Wednesday, September 10, 2014

بدھ۔ 10ستمبر 2014، شمارہ: 28


حضرت مولانا محمد علی ؒ کے خطبات کی تازہ ریکارڈنگز


لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِ

روزنامہ مبلغ (آنلائن)


روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان



بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت

 حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ

احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

بدھ۔۱۰ستمبر ۲۰۱۴ء

۱۴ذیقعد ۱۴۳۵ ہجری


شمارہ نمبر:28

Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com


خوشخبری
اپ ڈیٹ

بلاگ پر نیا اضافہ
احباب جماعت احمدیہ لاہور کو یہ جان کر از حد خوشی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس بلاگ کے آڈیو ویڈیو سیکشن میں  خطباتِ حضرت مولانا محمدعلیؒ کی آڈیو ریکارڈنگز کی اشاعت کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔
 خطبات کو باقاعدہ کیٹیگرائزڈ(categorized) کیا جارہا ہے جسکےلئے متعلقہ بلاگ پر سیلیکٹ کیٹیگری(select category) کا آپشن موجود ہے ۔علاوہ ازیں کسی خاص خطبہ کی تلاش کےلئے سرچ کا آپشن بھی موجود ہے ۔

 براہ کرم آڈیو ویڈیو سیکشن کو وزٹ فرمائیں اور اس سلسلہ کو بہتر سے بہتر بنانے کےلئے ہمیں اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ فرمائیں ۔

جزاکم اللہ تعالیٰ خیرا کثیرا





۱:کلامِ الٰہی 


قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ

النور: 30


ترجمہ:۔  مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی نظریں نیچے رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں یہ انکے لئے زیادہ پاکیزہ ہے اللہ اس سے خبر دار ہے جو وہ کرتے ہیں 
تفسیر: 
زنا سے بچنے کا طریق

قرآن کریم صرف امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کرتا بلکہ ہر نیکی پر چلنے کی اور ہر بدی سےبچنے کی راہیں بتاتا ہے اور بڑی سے بڑی بدیوں سے بچنے کی آسان سے آسان راہیں بتائی ہیں ۔زنا کتنی بڑی بدی ہے مگر اسکی ابتدا کیسی چھوٹی اور اگر وہاں سے اسے روکا جائے تو آسانی سے رک سکتاہے ۔اسکی ابتدا بد نظری سے ہوتی ہے لیکن صرف بدنظری سے سے بچنے کی ہدایت بھی نامکمل ہوتی اس لئے فرمایا کہ مومن مرد (اور اگلی آیت میں یہی حکم مومن عورتوں کو ہے ) نگاہیں نیچی رکھنے کی عادت ڈالیں ۔
بدی کے موقع سے اپنے آپ کو بچانا یہ اسلام کی اس تعلیم کا عملی اصل الاصول ہے ۔جو شخص بدی کے موقع سے اپنے آپ کو بچاتا ہے اس میں بدی سے بچنے کی ایسی ترغیب پیدا ہو جاتی ہے کہ پھر اگر بڑی بھاری ترغیب کا بھی موقع ہو تو وہ اس کا مقابلہ کر سکتا ہے چنانچہ زنا سے بچنے کےلئے اور اپنے اندر عفت کی قوت پیدا کرنے کےلئے یہ علاج بتایا کہ نظر نیچی رکھنے کی عادت ڈالی جائے۔جب انسان عموماً اپنی نگاہ نیچی رکھے گا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ شہوت کی نظر سےعورتوں کو دیکھنے سے بچ جائے گا اور یوں اسکے قوائے شہوانی اعتدال کی حالت میں آجائیں گے اور اگر کوئی ترغیب کا موقعہ بھی اس کے سامنے پیش آئے گا تو اس کے اندر پاکیزگی کی اس قدر قوت پیدا ہو چکی ہو گی کہ اس ترغیب پر آسانی سے غالب آ سکے گا۔
بدی اور بالخصوص زنا سے بچنے کا یہ فلسفہ قرآن کریم سے مخصوص ہے ۔و یحفظوافروجھم سے یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہر وہ اس راہ کی حفاظت کریں جس سے شیطان حملہ آور ہو سکتا ہے جیساکہ حدیث شریف میں ہے کہ آنکھوں کا بھی زنا ہے اور کانوں کا بھی  

بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ


۲:حدیثِ نبویؐ

سب سے بڑا عبادت گزار اور صحیح مومن

حضرت معقل بن یسارؓ بیان کرتےہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جسے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کا نگران اور ذمہ دار بنایا وہ اگر لوگوں کی نگرانی اپنے فرض کی ادائیگی اور انکی خیر خواہی میں کوتاہی کرتا ہے تو اسکے مرنے پر اللہ تعالیٰ اسکے لئے جنت کو حرام کر دے گا۔

صحیح مسلم باب الایمان باب استحقاق الوالی حدیث نمبر :203


۳:سیرت خیر البشرؐ
 باب چہارم
آفتاب رسالت کے طلوع سے پہلے کا زمانہ 
ظھرالفساد فی البر و البحر
(30:الروم:41)
برو بحر میں فساد ظاہر ہو گیا
از
 حضرت مولانا محمد علی 

نوٹ:  حضرت مولانا محمد علیؒ  کے اس عظیم الشان شاہکار اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ امی و ابی کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب سیرت خیرالبشر ؐ کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ

گزشتہ سے پیوستہ

عرب کی اصل اور مذہبی حالت


"فرشتوں کو وہ دیویاں سمجھ کر انکو خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔بڑے بڑے نامور اشخاص کے نام پر بت تراش کر ان کی پوجاکرتے تھے اور صرف گھڑے ہوئے پتھروں کی ہی کی نہیں بلکہ بن گھڑے پتھروں کی بھی پوجا کرتے تھے۔جب سفر پر جاتے تو چار پتھر ساتھ لے جاتے کیونکہ ریگستانی علاقہ میں سینکڑوں میلوں تک پتھر بھی نہ مل سکتا تھا ۔ان چار پتھروں میں سے تین چولھے کا کام دیتے تھے اور چوتھا پوجا پاٹ کے کام آتا۔بعض وقت تین ہی پتھر ساتھ رکھ لیتے اور جب روٹی پکا کر چولھا فارغ ہوتا تو اسی کے پتھروں میں سے ایک کو اٹھا کر اس کی پوجا کر لیتے " 

جاری ہے

کتاب سیرت خیرالبشرؐ،باب دوئم، صفحہ 20، 21


۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ 

ان دوستوں کےلئےجو سلسلہ بیعت میں داخل ہیں 
نصیحت کی باتیں 

عزیزاں بے خلوص و صدق نکشا یند راہے
 را مصفّا قطرۂ باید کہ تا گوہر شود پیدا
(گزشتہ سےپیوستہ)

تمھاری راہ میں بت ؟

"باہم’’ بخل‘‘ اورکینہ اور حسد اور بُغض اور بے مہری چھوڑدو اور ایک ہوجاؤ۔قرآن شریف کے بڑے حکم دو ہی ہیں۔ ایک توحید و محبت و اطاعت باری عزاسمہ‘۔ دوسری ہمدردی اپنے بھائیوں اور اپنے بنی نوع کی۔ اور ان حکموں کو اس نے تین درجہ پر منقسم کیاہے۔ جیسا کہ استعدادیں بھی تین ہی قسم کی ہیں اور وہ آیت کریمہ یہ ہے۔

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

النحل: 91

پہلے طور پر اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ تم اپنے خالق کے ساتھ اس کی اطاعت میں عدل کا طریق مرعی رکھو ظالم نہ بنو۔ پس جیسا کہ درحقیقت بجُز اُس کے کوئی بھی پرستش کے لائق نہیں۔ کوئی بھی محبت کے لائق نہیں کوئی بھی توکّل کے لائق نہیں۔ کیونکہ بوجہ خالقیت اور قیومیت وربوبیت خاصہ کےہر یک حق اُسی کا ہے۔ اِسی طرح تمؔ بھی اس کے ساتھ کسی کو اُس کی پرستش میں اوراُسکی محبت میں اور اُس کی ربوبیت میں شریک مت کرو۔ اگر تم نے اِس قدرکر لیاتو یہ عدل ہے جس کی رعایت تم پر فرض تھی۔

پھر اگر اس پر ترقی کرنا چاہو تو احسان کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تم اس کی عظمتوں کے ایسے قائل ہوجاؤ اور اُس کے آگے اپنی پرستشوں میں ایسے متادّب بن جاؤ اور اُس کی محبت میں ایسے کھوئے جاؤ کہ گویا تم نے اُس کی عظمت اور جلال اوراُس کے حُسنِ لازوال کودیکھ لیا ہے۔ بعد اس کے ایتاء ذی القربیٰ کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہاری پرستش اور تمہاری محبت اور تمہاری فرمانبرداری سے بالکل تکلّف اور تصنّع دُورہوجائے اور تم اُس کو ایسے جگری تعلق سے یاد کرو کہ جیسے مثلًا تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو اور تمہاری محبت اس سے ایسی ہوجائے کہ جیسے مثلاً بچہ اپنی پیاری ماں سے محبت رکھتاہے۔

 اور دوسرے طور پر جو ہمدردی بنی نوع سے متعلق ہے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ اپنے بھائیوں اور بنی نوع سے عدل کرو اورؔ اپنے حقوق سے زیادہ اُن سے کچھ تعرّض نہ کرو اور انصاف پرقائم رہو۔ اوراگر اس درجہ سے ترقی کرنی چاہو تو اس سے آگے احسان کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تُو اپنے بھائی کی بدی کے مقابل نیکی کرے اور اُس کی آزار کی عوض میں تُو اس کو راحت پہنچاوے اور مروّت اور احسان کے طور پر دستگیری کرے۔

پھر بعد اس کے ایتاء ذی القربیٰ کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تُو جس قدر اپنے بھائی سے نیکی کرے یاجس قدر بنی نوع کی خیر خواہی بجا لاوے اس سے کوئی اور کسی قسم کا احسان منظور نہ ہو بلکہ طبعی طور پر بغیر پیش نہاد کسی غرض کے وہ تجھ سے صادر ہوجیسی شدت قرابت کے جوش سے ایک خویش دوسرے خویش کے ساتھنیکی کرتا ہے۔

 سو یہ اخلاقی ترقی کا آخری کمال ہے کہ ہمدردی خلائق میں کوئی نفسانی مطلب یا مدّعا یاغرض درمیان نہ ہو بلکہ اخوت وقرابت انسانی کا جوش اس اعلیٰ درجہ پر نشوونما پاجائے کہ خود بخود بغیر کسی تکلّف کے اور بغیر پیش نہاد رکھنے کسی قسم کی شکر گذاری یادؔ عا یا اور کسی قسم کی پاداش کے وہ نیکی فقط فطرتی جوش سے صادر ہو۔ 

عزیزو! اپنے سلسلہ کے بھائیوں سے جو میری اس کتاب میں درج ہیں باستثنا اس شخص کے کہ بعد اس کے خدائے تعالیٰ اس کو ردّ کر دیوے خاص طور سے محبت رکھو اور جب تک کسی کونہ دیکھو کہ وہ اس سلسلہ سے کسی مخالفانہ فعل یا قول سے باہر ہو گیاتب تک اس کو اپنا ایک عضو سمجھو۔ لیکن جو شخص مکّاری سے زندگی بسرکرتا ہے اور اپنی بدعہدیوںیا کسی قسم کے جوروجفا سے اپنے کسی بھائی کو آزار پہنچاتا ہے یا وساوس و حرکاتِ مخالف عہد بیعت سے باز نہیں آتا وہ اپنی بدعملی کی وجہ سے اس سلسلہ سے باہر ہے۔ اس کی پرواہ نہ کرو۔ چاہیئے کہ اسلام کی ساری تصویر تمہارے وجود میں نمودارہو اور تمہاری پیشانیوں میں اثرسجود نظر آوے اور خدائے تعالیٰ کی بزرگی تم میں قائم ہو۔ اگر قرآن اورحدیث کے مقابل پر ایک جہان عقلی دلائل کا دیکھو تو ہرگز اس کو قبول نہ کرو اور یقینًا سمجھو کہ عقل نے لغزش کھائی ہے۔ توحید پرقائم رہو اور نماز کے پابند ہوجاؤ اور اپنے مولیٰ حقیقی کے حکموں کو سب سے مقدّم رکھو اوراسلام کے لئے سارے دُکھ اُٹھاؤ۔

وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ
آل عمران: 103
۔

کتاب : ازالہ اوھام
 روحانی خزائن، جلد3 صفحہ 550, 551, 552

۵:دینی مسائل اور انکا حل
ارشاد مبارک حضرت مجدد اعظم و امام الزمان
مرزا غلام احمد قادیانی رحمتہ اللہ علیہ  

دعا میں صیغہ واحد کو جمع کرنا


ایک دوست کا سوال حضرت مجدد اعظم مسیح موعودؑ کی خدمت میں پیش ہوا کہ میں ایک مسجد کا امام ہوں ۔بعض دعائیں جو صیغہ واحد متکلم میں ہوتی ہوں ، یعنی انسان کے اپنے واسطے ہو ہو سکتی ہیں، میں چاہتا ہوں کہ انکو صیغہ جمع میں پڑھ کر مقتدیوں کو بھی اپنی دعا میں شامل کر لیا کروں۔اس میں کیا حکم ہے 

حضرت امام الزمان نے ارشاد فرمایا:

"جو دعائیں قرآن شریف میں ہیں ان میں کوئی تغیر جائز نہیں کیونکہ وہ کلام الٰہی ہیں وہ جس طرح قرآن شریف میں ہے اسی  طرح پڑھنا چاہیں، ہاں حدیث میں جو دعائیں آئی ہیں ان کے متعلق اختیار ہے کہ صیغہ واحد کی بجائے صیغہ جمع میں پڑھ لیا کریں  "

بدر ۴ اپریل ۱۹۰۷ء

۶:پیغامِ امیر قومؒ
حضرت مولانا محمد علیؒ

حضرت مرزا صاحبؒ کا پیدا کردہ انقلاب

"اس زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک مجدد کھڑا  کیا جسکے درد دل نے ایک انقلاب پیدا کر دیا. حضر ت مرزا صاحبؒ نے جو اپنے آپکو  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز کہا، بہت لوگ اس سے ٹھوکر کھاتے ہیں اور اس پراعتراض کرتے ہیں ۔اسکا مطلب صرف اسقدر ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جو درد موجود تھا، اسکی ایک چنگاری آپ کے دل میں پڑگئی اور پھر آپؒ   اور سینکڑوں ہزاروں دلوں میں پڑ گئی۔
خوب یاد رکھو! جس طرح بھوک کے بغیر کوئی غذا لذیذ نہیں معلوم ہوتی، انسان کو بھوک نہ تو اسے اچھی سے اچھی چیز پکا اسکے سامنے رکھی جائے ، اسکو مرغوب نہ ہوگی ۔لیکن سخت اشتہاء کی حالت میں موٹی سے موٹی سوکھی روٹی بھی اسکو دے دو ،تو وہ بہت رغبت سے کھائے گا ۔بالکل یہی حالت دین کےلئے درد، سوزو گداز اور جنون کی ہے ۔ یہ درد دلوں میں پیدا ہو تو تو دعا کے لئے تڑپ پیداہوتی ہے تو دعا میں نور پیدا ہو تو نصرت الٰہی آتی ہے ۔پس پہلے اپنے دلوں کے اندر دین کا یہ درد پیدا کرو پھر خدا کے آگے گرو۔اسکے ہی حضور روو اور گڑگڑاو۔ جب تمھارے دلوں میں درد اور جنون پیدا ہو جائے گا، تو تم کو دعاوں میں بھی لذت ملے گی اور خدا کی نصرت بھی  آجائےگی ۔
میں اپنی جماعت کے متعلق کیا کہوں؟ خود اپنے متعلق نہیں کہہ سکتا ۔انسان کے اندر اپنی عزت کےلئے ایک خیال پیدا ہوجاتا ہے تو وہ اسکے لئے لڑتا ہے ۔لیکن دین کےجنون کا یہ تقاضا ہے کہ انسان اپنی عزت کےلئے پریشان ہونے کی بجائے اللہ اور رسول ؐ کی عزت کےلئے پریشان ہو۔
انسان اپنی یاد گار قائم رکھنے کےلئے دنیا میں بڑے بڑے کا کر جاتے ہیں لیکن ہمارے دلوں میں ذاتی یاد گاروں کو قائم کرنے کی بجائےیہ آرزو ہونی چاہیے کہ دنیا میں خدا اور اسکےرسولؐ کی یاد گار قائم ہو ۔اللہ کا نام بلند ہو اور اسکا دین پھیلے۔
خوب یاد رکھو! خدا ناقدردان نہیں ۔ وہ بڑا قدر دان اور شکور ہے ۔ اگر تم اپنی کوششوں کو خدا کےلئے وقف کر دو تو وہ تم کو اجر دے گا، جو تم اپنی کوششوں سے اپنے لئے ہر گز حاصل نہیں کر سکتے ۔لیکن اسکےلئے ضرورت ہے کہ ہم اپنے دل میں اس بات کا پختہ عہد کر لیں کہ ہم نے خدا کے نام کو بلند کرنے اور پھیلانے کےلئے مجنونانہ کوشش کرنی ہے کہ کسی دوسرے خیال کو بھی پاس نہیں آن دینا ۔
ضرورت ہے کہ ہم بالکل اسی کام کےلئے وقف ہو جائیں ۔اگر ہم یہ عہد پختہ طور پر د ل میں کر کے کوشش کریں تو بہت تھوڑے عرصہ میں وہ کام کر سکتے ہیں جو دنیا کے باقی تمام مسلمانوں سے نہیں ہو سکتا "

پیغامِ صلح ، ۹ فروری   ۱۹۳۸ ء
خطبات مولانا محمد علیؒ
جلد ۱۳، اقباس از صفحہ ۲۲،۲۳


۷:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں 
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)

ہست اوخیرالرسل خیرالانام

ہر نبوت را بروشد اختتام

"نبوت کا دعوی نہیں بلکہ محدثیت کا دعوٰی ہے جو خدا تعالیٰ کےحکم سے کیا گیاہے"

"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "

" یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے؟"
روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹

"میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اورنبی کے میری الہام میں میری نسبت خدا تعالٰی کی طرف سے بے شک ہیں  لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں اور جیسے یہ محمول نہیں ایسا ہی نبی کر کے پکارنا  جو حدیثوں میں مسیح موعودؑ کےلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔ یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "
سراج منیر،صفحہ ۳

"سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں ۔ آنے والے مسیح موعودؑ  کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویؐ سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور معمولی محاوہ مکالمات الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا؟"
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"

یہ بھی یاد رہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے"

روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209
"سمیت نبیا من اللہ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ"
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر 




روحانی خزائن جلد 22 صفحہ  689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65) 

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب
 انکے اپنے اشعار میں 

ما مسلمانیم از فضلِ خدا 
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا

اندریں دیں آمدہ از مادریم 

ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم

آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست

بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست

یک قدم دوری ازاں روشن کتاب

نزد ماکفر است و خسران و تباب

آں رسولے کش محمدؐ ہست نام

دامنِ پاکش بدستِ ما مدام

مہرِ اوباشیرشداندربدن

 جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن 

ہست اوخیرالرسل خیرالانام

ہر نبوت را بروشد اختتام

(کتاب سراج منیر، ضمیمہ صفحہ ز)
۸:
 ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف

اس ہفتہ کی کتاب

 ایک ضروری تجویز

بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین 
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

No comments :

Post a Comment