Tuesday, September 16, 2014

منگل 16 ستمبر 2014، شمارہ: 31 میں ہوں محمد علی


حضرت مولانا محمد علی ؒ کے خطبات کی تازہ ریکارڈنگز


لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِ

روزنامہ مبلغ (آنلائن)


روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان



بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت

 حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ

احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

منگل۔۱۶ستمبر ۲۰۱۴ء

۲۰ ذیقعد ۱۴۳۵ ہجری


شمارہ نمبر:33

Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com


خوشخبری
خصوصی شمارہ بیادگار 

حضرت مولانا محمد علیؒ 


میں ہوں محمد علی

تاریخِ اسلام و احمدیت کی ایک زبردست وعظیم
 الشان روحانی وانقلابی شخصیت 
ِمجتہدِزماں ،مفسر قرآں،شیر اسلام و وارث احمدیت
حضرت مولانا محمدعلی ؒ کےتعلق باللہ کی چند 
زبردست امثال







أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ
لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۚ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

یونس: 62  63  64

ترجمہ:۔
 سنو اللہ کے دوستوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ وہ غمگین ہونگے 
جو ایمان لائے اور تقویٰ کرتے تھے ۔
انکےلئے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بشارت ہے ۔اللہ کی بتاتیں بدل نہیں سکتیں ، یہ بڑی بھاری کامیابی ہے 



من عادى لي وليا فقد آذنته بالحرب 
الحدیث

“اسی واسطے تو کہا گیا ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ نور الہی سے دیکھتا ہے “

فرمانِ  پاک حضرت مسیح موعودؑ
ملفوظات جلد اول صفحہ 41

عبد صالح

عبد صالح محمد علی رحمتہ اللہ علیہ 

حضرت حکم و عدل مرزا غلام احمد قادیانیؒ عبد صالح کے بارے میں  ارشاد فرماتےہیں 

“جب یہ گزر جاتا ہے تو سالک عبد صالح ہوجاتا ہے ۔ گویا تکلیف کا رنگ دور ہوا اور صالح نے طبعاً و فطرتاً نیکی شروع کی۔ وہ ایک قسم کے دارلامان میں ہے جس کو کوئی خطرہ نہیں ۔
اب کل جنگ اپنے نفسانی جذبات کے برخلاف ختم ہو چکے ہیں اور وہ امن میں آگیا ہے اور ہر ایک قسم کے خطرات سے پاک ہو گیا۔
 اسی امر کی طرف ہمارے ہادی کاملؐ نے اشارہ کیا ہے ۔فرمایا کہ

 ہر ایک کے ساتھ شیطان ہوتا ہے لیکن میرا شیطان مسلم ہو گیا ہے ۔ سو متقی کو ہمیشہ شیطان کے مقابل پر جنگ ہے لیکن جب وہ صالح ہو جاتا ہے
تو کل جنگیں بھی ختم ہوجاتی ہیں   ”

ملفوظات ،جلد اول ،صفحہ 14

محمد علیؒ کے عبد صالح ہونے کا الٰہی سرٹیفکیٹ 
رویا مسیح موعودؑ 

“مولوی محمدعلی صاحب کو رویاء میں کہا آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے۔آو ہمارے پاس بیٹھ جاو

تذکرہ صفحہ 478  جون 1904 ء

“اور مجھے اس سے بہت خوشی ہے کہ ایک اورجوان صالح خدا کے فضل کو پا کر ہماری جماعت میں داخل ہوا ہے یعنی حبی فی اللہ مولوی محمد علی صاحب ایم ائے پلیڈر ہیں ۔ میں انکے آثار بہت عمدہ پاتا ہوں اور ایک مدت سے کاروبار کا حرج کر کے خدمت دین کےلئے قادیان میں مقیم ہیں اور مولوی نورالدین صاحب سے حقائق و معارف  قرآن شریف سن رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ میری فراست اس بات میں خطا نہیں کرے  گی کہ جوان موصوف خدا تعالی کی راہ میں ترقی کرے گا اور یقین ہے کہ وہ خدا تعالی کے فضل سے تقوی اور محبت دین پر ثابت قدم رہ کر ایسے نمونے دکھائے گا جو ہمجنسوں کےلئے پیروی کےلائق ہونگے ۔ائے خدا ایسا ہی کر ۔آمین ثم آمین”

4 اکتوبر 1899 مجموعہ اشتہارات جلد ہشتم صفحہ 68

ہماری جماعت کےاول درجہ کے مخلص دوستوں میں سے مولوی محمد علی صاحب ایم ائے ہیں جنھوں نے علاوہ اپنی لیاقتوں کے ابھی وکالت میں بھی امتحان پاس کیا ہے اور بہت سا اپنا حرج اٹھا کر چند ماہ سے ایک دینی کام کے انجام کےلئے یعنی بعض میری تالیفات کو انگریزی میں ترجمہ کرنے کےلئے میرے پاس قادیان مقیم ہیں ۔

 اور میں اس مدت میں یعنی جب سے کہ وہ میرے پاس ہیں ظاہری نظر سے اور پوشیدہ طور پر انکے حالات کا، اخلاق اور دین اور شرافت کی رو سے تجسس کرتا رہا ہوں ۔

سو خدا کا شکر ہے کہ میں نے اسکو دینداری اور شرافت کے ہر پہلو میں نہایت عمدہ انسان پایا ہے ۔غریب طبع،باحیا،نیک اندروں پرہیز گار آدمی ہے اور بہت سی خوبیوں میں رشک کے لائق ہے ۔۔۔۔۔۔

یہ بات ظاہر ہے کہ ایسے ہونہار لڑکے جو ہمہ صفت موصوف ہوں اور ہر طرح سے لائق اور معزز درجہ کے آدمی تلاش کرنے سے نہیں ملتے

9  اگست  1899  مجموعہ اشتہارات، جلد ششم، صفحہ 48



“ مشکل یہ امر ہے کہ جس کو ذرا استعداد ہو جائے وہ دنیا کی طرف جھک جاتا ہے ۔میں چاہتا ہوں کہ ایسے لوگ پیدا ہوں جیسے مولوی محمد علی کام  کر رہے ہیں ۔زندگی کا بھروسہ نہیں اب وہ اکیلے ہیں کوئی انکا ہاتھ بٹانے والا قائم مقام نظر نہیں آتا۔

ارشاد مسیح موعودؑ 

حضرت علامہ نور الدین رحمة اللہ علیہ
 حضرت مولوی محمد علی رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں :

میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم بڑے بڑے لوگوں کی نسبت رائیں بناتے ہو۔تم جھوٹے اور بالکل جھوٹے ہو ۔محمد علی بڑا آدمی ہے۔ اس نے انگریزی میں ترجمہ لکھا ہے۔تم میں سے یہ کام کسی نے نہیں کیا۔اگر کہو اختلاف سو اختلاف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی تھا اور یہ تو مرزا کا معاملہ ہے ۔نوردین

(پیغام صلح،۱۸ مئی ۱۹۱۴)


"مجھے مولوی صاحب نے بہت خوش کیا ہے ۔میرا دل باغ باغ ہو گیا ہے ۔انھوں نے یاجوج ماجوج اور اصحاب کہف ،ذوالقرنین کی تحقیقات  عجیب کی ہے۔انسائیکلو پیڈیا چھان مارے ہیں ۔کیا مسئلہ صاف کیا ہے۔
واہ ۔واہ ۔واہ"

پیغام صلح،۲۶ فروری ۱۹۱۴




میرقاسم علی صاحب فرماتے ہیں :
یہاں ایک اور عالم باعمل اور جوان صالح ہیں 
کہ جن سے آج امریکہ کو ہے پوری شناسائی 

وہ ایل۔ایل۔بی اور ایم ائے ایڈیٹر رسالہ کے 
جنھوں نے آج یورپ کو ہے حق کی راہ دکھائی 

کیا ہے طشت از بام راز عیسویت کا 
یہی وہ ہیں یہی وہ ہیں یہی ہیں پکے مرزائی 

اخبار بدر ۔17 جنوری 1907 ء

ابو یوسف مبارک علی صاحب لکھتے ہیں :

آن نائب محمد فزود دین علی را
زاں در بلاد یورپ دین از علی برآمد

شیرو شجاع عالم ہم چوں علی ضیغم 
خیبر شکست برہم شیر خدا برآمد

بدر ، 18 اپریل 1907



نوٹ: "تعلق باللہ" کے عنوان سے فی الحال جسقدر مواد میسر آ سکا اسے یکجا کر دیا گیا ہے اور مزید مواد کی تلاش جاری ہے جو میسر آتے ہی اس سلسلہ میں اضافہ کے ساتھ  شائع کر دیا جائے گا انشا اللہ

علاوہ ازیں مقام علی ؒ حضرت مسیح موعودؑ  ،حضرت مولانا نور الدین ؒ اور دیگر بزرگان سلسلہ و ممتاز غیر احمدی شخصیات کی نظر  میں ،کے عنوان سے بھی جلد ہی شائع کیا جائے گا انشا اللہ۔

حضرت مولانا محمدعلی ؒ کی سوانح حیات بعنوان" مجاہد کبیر"  کے مصنف  ممتاز احمد فاروقی صاحب “مجاہد کبیر”میں  فرماتے ہیں :
" میں سالہا سال حضور کے قدموں میں رہا ہوں اور آپ کے اولیاء اللہ ہونے کا میں دل سے معترف تھا مگر کبھی یہ نہ پتہ چلا کہ الہام یا  کشف حضور کوہوتا ہے یا نہیں ۔ آخر ۴۳ ء  میں  بمبئی میں ایک دفعہ جرات کر کے پوچھا تو  آپ  مسکرائے اور صرف سر ہلا کر اقرار کیا۔میں نے پوچھا اس وقت کیا کیفیت ہوتی ہے تو فرمانے لگے کہ

 میں محسوس کرتا ہوں کہ بڑی طاقت نے مجھے اپنے تصرف میں لے لیا ہے اور بے اختیار میری زبان پر کلمات جاری ہوجاتے
ہیں "

مجاہد کبیر ،صفحہ نمبر  370


۲۶ اپریل ۱۹۳۹ء
کو ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب ؒ کا انتقال ہوا ۔دو چار روز پہلے آپ کچھ بیمار ہوئے ۔26 کو آپ پر فالج کا حملہ ہوا  جس سے جانبر نہ ہوسکے ۔۔۔۔۔۔۔عین اسوقت جب آپ پر فالج کا حملہ ہوا تو مولانا محمدعلی ؒ صاحب نے بیان کیا کہ انکوبار بار ایسی آواز سنائی دی کہ جیسے کوئی کہہ رہا ہو

"کندھوں پر اٹھا کر لے چلو کندھوں پر اٹھا کر لے چلو اللہ کی طرف

آپؒ کا خیال اپنے بڑے بھائی مولانا عزیز بخشؒ صاحب کی طرف گیا کیونکہ وہ اس وقت بیمار تھے لیکن جلد ہی آپ کو شاہ صاحب ؒ کی بیماری کی اطلاع ملی ۔

ستمبر 1943ء 
رمضان  کے آخری عشرہ سے پہلے آپ نے اخبار پیغام صلح کے ذریعے سے جماعت سے ایک دعا کی التجا ان الفاظ میں کی

۔۔ ۱۴ یا ۱۵  ماہ شعبان کی تھی کہ ۔۔۔۔میر ے معمولی طور پر اٹھنے سے کوئی آدھ گھنٹہ پیشتر مجھ پر ایک نیم خوابیدگی کی حالت وارد ہوگئی اور اس حالت میں میری زبان پر یہ فقرہ تھا اور بار بار میں یہی کہتا چلا جاتا تھا
رب قربنی الیک و قرب نصرتک الی
 ۔ائے میرے رب تو مجھے اپنے قریب کر لے اور اپنی نصرت کو مجھ سے قریب کر دے ۔“
مجاہد کبیر ،صفحہ 254

17 جنوری 1945ء

مرزا بشیرالدین صاحب کے لاہور جماعت کے بارے میں ایک الہام “لیمزقنھم” کے جواب میں فرمایا

“جس وقت ہم علیحدہ ہوئے ہیں مجھے بھی الہام ہوا تھا۔

وللآ خرة خیر لک من الاولی

خطبہ جمعہ ۵ جنوری ۴۵،”پیغام صلح” ا۷ جنوری ۱۹۴۵ء 



حضرت مولانا محمدعلیؒ  کی ایک ڈائری سے بعض  اقتباسات
۱۶ جنوری ۱۹۴۶

“آٹھ دس روز پیشتر لاہور میں تہجد  کے وقت کے قریب دیکھا جیسے کسی سفر پر جا رہا ہوں ۔ایک ساتھی میرے ساتھ ہے ۔پہاڑی سفر ہے ۔ہم دونوں پیدل جا رہے ہیں  ۔ایسا معلوم ہوتا ہے گویا چارپانچ میل ہم نے جانا ہے مگرپہلے ٹیلے کے سر   پر پہنچے تو آگے دُ ور تک ایک پہاڑیوں کا سلسلہ نظر آیا جن میں سے آخری تک ہم نے پہنچنا ہے ۔اسوقت میں یہ خیال کرتا ہوں کہ یہ تو ابھی پندرہ سولہ میل کا سفر ہے ۔اس موقع پر  میرا ایک ساتھی ایک راستہ پر چلتا رہا اور میں نے دوسری طرف سے اُ  ترنے کی کوشش کی مگر چند ہی قدم چل کر معلوم ہوا  کہ یہ راستہ ناقابل گزر ہے ۔وہاں سے واپس لوٹنا بھی مشکل معلوم ہوتا تھا جب تک کوئی ہاتھ پکڑ کر اوپر نہ کھینچے ۔مگر میرے ساتھ کوئی ایسا آدمی نہیں ۔ایسی حالت میں میں نے ایک سہارا لے کر اپنے آپ کو اوپر کر لیا ۔اور پھر تھوڑا سے  آگے مڑ کر آگے ایک نہایت صاف راستہ نظر آیا جس پر میںنے چلنا شروع کر دیااورمیں سمجھتا ہوں کہ اب سفر کتنا سہل ہے ۔تھوڑی دیر چل کر ایسا معلوم ہواکہ ہم ایک ایسی جگہ پہنچ گئے ہیں جہاں کچھ آبادی سی ہے ۔گویا وہ اس رستے کی ایک منزل ہے ۔میں کہتا ہوں کہ ہم تو  مراد پور   پہنچ گئے ۔گویا وہ ایک معروف مقام ہے ” 

مئی 1944ء
 مئی کا مہینہ تھا اور میں ان ایام میں میں  بیمار تھا ۔ہلکا بخار رہتا تھا ۔نماز ظہر کے بعد سو رہا تھا  کہ ایک کاغذ میرے سامنے لایا گیا جس پر لکھا ہوا تھا 28725  یا    29725. جاگتے وقت یہ امر مشتبہ ہو گیا کہ اِن میں سے کون سا عدد تھا مگراس کے ساتھ ہی یہ احساس میرے قلب پر تھا کہ یہ میری زندگی کے ایام ہیں 

۲۱ نومبر ۱۹۴۵
(یا ایک دو  دن پیشتر)

  نومبر 1945 یا اس سے ایک دودن پیشتر رویا ء میں دیکھا کہ ایک بڑا زبردست دریا ہے جس کے اندر میں اتر رہا ہوں اور اس تلاش میں ہوں کہ کوئی چٹان بن جائے جس پر میں ٹک جاوں ۔اس کے ساتھ ہی یہ معلوم ہوا کہ میں گویا  قرآن شریف  کی بعض آیات کا ترجمہ کر رہا ہوں اور ایک آیت کا ترجمہ میں نے یوں لکھا ہے 
The river is so deep that no gorge can fill it 

ذہن  فوراً اسطرف منتقل  ہو کہ اس میں اشارہ ہے بعض جھگڑوں کی طرف جو بدقسمتی سے پیدا ہو گئے ہیں 

ڈلہوزی کے ایام میں 

ڈلہوزی میں ان ایام میں جب بعض نا خوشگوار امور کی وجہ سے میں نے فیصلہ کر لیا کہ آئندہ
 انجمن سے قرض نہ لونگا اور سابقہ قرضہ بھی واپس ادا  کردونگا تو دس بجے رات سے لے کر دو بجے تک جب میں اٹھا یہی الفاظ میری زبان پر مسلسل جاری تھی ۔یعنی جب کروٹ لیتا یا جاگ کھلتی تو یہ لفظ دوہراتا چلا جاتااپنے اختیار سے نہیں بلکہجیسے میری زبان پر تصرف سے یہ ہو رہا ہے ۔
واغنی بفضلک عمن سواک

۹ اور ۱۰ فروری ۱۹۴۶ء

۹ اور ۱۰ فروری 
کی درمیانی رات بعض ناخوشگوار واقعات کی وجہ سے میری طبیعت پر بے حد صدمہ  تھا ۔ایسی  حالت میں خیال گزرا کہ ایک صدمہ بھی  انسانی زندگی کو ختم کر سکتا ہے ۔سواتین بجے کے قریب دیکھتا ہوں کہ ایک چھپی ہوئی کتاب جو میری تصنیف ہے میرے سامنے لائی گئ ۔

اسکا نام تھا
Life Assurance

۱۸ مارچ ۱۹۴۶ء
سکندر آباد میں بابو خان صاحب کے مکان پر نماز فجر پڑھ  کر لیٹ گیا تو دیکھا کہ حضرت ڈاکٹر بشارت احمد صاحب مرحوم جیسے کسی گاڑی پر سوار ہیں ۔چہرہ بالکل ترو تازہ جیسے جوانی کے ایام میں تھا ۔لباس نہایت  اعلی درجہ کا پہنا ہوا ۔خوش و خرم ہیں ۔یہ سمجھتے ہوئے کہ  ڈاکٹر صاحب زندہ ہو کر پھر آگئے ہیں اور اب گویا ہمیشہ پاس رہیں گے میں  انہیں کہتاہوں کہ کئی دفعہ میر دل میں ی خیال آیا کہ آپ سے یہ کہوں کہ ایسی موت پر افسوس کیوں کیا جائے کہ کچھ مدت بعد انسان زند ہ ہوجائے۔اس پر ڈاکٹر صاحب مسکرائے (خیال اس طرف گیا کہ اس میں کوئی بشارت ہے یعنی تعبیر نام پر ہے )


۸ اپریل ۱۹۴۶
نماز فجر کے بعد لیٹ گیا۔ابھی پوری طرح غنودگی نہ ہوئی تھی کہ دیکھتا ہوں کہ میری بیوی ہیں اور میاں ممتاز کا لڑکا ظفر بھی  وہاں ہے ۔اسکے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر میری بیوی زور سے کہتی ہیں ۔
پاکستان زندہ باد

اپریل  1947ء 
کے پہلے ہفتہ میں 

“دیکھا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے ایک بڑا اہم مضمون لکھا ہے جس میں قرآن کی آیات بھی بہت کثرت سے ہیں تو آپؑ نے فرمایا کہ جہاں اس مضمون میں قرآن شریف کی آیت آئے وہ میں (محمدعلی)پڑھوں گا


۳ مارچ ۱۹۵۱ء
کچھ رویا ء جو میں نے کراچی میں ۱۸ ستمبر کے بعد سخت بیماری کی حالت میں دیکھے ان میں سے بعض وقتاً فوقتاً اخبار میں آگئے ہیں لیکن بعض نہیں آئے انکو ابھی یہاں لکھتا ہوں ۔
ا۸ ستمبر یا ۱۹ ستمبر کے بعد کی رات تھی اور میں  اور میری حالت بہت خراب ہو چکی تھی ۔میاں نصیر احمد میرے پاس بیٹھے ہوئے (کچھ اور عزیز بھی تھے) سورة یٰسین مجھے سنا رہے تھے ۔چونکہ وہ ٹارچ کی روشنی میں پڑھتے تھے بعض وقت غلطی بھی کر جاتے تو اصلاح کر دیتا۔ایک آنی نظارہ اس حالت میں یہ دیکھاکہ میں ایک بلند پہاڑ کی چوٹی پراکیلا کھڑا ہوں اور نہیں جانتا کہ اب کسطرح کسی امن کے
 مقام پر پہنچوں گا کہ کسی غیبی طاقت نے مجھے اٹھایا اورمجھے لا کر ایسی جگہ رکھ دیا جہاں میرے ارد گرد قرآن کریم کے پڑھنے کی آوازیں آ رہی ہیں اور سارے کا سارا مجمع  جس میں مجھےرکھا گیا قرآن کریم پڑھ رہا ہے یہ حالت جاتی رہی تو میاں نصیر احمد ابھی سورة یٰسین پڑھ رہے تھے ۔”

“ایک دن درد کی وجہ سے سخت کرب کی حالت میں تھا کہ ایک غنودگی کی حالت طاری ہو گئی اور میں کیا دیکھا ہوں کہ میں گویا مکہ معظمہ میں ہوں اور دو مقامات پر
 بہت ہی بلندی پر کئی کئی جھنڈے لہرا رہے ہیں اور میں انکے بیچ دوڑ رہا ہوں ۔کبھی ایک طرف کے جھنڈوں کی طرف جاتا ہوں،کبھی دوسری طرف کے جھنڈوں کیطرف ۔اورمیں سمجھتا ہوں کہ ایک مقام پرجو جھنڈے ہیں وہ ارکان حج کے مختلف جھنڈے ہیں اور دوسرے مقام پر جو جھنڈ ے ہیں وہ یورپ اور امریکہ کے بعض ممالک کی کےجھنڈے ہیں ۔گویا یہ جھنڈے  یہاں خانہ کعبہ کو سلامی دینے کےلئے لائے گئے ہیں 

مجاہد کبیر،صفحات ۳۸۱ تا ۳۸۳

 جماعت احمدیہ لاہور کے اور اکثر غیر احمدیوں تک کے مسلمہ ملہم من اللہ 
حضرت سید اسد اللہ شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ کا حضرت مولانامحمد علی رحمة اللہ علیہ کے متعلق ایک زبردست الہام

نصیر احمد فارقی صاحب اپنے مضمون بعنوان”یاد محبوب” میں لکھتے ہیں

ایک مجاہدہ کے ایام میں حضرت سید اسد اللہ شاہ ملہم کو ایک
 الہام ہوا جس کا ذکر انھوں نے میرے نام ایک خط میں یوں کیا کہ مجھ پر کوئی الہام اس قدر سخت نہ ہوا تھا ۔حالت خواب میں یہ الہام اس قدر زور سے ہوا کہ شاہ صاحب کی آنکھ کھل گئی اور وہ الہام کی شدت کی وجہ سے ہائے ہائے کر رہے تھے اور باوجود سخت سردی کی رات کے ٹھنڈا پانی مانگ رہے تھے۔الہام تھا
کان خلیفتنا فی الارض یقال لہ محمد علی ھو لیلة القدر و الیکم مرجعکم
ترجمہ: زمین میں ہمارا خلیفہ ہے جس کا نام محمد علی ہے ۔وہ لیلتہ القدر ہے اور اسی کی طرف تم کو لوٹ کر جانا ہے 

اس الہام کے ساتھ حضرت شاہ صاحب کو کچھ اور بھی الہام ہوئے جن میں الفاظ “”چار لاکھ”  بھی تھے۔

نوٹ:
حضرت سید اسد اللہ شاہ صاحب ؒ کا ایک اور الہام یا کشف بھی حضرت مولانا محمدعلی ؒ کے بارے میں موجود ہے جس میں اللہ تعالی نے حضرت مولانا محمد علی ؒ کو حضرت داتا گنج بخش ہجویری قرار دیا ہے ۔ جونہی حوالہ ملے گا اسے بھی انشا اللہ شائع کر دیا جائے گا۔خدام


نصیر احمد فارقی صاحب مزید لکھتے ہیں 
حضرت مولانا کی عادت نہ تھی کہ اپنی روحانیت کا ذکر کریں اور اسی منکسر المزاجی کی وجہ سے عموماً اپنے الہامات یا کشوف یا رویائے صادقہ کا ذکر نہ کیا کرتے تھے ۔مامورین کا معاملہ اور ہوتا ہے ۔وہ خدا کے حکم سے ان تجربات اور مبشرات کو مشتہر کرتے ہیں ۔حضرت مولانا چونکہ مامور نہ تھے اس لئے کسر نفسی کرتے ہوئے اپنے روحانی کمالات کا خود ذکر نہ کرتے تھے ۔مگر پوچھو تو کچھ نہ کچھ بتلا دیتے تھے ۔ایک دفعہ میں نے پوچھا کہ 
جناب نے کبھی لیلة القدر کا مشاہدہ بھی کیا ہے تو فرمایا

ہاں ۔ایک دفعہ ڈلہوزی میں رمضان کے آخری عشرہ میں تہجد پڑھ رہا تھا۔التحیات پڑھتے ہوئے ایک دم کھڑکی میں تیز روشنی ہوئی ۔مجھے پہلے خیال ہوا کہ نیچے سڑک پر  کوئی لوگ گیس کے ہنڈے لئے گزر رہے ہیں مگر پھر خیال آیا کہ اس جنگل میں تین بجے رات کو کون ہوگا۔تو میں نے کھڑکی سے  باہر دیکھا کہ روشنی کیسی ہے تو دیکھا کہ اس نور سے دور پہاڑ کے درخت تک نظر آرہے ہیں ۔میرے دیکھتے ہی دیکھتے یہ نظارہ ہٹ گیا۔تب مجھے یہ  خیال ہوا کہ

 یہ لیلة القدر کے انوار کی روشنی تھی جو اللہ نے مجھے دکھائی 

ایک دفعہ کراچی میں 50 ء میں رمضان کا آخری عشرہ تھا اور انتیسوں کی رات تھی ۔تہجد کے وقت میرا دل بہت لگا اورمیری روح پگھل کر آستانہ الٰہی پر گرتی تھی ۔اور یہ حالت تھی کہ سجدے سے سر اٹھانے کو دل نہ چاہتا تھا ۔سحری پر حضرت مولانا بھی تشریف فرما تھے ۔ان سے میں نے ذکر کیا کہ میرے خیال میں لیلة القدر اس رات تھی ۔فرمانے لگے 

میرا بھی یہی خیال ہے ۔رات جب میں عشاء کی نماز پڑھ رہا تھا تو سورة فاتحہ کے بعد قرات کے لئے بار بار میری زبان پر انا انزلناہ فی لیلة القدر آتا تھا مگر میں نے کوئی اور آیات پڑھیں ۔ابھی تہجد میں التحیات میں درود شریف پڑھ رہا تھا تواچانک میری آنکھوں کے سامنے روشنی پھیل گئی اور میں نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو سامنے آسمان اور اس پر بادل اس نور سے منور تھے ۔تھوڑی دیر بعد وہ نظارہ جاتا رہا


1946
 میں برطانوی کابینہ مشن ہندوستان کو خود مختاری دینے کےسوال پر غور کرنے کےلئے آیا ۔ میں کراچی میں تھا ۔وزیر ہند اور دوسرے برطانوی وزراء نے کراچی کے گورنر سے بات چیت میں صاف ظاہر کر دیا کہ پاکستان کا مطالبہ کبھی نہ مانا جائے گا۔یہ بات مجھے تک پہنچی تو میں نے حضرت مولانا کو ڈلہوزی خط لکھا کہ ہندو اور انگریز دونوں پاکستان کے مخالف ہیں اور سوائے خدا کی درگاہ کے اور کہیں سے امید نہیں ۔
آپ نے مجھے جواب لکھا کہ
مجھے بشارت ملی ہے پاکستان زندہ باد
اس لئے اگرچہ بظاہر ہر طرف مایوسی ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ آسمان پر فیصلہ ہو چکا ہے کہ پاکستان انشا اللہ بنے گا ۔میں اس امر کےلئے جناب الٰہی میں دعا کرتا رہوں گا۔

سو اس کیبنٹ مشن نے ایک قسم کا متحدہ ہندوستان ہی رکھا اور مسلم لیگ اسے مان کر مرکزی حکومت اور مرکزی اسمبلی میں شامل بھی ہوگئی تھی مگر کانگرس اور ہندووں کے روڑا اٹکانے کی وجہ سے وہ سکیم نہ چلی اور بالآخر اگلے سال اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان بن گیا۔فالحمد للہ علی ذالک ”

1950ء
 کےدسمبر میں میں لاہور گیا تو حضرت مولانا اپنے آخری مرض کی وجہ سے نہایت کمزور تھے ۔ایک دن تیسرے پہر کو ملنے کے لئے حاضر ہوا تو اسی وقت فرمانے لگے کہ 

اس وقت ایک عجیب نظارہ دیکھا ۔میں نے دیکھا کہ میں ایک چھوٹے بچے کی شکل میں ایک خوبصورت اور وجیہہ انسان کی گود میں ہوں اور مجھے تفہیم ہوتی ہے کہ وہ شخص خود اللہ تعالٰی ہے ۔اس شخص نے مجھے اپنے سینے سے اس طرح چمٹا لیا اورمیرے منہ سے یہ الفاظ نکلے 
الھم انت محبی فاجعلنی من احبائک۔
ائے اللہ تو مجھے محبت کرتا ہے پس تو مجھے اپنے سے محبت کرنے والوں سے بنا

امیر قوم حضرت ڈاکٹر سعید احمدؒ  اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں 

ایک مرتبہ اپنی ایک بیماری میں آپ سے دعا کی درخواست کی تو آپ نے مجھے لکھا کہ تمھاری صحت کےلئے دعا کرنا تو اب میرے لئے ایک ورد ہو گیا ہے ۔پھر ایک مرتبہ فرمانے لگے کہ میں سجدہ میں دعا کر رہا تھا تو بےساختہ میرے منہ سے الفاظ یوں نکل گئے 
“یا اللہ میرے بیٹے سعید کو شفا بخش”
میں نے عرض کیا تو میں تو اپنے آپ کو ہمیشہ آپ کا بچہ ہی سمجھا کرتا تھا ۔اچھا ہوا اللہ میاں نے اپنے الہام سے اس پر مہر تصدیق ثبت 
کردی ۔
” 

حضرت مولانا محمد علی رحمة اللہ علیہ نے خود میاں نصیر احمد فاروقی صاحب سے ذکر کیا کہ 
“مجھے الہام ہوا ہے
 یا عظیم المرتبة

(ائے عظیم الشان مرتبہ والے)
اس حالت پر آپکو یہ خیال ہوا ،اور کہ کسر نفسی کی وجہ سے تھا کہ یہ الفاظ شائد خدا تعالی ہیں تو فوراً ہی دوسرا الہام ہوا
و یا ضعیف الجثة 

(اور ائے کمزور جسم والے )
گویا دوسرے الہام نے بتا دیا کہ پہلا الہام خود آپ کے متعلق تھا”

اسکا مفہوم دل میں تھا کہ یہ جسم اب اتنا کمزور ہوگیا ہے کہ اسے چھوڑنا پڑے گا۔آپکا پہلا پروگرام لاہور ۱۵ کتوبر کو جانے کا تھا ۔اسکا ذکر ہوا تو فرمانے لگے

“مگر میں نے تو یہ نظارہ دیکھا ہے کہ میں ایک ہوائی جہاز میں آسمانوں میں اڑتا چلا جا رہا ہوں ”
۱۳ اکتوبر ۱۹۵۱ ء بمطابق ۱۰ محرم الحرام آپ کی روح اپنے مولا سے جاملی ۔

مجاہد کبیر،صفحہ نمبر 349

ایک خواب

حضرت مولانا محمد علی ؒ نے اپنی بیماری کے پہلے دن سخت تکلیف میں دیکھا 

آپ کے بڑے بھائی مولوی عزیز بخش صاحب اپنےمکان کی اوپر کی منزل میں ایک مصلی پر بیٹھے ہیں ۔سر ننگا ہے اور دونوں ہاتھ خدا کے سامنے اٹھائے ہوئے ہیں ۔منہ مشرق کی طرف ہے اور آپ کے لئے درد بھرئ دعائیں کر رہے ہیں اس کی تعبیر آپ کو یہ سمجھ آئی کہ بڑے بھائی سے مراد جماعت ہے ۔خواب میں مشرق کی طرف منہ کر کے دعا کرنا اسکی قبولیت کی نشانی ہے 

مجاہد کبیر،صفحہ 326




حضرت مولانامحمد علی ؒ حضرت مسیح موعودؑ کا ذکر کرتے ہوئے  فرماتے ہیں 

“اور وہی دست غیب جسے آپ (مسیح موعودؑ۔خدام) اپنی زندگی میں مدد کرتے دیکھتے تھے ۔آپ ؑ کی وفات کے بعد اس عظیم الشان کام میں میرا مدد گار ہوگیا۔میں اس وقت نوجوان تھا ۔کم علم بھی مگر میں دیکھتا تھا کہ مجھے دست غیب سے قوت ملتی ہے ۔
درحقیقت وہ قوت میرےلئے نہ تھی ۔وہ اس برگزیدہ انسان کےلئے تھی جس کے دل میں یہ تڑپ پہلےاٹھی ۔مگر چونکہ اس تڑپ کوپورا ہونے کا میں آلہ کار بن گیا اس لئے وہ دست غیب میری طرف بھی منتقل ہو گیا


...................................................................................................................................................................


پیغامِ امیر قومؒ
حضرت مولانا محمد علیؒ

تبدیلی عقیدہ کے ناپاک الزام پر حلف

میرا عقیدہ دربارہ نبوت مسیح موعودؑ کیاتھا؟ میں نے اسکو ابتدائے اختلاف ہی میں کھول کر بیان کردیا تھا ۔میں پہلے بھی اسی پر قائم تھا، اب بھی اسی پر قائم ہوں اور انہیں الفاظ میں پھر اپنے عقیدہ کو نقل کرتا ہوں 


"میں یہ مانتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ شرعی اصطلاح میں نبی اور رسول نہ تھے ۔یعنی نبی اس لئے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ پر غیب کے اخبار ظاہر کرتا تھا اور رسول اس لئے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مامور کر کے اصلاح کےلئے بھیجا تھا ۔
یعنی آپ ان معنوں میں نبی اور رسول تھے جن معنوں میں اس امت کے دوسرے مجدد بھی نبی اور رسول کہلا سکتے ہیں "
......................

"اس امت کے دوسرے مجددوں پر آپؒ   کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپؒ   کی آمد کے متعلق صریح پیشگوئیاں موجود ہیں ۔۔۔۔ پھر جس عظیم الشان فتنہ کی اصلاح کےلئے آپکو ؒ بھیجا گیا، دوسرے کسی مجدد کو اتنا عظیم الشان کام سپرد نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔


......................

ایسا ہی آپکوؒ کو جو علم کلام دیا گیا وہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس کو لیکر مسلمان کل مذاہب پر غالب آ سکتے ہیں ، دوسرے کسی مجدد کو ایسا علم کلام نہیں دیا گیا ۔"


......................
"میں حقیقی نبوت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم یقین کرتا ہوں ۔آپؐ    کے بعد نہ کوئی پرانا نبی واپس آئے گا نہ کوئی نیا نبی مبعوث ہوگا"

منقول از میرے عقائد، مطبوعہ ۳۳ اگست ۱۹۱۴ء



......................

"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر قسم اٹھاتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ میرے علم میں ۱۹۰۱ ء سے لیکر ۱۹۰۸ء تک حضرت مسیح موعودؑ کا یہی عقیدہ تھا کہ انکا نہ ماننے والا بھی مسلمان اور دائرہ اسلام میں ہے اور انکا منکر کافر اور دائرہ اسلام سے خارج نہیں اور میرا بھی یہی عقیدہ ۱۹۰۱ء سے لیکر آج تک بربنائے عقیدہ حضرت مسیح موعودؑ ہے "

پیغام صلح ۔لاہور۔۲۱ستمبر ۱۹۴۴



......................

"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اس بات پر حلف اٹھاتا ہوں کہ میرا عقیدہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب قادیانی مجدد اور مسیح موعودؑ ہیں مگر نبی نہیں اور نہ انکے انکار سے کوئی شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے 
اور یہی عقیدہ حضرت مرزا صاحب کا تھا

اے خدا اگر میں نے تیر نام لیکر اس قسم کے کھانے میں جھوٹ بولا ہے تو تو اپنی طرف سے ایسی عبرت ناک سزا مجھ پر بھیج جس میں انسانی ہاتھ کا کوئی دخل نہ ہو اور جس سے دنیا سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھا کرمخلوق خدا کو دھوکہ دینے والوں پر خدا تعالیٰ کی گرفت کتنی سخت اور درد ناک ہوتی ہے "


پیغام صلح ۔لاہور۔۱۱دسمبر ۱۹۴۶



......................

"ہم اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ ۱۹۰۱ ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دعوی میں تبدیلی کی"

ستر بزرگان لاہور کا حلف

......................


......................

حضرت مولانا نور الدینؒ کا عقیدہ
انکی اپنی قلم سے 

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
دل چیر کر دیکھا یا دکھانا انسانی طاقت سے باہر ہے ۔قسم پر کوئی اعتبار کرے تو واللہ العظیم کے برابر کوئی قسم مجھے نظر نہیں آتی۔نہ آپ میرے ساتھ میری موت کے بعد ہونگے نہ کوئی اور میرے ساتھ سوائے میرے ایمان و اعمال کے ہوگا۔پس یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش ہونے والا ہے ۔
میں مرزا صاحب کو مجدد اس صدی کا یقین کرتا ہوں ۔میں انکو راستباز مانتاہوں ۔
حضرت محمد الرسول اللہ النبی العربی المکی المدنی خاتم النبیین کا غلام اور اسکی شریعت کا بدل خادم مانتا ہوں اور مرزا خود اپنے آپکو جاں نثار غلام نبی عربی محمدؐ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن مناف  کامانتے تھے 

نبی کے لغوی معنی پیش از وقت اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر خبر دینے والا ہم لوگ یقین کرتے ہیں نہ شریعت لانے والا۔

مرزا صاحب اور میں خود جو شخص ایک نقطہ بھی قرآن شریف کا اور شریعت محمدؐ رسول کا نہ مانے، میں اسے کافر اور لعنتی اعتقاد کرتا ہوں ۔

یہی میرا اعتقاد ہے اور یہی میرے نزدیک مرزا غلام احمد کا تھا ۔
کوئی رد کرے یا نہ مانے یا منافق کہے اس کا معاملہ حوالہ بخدا۔

نورالدین بقلم خود 
۲۲ اکتوبر  ۱۹۱۰ء 

......................

قادیانی جماعت کے پیشواء
مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کا سابقہ عقیدہ
خود انکی اپنی قلم سے 

"اس آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپؐ    کے بعد کوئی شخص نہیں آئے گا جس کو نبوت کے مقام پر کھڑا کیا جائے اور وہ آپؐ    کی تعلیم کو منسوخ کر دے اور نئی شریعت جاری کر دے ۔بلکہ جسقدر 
اولیاء اللہ 
ہونگے  اور متقی اور پرھیز گار لوگ ہونگے سب کو آپؐ   کی غلامی میں ہی ملے گیا جو کچھ ملے گا ۔
اس طرح خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ
 آپؐ    کی نبوت نہ صرف اس زمانہ کےلئے ہے بلکہ
آئندہ بھی کوئی نبی نہیں آئے گا"

تشحیذ الاذہان بابت اپریل ۱۹۱۰ء 


......................

قادیانی جماعت کے ھیڈ 
مولوی محمد سرور شاہ صاحب کا سابقہ عقیدہ

"لفظ نبی کے معنی اپنے مصدروں کے لحاظ سے دو ہیں ۔
اول اپنے خدا سے اخبار غیب پانے والا 
دوئم عالی مرتبہ شخص ۔جس شخص کو اللہ تعالیٰ بکثرت شرف مکالمہ سے ممتاز کرے اور غیب کی خبروں پر مطلع کرے ، وہ نبی ہے 

اس رنگ میں میرے نزدیک تمام مجددین سابق مختلف مدارج کے انبیاء گزرے ہیں "
بدر مورخہ ۱۶ فروری ۱۹۱۱ء 


......................

مفتی محمد صادق صاحب کا سابقہ عقیدہ 

اس کو عربی لغت میں نبی کہتے ہیں 

"شبلی نے دریافت کیا کہ کیاہم لوگ مرزا صاحب کونبی مانتے ہیں ؟
میں نے عرض کیا کہ ہمارا عقیدہ اس معاملہ میں دیگر مسلمانوں کی طرح ہے کہ آنحضرت صلعم خاتم النبیین ہیں ۔
آپکے بعد کوئی دوسرا نبی آنیوالانہیں ۔نہ نیا نہ پرانا ۔
ہاں مکالمات الٰہیہ کا سلسلہ برابر جاری ہے وہ بھی آنحضرت صلعم کے طفیل آپؐ    سے فیض حاصل کر کے اس امت میں ایسے آدمی ہوتے رہے جنکو الہام الٰہی سے مشرف کیا گیا اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے ۔

چونکہ حضرت مرزا صاحب بھی الہام الہی سے مشرف ہوتے رہے اور الہام الٰہی کے سلسلہ میں آپکو خدا تعالیٰ نے بہت سی آئندہ کی خبریں بطور پیشگوئی کے بتلائی تھیں جو پوری ہوتی رہیں اس واسطے مرزا صاحب ایک پیشگوئی کرنے والے تھے اور اسکو 

عربی لغت میں نبی کہتے ہیں "
بدر۔جلد نمبر ۹ ، ۵۱/۵۲



......................

۷:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں 
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)

ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام

"نبوت کا دعوی نہیں بلکہ محدثیت کا دعوٰی ہے جو خدا تعالیٰ کےحکم سے کیا گیاہے"

"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "

" یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے؟"

روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹

......................

"میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اورنبی کے میری الہام میں میری نسبت خدا تعالٰی کی طرف سے بے شک ہیں  لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں اور جیسے یہ محمول نہیں ایسا ہی نبی کر کے پکارنا  جو حدیثوں میں مسیح موعودؑ کےلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔
 یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "

سراج منیر،صفحہ ۳
......................
"سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں ۔ آنے والے مسیح موعودؑ  کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویؐ سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور معمولی محاوہ مکالمات الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا؟"
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"
......................

یہ بھی یاد رہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے"
روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209



......................

"سمیت نبیا من اللہ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ"
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر 


روحانی خزائن جلد 22 صفحہ  689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65) 
......................
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب
 انکے اپنے اشعار میں 

ما مسلمانیم از فضلِ خدا 
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا

اندریں دیں آمدہ از مادریم 

ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم

آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست

بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست

یک قدم دوری ازاں روشن کتاب

نزد ماکفر است و خسران و تباب

آں رسولے کش محمدؐ ہست نام

دامنِ پاکش بدستِ ما مدام

مہرِ اوباشیرشداندربدن

 جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن 

ہست اوخیرالرسل خیرالانام

ہر نبوت را بروشد اختتام

(کتاب سراج منیر، ضمیمہ صفحہ ز)
۸:
 ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف

اس ہفتہ کی کتاب

 ایک ضروری تجویز

بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین 
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

No comments :

Post a Comment