Tuesday, August 26, 2014

منگل۔ 26 اگست 2014، شمارہ:14


روزنامہ مبلغ (آنلائن)


روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان

بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت

 حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ

احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

منگل۔۲۶ اگست۲۰۱۴ء

۲۹شوال ۱۴۳۵ ہجری


شمارہ نمبر:۱۴
Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com




۱:کلامِ الٰہی 


لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ۚ وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ

ال عمران: 186
ترجمہ:۔ ضرور تم اپنے مالوں اور اپنی جانوں میں آزمائے جاو گے اور ضرور تم ان لوگوں سے جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے اور ان سے جو مشرک ہوئے بہت سی دکھ دینے والی باتیں سنو  گے اور اگر تم صبر کرو اور تقوی اختیار کرو تو یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے 
تفسیر:
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے مالی جانی نقصان اور ایذا کی پیشگوئی
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کےلئے دو سخت ابتلاوں کا ذکر کیا ہے جو ابھی پیش آنے والے تھے ۔ایک مالی اور ایک جانی ابتلا ،دوسرا مشرکین سے ایذا کی باتیں سننا۔ ظاہر ہے یہ آیت جنگ احد کے بعد نازل ہوئی اس لئے ان مالی اور جانی نقصانوں کا اس میں ذکر نہیں ہو سکتا جو اس جنگ سے پہلے مسلمانوں کو اُٹھانے پڑے، ہجرت میں یا اس سے پہلے یا اسکے بعد جنگوں میں۔ اور نہ ہی اُن ایذا کی باتوں کا ذکر ہو سکتا ہے جو مکہ میں مشرکین سے اور مدینہ میں یہود سے سننی پڑیں ۔کیونکہ انکے بعد کی یہ آیت ہے اور اس میں آئندہ کا ذکر ہے ۔
یہ بھی ظاہر ہے کہ جس قدر مالی اور جانی ابتلا مسلمانوں کو جنگ احد میں یا اس سے پیشتر اٹھانےپڑے اور جس قدر ایذا کی باتیں اس وقت سننی پڑیں نبی کریم صلعم کے بقیہ حصہ زندگی میں اس قدر ابتلا نہیں اٹھانے پڑے نہ اس قدر ایذا کی باتیں سننی پڑیں ۔بلکہ بعد میں روز بروز اسلام کی قوت بڑھتی گئی یہاں تک کہ سارے ملک عرب پر مسلمانوں کا تسلط ہوگیا ۔
پس یہ مالی اور اورجانی ابتلا اوریہ ایذا کی باتیں کسی آئندہ زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں اور احد کی جنگ کے ذکر کے بعد انکا ذکر اس لئے کیا کہ اس جنگ میں بھی مسلمانوں کو بہت مالی اور جانی نقصان اٹھانا پڑا۔
تو گیا یہ فرمایا کہ اگر یہ مالی اور جانی نقصان تم کو پہنچا ہے تو ابھی اور بھی مالی اور جانی نقصان پہنچنے والے ہیں اور یوں ان الفاظ میں یقیناً اہل اسلام کے ان مالی اور جانی نقصانوں کی طرف اشارہ ہے جو ہمارے اس زمانہ میں انکو اٹھانےپڑے ہیں اور اسی لئے ان کے ساتھ ایذا کی باتوں کو جمع کیا ہے کہ یہ دونوں باتیں اسی زمانہ میں اکٹھی ہوئی ہیں ۔مالی اور جانی نقصان ظاہر ہیں، ملکوں کے ملک چھن گئے۔دولت اور املاک ہاتھوں سے نکل گئے۔ اپنے گھروں سے نکالے گئے ۔شہید کئے گئے۔مرد اور بچے اور عورتیں ہزار ہا کی تعداد میں تہ تیغ ہوئے ۔
اسکے ساتھ ہی عیسائیوں اور مشرکوں کی طرف سے وہ کچھ ایذا کی باتیں اسلام کے مقد س پیشوا اور بزرگان دین کے متعلق سننا پڑیں کہ الامان ۔ اس زمانے میں جو گندے اعتراضات اسلام پر ہوئے ہیں اور جسقدر دشنام دہی کے رسالے تیار ہوئے ہیں، انکا اگر انبار لگایا جائے تو ایک پہاڑ بن جاتا ہے اور چونکہ اس صورت میں اصل عیسائیوں کا ذکر ہے اور احد کی جنگ کا ذکر بھی بیچ میں بطور مثال کےآ گیا تھا اس لئےسمجھایا کہ اسلام پر ایسے مصیبت کے زمانے پہلے بھی آئے ہیں کہ دشمنوں سے سمجھا کہ ہم نے اسے کچک دیا ہے مگر وہ مغلوب کبھی نہیں ہوا۔ہمیشہ غالب ہی ہوا ہے ۔اس لئے اب بھی جب چاروں طرف سے مسلمان مصائب کا شکار بنے ہوئے ہیں، یہ آیت قرآنی ہمیں تسلی دیتی ہے کہ اسلام اب بھی مغلوب نہ ہوگا۔
ان مصائب کا علاج:  ان مصائب کا علاج صبر اور تقوی بتایا ہے ۔سو صبر دو قسم ہے۔ ایک مصائب میں ہمت نہ ہارنا، دوسرے اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر عمل کےلئے اور اسکی منہیا ت سے بچنے کےلئے مضبوط کھڑا ہو جانا ۔اور تتقوا کو بعد میں رکھ کر بتایا کہ یہاں تقوی سے مراد اپنا بچاو کرنا ہے ،ان تدابیر سے جو اس وقت عمل میں لائی جاسکتی ہیں اور حقوق کی نگہداشت بھی مراد ہو سکتی ہے ۔ 


بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ


۲:حدیثِ نبویؐ

ابن عمرؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےروایت کرتے ہیں آپؐ   نے فرمایاکہ
مشرکوں کی مخالفت کرو اور ڈاڑھی بڑھاو اور مونچھوں کو جڑ سے کاٹواورابن عمرؓ جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی ڈاڑھی مٹھی میں لیتے تو جو زیادہ ہوتی اسے کاٹ ڈالتے۔
بخاری(۷۷: ۶۴)

مختصر نوٹ: مشرک عموماً مونچھوں کو بڑھاتے اور ڈاڑھی کو منڈھواتے تھے تو ایک ظاہر تمیز پیدا کرنے کےلئے آپؐ    نے ڈاڑھی بڑھانے اور مونچھوں کو کٹوانے کا حکم دیا ۔شریعت کے احکام اہم بھی ہیں اور چھوٹے بھی ۔اس ظاہر نشان کو خفت کی نگاہ سے دیکھنا بھی اچھا نہیں اور اسی کو اسلام کا میعار بنا لینا بھی درست نہیں 


ترجمہ از حضرت مولانا محمد علیؒ
کتاب احادیث العمل صفحہ ۴۱۰، ۴۱۱

۳:سیرت خیر البشرؐ
از
 حضرت مولانا محمد علی ؒ

دکھوں اور مصیبتوں میں جو استقلال آپؐ   نے دکھایا اس پر آج آپؐ   کے دشمن سوانح نویس بھی عش عش کر اٹھتے ہیں ۔سخت سے سخت مایوس کن حالات میں مایوسی آپؐ    کے پاس نہیں پھٹکی اور چاروں طرف سے ناکامی کے نظاروں نے ایک لمحہ کےلئے بھی آپؐ   کی آخری کامیابی کے یقین کو متزلزل نہیں کیا۔
آپؐ   ایک پہاڑ کی طرح تھے اور زبردست سےزبردست مصیبت کی آمد بھی آپؐ   کو اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکتی ۔آپؐ    اسباب سے کام لیتے اور پھر نتیجہ کو خدا پر چھوڑ دیتے تھے اور کبھی اس بات سے گھبراتے نہ تھے کہ نتیجہ خلاف امید ہوا ۔
احد کے میدان میں اس قدر مصیبت اٹھا کر اگلے ہی دن دشمن کا تعاقب کرنے کےلئے پھر تیار ہیں ۔مکہ میں جب چاروں طرف ناکامی نظر آتی ہے، دوست تتر بتر ہو جاتے ہیں،لوگ پیغام حق سننے سے انکار کر دیتے ہیں تب بھی آپؐ    کا ایمان آخری کامیابی پر اسی طرح مضبوط ہے اور ناکامی کا واہمہ بھی آپؐ   کے دل میں نہیں آتا۔  


کتاب سیرت خیرالبشرؐ، صفحہ ۱۹۲


۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ 

اَب اے مسلمانو سنو ! اور غور سے سنو ! کہ اسلام کی پاک تاثیروں کے روکنے کے لئے جس قدر پیچیدہ افترا اس عیسائی قوم میں استعمال کئے گئے اور پُر مکر حیلے کام میں لائے گئے اور اُن کے پھیلانے میں جان توڑ کر اور مال کو پانی کی طرح بہا کر کوششیں کی گئیں یہاں تک کہ نہایت شرمناک ذریعے بھی جن کی تصریح سے اس مضمون کو منزّہ رکھنا بہتر ہے اِسی راہ میں ختم کئے گئے۔
 یہ کرسچن قوموں اور تثلیث کے حامیوں کی جانب سے وہ ساحرانہ کارروائیاں ہیں کہ جب تک اُن کے اِس سحر کے مقابل پر خدا تعالیٰ وہ پُر زور ہاتھ نہ دکھاوے جو معجزہ کی قدرت اپنے اندر رکھتا ہو اور اُس معجزہ سے اِس طلسمِ سحر کو پاش پاش نہ کرے تب تک اس جادُو ئے فرنگ سے سادہ لوح دلوں کو َمخلصی حاصل ہونابالکل قیاس اور گمان سے باہر ہے۔
سو خدا تعالیٰ نے اس جادو کے باطل کرنے کے لئے اِس زمانہ کے سچے مسلمانوں کو یہ معجزہ دیا کہ اپنے اس بندہ کو اپنے الہام اور کلام اور اپنی برکاتِ خاصّہ سے مشرف کر کے اور اپنی راہ کے باریک علوم سے بہرہ ¿ کامل بخش کر مخالفین کے مقابل پر بھیجا اور بہت سے آسمانی تحائف اور علوی عجائبات اور اور روحانی معارف و دقائق ساتھ دیئے تا اس آسمانی پتھر کے ذریعہ سے وہ موم کا بُت توڑ دیا جائے جو سحر فرنگ نے تیار کیا ہے۔
 سو اے مسلمانوں !اس عاجز کا ظہور ساحرانہ تاریکیوں کے اُٹھانے کی لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک معجزہ ہے۔ کیا ضرور نہیں تھا کہ سحر کے مقابل پر معجزہ بھی دنیا میں آتا۔ کیا تمہاری نظروں میں یہ بات عجیب اور ان ہونی ہے کہ خدا تعالیٰ نہایت درجہ کے مکروں کے مقابلہ پر جو سحر کی حقیقت تک پہنچ گئے ہیں ایک ایسی حقانی چمکار دکھاوے جو معجزہ کا اثر رکھتی ہو۔
اے دانشمندو!تم اس سے تعجب مت کرو کہ خدا تعالیٰ نے اس ضرورت کے وقت میں اور اس گہری تاریکی کے دنوں میں ایک آسمانی روشنی نازل کی اور ایک بندہ کو مصلحتِ عام کے لئے خاص کرکے بغرض اعلائے کلمہ اسلام واشاعت ِ نُور حضرت خیرالانام اور تائید مسلمانوں کے لئے اورنیزاُن کی اندرونی حالت کے صاف کرنے کے ارادہ سے دنیا میں بھیجا۔
تعجب تو اس بات میں ہو تاکہ وہ خدا جو حامی دین اسلام ہے جس نے وعدہ کیا تھا کہ میں ہمیشہ تعلیم قرآنی کا نگہبان رہوں گا اور اسے سرد اور بے رونق اور بے نُور نہیں ہونے دُوں گا۔ وہ اس تاریکی کو دیکھ کر اور اِن اندرونی اور بیرونی فسادوں پر نظر ڈال کر چُپ رہتا اور اپنے اُس وعدہ کو یاد نہ کرتا جس کو اپنے پاک کلام میں مو ¿کّد طور پربیان کر چکا تھا۔ پھر میں کہتا ہوں کہ اگر تعجب کی جگہ تھی تو یہ تھی کہ اُس پاک رسول کی یہ صاف اور کھلی کھلی پیشگوئی خطا جاتی جس میں فرمایا گیا تھا کہ ہر ایک صدی کے سر پر خدا تعالیٰ ایک ایسے بندہ کو پیدا کرتا رہے گا کہ جو اسکے دین کی تجدید کریگا ۔

روحانی خزائن، جلد۳ صفحات ۵، ۶

۵:دینی مسائل اور انکا حل
از
حضرت مجدد و امام الزمان مرزا غلام احمد قادیانی ؒ
بچہ کے کان میں اذان دینے کی کیا وجہ ہے ؟

اس وقت کے الفاظ کان میں پڑے ہوئے انسان کے اخلاق و حالات پر ایک اثر رکھتے ہیں ۔لہذا یہ رسم اچھی ہے ۔

بدر ۱۸ مارچ ۱۹۰۷ ء صفحہ ۴


۶:پیغامِ امیر قومؒ
حضرت مولانا محمد علیؒ


 "مسلمانوں میں سے اس وقت جو بات نکل گئی ہے، وہ برداشت کا مادہ ہے ۔یہ جو چھوٹی چھوٹی باتوں میں جھگڑا پیدا ہوتا رہتا ہے یہ اسوجہ سے ہے کہ برداشت کا مادہ ان میں نہیں رہا۔ حالانکہ مسلمان کی شان یہی ہے کہ اختلاف رائے کو برداشت کرے ۔تکلیف اور دکھ کو برداشت کرے یہ خوبی کی بات ہے ۔بڑئی اس میں نہیں کہ جہاں کسی نے گالی دی، فوراً جواب میں اسے بھی گالی دے دی ۔بلکہ بڑائی اس میں ہے کہ صبر سے کام لیاجائے ۔اس لئے تم اختلاف رائے کو برداشت کرو۔گالیاں ملنے اور دکھ پہنچنے پر صبر کرو ۔اس میں تمھاری بڑائی ہے ۔کسی نے اگر کسی کے خلاف دو لفظ کہہ دئیے اور وہ غصہ میں آکر ویسا ہی کہنے لگا ، تو اس سے وہ بڑا نہیں بن جاتا۔"
خطبات مولانا محمد علیؒ
جلد ۷، اقباس از صفحہ ۱۶۲ 


۷:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں 
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)


"محی الدین ابن عربی نے لکھاہے کہ نبوت تشریعی جائز نہیں ہے دوسری جائز ہے مگر میرا اپنا مذہب یہ ہے کہ ہر قسم کی نبوت کا دروازہ بند ہے صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انعکاس سے جو نبوت ہو وہ جائز ہے "

البد جلد نمبر 2 نمبر 13 صفحہ 102 مورخہ 10 اپریل 1903


 ایک ضروری تجویز

بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین 
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

No comments :

Post a Comment