہ ز)
۹:
ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف
۹:
ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف
ایک ضروری تجویز
بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ مزید جن احباب تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
No comments :
Post a Comment