وفات پر غیر احمدی احباب
و اخبارات کی آراء
تمھیں مردہ کہوں کیونکر کہ تم زندوں میں ہو زندہ
تمھاری نیکیاں زندہ تمھاری خوبیاں باقی
ملک عبدالقیوم صاحب
پرنسپل لاء کالج
موت العالِم موت عالَم
ایک عالم متبحر کی موت گویا ایک دنیا کی موت ہے اس کا صحیح اطلاق اگر کہیں ہوتا ہے تو وہ حضرت مولانا محمد علی صاحب مرحوم و مغفور کی وفات پر ہوتا ہے ۔
مولانا مرحوم کی زندگی اور انکی مسلسسل کوششوں اور قربانیوں کی مثال پاکستان تو خیر، زمانہ حال میں براعظم ایشیاء میں بھی مشکل سے مل سکے گی۔
ان کی ستر سالہ شبانہ روز سعی آج نہ صرف عنداللہ ماجور ہو چکی ہے بلکہ جو مقام آپ کو اسلامی تبلیغ کے میدان میں حاصل ہو چکا ہے وہ بجائے خود ایک فقید المثال کارنامہ ہے ۔
مولانا مرحوم کا شمار تاریخ اسلام کے ان اکابر میں ہوتا ہے جو بلا مبالغہ ایک نئے عہد کے بانی قرار دئیے جا سکتےہیں ۔
آپ کا اخلاص، آپ کا اخلاق، آپکی دیانت، آپکے پاکیزہ کردار پر بمنزلہ کندن تھا۔
آپ کا شمار ان مشاہیر ِ اسلام میں سے ہے جو خدمت اسلام کےلئے پیدا ہوئے اور اسی جوئے میں جاں بحق ہوئے ۔
آپ ہی ایسے بزرگ ہیں جنکےلئے قرآنی ارشاد ہوتا ہے
اولئک المقربون فی جنات النعیم
روزنامہ ڈان کراچی
16 اکتوبر 1951ء
"مولانا محمدعلی جن کا انتقال کراچی میں ہوا ہے، انھوں نے اس نصف صدی میں اسلامی افکار پراتنا کام کیا ہے کہ شائد ہی کسی اور فرد نے کیا ہو ۔
وہ علمی مسائل میں گھرے ہوئے محققانہ ذہن کے مالک مگر صرف کتابیاتی ہی نہ تھے ۔بلکہ ایک ایسے مبلغ تھے جنھوں نے اس ماحول میں دعوت بلند کی جب کہ ہندوستان میں اسلام مغربی مشنریوں اور ہندووں کی احیائی تحریکات کے بے پناہ حملوں کا ہدف بنا ہوا تھا ۔
ان جیسا علمی امتیازات کا مالک ہی یقیناً سرکاری ملازمت اختیار کرنے کے مضبوط جذبہ کو فتح کر سکتا ہے جو ان دنوں تعلیم کا مطمع نظر سمجھی جاتی تھی اور انھوں نے تبلیغی زندگی اختیا رکی۔
جس مقصد کےلئے انھوں نے اپنی زندگی وقف کی ، وہ قرآن کریم کا انگریزی زبان میں ترجمہ تھا ۔ اپنے اس ترجمہ و تفسیر کے پہلے ایڈیشن ۱۹۱۷ء کے بعد انھوں نے ایک لمبی عمر پائی جس میں انھوں نے متعدد دیگر تصانیف کیں جن میں محمدؐ دی پرافٹ اور ریلجن آف اسلام بہت اعلیٰ خیال کی جاتی ہیں ۔۔۔موخرالذکر اسلامی معلومات کا ایک انسائیکلو پیڈیا ہے
بحیثیت ایک مبلغ کے مولانا محمدؐ علی صاحب نے یورپی طریق اشاعت کا تیکنیک کا نہایت سود مندانہ مطالعہ کیا ہوا تھا۔ اور انکی بلند پایہ تصانیف میں اس بات کی جھلک صاف نظر آتی ہے کہ وہ اپنے مخصوص قارئین کے ہر طبقہ سے الگ الگ کس طرح خطاب کریں ۔
انکے اندر ایک بے پناہ قوت کار تھی جسکو انھوں نے اپنے کام پر پورے طور سے لگایا ۔ جوں جوں سال گزرنے لگے وہ اپنی جسمانی کمزوری کو اپنی قوت ارادی سے پورا کرتے رہے اور کام کرتے کرتے ہی فوت ہوئے ۔
انکی خاموشی اور تنھائی پسندی کا اندازہ اس سے لگ سکتا ہے ۔ اور انکی کتابیں اس بات کی ترجمان ہیں کہ انکی تحریرات انکی اپنی ذات سے بہت زیادہ مشہور تھیں ۔
یہ وفات یقیناً ایک بڑا نقصان ہے اور اسکا ماتم انکے وسیع حلقہ رفقاء اور مداحوں کو سہنا پڑے گا "
صدق لکھنوء
مرحوم نے اپنی طویل تصنیفی زندگی میں اپنے قلم کے ذریعہ جو خدمات اسلام کی انجام دیں، وہ اپنی جگہ پر بے مثل وبے مثال ہیں۔
انگریزی خوانوں بلکہ انگریزیت زدہ اردو خوانوں کے بھی حق میں انکا قلم ایک نعمت عظمیٰ تھا۔
خدا جانے کتنوں کےایمان انھوں نے قائم کردئیے اور یورپ و امریکہ وغیرہ کے کتنے بھٹکے ہووں کو انہوں نے اسلام کی راہ دکھا دی ۔۔۔
اپنی عمر عزیز کا ایک ایک لمحہ مرحوم نے دین ہی کی نذر کر رکھا تھا
26 اکتوبر 1951ء
سٹار انگریزی لاہور
موت نے انہیں ہمارے درمیان سے اٹھا کر ایک ایسا خلاء پیدا کر دیا ہے جس کا احساس ان تمام لوگوں کو مدتوں رہے گا جو اسلام کی نشاة ثانیہ سے دلچسپی رکھتےہیں۔
مسٹر عبداللہ بٹرس بی
ایک انگریز نو مسلم
"مولانا محمدعلی صاحب کے دل میں وہ ابدی نور تھا اور اسلام کےلئے وہ درد اور تڑپ تھی جس نے انکو وہ قوت عطا کی جو جسمانی کمزوریوں اور بڑھاپے کی عمر پر بھی غالب آچکی تھی ۔
میری جب ان سے پہلی ملاقات لاہور میں ہوئی تو اس انسان کی سادگی کو دیکھ کر حیران رہ گیا جس نے اسلام کی اتنی عظیم الشان خدمت کی ۔۔۔
اسلام کے لئے مغرب میں جو نئی زندگی کے آثار نظر آ رہے ہیں وہ تمام تر اس عالم انسان کی کوششوں کا نتیجہ ہیں ۔ ۔۔۔
اس عظیم الشان مقصد سے، جسے انھوں نے اپنے سامنے رکھا تھا، انکو کوئی چیز ہلا نہ سکتی تھی اور اسی کےلئے انھوں نے تمام عمر ایک یقین محکم کے ساتھ کام کیا حتیٰ کہ خدا نے انھیں اپنے پاس بلا لیا "
مولانا عبدالمجید صاحب سالک
"وہ نہ صرف ہندوستان بلکہ مغرب کو بھی اسلام کا پیغام دیتے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ وہ ہر اعتبار سے اس پیغام کے پہنچانے کی اہلیت رکھتے تھے۔
وہ صرف عالم دین نہ تھے بلکہ ایک عالی پایہ مفسر و مجتہد بھی تھے ۔ اعلیٰ درجہ کے انگریزی دان تھے اور مغربیوں کے ذہن کو خوب سمجھتے تھے۔
انہوں نے اسلام کو مغربی تعلیم یافتہ طبقوں اور خود مغربیوں تک ایسے رنگ میں پہنچایا کہ وہ بے اختیار اس مذہب کی عظمت کے قائل ہوگئے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ممالک مغرب کے صدہا طالبان حق مولانا محمدؐ علی کے مقالات اور کتابوں کو پڑھ کر مسلمان ہوئے اور یہ مولانا محمدعلی کی ہی مساعی کی برکت ہے کہ آج ممالک مغر ب میں اسلام کا نام احترام سے لیا جاتا ہے ۔
اسلام کی بے لوث خدمت اور اس میں مدت العمر انہماک یقیناً مولانا محمدعلی کی مغفرت کا باعث ہوگا ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کے مخلص خادموں کی سعی اور جدوجہد کو کبھی ضائع نہیں کرتا "
پیغام صلح ۲۶ دسمبر ۱۹۵۱ء
خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی
مسٹرائے۔جے خلیل
ایڈووکیٹ ئیکورٹ میسور
آپ اسلام کے حقیقی مجاھد تھے جس نے اپنے عمل سے دنیا کو دکھایا کہ قلم تلوار سے زیادہ طاقت ور ہے ۔۔۔۔دنیا نے آپکے اسطرح نہیں پہچانا جس طرح پہچاننے کا حق ہے ۔
آپ اس صدی کے حقیقی مجاہد اعظم تھے ۔۔۔ا س قسم کے انسان قیامت کےدن تک شاذو نادر ہی پیدا ہونگے اور مسلمان قوم اس جگہ کو پر کرنے سے قاصر رہے گی جو اس خادمِ اسلام نے خالی کی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
16 اکتوبر 1951ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدق لکھنوء
مرحوم نے اپنی طویل تصنیفی زندگی میں اپنے قلم کے ذریعہ جو خدمات اسلام کی انجام دیں، وہ اپنی جگہ پر بے مثل وبے مثال ہیں۔
انگریزی خوانوں بلکہ انگریزیت زدہ اردو خوانوں کے بھی حق میں انکا قلم ایک نعمت عظمیٰ تھا۔
خدا جانے کتنوں کےایمان انھوں نے قائم کردئیے اور یورپ و امریکہ وغیرہ کے کتنے بھٹکے ہووں کو انہوں نے اسلام کی راہ دکھا دی ۔۔۔
اپنی عمر عزیز کا ایک ایک لمحہ مرحوم نے دین ہی کی نذر کر رکھا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سٹار انگریزی لاہور
موت نے انہیں ہمارے درمیان سے اٹھا کر ایک ایسا خلاء پیدا کر دیا ہے جس کا احساس ان تمام لوگوں کو مدتوں رہے گا جو اسلام کی نشاة ثانیہ سے دلچسپی رکھتےہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسٹر عبداللہ بٹرس بی
ایک انگریز نو مسلم
"مولانا محمدعلی صاحب کے دل میں وہ ابدی نور تھا اور اسلام کےلئے وہ درد اور تڑپ تھی جس نے انکو وہ قوت عطا کی جو جسمانی کمزوریوں اور بڑھاپے کی عمر پر بھی غالب آچکی تھی ۔
میری جب ان سے پہلی ملاقات لاہور میں ہوئی تو اس انسان کی سادگی کو دیکھ کر حیران رہ گیا جس نے اسلام کی اتنی عظیم الشان خدمت کی ۔۔۔
اسلام کے لئے مغرب میں جو نئی زندگی کے آثار نظر آ رہے ہیں وہ تمام تر اس عالم انسان کی کوششوں کا نتیجہ ہیں ۔ ۔۔۔
اس عظیم الشان مقصد سے، جسے انھوں نے اپنے سامنے رکھا تھا، انکو کوئی چیز ہلا نہ سکتی تھی اور اسی کےلئے انھوں نے تمام عمر ایک یقین محکم کے ساتھ کام کیا حتیٰ کہ خدا نے انھیں اپنے پاس بلا لیا "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا عبدالمجید صاحب سالک
"وہ نہ صرف ہندوستان بلکہ مغرب کو بھی اسلام کا پیغام دیتے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ وہ ہر اعتبار سے اس پیغام کے پہنچانے کی اہلیت رکھتے تھے۔
وہ صرف عالم دین نہ تھے بلکہ ایک عالی پایہ مفسر و مجتہد بھی تھے ۔ اعلیٰ درجہ کے انگریزی دان تھے اور مغربیوں کے ذہن کو خوب سمجھتے تھے۔
انہوں نے اسلام کو مغربی تعلیم یافتہ طبقوں اور خود مغربیوں تک ایسے رنگ میں پہنچایا کہ وہ بے اختیار اس مذہب کی عظمت کے قائل ہوگئے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ممالک مغرب کے صدہا طالبان حق مولانا محمدؐ علی کے مقالات اور کتابوں کو پڑھ کر مسلمان ہوئے اور یہ مولانا محمدعلی کی ہی مساعی کی برکت ہے کہ آج ممالک مغر ب میں اسلام کا نام احترام سے لیا جاتا ہے ۔
اسلام کی بے لوث خدمت اور اس میں مدت العمر انہماک یقیناً مولانا محمدعلی کی مغفرت کا باعث ہوگا ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کے مخلص خادموں کی سعی اور جدوجہد کو کبھی ضائع نہیں کرتا "
پیغام صلح ۲۶ دسمبر ۱۹۵۱ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی
مجھے تبلیغی تعلقات کے سبب اپنی عمر کی ابتداء سے آج تک مرحوم سے ملنا جلنا رہا اور میں انکو اسلام کا بہت بڑا اور بہت کامیاب خدمت گزار مانتا ہوں
منادی بابت ستمبر و اکتوبر ۱۹۵۱ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایڈووکیٹ ئیکورٹ میسور
آپ اسلام کے حقیقی مجاھد تھے جس نے اپنے عمل سے دنیا کو دکھایا کہ قلم تلوار سے زیادہ طاقت ور ہے ۔۔۔۔دنیا نے آپکے اسطرح نہیں پہچانا جس طرح پہچاننے کا حق ہے ۔
آپ اس صدی کے حقیقی مجاہد اعظم تھے ۔۔۔ا س قسم کے انسان قیامت کےدن تک شاذو نادر ہی پیدا ہونگے اور مسلمان قوم اس جگہ کو پر کرنے سے قاصر رہے گی جو اس خادمِ اسلام نے خالی کی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیگم صاحبہ میاں بشیراحمد صاحب
سفیر پاکستان متعینہ ترکی
وحدت اور صداقت کے کےاس پیغام کو جسے تیرہ سو سال گزرے، پیغمبرِؐ اسلام نے بنی نوع کو سنایا تھا، اسے بیسویں صدی عیسویں میں مولانا محمدؐعلی نے دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کی کوشش کی ۔
انہوں نے مذہب اسلام کا صحیح اور سچا نقطہءنگاہ دنیا تک پہنچانے کی کو کوشش کرنے کےلئے اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔
انکی شب و روز کی محنت اور جانفشانی سے قرآن کریم کا ایسا شاندار اعلیٰ ترجمہ پایہ تکمیل کو پہنچا جسکی سب ممالک میں بے حد قدر کی جارہی ہے ۔
مذہب اسلام پر آپکی کئی کتابیں کئی ممالک میں خراجِ تحسین حاصل کر چکی ہیں ۔
ترکی کے دو سال کے قیام میں یہ حقیقت ظاہر ہو چکی ہے کہ مولانا کی اسلامی خدمات کو ترک قوم دلی قدرو منزلت کی نظر سے دیکھتی ہے ۔
مولانا کے اسم گرامی سے ترکی قوم کا مذہبی طبقہ خوب واقف ہے ۔ریلجن آف اسلام کا ترجمہ ترکی زبان میں کیا جارہا ہے ۔
اقتباس از مکتوب
بیگم صاحبہ میاں بشیراحمد صاحب
سفیر پاکستان متعینہ ترکی
وحدت اور صداقت کے کےاس پیغام کو جسے تیرہ سو سال گزرے، پیغمبرِؐ اسلام نے بنی نوع کو سنایا تھا، اسے بیسویں صدی عیسویں میں مولانا محمدؐعلی نے دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کی کوشش کی ۔
انہوں نے مذہب اسلام کا صحیح اور سچا نقطہءنگاہ دنیا تک پہنچانے کی کو کوشش کرنے کےلئے اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔
انکی شب و روز کی محنت اور جانفشانی سے قرآن کریم کا ایسا شاندار اعلیٰ ترجمہ پایہ تکمیل کو پہنچا جسکی سب ممالک میں بے حد قدر کی جارہی ہے ۔
مذہب اسلام پر آپکی کئی کتابیں کئی ممالک میں خراجِ تحسین حاصل کر چکی ہیں ۔
ترکی کے دو سال کے قیام میں یہ حقیقت ظاہر ہو چکی ہے کہ مولانا کی اسلامی خدمات کو ترک قوم دلی قدرو منزلت کی نظر سے دیکھتی ہے ۔
مولانا کے اسم گرامی سے ترکی قوم کا مذہبی طبقہ خوب واقف ہے ۔ریلجن آف اسلام کا ترجمہ ترکی زبان میں کیا جارہا ہے ۔
اقتباس از مکتوب
مولانا عبدالماجد دریابادی صاحب
"مرحوم کی خدماتِ اسلام کا انکار کرنا دن کی روشنی میں آفتاب کے وجود سے انکار کرنا ہے ۔
آج سے اکیس سال قبل جب میں انگریز کے پھیلائے ہوئے زہر الحاد میں غرق تھا، مرحوم کے انگریزی ترجمہ ہی نے دستگیری کی ۔ورنہ خدا معلوم کتنی اور مدت بھٹکتا رہتا اور میری طرح خدا معلوم اور کتنوں کے حق میں وہ شمع ہدایت ثابت ہوا ہوگا ۔
پھر اردو تفسیرالقرآن، فضل الباری، خلافت راشدہ ، سیرت خیرالبشرؐ ، اسلام دی ریلجن آف ہیومینیٹی، مینول آف حدیث، انکی تصانیف ایک سے بڑھ کر ایک اور معرکتہ الاآرا موجود ہیں ۔"
اقتباس از مکتوب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمس العلما
ڈاکٹر عمر بن محمد داود پوتا، کراچی
"اسلام کے لئے آپکی مساعی کے مسلم اور غیر مسلم دونوں معترف ہیں اور یہ چیز انکے علم و فضل کی ابدی یاد گار رہے گی ۔ ہم نے انکی وفات سے ایک ایسا انسان کھو دیا جس کی نظیر پاکستان کے نام نہاد علماء میں کہیں نہیں ملتی۔"
اقتباس از مکتوب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیروز خان نون صاحب
گورنر مشرقی پنجاب
"یہ ایک ایسا نقصان ہے جس میں نہ صرف میں بلکہ تمام دنیائے اسلام آپ سے پوری شرکت کرے گی۔
حضرت مولانا کی تصانیف ہمیشہ زندہ رہیں گی اور میں نہیں جانتا کہ اور کون ہے جس نے حضرت ممدوح کی طرح اسلام کو دوبارہ زندہ کرنے کی اتنی بڑی خدمت سر انجام دی ہو ۔
گزشتہ پانچ سو سال میں بھی کوئی ایسی نظیر نہیں ملتی "
اقتباس از مکتوب
"مذہب اسلام دنیا کے عربی نہ بولنے والے مسلمانوں کی موجودہ نسل کےلئے ایک سر بمہر کتاب کا حکم رکھتا تھا۔
مولانا مرحوم نے اپنے فاضلانہ ترجمہ قرآن کے ذریعے سے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کےلئے بالخصوص اس مخفی خزانے کا دروازہ کھول دیا ہے ۔
اس ترجمہ اور مولانا کی دوسری تصنیفات نے مسلمانوں کے مذہبی ،تمدنی اور سیاسی احیاء میں سب سے بڑھ کر حصہ لیا ہے اور اس کام کی وجہ سے آئندہ نسلیں ہمیشہ آپ کی احسان مند رہیں گی "
پیغام برائے خاص نمبر پیغام صلح دسمبر ۱۹۵۱ء
مولانا مرحوم نے اپنے فاضلانہ ترجمہ قرآن کے ذریعے سے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کےلئے بالخصوص اس مخفی خزانے کا دروازہ کھول دیا ہے ۔
اس ترجمہ اور مولانا کی دوسری تصنیفات نے مسلمانوں کے مذہبی ،تمدنی اور سیاسی احیاء میں سب سے بڑھ کر حصہ لیا ہے اور اس کام کی وجہ سے آئندہ نسلیں ہمیشہ آپ کی احسان مند رہیں گی "
پیغام برائے خاص نمبر پیغام صلح دسمبر ۱۹۵۱ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments :
Post a Comment