Friday, August 15, 2014

ہفتہ۔16 اگست 2014ء شمارہ: 4

روزنامہ مبلغ (آنلائن)
۱۶ اگست ، ۲۰۱۴
روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان


بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت
 حضرت مولانا محمد علیؒ

شمارہ:
اتوار۔۱۷ اگست۲۰۱۴ء
۲۰ شوال ۱۴۳۵ ہجری
شمارہ:5
Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com





کلامِ الٰہی 
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُزَكُّونَ أَنْفُسَهُمْ ۚ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا
النساء:۴۹
ترجمہ:
"کیا تونے ان لوگوں کے حال پر غور نہیں کیا جو اپنے آپ کو پاکیزہ ظاہر کرتے ہیں بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے پاک کرتا ہے اور ان پر ذرہ بھر بھی ظلم نہیں کیاجائے گا
تفسیر:
مسلمانوں میں پیر پرستی کی بیماری : اصل ذکر یہود کا تھا اور انہی کو توجہ دلانے کےلئے شرک جیسے ظلم عظیم پر توجہ دلائی تھی مگر چونکہ انکا شرک خاص قسم کا تھا اس لئے اس کی طرف خصوصیت سے توجہ دلائی ہے اور وہ شرک وہی تھا جس کا ذکر اوپر بھی ہو چکا ہے کہ اپنے راہبوں اور پیروں کی دعوی بزرگی پر ایسے فریفتہ ہوتے تھے کہ جو کچھ وہ کہہ دیں اسی کو خدا کا حکم سمجھ لیتے تھے ۔شرک کے ذکر کے ساتھ ان لوگوں کا ذکر جو اپنے آپ کو دوسروں سے برتر اور پاک بتاتے ہیں صاف بتاتا ہے کہ یہ ان علماء اور پیروں کی طرف اشارہ ہے جو اپنے آپکو دوسروں سے برتر اور پاک بتاتے ہیں اس لئے کہ وہ اتفاق سے دوسروں کے مرشد بن گئے ہیں ۔پس یہودیوں کی حالت کا نقشہ کھینچ کر مسلمانوں کو پیر پرستی کے خطرناک مرض سے ڈرایا ہے ۔اور اگر غور کیا جائے تو اس پیر پرستی کی بیماری نے بت پرستی کی طرح عوام کو کالانعام بنا دیا ہے ۔وہ بیچارے اپنی عقل اور فکر سے کام لینے کے قابل ہی نہیں رہے جو کچھ پیر نے کہہ دیا وہی حق ہے ۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت تمادح یعنی ایک دوسرے کی مدح کرنے اور ایک دوسرے کو پاک کہنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔

حدیثِ نبویؐ:
ایکدوسرے کی مدح کرنے کی ممانعت احادیث میں ایسی باتوں سے بہت ڈرایا ہے مگر افسوس کہ یہی آجکل پیر پرستی کی بنیاد ہے صحیح مسلم میں مقداد ابن الاسود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا ان نحشو فی وجوہ  المد احین التراب کہ ہم مدح کرنے والوں کے منہ پر مٹی پھینکیں اور صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دوسرے کی بڑی تعریف کرتے ہوئے سنا تو آپؐ  نے فرمایا 
ویحک قطعت عنق صاحبک   
تجھ پر افسوس تونے اپنے دوست کی گردن کاٹ دی ۔پھر فرمایا کہ اگر اپنے دوست کی تعریف کرنی ہو تو یوں کہا کرو کہ 
"میں اسے ایسا سمجھتا ہوں" 

بیان القرآن ،اردو ترجمہ و تفسیر از حضرت مولانا محمد علی ؒ 

کلامِ امامؑ

"وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اسکی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے ۔سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تم میں تکبر کا نہ ہو تاکہ ہلاک نہ ہو جاو اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پا جاو۔"

(نزول المسیح، روحانی خزائن ، جلد ۱۸، صفحہ ۴۰۳)

پیغامِ امیر قومؒ
"آج جماعت احمدیہ لاہور ہی سارے عالم اسلامی میں ایک جماعت ہے جو مسلمانوں کو اس بات پر جمع کرنے کےلئے کھڑی ہوئی ہے کہ اہل قبلہ کو کافر مت کہو۔ کلمہ گووں کو کافر مت کہو۔ یہ اسلام کی عظیم الشان خدمت ہے ۔اس کی صرف یہی ایک خدمت اتنی بڑی تھی کہ مسلمانوں کو چاہیے تھا کہ گروہ در گروہ اس کی طرف جھک جاتے ۔ آپ لوگ قطعاً مایوس نہ ہوں کہ ہم عالم اسلامی کو اس بات پر، جس میں اسلام کی قوت مضمر ہے، کسطرح جمع کر سکتے ہیں ۔اگر اسلام نے زندہ رہنا ہے اور یقیناً زندہ رہنا ہے بلکہ سارے عالم پر چھا جانا ہے تو یاد رکھو کہ مسلمانوں کی تکفیر کا عقیدہ مٹ جائے گا۔ پیچھے آنے والے ان لوگوں کے لئے دعائیں کریں گے جنھوں نے اس کی بنیاد رکھی "
پیغام صلح ، ۲۱ فروری ۱۹۵۱ء



 آج کا موضوع
مامور من اللہ اور مروجہ رسمی عقائد
مامور من اللہ و اجتہادی غلطی

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی رحمة اللہ علیہ نے کیوں حضرت عیسیؑ کے بن باپ ولادت کے رسمی عقیدہ پر قائم رہتے ہوئی وفات پائی حالانکہ قرآن، حدیث ،انجیل اور عقلی و تاریخی کی رو سے نہ صرف یہ کہ حضرت عیسی ؑکی بن باپ ولادت کا کوئی قطعی ثبوت نہیں ملتا بلکہ اسکے برعکس مذکورہ بالا تمام ذرائع سے حضرت عیسیؑ کی با باپ ولادت  زبردست طور پر قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہوچکی ہے ۔

حضرت حکیم نور الدین رحمة اللہ علیہ بھی حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں انکے ادب کی وجہ سے اور اس معاملہ حضرت مسیح موعودؑ  کی طرف سے  وحی الٰہی کے انتظار میں خاموش رہے وگرنہ از روئے قرآن و دیگر عقلی و نقلی دلائل کی رو سے حضرت حکیم نو الدین ؒ خود بھی حضرت عیسیؑ کی با باپ ولادت ہی کے قائل تھے جسکا انھوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد ۱۹۱۱ ء میں تو بالکل کھل کر واضح طور پر اظہار کر دیا تھا۔

یہ بات بھی نہایت درجہ قابل غور ہے کہ حضرت مولانا محمدعلی رحمة اللہ علیہ کی طرف سے کئے گئے  قرآن کریم کے پہلے تئیس پاروں کے  انگریزی ترجمہ و تفسیری نوٹس حضرت حکیم نور الدین ؒ کی نظر سے بھرپور انداز سے گزرے اور حضرت حکیم نور الدین ؒ کی طرف ہی سے جماعتی سطح پر انکی  عام اشاعت کا ارشاد جاری ہو ا تھا جبکہ حضرت نور الدین ؒ خوب جانتے تھے کہ حضرت مولانا محمد علی ؒ نے اپنے ترجمہ و تفسیر میں اپنا عقیدہ دربارہ ولادت المسیح ؑ باباپ ہی ظاہر کیا ہے ۔

اگر حضرت نور ؒ اس عقیدہ کو خلاف قرآن و خلاف ایمان یقین کرتے تھے تو جماعت سطح پر اسکی عام  اشاعت کی  اجازت کیوں  دی گئی ؟؟؟
حضرت حکیم نور الدین ؒ کو اس ترجمہ کی قبولیت کی الہاماً بشارت بھی دی گئی جس پر وہاں موجود تقریباً تمام افراد ہی سجدہ شکر بجا لائے۔
علاوہ ازیں حضرت نورؒ یہ نصیحت بھی فرما گئے تھے کہ اس ترجمہ کا انکار نہ کریو۔


حوالہ جات کےلئے اٹیچ منٹس ملاحظہ ہوں

نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ

No comments :

Post a Comment