Monday, September 29, 2014

پیر و منگل- 29 ،30 ستمبر 2014، شمارہ: 41


حضرت مولانا محمد علی ؒ کے خطبات کی تازہ ریکارڈنگز


لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِ

روزنامہ مبلغ (آنلائن)


روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان



بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت

 حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ

احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

پیر منگل ۔۲۹، ۳۰ ستمبر ۲۰۱۴ء

۳، ۴ ذوالحج ۱۴۳۵ ہجری


شمارہ نمبر:41

Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com

اپ ڈیٹ

اس ہفتہ کی کتاب 
رد تکفیرِ اہل قبلہ
از حضرت مولانا محمد علیؒ 
سب سے آخری سیکشن میں ملاحظہ فرمائیں 





۱:کلامِ الٰہی 
سورة النور


وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ 
ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
4:آیت


إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
5:آیت

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ
6:آیت

وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ
7:آیت

وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ
8:آیت

وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ

9:آیت

ترجمہ:۔  

4:
اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ لائیں تو انھیں اسی کوڑے لگاو اور انکی گواہی کبھی قبول نہ کرو اور وہی نافرمان ہیں ۔ 
  
5:
مگر بعد میں جو توبہ کر لیں اور اصلاح کر لیں تو اللہ بخشنے والا رحم والا ہے ۔

6:
اور جو لوگ اپنی عورتوں پر تہمت لگائیں اور سوائے اپنے انکا کوئی گواہ نہ ہو تو ان (تہمت لگانے والوں) میں سے ایک کی گواہی یہ ہے کہ اللہ کی قسم کے ساتھ چار بار گواہی دے کہ وہ سچوں میں سے ہے 

7:
اور پانچویں (بار یہ کہ) اللہ کی لعنت اس پر ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہے 

8:
اور عورت سے یہ بات سزا کو ٹال سکتی ہے کہ وہ اللہ کی قسم کے ساتھ چار بار گواہی دے کہ وہ (مرد) جھوٹوں میں سے ہے 

9:
اور پانچویں (بار یہ کہ)اللہ کا غضب اس پر ہو اگر وہ سچوں میں سے ہے 


زنا کی تہمت 
تفسیر

جسطرح زنا کی سزا سخت رکھی ہے اس طرح اس بات کی سزا بھی سخت رکھی ہے کہ خوامخوہ لوگوں پر الزام لگایا جائے اور گو یہاں صرف محصنات پر تہمت دینے کا ذکر ہے مگر مرد بھی اس میں شامل ہیں ۔ صرف عورتوں کا ذکر اس لئے کیا کہ عورتوں سے متعلق بری باتوں کی اشاعت کو زیادہ سختی سے روکنے کی ضرورت ہے ۔

اور چار گواہوں کو اس لئے ضروری ٹھہرایا تاکہ اس بات کے سچ ہونے میں کوئی شبہ نہ رہے ۔ ہاں یہ قاضی یا مجسٹریٹ کی رائے پر انحصار ہے کہ وہ قرائن کی شہادت کو بھی شامل کر لے۔

سوال ہو سکتا ہے کہ اگر ایک ہی شخص دیکھے اور اسے گواہ نہ ملیں تو وہ کیا کرے؟ حکم قرآنی یہ ہے کہ ایسی صورت میں اسے تشہیر کا کوئی حق نہیں سوائے اسکے کہ وہ اپنی عورت سے ایسے فعل کا ارتکاب دیکھے جس کا علاج آیت ۶ میں بتایا ہے ۔ کیونکہ اس طرح اسے تشہیر کا حق دے دیا جائے تو پھر ہر شخص جو چاہے کہتا پھرے اور اسکے مضرات بہت زیادہ ہیں ۔ 

اور ایسے کوڑے لگانے والوں کی سزا علاوہ کوڑوں کے یہ بھی ہے کہ انکی شہادت کسی معاملہ میں بھی قبول نہ کی جائے سوائے اسکے کہ وہ توبہ کریں ۔ 

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ توبہ کا معاملہ اللہ تعالیٰ سے ہے۔ شہادت پھر بھی قبول نہ کی جائے۔ مگریہ درست معلوم نہیں ہوتا۔

ان چار آیتوں میں(۶ تا ۹، ناقل) جو صورت بیان کی وہ لعان کی صورت ہے اور پانچ مرتبہ قسم اٹھانا اس لئے ہے تا دل پر واقعہ کے جھوٹ ہونے کی صورت میں خوف طاری ہو۔ 

لعان کے ساتھ شوہر اور عورت میں مفارقت لازم ہے اور نکا نکاح دوبارہ نہیں ہو سکتا ۔ سب سے پہلا لعان ہلال بن امیہ کا اسکی بی بی سے ہوا اور لکھا کہ یہ آیات اسکی معاملہ میں نازل ہوئیں ۔

بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ

...................................................................................................................................................................

۲:حدیثِ نبویؐ

یہ وہ مسلمان ہے جس کےلئے اللہ کا عہدہے

(حضرت) انسؓ سے روایت ہے کہا رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ:


جو شخص ہماری نماز پڑھتا ہو اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرتا ہے اور ہمارا ذبیحہ کھاتا ہو تو یہ وہ مسلمان ہے کہ اسکے لئے اللہ کا عہد اور اس کے رسول کا عہد ہے ۔ سو تم اللہ کے عہد کو مت توڑو


بخاری (8: 28)

مختصر نوٹ:


گویا جس شخص میں یہ موٹا نشان پایا جاتا ہو کہ وہ مسلمانوں کی طرح نماز پڑھتا ہو اور قبلہ کی طرف منہ کرتا وہ خدا اور اسکے رسول کے نزدیک مسلم ہے اور مسلم ہونے کے لحاظ اللہ اور اسکے رسول کی امان میں ہے ۔

جو شخص اسے کافر کہتا ہے وہ اللہ اور سکے رسول کے عہد کو توڑتا ہے ۔ پس کلمہ گو کی تکفیر خدا اور اسکے رسول کے عہد کو توڑنے کے برابر ہے ۔

کتاب: احادیث العمل صفحہ39
از
 حضرت مولانا محمدعلیؒ 


...................................................................................................................................................................


۳:سیرت خیر البشرؐ
 باب چہارم
آفتاب رسالت کے طلوع سے پہلے کا زمانہ 
ظھرالفساد فی البر و البحر
(30:الروم:41)
برو بحر میں فساد ظاہر ہو گیا
از
 حضرت مولانا محمد علی 

نوٹ:  حضرت مولانا محمد علیؒ  کے اس عظیم الشان شاہکار اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ امی و ابی کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب سیرت خیرالبشر ؐ کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ

گزشتہ سے پیوستہ
توہم پرستی
"جو لوگ حیات بعد موت کے قائل تھے ان میں سے کوئی مر جاتا تو اسکی قبر پر ایک اونٹ باندھ دیتے اور اسکو بھوکا پیاسا رکھ کر مارتے کہ قیامت کے دن مردہ اسی پر سوار ہو کر ۔ یہ بھی انکا عقیدہ تھا کہ مردہ کی روح قبر پر الو کی شکل میں اڑتی ہوئی پھرتی رہتی ہے اور اگر مردہ مقتول ہو وہ اسقنی اسقنی پکارتا رہتا ہے جب تک کہ مقتول کا قصاص نہ لے لیا جائے۔ 

کاہنوں، رمالوں پر بڑا ایمان رکھتے تھے ۔ یہ کاہن انکے خدا بنے ہوئے تھے ۔ وہ جو کہتے اس کو سچ مان لیتے تھے۔ اس قسم کی اور بہت سی توہم پرستیاں تھیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔

کہانت بیماری میں آسیب اورجنوں کے خیالات۔ خبیث ارواح کا جسم انسانی پر قبضہ۔ جادو وغیرہ ہزار ہا قسم کی توہم پرستیوں کی چند سالوں میں ایسی صفائی محمد رسول اللہ صلعم نے کی کہ گویا اس جزیرہ نما میں یہ باتیں کبھی تھیں ہی نہیں۔ اور نوع انسانی کو توہم پر ستی کی قید سے آزاد کر کے تہذیب و علم کے بلند ترین مینار پر پہنچا دیا ۔

واقعات کے  رنگ میں تاریخ کوئی دوسرا ایسا انسان پیش کرنے سے عاجز ہے جس نے ہزاروں قسم کی اعتقادی اور عملی بیماریوں کا ایسے وسیع ملک میں اس قدر قلیل مدت میں اس کمال کے ساتھ علاج کر دیا ہو اور ان بیماریوں سے آزاد کر کے پھر ان لوگوں کو صحت کے کمال تک پہنچا دیا ہو ۔ اس لئے یہی انسان خیر البشر کہلانے کا مستحق ہے ۔  "


ہست او خیرالرسل خیرالانام 
ہر نبوت را بروشد اختتام 

الحمدللہ کہ یہاں باب دوئم کا اختتام ہو چاہتا ہے ۔ باقی سلسلہ جاری ہے 

کتاب سیرت خیرالبشرؐ،باب دوئم، صفحہ26



...................................................................................................................................................................

تاریخ خلافت راشدہؓ
از حضرت مولانا محمد علیؒ 
حضرت ابوبکر صدیقؓ
زمانہ خلافت
۲ ربیع الاول ۱۱ ہجری تا ۲۲ جمادی الثانی ۱۳ ہجری
جون ۶۳۲ء تا اگست ۶۳۴ء 

نوٹ:  حضرت مولانا محمد علیؒ  کے اس عظیم الشان شاہکار اور خلفائے راشدین کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب تاریخ خلافت راشدہ کو  کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ

ہجرت

"جب کفار کی اذیت انتہا کو پہنچ گئی اور صحابہ ؓ نے رسول اللہ صلعم کے ارشاد کے ما تحت مدینہ کی طر ف ہجرت شروع کی تو حضرت ابوبکرؓ  بھی تیار ہو گئے مگر رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ تم ٹھہرے رہو یہاں تک کہ مجھے حکم ہو۔ 

صحابہ سب ایک ایک دو دو کر کے نکل گئے تھے اور آنحضرت صلعم کےساتھ صرف حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ رہ گئے ۔ آخر وہ وقت آ پہنچا ۔ کفار نے رسول اللہ صلعم کے قتل کےلئے پورا انتظام کر لیا ۔ تب آنحضرت صلعم کو حکم ہوا کہ اب ہجرت کر جاو ۔

آپؐ   نے حضرت ابوبکرؓ کو اطلاع دی اور حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر لٹایا اور خود حضرت ابوبکر ؓ کے ساتھ رات کی تاریکی میں نکل پڑے ۔ "



جاری ہے


کتاب تاریخ خلافت راشدہ ،باب اول ، صفحہ4




...................................................................................................................................................................

۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ 



روحانی بارش کا قانون
حضرت مرزا غلام احمدؒ کی زبردست
 غیرت اسلام و غیرتِ   رسولؐ



 غرؔ ض اے بھائیو! اس زمانہ میں وہ زہرناک ہوا اندرونی اور بیرونی طور پر پھیلی ہوئی ہے کہ جس کا استیصال انسان کے اختیار میں نہیں بلکہ اس خدائے حیّ و قیّوم قادر مطلق کے اختیار میں ہے جو موسموں کو بدلتا اور و قتوں کو پھیرتا اور خشک سالی کے بعد باران رحمت نازل کرتا ہے۔

 اور جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ گرمی کی شدّ ت آخر بارش کو کھینچ لاتی ہے اس طرح پر کہ جب گرمی کمال کو پہنچتی ہے اور اس درجہ کے قریب اپنا قدم رکھنے لگتی ہے کہ جس سے قریب ہے کہ بنی آدم ہلاک ہوجائیں تب اس صانع قدیم کی حکمت کاملہ سے اس گرمی کا ایک تیز اثر سمندروں میں پڑتا ہے اور بوجہ شدّ ت اُس گرمی کے سمندروں میں سے بخارات اٹھتے ہیں تب سمندروں کی ہوا جو کہ سرد اور بھاری اور امساک کی قوت اپنے اندر رکھتی ہے ان بخارات کو اپنے میں جذب کر کے ایک حاملہ عورت کی طرح ان سے بھر جاتی ہے اور قرب و جوار کی ہوائیں قدرتی طور پر متحرک ہوکر اس کو دھکیلتی اور حرکت میں لاتی ہیں اور خود واسطہ بن کر اس بات کیلئے موجب ٹھہرتی ہیں کہ تا وہ ہوا بادلوں کی صورت میں ہو کر اپنے تئیں طبعاً اسی زمین کی طرف لاوے جہاں کی ہوا اس کی نسبت زیادہ گرم اور لطیف اور کم وزن اور کم مزاحم ہو۔ تب اُسی قدر کے موافق بارش ہوتی ہے کہ جس قدر گرمی ہوتی ہے۔

 یہی صورت اُس روحانی بارش کی بھی ہے جو ظاہری بارش کی طرح قدیم سے اپنے موسموں پر برستی چلی آئی ہے یعنی اس طرح پر کہ خشک سالی کے ایام میں جب کہ خشک سالی اپنے کمال اور انتہا کو پہنچ جاتی ہے یکدفعہ مستعددلوں کی گرمی اور طلب اور خواہش کی حرارت نہایت جوش میں آجاتی ہے تب وہ گرمی رحمت کے دریا تک جو ایک سمندر ناپیدا کنار ہے اپنے التہاب اور سوز کو پہنچا دیتی ہے۔ تب دریائے رحمت اس کے تدارک کیلئے توجہ فرماتا ہے اور فیض بے علّت کے نورانی بخارات نکلنے شروع ہوجاتے ہیں تب وہ مقرب فرشتے جو اپنے نفس کی جنبش اور جوش سے سرد پڑے ہوئے اور نہایت لطیف اور یَفْعَلُوْنمَاؔ یُؤْمَرُوْنَ کا مصداق ہیں ان فیوض کو قبول کر لیتے ہیں پھر ان فرشتوں سے تعلق رکھنے والی طبیعتیں جو انبیاء اور رسل اور محدثین ہیں اپنے حقانی جوشوں سے ان کو حرکت میں لاتے ہیں اور خود واسطہ بن کر ایسے محل مناسب پر برسا دیتے ہیں جو استعداد اور طلب کی گرمی اپنے اندر رکھتا ہے یہ صورت ہمیشہ اس عالم میں بوقت ضرورت ہوتی ہی رہتی ہے

 ہاں اس بھاری برسات کے بعد جو عہد مقدس نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوچکی ہے بڑی بڑی بارشوں کی ضرورت نہیں رہی۔ اور وہ مُصفّا پانی اب تک ضائع بھی نہیں ہوا مگر چھوٹی چھوٹی بارشوں کی ضرورت ہے تا زمین کی عام سرسبزی میں فرق نہ آجائے سو جس وقت خدا وند حکیم و قدیر دیکھتا ہے کہ زمین پر خشکی غالب آگئی ہے اور اس کے باغ کے پودے مرجھائے جاتے ہیں تب ضرور بارش کا سامان پیدا کردیتا ہے یہ قدیم قانون قدرت ہے جس میں تم فرق نہیں پاؤ گے۔

 اسی کے موافق ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ ان دنوں میں بھی اپنے عاجز بندوں پر رحم فرماتا۔ زمانہ کی حالت کو دیکھو اور آپ ہی ایمانًا گواہی دو۔ کیا یہ وقت وہی وقت نہیں ہے جس میں الٰہی مددوں کی دین اسلام کو ضرورت ہے۔ اس زمانہ میں جو کچھ دین اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی گئی اور جس قدر شریعت ربّانی پر حملے ہوئے اور جس طور سے ارتداد اور الحاد کا دروازہ کھلا کیا اس کی نظیر کسی دوسرے زمانہ میں بھی مل سکتی ہے؟

 کیا یہ سچ نہیں کہ تھوڑے ہی عرصہ میں اس ملک ہند میں ایک لاکھ کے قریب لوگوں نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا۔ اور چھ۶ کروڑ اور کسی قدر زیادہ اسلام کے مخالف کتابیں تالیف ہوئیں اور بڑے بڑے شریف خاندانوں کے لوگ اپنے پاک مذہب کو کھو بیٹھے یہاں تک کہ وہ جو آل رسول کہلاتے تھے وہ عیسائیت کا جامہ پہن کر دشمن رسول بن گئے اور اس قدر بدگوئی اور اہانت اوردُشناؔ م دہی کی کتابیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں چھاپی گئیں اور شائع کی گئیں کہ جن کے سننے سے بدن پر لرزہ پڑتا اور دل رو رو کر یہ گواہی دیتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے تو واللہ ثم واللہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دکھتا جو ان گالیوں اور اس توہین سے جو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کی گئی دُکھا۔

 پس کیا ابھی اس آخری مصیبت کا وہ وقت نہیں آیا جو اسلام کیلئے دنیا کے آخری دنوں میں مقدر تھا۔ کیا کوئی ثابت کرسکتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی اور زمانہ بھی آنے والا ہے جو قرآن کریم اور حدیث کی رو سے ان موجودہ فتنوں سے کچھ زیادہ فتنے رکھتا ہوگا۔

سو بھائیو تم اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو اور خوب سوچ لو کہ وقت آگیا اور بیرونی اور اندرونی فتنے انتہا کو پہنچ گئے۔ اگر تم ان تمام فتنوں کو ایک پلہ میزان میں رکھو اور دوسرے پلہ کیلئے تمام حدیثوں اور سارے قرآن کریم میں تلاش کرو تو ان کے برابر کیا ان کا ہزارم حصہ بھی وہ فتنے قرآن اور حدیث کی رو سے ثابت نہیں ہوں گے پس وہ کونسا فساد کا زمانہ اور کس بڑے دجّال کا وقت ہے جو اس زمانہ کے بعد آئے گا اور فتنہ اندازی کی رُو سے اس سے بدتر ہوگا۔

کیا تم ثابت کرسکتے ہو کہ ان فتنوں سے بڑھ کر قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں ایسے اور فتنوں کا پتہ ملتا ہے جن کا اب نام و نشان نہیں یقیناً یاد رکھو کہ اگر تم ان فتنوں کی نظیر تلاش کرنے کیلئے کوشش کرو یہاں تک کہ اسی کوشش میں مر بھی جاؤ تب بھی قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے ہرگز ثابت نہیں ہوگا کہ کبھی کسی زمانہ میں ان موجودہ فتنوں سے بڑھ کر کوئی اور فتنے بھی آنے والے ہیں؟


کتاب آئینہ کمالات اسلام 
روحانی خزائن جلد 5 صفحات 50 تا 52



...................................................................................................................................................................


۵:دینی مسائل اور انکا حل

ارشاد مبارک حضرت مجدد اعظم و امام الزمان
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی رحمتہ اللہ علیہ  

تعویز باندھنا اور دم کرنا

سوال: تعویز باندھنا یا دم وغیرہ کرنا کیسا ہے ؟ 

حضور امامِ عالی مقامؑ نے حضرت حکیم مولوی نورالدینؒ  کی طرف مخاطب ہو کر پوچھا کہ آپ نے احادیث میں اس کے متعلق کچھ پڑھا ہے ؟ 

حضرت نورالدین ؒ نے عرض کیا کہ حضرت خالد بن ولیدؓ جب کبھی جنگوں میں جایا کرتے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک پگڑی یا ٹوپی میں رکھ لیا کرتے تھے اور آگے کی طرف لٹکا لیتے۔ 
اور جب ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سر منڈھوایا تو آدھے سر کے کٹے ہوئے بال ایک شخص کو دے دئیے اور آدھے دوسرے حصہ کے باقی اصحاب کو بانٹ دئیے ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات جبہ شریف دھو کر مریضوں کو بھی پلایا کرتے تھے اور وہ شفا یاب ہوجایا کرتے تھے۔

ایسا ہی ایک دفعہ ایک عورت نے بھی آپؐ   کا پسینہ جمع کیا :

یہ سب سن کر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا:

" ان تعویز دموں کی اصل کچھ نہ کچھ ضرور ہے جو خالی از فائدہ نہیں ۔ میرے الہام میں جو ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اس سے بھی تو معلوم ہوتا ہے کہ کچھ تو ہوگا جو بادشاہ ایسا کریں گے ۔ 
اصل بات یہ ہے کہ ان باتوں کی بنا محبت اور اخلاص پر ہے ۔
صادقوں کی نکتہ چینی کرنےوالوں کے جواب میں فرمایا  کہ بزرگوں کے صفائر پر نظر کرنے سے سلب ایمان کا اندیشہ ہے  "

الحکم ۱۷ جولائی  ۱۹۰۳ ء 
...................................................................................................................................................................


۶:پیغامِ امیر قوم
حضرت مولانا محمدعلیؒ







23 دسمبر 1936


...................................................................................................................................................................

۷: عقائد حضرت مولانا محمد علی ؒ 
انکی اپنی قلم سے 

تبدیلی عقیدہ کے ناپاک الزام پر حلف
عقیدہ کس نے بدلا ؟
قادیانی جماعت کے پیشواء ثانی اور ہمنواوں نے 
یا جماعت احمدیہ لاہور نے؟



میرا عقیدہ دربارہ نبوت مسیح موعودؑ کیاتھا؟ میں نے اسکو ابتدائے اختلاف ہی میں کھول کر بیان کردیا تھا ۔میں پہلے بھی اسی پر قائم تھا، اب بھی اسی پر قائم ہوں اور انہیں الفاظ میں پھر اپنے عقیدہ کو نقل کرتا ہوں 



"میں یہ مانتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ شرعی اصطلاح میں نبی اور رسول نہ تھے ۔یعنی نبی اس لئے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ پر غیب کے اخبار ظاہر کرتا تھا اور رسول اس لئے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مامور کر کے اصلاح کےلئے بھیجا تھا ۔

یعنی آپ ان معنوں میں نبی اور رسول تھے جن معنوں میں اس امت کے دوسرے مجدد بھی نبی اور رسول کہلا سکتے ہیں "
......................

"اس امت کے دوسرے مجددوں پر آپؒ   کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپؒ   کی آمد کے متعلق صریح پیشگوئیاں موجود ہیں ۔۔۔۔ پھر جس عظیم الشان فتنہ کی اصلاح کےلئے آپکو ؒ بھیجا گیا، دوسرے کسی مجدد کو اتنا عظیم الشان کام سپرد نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔


......................

ایسا ہی آپکوؒ کو جو علم کلام دیا گیا وہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس کو لیکر مسلمان کل مذاہب پر غالب آ سکتے ہیں ، دوسرے کسی مجدد کو ایسا علم کلام نہیں دیا گیا ۔"


......................
"میں حقیقی نبوت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم یقین کرتا ہوں ۔آپؐ    کے بعد نہ کوئی پرانا نبی واپس آئے گا نہ کوئی نیا نبی مبعوث ہوگا"

منقول از میرے عقائد، مطبوعہ ۳۳ اگست ۱۹۱۴ء



......................

"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر قسم اٹھاتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ میرے علم میں ۱۹۰۱ ء سے لیکر ۱۹۰۸ء تک حضرت مسیح موعودؑ کا یہی عقیدہ تھا کہ انکا نہ ماننے والا بھی مسلمان اور دائرہ اسلام میں ہے اور انکا منکر کافر اور دائرہ اسلام سے خارج نہیں اور میرا بھی یہی عقیدہ ۱۹۰۱ء سے لیکر آج تک بربنائے عقیدہ حضرت مسیح موعودؑ ہے "

پیغام صلح ۔لاہور۔۲۱ستمبر ۱۹۴۴



......................

"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اس بات پر حلف اٹھاتا ہوں کہ میرا عقیدہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب قادیانی مجدد اور مسیح موعودؑ ہیں مگر نبی نہیں اور نہ انکے انکار سے کوئی شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے 
اور یہی عقیدہ حضرت مرزا صاحب کا تھا



اے خدا اگر میں نے تیر نام لیکر اس قسم کے کھانے میں جھوٹ بولا ہے تو تو اپنی طرف سے ایسی عبرت ناک سزا مجھ پر بھیج جس میں انسانی ہاتھ کا کوئی دخل نہ ہو اور جس سے دنیا سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھا کرمخلوق خدا کو دھوکہ دینے والوں پر خدا تعالیٰ کی گرفت کتنی سخت اور درد ناک ہوتی ہے "

پیغام صلح ۔لاہور۔۱۱دسمبر ۱۹۴۶



......................

"ہم اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ ۱۹۰۱ ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دعوی میں تبدیلی کی"

ستر بزرگان لاہور کا حلف

......................


......................

حضرت مولانا نور الدینؒ کا عقیدہ
انکی اپنی قلم سے 

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ


دل چیر کر دیکھا یا دکھانا انسانی طاقت سے باہر ہے ۔قسم پر کوئی اعتبار کرے تو واللہ العظیم کے برابر کوئی قسم مجھے نظر نہیں آتی۔نہ آپ میرے ساتھ میری موت کے بعد ہونگے نہ کوئی اور میرے ساتھ سوائے میرے ایمان و اعمال کے ہوگا۔پس یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش ہونے والا ہے ۔
میں مرزا صاحب کو مجدد اس صدی کا یقین کرتا ہوں ۔میں انکو راستباز مانتاہوں ۔
حضرت محمد الرسول اللہ النبی العربی المکی المدنی خاتم النبیین کا غلام اور اسکی شریعت کا بدل خادم مانتا ہوں اور مرزا خود اپنے آپکو جاں نثار غلام نبی عربی محمدؐ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن مناف  کامانتے تھے 



نبی کے لغوی معنی پیش از وقت اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر خبر دینے والا ہم لوگ یقین کرتے ہیں نہ شریعت لانے والا۔



مرزا صاحب اور میں خود جو شخص ایک نقطہ بھی قرآن شریف کا اور شریعت محمدؐ رسول کا نہ مانے، میں اسے کافر اور لعنتی اعتقاد کرتا ہوں ۔



یہی میرا اعتقاد ہے اور یہی میرے نزدیک مرزا غلام احمد کا تھا ۔

کوئی رد کرے یا نہ مانے یا منافق کہے اس کا معاملہ حوالہ بخدا۔

نورالدین بقلم خود 
۲۲ اکتوبر  ۱۹۱۰ء 

......................

قادیانی جماعت کے پیشواء
مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کا سابقہ عقیدہ
خود انکی اپنی قلم سے 


"اس آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپؐ    کے بعد کوئی شخص نہیں آئے گا جس کو نبوت کے مقام پر کھڑا کیا جائے اور وہ آپؐ    کی تعلیم کو منسوخ کر دے اور نئی شریعت جاری کر دے ۔بلکہ جسقدر 

اولیاء اللہ 
ہونگے  اور متقی اور پرھیز گار لوگ ہونگے سب کو آپؐ   کی غلامی میں ہی ملے گیا جو کچھ ملے گا ۔
اس طرح خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ
 آپؐ    کی نبوت نہ صرف اس زمانہ کےلئے ہے بلکہ
آئندہ بھی کوئی نبی نہیں آئے گا"

تشحیذ الاذہان بابت اپریل ۱۹۱۰ء 


......................


قادیانی جماعت کے ھیڈ 

مولوی محمد سرور شاہ صاحب کا سابقہ عقیدہ


"لفظ نبی کے معنی اپنے مصدروں کے لحاظ سے دو ہیں ۔

اول اپنے خدا سے اخبار غیب پانے والا 
دوئم عالی مرتبہ شخص ۔جس شخص کو اللہ تعالیٰ بکثرت شرف مکالمہ سے ممتاز کرے اور غیب کی خبروں پر مطلع کرے ، وہ نبی ہے 



اس رنگ میں میرے نزدیک تمام مجددین سابق مختلف مدارج کے انبیاء گزرے ہیں "
بدر مورخہ ۱۶ فروری ۱۹۱۱ء 


......................

مفتی محمد صادق صاحب کا سابقہ عقیدہ 

اس کو عربی لغت میں نبی کہتے ہیں 



"شبلی نے دریافت کیا کہ کیاہم لوگ مرزا صاحب کونبی مانتے ہیں ؟

میں نے عرض کیا کہ ہمارا عقیدہ اس معاملہ میں دیگر مسلمانوں کی طرح ہے کہ آنحضرت صلعم خاتم النبیین ہیں ۔
آپکے بعد کوئی دوسرا نبی آنیوالانہیں ۔نہ نیا نہ پرانا ۔
ہاں مکالمات الٰہیہ کا سلسلہ برابر جاری ہے وہ بھی آنحضرت صلعم کے طفیل آپؐ    سے فیض حاصل کر کے اس امت میں ایسے آدمی ہوتے رہے جنکو الہام الٰہی سے مشرف کیا گیا اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے ۔



چونکہ حضرت مرزا صاحب بھی الہام الہی سے مشرف ہوتے رہے اور الہام الٰہی کے سلسلہ میں آپکو خدا تعالیٰ نے بہت سی آئندہ کی خبریں بطور پیشگوئی کے بتلائی تھیں جو پوری ہوتی رہیں اس واسطے مرزا صاحب ایک پیشگوئی کرنے والے تھے اور اسکو 

عربی لغت میں نبی کہتے ہیں "
بدر۔جلد نمبر ۹ ، ۵۱/۵۲



......................

۸:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں 
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)

ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام

"نبوت کا دعوی نہیں بلکہ محدثیت کا دعوٰی ہے جو خدا تعالیٰ کےحکم سے کیا گیاہے"

"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "

" یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے؟"

روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹

......................

"میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اورنبی کے میری الہام میں میری نسبت خدا تعالٰی کی طرف سے بے شک ہیں  لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں اور جیسے یہ محمول نہیں ایسا ہی نبی کر کے پکارنا  جو حدیثوں میں مسیح موعودؑ کےلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔
 یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "

سراج منیر،صفحہ ۳
......................
"سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں ۔ آنے والے مسیح موعودؑ  کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویؐ سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور معمولی محاوہ مکالمات الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا؟"
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"
......................

یہ بھی یاد رہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے"
روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209



......................

"سمیت نبیا من اللہ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ"
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر 


روحانی خزائن جلد 22 صفحہ  689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65) 
......................
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب
 انکے اپنے اشعار میں 

ما مسلمانیم از فضلِ خدا 
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا

اندریں دیں آمدہ از مادریم 

ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم

آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست

بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست

یک قدم دوری ازاں روشن کتاب

نزد ماکفر است و خسران و تباب

آں رسولے کش محمدؐ ہست نام

دامنِ پاکش بدستِ ما مدام

مہرِ اوباشیرشداندربدن

 جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن 

ہست اوخیرالرسل خیرالانام

ہر نبوت را بروشد اختتام

(کتاب سراج منیر، ضمیمہ صفحہ ز)
۹:
 ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف

اس ہفتہ کی کتاب

 ایک ضروری تجویز

بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین 
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

Sunday, September 28, 2014

اتوار 28 ستمبر 2014، خصوصی شمارہ: 40 موت العالِم موت العالَم


روزنامہ مبلغ (آنلائن)


روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان



بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت

 حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ

احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

اتوار ۔۲۸ ستمبر ۲۰۱۴ء

۲ ذوالحج ۱۴۳۵ ہجری


خصوی شمارہ نمبر:40

Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com







حضرت مولانا محمد علی ؒ (المنصور) کی وفات پر

 غیر احمدی احباب

 و اخبارات کی آراء

تمھیں مردہ کہوں کیونکر کہ تم زندوں میں ہو زندہ

تمھاری     نیکیاں    زندہ     تمھاری     خوبیاں     باقی

حضرت مولوی محمدعلیؒ المنصور کی وفات کا صدمہ محسوس کرنے والے انکے خاندان اورجماعت کےافراد ہی نہ تھے بلکہ دنیا کے کثیر ممالک میں اور ایسے ایسے کونوں میں جہاں کا وہم وگمان بھی نہ ہو سکتا تھا ، انکے لئے آنسو بہانے والے لوگ تھے ۔

اسکا کچھ اندازہ ان بے شمار خطوط سے ہو سکتا ہے جو آپکی وفات کے بعد آپ کے اعزا و اقربا اور جماعت کے بزرگان کے نام دنیا کے چاروں اطراف سے آئے اور ان میں سے کئی ایک خطوط اخبار پیغام صلح کی اشاعتوں میں اکتوبر ۵۱ء سے لیکر جنوری ۱۹۵۲ء تک شائع ہوتے رہے ۔ 

ان تمام خطوط کی اشاعت بجائے خود ایک علیحدہ کتاب کو چاہتی ہے ۔ صرف مثال کے طور پر بعض اخبارات کے ریویو اور بعض غیر احمدی اکابر کے خطوط درج ذیل ہیں 

حضرت مجدد اعظم نے حضرت مولانا محمدعلی ؒ کے بارے میں قبل از وقت ہی ارشاد فرما دیا تھا

مجھے یقین ہے کہ میری فراست اس بات میں خطا نہیں کرے  گی کہ جوان موصوف خدا تعالی کی راہ میں ترقی کرے گا اور یقین ہے کہ وہ خدا تعالی کے فضل سے تقوی اور محبت دین پر ثابت قدم رہ کر ایسے نمونے دکھائے گا جو ہمجنسوں کےلئے پیروی کےلائق ہونگے ۔ائے خدا ایسا ہی کر ۔آمین ثم آمین”

4 اکتوبر 1899 مجموعہ اشتہارات جلد ہشتم صفحہ 68

۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ بات ظاہر ہے کہ ایسے 
ہونہار لڑکے جو ہمہ صفت موصوف ہوں اور ہر طرح سے لائق اور معزز درجہ کے آدمی تلاش کرنے سے نہیں ملتے

 اگست  1899  مجموعہ اشتہارات، جلد ششم، صفحہ 48


۔۔۔۔۔۔۔۔

 مشکل یہ امر ہے کہ جس کو ذرا استعداد ہو جائے وہ دنیا کی طرف جھک جاتا ہے ۔میں چاہتا ہوں کہ ایسے لوگ پیدا ہوں جیسے مولوی محمد علی کام  کر رہے ہیں ۔زندگی کا بھروسہ نہیں اب وہ اکیلے ہیں کوئی انکا ہاتھ بٹانے والا قائم مقام نظر نہیں آتا۔

ارشاد مسیح موعودؑ 


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملک عبدالقیوم صاحب 
پرنسپل لاء کالج

موت العالِم موت عالَم

ایک عالم متبحر کی موت گویا ایک دنیا کی موت ہے اس کا صحیح اطلاق اگر کہیں ہوتا ہے تو وہ حضرت مولانا محمد علی صاحب مرحوم و مغفور کی وفات پر ہوتا ہے ۔



مولانا مرحوم کی زندگی اور انکی مسلسسل کوششوں اور قربانیوں کی مثال پاکستان تو خیر، زمانہ حال میں براعظم ایشیاء میں بھی مشکل سے مل سکے گی۔ 

ان کی ستر سالہ شبانہ روز سعی آج نہ صرف عنداللہ ماجور ہو چکی ہے بلکہ جو مقام آپ کو اسلامی تبلیغ کے میدان میں حاصل ہو چکا ہے وہ بجائے خود ایک فقید المثال کارنامہ ہے ۔

مولانا مرحوم کا شمار تاریخ اسلام کے ان اکابر میں ہوتا ہے جو بلا مبالغہ ایک نئے عہد کے بانی قرار دئیے جا سکتےہیں ۔

آپ کا اخلاص، آپ کا اخلاق، آپکی دیانت، آپکے پاکیزہ کردار پر بمنزلہ کندن تھا۔ 

آپ کا شمار ان مشاہیر ِ اسلام میں سے ہے جو خدمت اسلام کےلئے پیدا ہوئے اور اسی جوئے میں جاں بحق ہوئے ۔

آپ ہی ایسے بزرگ ہیں جنکےلئے قرآنی ارشاد ہوتا ہے 

اولئک    المقربون فی جنات النعیم 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


روزنامہ ڈان کراچی 

16 اکتوبر 1951ء

"مولانا محمدعلی جن کا انتقال کراچی میں ہوا ہے، انھوں نے اس نصف صدی میں اسلامی افکار پراتنا کام کیا ہے کہ شائد ہی کسی اور فرد نے کیا 
ہو ۔

وہ علمی مسائل میں گھرے ہوئے محققانہ ذہن کے مالک مگر صرف کتابیاتی ہی نہ تھے ۔بلکہ ایک ایسے مبلغ تھے جنھوں نے اس ماحول میں دعوت بلند کی جب کہ ہندوستان میں اسلام مغربی مشنریوں اور ہندووں کی احیائی تحریکات کے بے پناہ حملوں کا ہدف بنا ہوا تھا ۔ 

ان جیسا علمی امتیازات کا مالک ہی یقیناً سرکاری ملازمت اختیار کرنے کے مضبوط جذبہ کو فتح کر سکتا ہے جو ان دنوں تعلیم کا مطمع نظر سمجھی جاتی تھی اور انھوں نے تبلیغی زندگی اختیا رکی۔ 

جس مقصد کےلئے انھوں نے اپنی زندگی وقف کی ، وہ قرآن کریم کا انگریزی زبان میں ترجمہ تھا ۔ اپنے اس ترجمہ و تفسیر کے پہلے ایڈیشن ۱۹۱۷ء  کے بعد انھوں نے ایک لمبی عمر پائی جس میں انھوں نے متعدد دیگر تصانیف کیں جن میں محمدؐ دی پرافٹ اور ریلجن آف اسلام بہت اعلیٰ خیال کی جاتی ہیں ۔۔۔موخرالذکر اسلامی معلومات کا ایک انسائیکلو پیڈیا ہے

بحیثیت ایک مبلغ کے مولانا محمدؐ علی صاحب نے یورپی طریق اشاعت کا تیکنیک کا نہایت سود مندانہ مطالعہ کیا ہوا تھا۔ اور انکی بلند پایہ تصانیف میں اس بات کی جھلک صاف نظر آتی ہے کہ وہ اپنے مخصوص قارئین کے ہر طبقہ سے الگ الگ کس طرح خطاب کریں ۔

انکے اندر ایک بے پناہ قوت کار تھی جسکو انھوں نے اپنے کام پر پورے طور سے لگایا ۔ جوں جوں سال گزرنے لگے وہ اپنی جسمانی کمزوری کو اپنی قوت ارادی سے پورا کرتے رہے اور کام کرتے کرتے ہی فوت ہوئے ۔

انکی خاموشی اور تنھائی پسندی کا اندازہ اس سے لگ سکتا ہے ۔ اور انکی کتابیں اس بات کی ترجمان ہیں کہ انکی تحریرات انکی اپنی ذات سے بہت زیادہ مشہور تھیں ۔

یہ وفات یقیناً ایک بڑا نقصان ہے اور اسکا ماتم انکے وسیع حلقہ رفقاء اور مداحوں کو سہنا پڑے گا "
16 اکتوبر 1951ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صدق لکھنوء

 مرحوم نے اپنی طویل تصنیفی زندگی میں اپنے قلم کے ذریعہ جو خدمات اسلام کی انجام دیں، وہ اپنی جگہ پر بے مثل وبے مثال ہیں۔

 انگریزی خوانوں بلکہ انگریزیت زدہ اردو خوانوں کے بھی حق میں انکا قلم ایک نعمت عظمیٰ تھا۔ 

خدا جانے کتنوں کےایمان انھوں نے قائم کردئیے اور یورپ و امریکہ وغیرہ کے کتنے بھٹکے ہووں کو انہوں نے اسلام کی راہ دکھا دی ۔۔۔

اپنی عمر عزیز کا ایک ایک لمحہ مرحوم نے دین ہی کی نذر کر رکھا تھا


26 اکتوبر 1951ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سٹار انگریزی لاہور
موت نے انہیں ہمارے درمیان سے اٹھا کر ایک ایسا خلاء پیدا کر دیا ہے جس کا احساس ان تمام لوگوں کو مدتوں رہے گا جو اسلام کی نشاة ثانیہ سے دلچسپی رکھتےہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسٹر عبداللہ بٹرس بی 

ایک انگریز نو مسلم 

"مولانا محمدعلی صاحب کے دل میں وہ ابدی نور تھا اور اسلام کےلئے وہ درد اور تڑپ تھی جس نے انکو وہ قوت عطا کی جو جسمانی کمزوریوں اور بڑھاپے کی عمر پر بھی غالب آچکی تھی ۔ 

میری جب ان سے پہلی ملاقات لاہور میں ہوئی تو اس انسان کی سادگی کو دیکھ کر حیران رہ گیا جس نے اسلام کی اتنی عظیم الشان خدمت کی ۔۔۔

 اسلام کے لئے مغرب میں جو نئی زندگی کے آثار نظر آ رہے ہیں وہ تمام تر اس عالم انسان کی کوششوں کا نتیجہ ہیں ۔ ۔۔۔

اس عظیم الشان مقصد سے، جسے انھوں نے اپنے سامنے رکھا تھا، انکو کوئی چیز ہلا نہ سکتی تھی اور اسی کےلئے انھوں نے تمام عمر ایک یقین محکم کے ساتھ کام کیا حتیٰ کہ خدا نے انھیں اپنے پاس بلا لیا "

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مولانا عبدالمجید صاحب سالک


"وہ نہ صرف ہندوستان بلکہ مغرب کو بھی اسلام کا پیغام دیتے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ وہ ہر اعتبار سے اس پیغام کے پہنچانے کی اہلیت رکھتے تھے۔ 
وہ صرف عالم دین نہ تھے بلکہ ایک عالی پایہ مفسر و مجتہد بھی تھے ۔ اعلیٰ درجہ کے انگریزی دان تھے اور مغربیوں کے ذہن کو خوب سمجھتے تھے۔

انہوں نے اسلام کو مغربی تعلیم یافتہ طبقوں اور خود مغربیوں تک ایسے رنگ میں پہنچایا کہ وہ بے اختیار اس مذہب کی عظمت کے قائل ہوگئے۔ 

میں سمجھتا ہوں کہ ممالک مغرب کے صدہا طالبان حق مولانا محمدؐ علی کے مقالات اور کتابوں کو پڑھ کر مسلمان ہوئے اور یہ مولانا محمدعلی کی ہی مساعی کی برکت ہے کہ آج ممالک مغر ب میں اسلام کا نام احترام سے لیا جاتا ہے ۔

اسلام کی بے لوث خدمت اور اس میں مدت العمر انہماک یقیناً مولانا محمدعلی کی مغفرت کا باعث ہوگا ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کے مخلص خادموں کی سعی اور جدوجہد کو کبھی ضائع نہیں کرتا "

پیغام صلح  ۲۶ دسمبر ۱۹۵۱ء

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی


مجھے تبلیغی تعلقات کے سبب اپنی عمر کی ابتداء سے آج تک مرحوم سے ملنا جلنا رہا اور میں انکو اسلام کا بہت بڑا اور بہت کامیاب خدمت گزار مانتا ہوں 

منادی بابت ستمبر و اکتوبر ۱۹۵۱ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسٹرائے۔جے خلیل 
ایڈووکیٹ ئیکورٹ میسور

آپ اسلام کے حقیقی مجاھد تھے جس نے اپنے عمل سے دنیا کو دکھایا کہ قلم تلوار سے زیادہ طاقت ور ہے ۔۔۔۔دنیا نے آپکے اسطرح نہیں پہچانا جس طرح پہچاننے کا حق ہے ۔


آپ اس صدی کے حقیقی مجاہد اعظم تھے ۔۔۔ا س قسم کے انسان قیامت کےدن تک شاذو نادر ہی پیدا ہونگے اور مسلمان قوم اس جگہ کو پر کرنے سے قاصر رہے گی جو اس خادمِ اسلام نے خالی کی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیگم صاحبہ میاں بشیراحمد صاحب

سفیر پاکستان متعینہ ترکی 

وحدت اور صداقت کے کےاس پیغام کو جسے تیرہ سو سال گزرے، پیغمبرِؐ اسلام نے بنی نوع کو سنایا تھا، اسے بیسویں صدی عیسویں میں مولانا محمدؐعلی نے دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کی کوشش کی ۔


انہوں نے مذہب اسلام کا صحیح اور سچا نقطہءنگاہ دنیا تک پہنچانے کی کو کوشش کرنے کےلئے اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔

انکی شب و روز کی محنت اور جانفشانی سے قرآن کریم کا ایسا شاندار اعلیٰ  ترجمہ پایہ تکمیل کو پہنچا جسکی سب ممالک میں بے حد قدر کی جارہی ہے ۔


مذہب اسلام پر آپکی کئی کتابیں کئی ممالک میں خراجِ تحسین حاصل کر چکی ہیں ۔


ترکی کے دو سال کے قیام میں یہ حقیقت ظاہر ہو چکی ہے کہ مولانا کی اسلامی خدمات کو ترک قوم دلی قدرو منزلت کی نظر سے دیکھتی ہے ۔


مولانا کے اسم گرامی سے ترکی قوم کا مذہبی طبقہ خوب واقف ہے ۔ریلجن آف اسلام کا ترجمہ ترکی زبان میں کیا جارہا ہے ۔


اقتباس از مکتوب 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مولانا عبدالماجد دریابادی صاحب

"مرحوم کی خدماتِ    اسلام کا انکار کرنا دن کی روشنی میں آفتاب کے وجود سے انکار کرنا ہے ۔

 آج سے اکیس سال قبل جب میں انگریز کے پھیلائے ہوئے زہر الحاد میں غرق تھا، مرحوم کے انگریزی ترجمہ ہی نے دستگیری کی ۔ورنہ خدا معلوم کتنی اور مدت بھٹکتا رہتا اور میری طرح خدا معلوم اور کتنوں کے حق میں وہ شمع ہدایت ثابت ہوا ہوگا ۔ 

پھر اردو تفسیرالقرآن، فضل الباری، خلافت راشدہ ، سیرت خیرالبشرؐ ، اسلام دی ریلجن آف ہیومینیٹی، مینول آف حدیث، انکی تصانیف ایک سے بڑھ کر ایک اور معرکتہ الاآرا موجود ہیں ۔" 

اقتباس از مکتوب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمس العلما
ڈاکٹر عمر بن محمد داود پوتا، کراچی

"اسلام کے لئے آپکی مساعی کے مسلم اور غیر مسلم دونوں معترف ہیں اور یہ چیز انکے علم و فضل کی ابدی یاد گار رہے گی ۔ ہم نے انکی وفات سے ایک ایسا انسان کھو دیا جس کی نظیر پاکستان کے نام نہاد علماء میں کہیں نہیں ملتی۔"

اقتباس از مکتوب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فیروز خان نون صاحب
گورنر مشرقی پنجاب

یہ ایک ایسا نقصان ہے جس میں نہ صرف میں بلکہ تمام دنیائے اسلام آپ سے پوری شرکت کرے گی۔ 

حضرت مولانا کی تصانیف ہمیشہ زندہ رہیں گی اور میں نہیں جانتا کہ اور کون ہے جس نے حضرت ممدوح کی طرح اسلام کو دوبارہ زندہ کرنے کی اتنی بڑی خدمت سر انجام دی ہو ۔

 گزشتہ پانچ سو سال میں بھی کوئی ایسی نظیر نہیں ملتی "

اقتباس از مکتوب

"مذہب اسلام دنیا کے عربی نہ بولنے والے مسلمانوں کی موجودہ نسل کےلئے ایک سر بمہر کتاب کا حکم رکھتا تھا۔
مولانا مرحوم نے اپنے فاضلانہ ترجمہ قرآن کے ذریعے سے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کےلئے بالخصوص اس  مخفی خزانے کا دروازہ کھول دیا ہے ۔ 

اس ترجمہ اور مولانا کی دوسری تصنیفات نے مسلمانوں کے مذہبی ،تمدنی اور سیاسی احیاء میں سب سے بڑھ کر حصہ لیا ہے اور اس کام کی وجہ سے آئندہ نسلیں ہمیشہ آپ کی احسان مند رہیں گی "


پیغام برائے خاص نمبر پیغام صلح دسمبر ۱۹۵۱ء

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


المنصور یعنی محمد علیؒ
اقتباسات از خطبات محمدعلیؒ

حضرت مولانا محمدعلیؒ ارشاد فرماتےہیں :

"ہمیں اعتراف ہے کہ ہم تھوڑے ہیں ۔ میں نے پچھے جمعہ میں آپ کو حضرت صاحبؒ کا ایک کشف سنایا تھا جس میں بتایا گیا ہے کہ کام کرنےوالوں کی تعداد تھوڑی ہوگی اور بڑی تعداد اس کام کو کرنے سے انکار کر دے گی۔

اسی کشف میں حضرت صاحبؒ فرماتےہیں :

"تب میں نے دل میں کہا کہ اگرچہ پانچ ہزار تھوڑے آدمی ہیں پراگرچہ اللہ تعالیٰ چاہے تو تھوڑے بہتوں پر فتح پا سکتے ہیں ۔ اس وقت میں نے یہ آیت پڑھی کم
 من فئة قلیلة غلبت فئة کثیرة بااذن اللہ" (۲: ۲۴۹)
(ازالہ اوہام صفحہ ۹۸ حاشیہ )

تو میں آپ کو بتانا چاہتاہوں کہ قلت سے گھبرانا نہیں چاہیے ۔ ہماری جماعت میں جتنے بھی آدمی ہیں، اگر اتنے ہی آدمی اپنی پوری قوت صرف کریں تو وہ دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر سکتے ہیں۔ 

اس کشف کے متعلق میں ایک اور بات بتانا چاہتا ہوں۔ یہ کشف ازالہ اوھام میں ہے ۔ حضرت مسیح موعود ابوداود کی حارث والی حدیث بیان کر کے فرماتے ہیں:

"فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ایک شخص پیچھے نہر کے سے نکلے گا یعنی بخارا یا سمر قند اس کا اصل وطن ہو گا اور وہ حارث کے نام سے پکارا جاوے گا۔یعنی با اعتبار اپنے آباو اجداد کے پیشہ کے افواہ عام میں یا اس گورنمنٹ کی نظر میں حارث زمیندار کہلائےگا۔

 پھر آگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کیوں حارث کہلائے گا ۔ اس وجہ سے کہ وہ حراث ہوگا یعنی ممیز زمینداروں میں سے ہوگا اور کھیتی کرنے والوں میں سے ایک معزز خاندان کا آدمی شمار کیا جاوے گا۔ 

پھر اس کے بعد فرمایا کہ اسکے لشکر یعنی اس کی جماعت کا سردار و سرگروہ ایک توفیق یافتہ شخص ہو گا جس کو آسمان پر منصور کے نام سے پکارا جاوے گا کیونکہ خدا تعالیٰ اسکے خادمانہ ارادوں کا جو اسکے دل میں ہونگے آپ ناصر ہوگا "


(ازالہ اوہام صفحہ ۹۶، ۹۷ حاشیہ ) 

پھر اس منصو کے ارادوں کی تشریح یوں فرمائی ہے 

"اس جگہ اگرچہ اس منصور کو سپہ سالار کے طور پر بیان کیا ہے مگر
ا س مقام میں درحقیقت کوئی جنگ و جدل مراد نہیں ہے بلکہ یہ ایک روحانی فوج ہو گی کہ اس حارث کو دی جائے گی"

پھر اس کے آگے حضرت صاحبؒ کا وہ کشف آتا ہے جس کا ذکر میں نے پچھلےخطبہ میں کیا تھا ۔ حضرت صاحبؒ فرماتے ہیں 

"جیسا کہ کشفی حالت میں اس عاجز نے دیکھا کہ انسان کی صورت پر دو شخص ایک مکان میں بیٹھے ہیں ایک زمین پر اور ایک چھت کے قریب بیٹھا ہے ۔ تب میں نے اس شخص کو جو زمین پر تھا مخاطب کر کے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے مگر وہ چپ رہا اور اس نے کچھ جواب نہ دیا۔ تب میں نے اس دوسرے کی طرف رخ کیا جو چھت کے قریب آسمان کی طرف تھا اور اسے میں نے مخاطب کر کے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے  وہ  میری اس بات کو سن کر بولا کہ ایک لاکھ نہیں ملے گی مگر پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا۔ "

اسکے آگے وہی الفاظ آتےہیں :

"تب میں نے دل میں کہا کہ اگرچہ پانچ ہزار تھوڑے آدمی ہیں پراگرچہ اللہ تعالیٰ چاہے تو تھوڑے بہتوں پر فتح پا سکتے ہیں ۔ اس وقت میں نے یہ آیت پڑھی کم
 من فئة قلیلة غلبت فئة کثیرة بااذن اللہ (۲: ۲۴۹) "

اسکے آگے لکھتے ہیں 

"پھر وہ منصور مجھے کشفی رنگ میں دکھایاگیا اور کہا گیا کہ خوش حال ہے خوش حا ل ہے مگر خدا تعالیٰ کی کسی حکمت خفیہ نے میری نظر کو اس کے پہچاننے سے قاصر رکھا ۔ لیکن امید رکھتاہوں کہ کسی دوسرے وقت دکھایاجائے گا۔ "

اب حضرت صاحبؒ نے یہ جو کشف بیان فرمایا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ منصور دوسرے وقت میں دکھایا جائے گا سو وہ فی الحقیقت دوسرے وقت میں دکھایا گیا ۔ حضرت صاحبؒ کا رویاء ہے ۔

"مولوی محمد علی صاحب کو رویاء میں کہا


 آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے آو اور ہمارے ساتھ بیٹھ جاو"
البدر ۱۶ جولائی ۱۹۰۴ء

قادیانی اس کی یہ تشریح کرتے ہیں کہ آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے کسی پہلے زمانہ میں مگر اب نہیں ۔ اب ناپاک ہو گئے ہیں اور ہمارے ساتھ بیٹھ جاو کا مطلب یہ بیان کرتےہیں کہ حضرت صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بیٹھ جاو مگر نہیں بیٹھتا۔ 

اگر اسطرح اپنے پاس سے الفاظ بڑھا کر کسی کلام کی تشریح کرنی ہو تو جس کلام سے جو معنے چاہو کر لو ۔ یہاں تو بات صاف ہے ۔ حضرت صاحب مجھے اپنی معیت میں مجھے لیتے ہیں اس لئے کہ میں صالح تھا اور نیک ارادے رکھتے تھا ۔ اپنے پاس بٹھاتے ہیں ۔

یہاں ایک واقعہ یاد آیا۔ حضرت مسیح موعودکے زمانہ میں ایک مولوی صاحب تھے ۔ انکو الہام ہوا 


"مرزا کافر" (نعوذباللہ، ناقل)

حضرت صاحبؒ فرماتے تھے یہ عجب بات ہے کہ خدا نے کافر کہنا تھا تو اس قدر ادب کے ساتھ صاحب کا لفظ بڑھایا۔

یہاں اگر میرا فاسق ہونا اور مفسد ہونا بیان کرنا تھا تو پاس بٹھانے کےکیا معنے؟؟

لیکن میں ایک اور بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں ۔ اس منصور والے رویاء میں بھی یہ لفظ ہیں 

"خدا تعالیٰ اس کے خادمانہ ارادوں کا جو اسکے دل میں ہونگے آپ ناصر ہوگا"

اس کی وجہ سے اسکی نصرت فرمائے گا اور یہاں بھی نیک ارادوں کا ذکر ہے تو اس سے اور پانچ ہزار کی تعداد سے جو ہماری جماعت پر صادق آتی ہے یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ دونوں رویاء ایک ہی شخص سے متعلق ہیں 

پیغام صلح  ۲۸ جنوری ۱۹۴۳ء

خطبات مولانا محمدعلیؒ جلد ۱۷ صفحہ ۲۴ تا ۲۷

"یہ کشف مت تک اخفاء کی حالت میں رہا ۔ چند سال قبل ہماری نظروں سے گزرا ۔ غالباً ۱۹۳۵ء کا واقعہ ہے کہ جناب میاں صاحب (مرزا بشیرالدین محمود صاحب، ناقل)نے کسی انگریز  یا امریکن سے گفتگو کرتے ہوئے جماعت لاہور کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کہ یہ لوگ یعنی جماعت لاہور کے افراد بانی سلسلہ کو صرف مجدد مانتے ہیں، نبی نہیں مانتے ۔ ہماری تعداد سے متعلق اس شخص سے میاں صاحب نے یہ بھی کہا کہ جماعت لاہور کی تعداد پانچ ہزار کے قریب ہے ۔ انکی یہ گفتگو رسالہ ریویو آف ریلیجنز ۱۹۳۵ ء میں چھپی ہوئی موجود  ہے ۔ 

اسکے بعد یہ کشف ہماری نظروں سے گزرا ۔اگرچہ ہمیں میاں صاحب کے مکالمہ کا کوئی علم نہ تھا، ہم نے اس کشف کو شائع کیا اور لکھا کہ  اس کشف میں حضرت صاحبؒ کو دو آدمی دکھائے گئے ہیں ۔ایک زمین پر ہے اور دوسرا چھت کے قریب ۔ 

پہلا کثیر تعداد کا مالک ہے لیکن اسکے باوجود مسیح موعودکے مطالبہ پر بالکل خاموش رہتا ہے اور دوسرا ایک قلیل گروہ کا نمائندہ ہے وہ حضرت مسیح موعو د کے ارشاد پر عرض کرتا ہے ۔ میں پانچ ہزار سپاہی پیش کرسکتاہوں بات بالکل صاف ہے ۔ 

ہمیں پہلے اس طرف توجہ نہیں ہوئی ۔ لیکن جب ہوئی تو ادھر سے کہا گیا کہ پانچ ہزار فوج کس کی ہے ؟ 
دل میں چور تھا ۔ اب "تحریک جدید" پانچ ہزار پورا کیا جارہا ہے جسے اخبار الفضل میں پانچ ہزاری فوج لکھا جاتا ہے ۔ 

لیکن سمجھ نہیں آتا ۔ کشف میں دو الگ الگ شخص ہیں ۔ ایک چھت پر ہے اور ایک زمین پر ۔ زمین والا خاموش ہے ۔ جس فرض کےلئے حضرت صاحبؒ کو فوج کی ضرورت ہے، وہ اسکےلئے فوج دینے کو تیار نہیں ۔ اس سے مایوس ہو کر حضرت صاحبؒ چھت والے شخص کی طرف متوجہ ہوتے ہیں وہ کہتا ہے کہ پانچ ہزار حاضر ہیں ۔ 

یہ کشف اس طرح جماعت احمدیہ لاہور کو متشخص کر دیتا ہے ۔ نام لے کر یاد کرنے سے بھی زیادہ واضح کشف ہے ۔

 اور یوں بھی دیکھ لیجئے ۔ ایک شخص زمین پر بیٹھا ہے یعنی اسکی توجہ دنیا کی طرف زیادہ ہے اور دنیا کس قدر آئی ہے ؟ دولت، صنعت، حرفت، جتھا، عہدے، مرتبے سب کچھ قادیان میں موجود ہے۔

ہاں دنیا حاصل کرنا بھی خوشی کی بات ہے وکان ابوھما صالحا (۱۸: ۸۲) ۔ میاں صاحب ایک صالح انسان کی اولاد ہیں  ۔ اگر خدا نے انکو مال و دولت دی ہے تو صالح باپ کی وجہ سے ہے ۔ وہ بڑا عظیم الشان صالح تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق دولت دی ہے 

لیکن میں آپکو پھر اصل بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ قرآن مجید بھی ایک جماعت کا ذکر کرتا ہے ۔ حضرت مسیح موعود کا کشف بھی ایک جماعت کو ظاہر کرتا ہے جنکی نظر اونچی ہو ۔ زمینی چیزوں کی طرف نظر نہ ہو بلکہ صرف خدا کے دین اور اسکے غلبہ کی طر ف ہو ۔ وہ کونسی جماعت ہے ؟ یہ بات آج کے دن کی طرح روشن ہے ۔ 

بالخصوص اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ یہ جو حضرت صاحبؒ کا کشف ہے کہ پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا ۔ ہمیں فی الواقعہ اپنے آپ کو سپاہی بنانا چاہیے ۔ کیا کام ہے سپاہی کا ؟ میں انشا اللہ پھر کسی وقت بتاوں گا ۔

اگر کوئی شخص اپنی زندگی کو خدا کےلئے وقف کر تا ہے یا کوئی شخص مال کما کر اسے خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے یہ سب سپاہی ہیں ۔ حضرت مسیح موعود کی جماعت میں ہو کر سپاہی نہ بننا ، اس عہد کو توڑنا ہے کہ دین کو دنیا پ رمقدم رکھوں گا۔

اگر قادیانی جماعت کو اس بات کا خیال ہے کہ انکے دس لاکھ بیعت کنندگان میں صرف پانچ ہزار سپاہی رہ گئے ہیں تو انہیں چھوڑ دو۔ 

مگر ہم میں سے ہر ایک کو سپاہی بننا چاہیے ۔ جو فی الواقعہ خدا کی راہ میں جنگ کرنے والا ہو ۔جہاں مغربی اقوام کی موجودہ جنگ ختم ہوتی ہے وہاں سے درحقیقت آپکی جنگ شروع ہوتی ہے ۔ حق و باطل کی جنگ فی الحقیقت اس وقت شروع ہو گی جب یہ جنگ ختم ہو کر تبلیغ کے رستے کھل جائیں گے ۔

آپ کو اسکے لئے اپنے آپ کو تیار رکھنا چاہیے ۔ یہ ہماری تیاری کا زمانہ ہے ۔ یہ تیاری کسطرح پر کرنی چاہیے ۔ یہ انشا اللہ پھر کسی وقت بتاوں گا ۔ کیونکہ ایک خطبہ اس سارے مضمون کا متحمل نہیں ہو سکتا۔"

خطبات مولانا محمدعلیؒ جلد ۱۷ صفحہ ۱۹ تا ۲۱
پیغام صلح  ۲۱جنوری ۱۹۴۳ء

...................................................................................................................................................................

 عقائد حضرت مولانا محمد علی ؒ 
انکی اپنی قلم سے 

تبدیلی عقیدہ کے ناپاک الزام پر حلف
عقیدہ کس نے بدلا ؟
قادیانی جماعت کے پیشواء ثانی اور ہمنواوں نے 
یا جماعت احمدیہ لاہور نے؟



میرا عقیدہ دربارہ نبوت مسیح موعودؑ کیاتھا؟ میں نے اسکو ابتدائے اختلاف ہی میں کھول کر بیان کردیا تھا ۔میں پہلے بھی اسی پر قائم تھا، اب بھی اسی پر قائم ہوں اور انہیں الفاظ میں پھر اپنے عقیدہ کو نقل کرتا ہوں 



"میں یہ مانتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ شرعی اصطلاح میں نبی اور رسول نہ تھے ۔یعنی نبی اس لئے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ پر غیب کے اخبار ظاہر کرتا تھا اور رسول اس لئے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مامور کر کے اصلاح کےلئے بھیجا تھا ۔

یعنی آپ ان معنوں میں نبی اور رسول تھے جن معنوں میں اس امت کے دوسرے مجدد بھی نبی اور رسول کہلا سکتے ہیں "
......................

"اس امت کے دوسرے مجددوں پر آپؒ   کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپؒ   کی آمد کے متعلق صریح پیشگوئیاں موجود ہیں ۔۔۔۔ پھر جس عظیم الشان فتنہ کی اصلاح کےلئے آپکو ؒ بھیجا گیا، دوسرے کسی مجدد کو اتنا عظیم الشان کام سپرد نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔


......................

ایسا ہی آپکوؒ کو جو علم کلام دیا گیا وہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس کو لیکر مسلمان کل مذاہب پر غالب آ سکتے ہیں ، دوسرے کسی مجدد کو ایسا علم کلام نہیں دیا گیا ۔"


......................
"میں حقیقی نبوت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم یقین کرتا ہوں ۔آپؐ    کے بعد نہ کوئی پرانا نبی واپس آئے گا نہ کوئی نیا نبی مبعوث ہوگا"

منقول از میرے عقائد، مطبوعہ ۳۳ اگست ۱۹۱۴ء



......................

"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر قسم اٹھاتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ میرے علم میں ۱۹۰۱ ء سے لیکر ۱۹۰۸ء تک حضرت مسیح موعودؑ کا یہی عقیدہ تھا کہ انکا نہ ماننے والا بھی مسلمان اور دائرہ اسلام میں ہے اور انکا منکر کافر اور دائرہ اسلام سے خارج نہیں اور میرا بھی یہی عقیدہ ۱۹۰۱ء سے لیکر آج تک بربنائے عقیدہ حضرت مسیح موعودؑ ہے "

پیغام صلح ۔لاہور۔۲۱ستمبر ۱۹۴۴



......................

"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اس بات پر حلف اٹھاتا ہوں کہ میرا عقیدہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب قادیانی مجدد اور مسیح موعودؑ ہیں مگر نبی نہیں اور نہ انکے انکار سے کوئی شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے 
اور یہی عقیدہ حضرت مرزا صاحب کا تھا



اے خدا اگر میں نے تیر نام لیکر اس قسم کے کھانے میں جھوٹ بولا ہے تو تو اپنی طرف سے ایسی عبرت ناک سزا مجھ پر بھیج جس میں انسانی ہاتھ کا کوئی دخل نہ ہو اور جس سے دنیا سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھا کرمخلوق خدا کو دھوکہ دینے والوں پر خدا تعالیٰ کی گرفت کتنی سخت اور درد ناک ہوتی ہے "

پیغام صلح ۔لاہور۔۱۱دسمبر ۱۹۴۶



......................

"ہم اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ ۱۹۰۱ ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دعوی میں تبدیلی کی"

ستر بزرگان لاہور کا حلف

......................


......................

حضرت مولانا نور الدینؒ کا عقیدہ
انکی اپنی قلم سے 

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ


دل چیر کر دیکھا یا دکھانا انسانی طاقت سے باہر ہے ۔قسم پر کوئی اعتبار کرے تو واللہ العظیم کے برابر کوئی قسم مجھے نظر نہیں آتی۔نہ آپ میرے ساتھ میری موت کے بعد ہونگے نہ کوئی اور میرے ساتھ سوائے میرے ایمان و اعمال کے ہوگا۔پس یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش ہونے والا ہے ۔
میں مرزا صاحب کو مجدد اس صدی کا یقین کرتا ہوں ۔میں انکو راستباز مانتاہوں ۔
حضرت محمد الرسول اللہ النبی العربی المکی المدنی خاتم النبیین کا غلام اور اسکی شریعت کا بدل خادم مانتا ہوں اور مرزا خود اپنے آپکو جاں نثار غلام نبی عربی محمدؐ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن مناف  کامانتے تھے 



نبی کے لغوی معنی پیش از وقت اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر خبر دینے والا ہم لوگ یقین کرتے ہیں نہ شریعت لانے والا۔



مرزا صاحب اور میں خود جو شخص ایک نقطہ بھی قرآن شریف کا اور شریعت محمدؐ رسول کا نہ مانے، میں اسے کافر اور لعنتی اعتقاد کرتا ہوں ۔



یہی میرا اعتقاد ہے اور یہی میرے نزدیک مرزا غلام احمد کا تھا ۔

کوئی رد کرے یا نہ مانے یا منافق کہے اس کا معاملہ حوالہ بخدا۔

نورالدین بقلم خود 
۲۲ اکتوبر  ۱۹۱۰ء 

......................

قادیانی جماعت کے پیشواء
مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کا سابقہ عقیدہ
خود انکی اپنی قلم سے 


"اس آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپؐ    کے بعد کوئی شخص نہیں آئے گا جس کو نبوت کے مقام پر کھڑا کیا جائے اور وہ آپؐ    کی تعلیم کو منسوخ کر دے اور نئی شریعت جاری کر دے ۔بلکہ جسقدر 

اولیاء اللہ 
ہونگے  اور متقی اور پرھیز گار لوگ ہونگے سب کو آپؐ   کی غلامی میں ہی ملے گیا جو کچھ ملے گا ۔
اس طرح خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ
 آپؐ    کی نبوت نہ صرف اس زمانہ کےلئے ہے بلکہ
آئندہ بھی کوئی نبی نہیں آئے گا"

تشحیذ الاذہان بابت اپریل ۱۹۱۰ء 


......................


قادیانی جماعت کے ھیڈ 

مولوی محمد سرور شاہ صاحب کا سابقہ عقیدہ


"لفظ نبی کے معنی اپنے مصدروں کے لحاظ سے دو ہیں ۔

اول اپنے خدا سے اخبار غیب پانے والا 
دوئم عالی مرتبہ شخص ۔جس شخص کو اللہ تعالیٰ بکثرت شرف مکالمہ سے ممتاز کرے اور غیب کی خبروں پر مطلع کرے ، وہ نبی ہے 



اس رنگ میں میرے نزدیک تمام مجددین سابق مختلف مدارج کے انبیاء گزرے ہیں "
بدر مورخہ ۱۶ فروری ۱۹۱۱ء 


......................

مفتی محمد صادق صاحب کا سابقہ عقیدہ 

اس کو عربی لغت میں نبی کہتے ہیں 



"شبلی نے دریافت کیا کہ کیاہم لوگ مرزا صاحب کونبی مانتے ہیں ؟

میں نے عرض کیا کہ ہمارا عقیدہ اس معاملہ میں دیگر مسلمانوں کی طرح ہے کہ آنحضرت صلعم خاتم النبیین ہیں ۔
آپکے بعد کوئی دوسرا نبی آنیوالانہیں ۔نہ نیا نہ پرانا ۔
ہاں مکالمات الٰہیہ کا سلسلہ برابر جاری ہے وہ بھی آنحضرت صلعم کے طفیل آپؐ    سے فیض حاصل کر کے اس امت میں ایسے آدمی ہوتے رہے جنکو الہام الٰہی سے مشرف کیا گیا اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے ۔



چونکہ حضرت مرزا صاحب بھی الہام الہی سے مشرف ہوتے رہے اور الہام الٰہی کے سلسلہ میں آپکو خدا تعالیٰ نے بہت سی آئندہ کی خبریں بطور پیشگوئی کے بتلائی تھیں جو پوری ہوتی رہیں اس واسطے مرزا صاحب ایک پیشگوئی کرنے والے تھے اور اسکو 

عربی لغت میں نبی کہتے ہیں "
بدر۔جلد نمبر ۹ ، ۵۱/۵۲



......................

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں 
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)

ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام

"نبوت کا دعوی نہیں بلکہ محدثیت کا دعوٰی ہے جو خدا تعالیٰ کےحکم سے کیا گیاہے"

"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "

" یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے؟"

روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹

......................

"میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اورنبی کے میری الہام میں میری نسبت خدا تعالٰی کی طرف سے بے شک ہیں  لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں اور جیسے یہ محمول نہیں ایسا ہی نبی کر کے پکارنا  جو حدیثوں میں مسیح موعودؑ کےلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔
 یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "

سراج منیر،صفحہ ۳
......................
"سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں ۔ آنے والے مسیح موعودؑ  کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویؐ سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور معمولی محاوہ مکالمات الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا؟"
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"
......................

یہ بھی یاد رہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے"
روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209



......................

"سمیت نبیا من اللہ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ"
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر 


روحانی خزائن جلد 22 صفحہ  689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65) 
......................
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب
 انکے اپنے اشعار میں 

ما مسلمانیم از فضلِ خدا 
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا

اندریں دیں آمدہ از مادریم 

ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم

آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست

بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست

یک قدم دوری ازاں روشن کتاب

نزد ماکفر است و خسران و تباب

آں رسولے کش محمدؐ ہست نام

دامنِ پاکش بدستِ ما مدام

مہرِ اوباشیرشداندربدن

 جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن 

ہست اوخیرالرسل خیرالانام

ہر نبوت را بروشد اختتام

(کتاب سراج منیر، ضمیمہ صفحہ ز)


 ایک ضروری تجویز

بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین 
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام