روزنامہ مبلغ (آنلائن)
بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت
حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
سوموار۔۲۵ اگست۲۰۱۴ء
۲۸شوال ۱۴۳۵ ہجری
شمارہ نمبر:۱۳
Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com
۱:کلامِ الٰہی
موالات کفار
لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ
ال عمران: 28
ترجمہ: مومن مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے تو اسکا اللہ کے ساتھ کچھ تعلق نہیں سوائے اسکے کہ تم ان سے کسی طرح بچاو کر لو۔
تفسیر:
موالات کفار: ان الفاظ کے معنی نہایت صاف ہیں مگر قرآن کریم کے پر حکمت کلام کو مدنظر نہ رکھنے سے بڑی بڑی مشکلات پیش آئی ہیں ۔
یہاں مومنوں کو کفار کی جس ولایت سے روکا ہے اسکے ساتھ من دون المومنین کے لفظ بڑھائے ہیں تو گویا یوں فرمایا کہ مومنوں کو نہیں چاہیے کہ مومنوں کو چھوڑ کر یا مومنوں کے معاملہ میں پیچھے رہتے ہوئے یعنی انکے فوائد کو نقصان پہنچاتے ہوئے کفار کی ولایت کریں ولی اور ولایت کےمعنوں کےلئے دیکھو ۳۳۲ (بیان القرآن میں بحث کاحوالہ،ناقل) جہاں دکھایا گیا ہے کہ اسکے معنی قرب و محبت کےتعلقات کے ساتھ نصرت بھی شامل ہیں۔
پس یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ شدید تعلق قرب و محبت و نصرت جو مومنوں کو باہم ہوتا ہے کفار کے ساتھ وہ نہیں ہو سکتا ۔گویا یہاں یہ فرمایا کہ کفار کےساتھ بھی تم کو معاہدات نصرت وغیرہ کرنے ہونگے مگر ایسا نہ ہو کہ کفار کے ساتھ تمھارے تعلقات نصرت ایسے ہوں جیسے مومنوں کے ساتھ یا ایسے جن سے مومنوں ہی کو نقصان پہنچے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ کفار کے ساتھ تعلقات یا معائدہ نصرت ہو سکتا ہے مگر ایسا کوئی معاہدہ جائز نہیں جس میں مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہو۔اسکی وجہ یہ ہے کہ اسلام ایک عظیم الشان سلسلہ اخوت اقوام عالم میں قائم کرتا ہے اورتمام ملکی و قومی تفریقوں کو مٹاتا ہے ۔
خدائے عالم الغیب جانتا تھا کہ مسلمان مختلف ملکوں میں رہیں گے ۔ انکے تعلقات مختلف قوموں سے ہونگے اور غیر مسلم اقوام سے بھی تعلقات اورمعاہدات نصرت ہونگے ۔ پس یہ شرط لگا دی کہ کسی دوسری قوم کے ساتھ ایسا تعلق یا معاہدہ نصرت کا نہ ہو جسکی غرض اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو نقصان پہنچانا ہو۔کیونکہ اسکے بغیر اسلام کی اخوات عالمگیر کا سلسلہ قائم ہی نہیں ہو سکتا۔
پس جب مسلمانوں کو حکومت اور بادشاہت کی خوشخبری سنائی تو تو ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ اصول اخوت اسلامی کو کسی صورت نہ بھولیں اور کفار کے ساتھ ملکر اپنے ہی بھائیوں کو تباہ نہ کریں ۔اخوت اسلامی کا تعلق تمام تعلقات پر مقدم ہواور اس کا ذکر بالخصوص ایسے موقع پر کرنا جہاں عیسائی مذہب کا ذکر ہو رہا ہے یہ بھی اس کلام کے منجانب اللہ ہونے کا ثبوت ہے ۔گویا بتا دیا کہ عیسائی قوموں کے ساتھ بالخصوص تمھیں یہ معاملہ پیش آنے والا ہے کہ تم سے ایک دوسرے کے خلاف فوائد معائدے کر کے تمھاری بیخ کنی کے درپے ہونگے اور تمھیں نقصان پہنچائیں گے ۔
غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مسلمانوں کی سلطنت،شوکت،عظمت کو نقصان پہنچنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہوئی ہے کہ وہ غیر قوموں کے ساتھ ملکر اپنے بھائیوں کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں۔ اور غیر قوموں بالخصوص عیسائی اقوام نے ہمیشہ اس ہتھیار کو استعمال کر کے مسلمانوں کی قوت اور شوکت کو توڑا ہے ۔اس لئے خدا کے پر حکمت کلام میں توتی الملک کے ساتھ تنزع الملک کابھی ذکر ہے کہ کیا اب بھی مسلمان سمجھیں گے ؟
اور یہ جو کہا گیا ہے کہ کفار کے ساتھ تعلقات نصرت وغیرہ ہو سکتے ہیں تو یہ خود نبی کریم صلعم کئی مشرک قبائل سے معاہدات کیے اور یہودیوں سےبھی معاہدات کئے جن میں دشمنان اسلام کے مقابلہ میں ان قبائل نے یا غیر جانبدار رہنا منظور کیا اور یا مسلمانوں کو امداد دینا منظور کیا اس شرط پر کہ ان پر حملہ کے وقت مسلمان انکی امداد کریں گے ۔
جنگ حین میں مشرکین مسلمانوں کی فوج میں موجود تھے ۔صحابہؓ کے وقت میں ایران کی جنگوں میں عیسائی فوج مسلمان فوج کے پہلو بہ پہلو لڑی۔
اصل بات یہ ہے کہ اسلام سب غیر قوموں کے ساتھ یکساں سلوک کا حکم نہیں دیتااور ترک موالات بھی مدارج رکھتی ہے ۔اس پر اصولی بحث سورہ ممتحنہ میں آئے گی ۔
مسئلہ تقیہ : مفسرین یہاں تتقوا کے معنی تخافوا لئے ہیں اور معنی یوں کئے ہیں کہ کافروں کو کسی صورت میں دوست نہ بناو سوائے اسکے کہ ان سے تم کو خوف ہو، اس چیز کا، جسکا خوف واجب ہے یا کچھ خوف ہو۔گویا اس صورت میں ان سے ظاہر طور پر دوستی کا تعلق کر لو گو دل میں میں کچھ نہ ہو اور پھر اس سے مسئلہ تقیہ کو اخذ کیا ہے۔ مگر درحقیقت ان الفاظ کو مسئلہ تقیہ سے کچھ تعلق نہیں۔
قرآن کریم میں اکراہ یا جبر کی حالت میں دوسری جگہ یوں فرمایا ہے
موالات کفار: ان الفاظ کے معنی نہایت صاف ہیں مگر قرآن کریم کے پر حکمت کلام کو مدنظر نہ رکھنے سے بڑی بڑی مشکلات پیش آئی ہیں ۔
یہاں مومنوں کو کفار کی جس ولایت سے روکا ہے اسکے ساتھ من دون المومنین کے لفظ بڑھائے ہیں تو گویا یوں فرمایا کہ مومنوں کو نہیں چاہیے کہ مومنوں کو چھوڑ کر یا مومنوں کے معاملہ میں پیچھے رہتے ہوئے یعنی انکے فوائد کو نقصان پہنچاتے ہوئے کفار کی ولایت کریں ولی اور ولایت کےمعنوں کےلئے دیکھو ۳۳۲ (بیان القرآن میں بحث کاحوالہ،ناقل) جہاں دکھایا گیا ہے کہ اسکے معنی قرب و محبت کےتعلقات کے ساتھ نصرت بھی شامل ہیں۔
پس یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ شدید تعلق قرب و محبت و نصرت جو مومنوں کو باہم ہوتا ہے کفار کے ساتھ وہ نہیں ہو سکتا ۔گویا یہاں یہ فرمایا کہ کفار کےساتھ بھی تم کو معاہدات نصرت وغیرہ کرنے ہونگے مگر ایسا نہ ہو کہ کفار کے ساتھ تمھارے تعلقات نصرت ایسے ہوں جیسے مومنوں کے ساتھ یا ایسے جن سے مومنوں ہی کو نقصان پہنچے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ کفار کے ساتھ تعلقات یا معائدہ نصرت ہو سکتا ہے مگر ایسا کوئی معاہدہ جائز نہیں جس میں مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہو۔اسکی وجہ یہ ہے کہ اسلام ایک عظیم الشان سلسلہ اخوت اقوام عالم میں قائم کرتا ہے اورتمام ملکی و قومی تفریقوں کو مٹاتا ہے ۔
خدائے عالم الغیب جانتا تھا کہ مسلمان مختلف ملکوں میں رہیں گے ۔ انکے تعلقات مختلف قوموں سے ہونگے اور غیر مسلم اقوام سے بھی تعلقات اورمعاہدات نصرت ہونگے ۔ پس یہ شرط لگا دی کہ کسی دوسری قوم کے ساتھ ایسا تعلق یا معاہدہ نصرت کا نہ ہو جسکی غرض اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو نقصان پہنچانا ہو۔کیونکہ اسکے بغیر اسلام کی اخوات عالمگیر کا سلسلہ قائم ہی نہیں ہو سکتا۔
پس جب مسلمانوں کو حکومت اور بادشاہت کی خوشخبری سنائی تو تو ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ اصول اخوت اسلامی کو کسی صورت نہ بھولیں اور کفار کے ساتھ ملکر اپنے ہی بھائیوں کو تباہ نہ کریں ۔اخوت اسلامی کا تعلق تمام تعلقات پر مقدم ہواور اس کا ذکر بالخصوص ایسے موقع پر کرنا جہاں عیسائی مذہب کا ذکر ہو رہا ہے یہ بھی اس کلام کے منجانب اللہ ہونے کا ثبوت ہے ۔گویا بتا دیا کہ عیسائی قوموں کے ساتھ بالخصوص تمھیں یہ معاملہ پیش آنے والا ہے کہ تم سے ایک دوسرے کے خلاف فوائد معائدے کر کے تمھاری بیخ کنی کے درپے ہونگے اور تمھیں نقصان پہنچائیں گے ۔
غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مسلمانوں کی سلطنت،شوکت،عظمت کو نقصان پہنچنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہوئی ہے کہ وہ غیر قوموں کے ساتھ ملکر اپنے بھائیوں کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں۔ اور غیر قوموں بالخصوص عیسائی اقوام نے ہمیشہ اس ہتھیار کو استعمال کر کے مسلمانوں کی قوت اور شوکت کو توڑا ہے ۔اس لئے خدا کے پر حکمت کلام میں توتی الملک کے ساتھ تنزع الملک کابھی ذکر ہے کہ کیا اب بھی مسلمان سمجھیں گے ؟
اور یہ جو کہا گیا ہے کہ کفار کے ساتھ تعلقات نصرت وغیرہ ہو سکتے ہیں تو یہ خود نبی کریم صلعم کئی مشرک قبائل سے معاہدات کیے اور یہودیوں سےبھی معاہدات کئے جن میں دشمنان اسلام کے مقابلہ میں ان قبائل نے یا غیر جانبدار رہنا منظور کیا اور یا مسلمانوں کو امداد دینا منظور کیا اس شرط پر کہ ان پر حملہ کے وقت مسلمان انکی امداد کریں گے ۔
جنگ حین میں مشرکین مسلمانوں کی فوج میں موجود تھے ۔صحابہؓ کے وقت میں ایران کی جنگوں میں عیسائی فوج مسلمان فوج کے پہلو بہ پہلو لڑی۔
اصل بات یہ ہے کہ اسلام سب غیر قوموں کے ساتھ یکساں سلوک کا حکم نہیں دیتااور ترک موالات بھی مدارج رکھتی ہے ۔اس پر اصولی بحث سورہ ممتحنہ میں آئے گی ۔
مسئلہ تقیہ : مفسرین یہاں تتقوا کے معنی تخافوا لئے ہیں اور معنی یوں کئے ہیں کہ کافروں کو کسی صورت میں دوست نہ بناو سوائے اسکے کہ ان سے تم کو خوف ہو، اس چیز کا، جسکا خوف واجب ہے یا کچھ خوف ہو۔گویا اس صورت میں ان سے ظاہر طور پر دوستی کا تعلق کر لو گو دل میں میں کچھ نہ ہو اور پھر اس سے مسئلہ تقیہ کو اخذ کیا ہے۔ مگر درحقیقت ان الفاظ کو مسئلہ تقیہ سے کچھ تعلق نہیں۔
قرآن کریم میں اکراہ یا جبر کی حالت میں دوسری جگہ یوں فرمایا ہے
إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ
النحل: 106
یہ مکی آیت ہے اور مفصل بحث اس پر اپنے موقع پر ہو گی۔مگر اس میں صرف اسقدر اجازت دی ہے کہ اگر قتل وغیرہ کے خوف کے وقت انسان کے منہ سے جان بچانے کےلئے کلمہ کفر نکل جائے تو اللہ معاف کر دے گا مگر ظاہر طور پردوستی کا رنگ رکھنا حالانکہ دل میں دشمنی ہو یابات بات پر جھوٹ بول کر پیچھا چھڑانا اسلام کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے ۔یہ زندگی کا منافقانہ رنگ ہے جسے اسلام سخت ترین نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔
پس اکراہ کی صورت میں اگر کوئی شخص کوئی بات کہہ دے تو وہ اسے معاف ہے گو یہ اعلیٰ مقام مومن کا نہیں ۔
اہل تشیع میں تقیہ :لیکن اہل تشیع نے اس کو بہت وسیع کیا ہے اور انکے نزدیک بوقت ضرورت ہرقول میں تقیہ جائز ہے ۔ظاہر ہے کہ اس طرح جھوٹ پر جرات ہوتی ہے اور ایک شخص کے کلام سے امن اٹھ جاتا ہے کیونکہ اپنی ضروریات کا فیصلہ کرنے والا وہ خود ہوا۔دوسرے کو کیا علم ہے کہ جو کچھ کہہ رہا ہے یہ صدق دل سے کہہ رہا ہے یا جھوٹ کہہ رہا ہے اور اس طرح پر منافقت دنیا میں بڑھتی ہے ۔چنانچہ ان کے بعض آئمہ کا ایک بھی قول مشہور ہے
کل من صلی وراءسنی تقیة فکانما صلی وراءنبی
یعنی جو شخص سنی کے پیچھے تقیہ کر کے نماز پڑھ لے گویا اس نے نبی کے پیچھے نماز پڑھی ۔
کفار سے موالات کی ایک صورت:
الفاظ الا ان تتقوا منہم تقة کے معنی صاف ہیں مگ یہ کہ ان سے بچاو کر لو ۔کس طرح کا بچاو کرلینا؟ یعنی پور ا پورا بچاو کر لو ۔گویا کفار سے موالات کی یہ صورت رکھی ہے کہ اس میں تمھارا اپنا بچاو مد نظر ہو یعنی کسی بڑے نقصان سے بچنے کےلئے اسکو اختیار کر لینا جائز ہے مثلاً جنگ کی صورت میں ہی جب مسلمان مغلوب ہو جائیں تو مجبوراً اپنی حفاظت اور بچاو کےلئے جو صورت اختیار کرنی پڑے کر لیں مگر جو کچھ عہد کریں اسکی پابندی ضروری ہو گی جیسے نبی کریم صلعم نے صلح حدیبیہ میں مغلوب فریق (اصل لفظ "غالب فریق" ہوناچاہیے ۔سہو کتابت معلوم ہوتی ہے ۔ایڈیٹر)کی شرائط قبول کیں تو پھر انکا ایفا بھی کیا یہاں کہ کفار نے خود اس عہد کو توڑ دیا ۔
ایسا ہی جو کفار جنگ نہیں کرتے مگر ویسے اسلام کو نابود کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان سے بھی مسلمانوں کو بچاو کی صورت کر لینی جائز ہے ۔مگر یہ بچاو اور حفاظت قومی ہے نہ کہ فرداً فرداً۔
بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ
۲:حدیثِ نبویؐ
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہا ایک عورت آئی اور اسکے ساتھ اسکی دو بیٹیاں تھیں ۔اس نے سوال کیا میر ے پاس سوائے ایک کھجور کے کچھ نہ تھا میں وہ اسے دے دی تو اس نے اسے اپنی دونوں بیٹیوں میں تقسیم کر دیا اور خود اس میں سے کچھ نہ کھایا پھر کھڑی ہو گئی اور باہر چلی گئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے میں نے آپ کو خبر دی ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
جو کوئی ان بیٹیوں کی وجہ سے مصیبت میں مبتلا ہو جائے وہ اس کےلئے آگ سے روک ہونگی۔
بخاری (۲۴: ۱۰)
ترجمہ از حضرت مولانا محمد علیؒ
کتاب احادیث العمل صفحہ ۴۲۷
کتاب احادیث العمل صفحہ ۴۲۷
۳:سیرت خیر البشرؐ
از
حضرت مولانا محمد علی ؒ
کفار کے ساتھ کئے گئے ایک معاہدہ میں حضرت محمدؐ کا ایفائے عہد
اور ایک نو مسلم کا زبردست عشق رسولؐ
کفار کے ساتھ کئے گئے ایک معاہدہ میں حضرت محمدؐ کا ایفائے عہد
اور ایک نو مسلم کا زبردست عشق رسولؐ
ایک اور من چلا مسلمان عتبہؓ بن اسید کفار کے ہاتھ سے تنگ آکر مکہ سے بھاگا اور مدینہ پہنچا۔ساتھ ہی قریش کے دو قاصد پہنچے کہ عتبہؓ کو مطابق شرائط واپس کیا جائے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہؓ سے فرمایا کہ واپس جاو۔ ا س نے حیران ہو کر عرض کیا کہ
کیا آپ مجھے کفر پر مجبور کر تے ہیں ؟
کتنا بڑا امتحان ہے ؟ اگر آپؐ عتبہؓ کو رکھ لیں تو زیادہ سے زیادہ قریش چڑھ آئینگے اور وہ مدینہ میں آپؐ کچھ بگاڑ نہیں سکتے مگر عہد کا اسقدر پاس ہے کہ اسکے ایفاء کی وجہ سے اگر مسلمان بھی کفر کی طرف جاتا ہے تو جائے ۔
آپؐ عتبہؐ سے فرماتے ہیں ہم تو تم کو واپس کرنے پر مجبور ہیں ہاں اللہ تعالیٰ کوئی راہ نکال دے گا۔
اگر رسول اللہ صلعم کی پابندی عہد ایک طرف حیرت انگیز ہے تو اس نو مسلم کا عشق، اسکی فرمانبرداری بھی کم حیرت انگیز نہیں ۔یہ نہیں کہتا کہ مجھے ایسا دین قبول کرنے سے کیا فائدہ جب آپؐ خود ہی کفار کے ہاتھ میں مجھے واپس دیتے ہیں ۔نہیں ۔حکم مانتا ہے ،واپس چلا جاتا ہے ہاں خوب جانتا ہے کہ اب مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے ۔اب دنیا میں کوئی اسکا بچانے والا نہیں، کوئی اسکا حامی نہیں اس لئے وہ حفاظت خود اختیاری کرتا ہے ۔
جن دو شخصوں کی حراست میں ہے موقع پا کر ان میں سے ایک کو قتل کر دیتا ہے ۔دوسرا خود بھاگ جاتا ہے ۔عتبہؓ پھر مدینہ آتا ہے اور عرض کرتا ہے کہ آپؐ نے اپنا عہد پورا کر دیا ۔اب میں آزاد ہوں اور وہاں سے نکل کر مقام عیص جو سمندر کنارہ پر ہے، سکونت اختیار کرلیتا ہے ۔اور وہ ایسی جگہ ہے جہاں نہ نبی کریم صلعم کا تسلط ہے نہ قریش کا۔
اسی طرح پر اب دوسرے ستم رسیدہ مکہ سے نکلنا شروع ہوتے ہیں ۔ وہ مدینہ نہیں جاسکتے۔اس لئے عتبہؓ کے پاس عیص پہنچتے جاتے ہیں۔یہاں تک کہ وہاں ایک بڑی نو آبادی بن جاتی ہے اور چونکہ یہ لوگ ان شرائط کے پابند نہیں جو رسول اللہ صلعم کے ساتھ حدیبیہ میں طے ہوئی تھیں اس لئے قریش کو یہ خطرہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی شام کی تجارت میں یہ لوگ مخل ہونگے اس لئے وہ خود نبی کریمؐ سے درخواست کرتےہیں کہ ہم معاہدہ کی اس شرط کو چھوڑتے ہیں جس کے بموجب مکہ سے بھاگے ہوئے لوگوں کو واپس کرنا ضروری ہے ۔
کتاب سیرت خیرالبشرؐ، صفحہ ۱۲۸، ۱۲۹
۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ
قرآنؔ نے جھوٹوں پر لعنت کی ہے۔ اور نیز فرمایا ہے کہ جھوٹے شیطان کے مصاحب ہوتے ہیں اور جھوٹے بے ایمان ہوتے ہیں اور جھوٹوں پر شیاطین نازل ہوتے ہیں اور صرف یہی نہیں فرمایا کہ تم جھوٹ مت بولو بلکہ یہ بھی فرمایا ہے کہ تم جھوٹوں کی صحبت بھی چھوڑ دو اور ان کو اپنا یار دوست مت بناؤ اور خدا سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔ اور ایک جگہ فرماتا ہے کہ جب تو کوئی کلام کرے تو تیری کلام محض صدق ہو ٹھٹھے کے طور پر بھی اس میں جھوٹ نہ ہو۔ اب بتلاؤ یہ تعلیمیں انجیل میں کہاں ہیں۔ اگر ایسی تعلیمیں ہوتیں تو عیسائیوں میں اپریل فول کی گندی رسمیں اب تک کیوں جاری رہتیں۔ دیکھو اپریل فول کیسی بُری رسم ہے کہ ناحق جھوٹ بولنا اس میں تہذیب کی بات سمجھی جاتی ہے یہ عیسائی تہذیب اورنجیلی تعلیم ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی لوگ جھوٹ سے بہت ہی پیار کرتے ہیں۔ چنانچہ عملی حالت اس پر شاہد ہے۔ مثلاً قرآن تو تمام مسلمانوں کے ہاتھ میں ایک ہی ہے۔ مگر سنا گیا ہے کہ انجیلیں ساٹھ سے بھی کچھ زیادہ ہیں۔ شاباش اے پادریان جھوٹ کی مشق بھی اسے کہتے ہیں۔ شاید آپ نے اپنے ایک مقدس بزرگ کا قول سنا ہے۔ کہ جھوٹ بولنا نہ صرف جائز بلکہ ثواب کی بات ہے خدا تعالیٰ نے عدل کے بارے میں جو بغیر سچائی پر پورا قدم مارنے کے حاصل نہیں ہو سکتی۔ فرمایا ہے۱ یعنی دشمن قوموں کی دشمنی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو۔ انصاف پر قائم رہو کہ تقویٰ اسی میں ہے۔ اب آپ کو معلوم ہے کہ جو قومیں ناحق ستاویں اور دکھ دیویں اور خونریزیاں کریں اور تعاقب کریں اور بچوں اور عورتوں کو قتل کریں جیسا کہ مکہ والے کافروں نے کیا تھا اور پھر لڑائیوں سے باز نہ آویں ایسے لوگوں کے ساتھ معاملات میں انصاف کے ساتھ برتاؤ کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے مگر قرآنی تعلیم نے ایسے جانی دشمنوں کے حقوق کو بھی ضائع نہیں کیا اور انصاف اور راستی کے لئے وصیت کی مگر آپ تو تعصب کے گڑھے میں گرے ہیں ان پاک باتوں کو کیونکر سمجھیں۔ انجیل میں اگرچہ لکھا ہے کہ اپنے دشمنوں سے پیار کرو مگر یہ نہیں لکھا کہ دشمن قوموں کی دشمنی اور ظلم تمہیں انصاف اور سچائی سے مانع نہ ہو۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ دشمن سے مدارات سے پیش آنا آسان ہے مگر دشمن کے حقوق کی حفاظت کرنا اور مقدمات میں عدل اور انصاف کو ہاتھ سے نہ دینا یہ بہت مشکل اور فقط جوانمردوں کا کام ہے
۵:دینی مسائل اور انکا حل
از
حضرت مجدد و امام الزمان مرزا غلام احمد قادیانی ؒ
اپریل فول کیسی رسم ہے ؟
"دیکھو اپریل فول کیسی بُری رسم ہے کہ ناحق جھوٹ بولنا اس میں تہذیب کی بات سمجھی جاتی ہے یہ عیسائی تہذیب اورنجیلی تعلیم ہے"
روحانی خزائن، جلد ۹، نور القرآن صفحات ۴۰۸
اپریل فول کیسی رسم ہے ؟
"دیکھو اپریل فول کیسی بُری رسم ہے کہ ناحق جھوٹ بولنا اس میں تہذیب کی بات سمجھی جاتی ہے یہ عیسائی تہذیب اورنجیلی تعلیم ہے"
روحانی خزائن، جلد ۹، نور القرآن صفحات ۴۰۸
۶:پیغامِ امیر قومؒ
حضرت مولانا محمد علیؒ
عورتوں کا حقیقی مقاماور
حضرت ام المومنین عائشہ ؓ کی عظیم الشان مثال
میں خواتین سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عورتیں بھی دین کو سمجھ سکتی ہیں اور مردوں سے بڑھ کر سمجھ سکتی ہیں ۔وہ جو ایک فقرہ انکے متعلق ہے ناقصات العقل والدین ۔ اسکا مطلب لوگوں نے غلط سمجھا ہے ۔اگر بہت عورتیں ناقص العقل ہیں تو مرد کیا کم ناقص العقل ہیں؟ بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ اصل ناقص العقل تو مر دہیں جنھوں نے عورت کو جہات میں رکھا اور انکو دین اور عقل کی روشنی نہ پہنچنے دی ۔
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اسی لئے آئے تھے کہ مردوں نے جو عورتوں کو ناقص العقل بنا رکھا ہے، عورت کو علم کے ذریعہ سے اس سے باہر نکالا جائے ۔
حضرت عائشہؓ کی مثال ہمیں بتاتی ہے کہ عورت عقل اور علم میں کہاں تک ترقی کر سکتی ہے اورکہ دین کی عقل اور فہم ایسی چیز ہے کہ اسکو مرد یا عورت کے ساتھ کوئی خصوصیت نہیں۔ مرد کو دین کی عقل اللہ تعالیٰ دے دے یا عورت کو ، یہ اسکا عطیہ ہے ۔ ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ عورتوں کو دین و علم سکھائیں ۔
آج ایک نابیہ ایبٹ اٹھتی ہے اور وہ ہماری ام المومنین کی حالات زندگی ایسے پیرائیہ میں لکھتی ہے جو پسندیدہ نہیں۔ ہماری عورتوں میں بھی ایسی ہو سکتی ہیں جو اس پر بہتر روشنی ڈالیں۔
وہ عورت جس کے سامنے اسکے "لارڈ گاڈ" کی ماں کا کوئی عملی نمونہ نہیں وہ تو اٹھتی ہے اور ایک کتاب لکھ دیتی ہے، اور ہمارے سامنے سینکڑوں نمونے ہیں ،خود ہماری ماں ام المومنین عائشہؓ کا نمونہ ہے کہ عورتیں کس قدر علم پھیلا سکتی ہیں ۔ہماری حالت یہ ہے کہ اس طرف توجہ ہی نہیں کرتے ۔سوئے ہوئے ہیں ۔
ایک بات تو مجھے یہ کہنی تھی کہ دین کی خدمت عورتیں بھی کرسکتی ہیں اور مرد بھی۔ ایک یہ بات ہے ۔اور ایک دوسری بات حضرت عائشہؓ کی زندگی کا نمونہ عورتوں اور مردوں کے سامنے رکھنا ہے ۔
حضرت عمرؓ کے زمانے میں مال دنیا تو بہت آنا شروع ہو گیا تھا ۔وہ حضرت عائشہؓ اور دوسری ازدواج مطھرات کی عزت افزائی کےلئے بھی انکو بڑا مال بھیج دیتے تھے اور انکی یہ خصوصیت تھی کہ مال جمع نہیں کرتی تھیں۔
ایک واقعہ لکھا ہے کہ حضرت عائشہؓ کے ہاں کچھ مال آیا۔آپؓ روزہ سے تھیں جو کچھ آیا وہ سب محتاجوں میں تقسیم کر دیا اور گھر میں افطاری کےلئے کچھ بھی نہ رکھا ۔
ایک اور واقعہ ہے کہ کوئی حاجتمند آیا۔لونڈی سے کہا جو کچھ ہے دے دو۔ اس نے کہا کچھ افطاری کےلئے بھی رکھ لیں۔فرمایا افطاری کےلئے خدااور کچھ دے دے گا۔یہ مال دنیا سے بےرغبتی کا نمونہ حضرت عائشہ ؓ نے اور دوسری امہات المومنینؓ نے ہمیں سکھایا۔
دو چیزیں جب تک اپنے اند رپیدا نہیں کرتے، مرد ہو یا عورت۔ایک قرآن کا پڑھنا اور پڑھانا اوردوسرے مال دنیا سے رغبتی ، اسوقت تک تم کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتے ۔لیکن عورتوں سےکیا کہیں ؟ اس وقت تو مردوں کا بھی رونا ہے کہ انکو مال دنیا سے اسقدر محبت ہے کہ جب دین کےلئے خرچ کرنا پڑے تو طرح طرح کے بہانے کرتےہیں
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اسی لئے آئے تھے کہ مردوں نے جو عورتوں کو ناقص العقل بنا رکھا ہے، عورت کو علم کے ذریعہ سے اس سے باہر نکالا جائے ۔
حضرت عائشہؓ کی مثال ہمیں بتاتی ہے کہ عورت عقل اور علم میں کہاں تک ترقی کر سکتی ہے اورکہ دین کی عقل اور فہم ایسی چیز ہے کہ اسکو مرد یا عورت کے ساتھ کوئی خصوصیت نہیں۔ مرد کو دین کی عقل اللہ تعالیٰ دے دے یا عورت کو ، یہ اسکا عطیہ ہے ۔ ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ عورتوں کو دین و علم سکھائیں ۔
آج ایک نابیہ ایبٹ اٹھتی ہے اور وہ ہماری ام المومنین کی حالات زندگی ایسے پیرائیہ میں لکھتی ہے جو پسندیدہ نہیں۔ ہماری عورتوں میں بھی ایسی ہو سکتی ہیں جو اس پر بہتر روشنی ڈالیں۔
وہ عورت جس کے سامنے اسکے "لارڈ گاڈ" کی ماں کا کوئی عملی نمونہ نہیں وہ تو اٹھتی ہے اور ایک کتاب لکھ دیتی ہے، اور ہمارے سامنے سینکڑوں نمونے ہیں ،خود ہماری ماں ام المومنین عائشہؓ کا نمونہ ہے کہ عورتیں کس قدر علم پھیلا سکتی ہیں ۔ہماری حالت یہ ہے کہ اس طرف توجہ ہی نہیں کرتے ۔سوئے ہوئے ہیں ۔
ایک بات تو مجھے یہ کہنی تھی کہ دین کی خدمت عورتیں بھی کرسکتی ہیں اور مرد بھی۔ ایک یہ بات ہے ۔اور ایک دوسری بات حضرت عائشہؓ کی زندگی کا نمونہ عورتوں اور مردوں کے سامنے رکھنا ہے ۔
حضرت عمرؓ کے زمانے میں مال دنیا تو بہت آنا شروع ہو گیا تھا ۔وہ حضرت عائشہؓ اور دوسری ازدواج مطھرات کی عزت افزائی کےلئے بھی انکو بڑا مال بھیج دیتے تھے اور انکی یہ خصوصیت تھی کہ مال جمع نہیں کرتی تھیں۔
ایک واقعہ لکھا ہے کہ حضرت عائشہؓ کے ہاں کچھ مال آیا۔آپؓ روزہ سے تھیں جو کچھ آیا وہ سب محتاجوں میں تقسیم کر دیا اور گھر میں افطاری کےلئے کچھ بھی نہ رکھا ۔
ایک اور واقعہ ہے کہ کوئی حاجتمند آیا۔لونڈی سے کہا جو کچھ ہے دے دو۔ اس نے کہا کچھ افطاری کےلئے بھی رکھ لیں۔فرمایا افطاری کےلئے خدااور کچھ دے دے گا۔یہ مال دنیا سے بےرغبتی کا نمونہ حضرت عائشہ ؓ نے اور دوسری امہات المومنینؓ نے ہمیں سکھایا۔
دو چیزیں جب تک اپنے اند رپیدا نہیں کرتے، مرد ہو یا عورت۔ایک قرآن کا پڑھنا اور پڑھانا اوردوسرے مال دنیا سے رغبتی ، اسوقت تک تم کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتے ۔لیکن عورتوں سےکیا کہیں ؟ اس وقت تو مردوں کا بھی رونا ہے کہ انکو مال دنیا سے اسقدر محبت ہے کہ جب دین کےلئے خرچ کرنا پڑے تو طرح طرح کے بہانے کرتےہیں
خطبات مولانا محمد علیؒ
جلد ۲۳، اقباس از صفحات ۱۱۰، ۱۱۱
۷:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)
" یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے؟ کیا یہ سب امور حکم نہیں کرتے کہ اس حدیث کے معنے کرنے کےوقت ضرور ہے کہ الفاظ کو ظاہر سے پھیرا جائے"
روحانی خزائن ،جلد 14، صفحہ 279
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)
" یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے؟ کیا یہ سب امور حکم نہیں کرتے کہ اس حدیث کے معنے کرنے کےوقت ضرور ہے کہ الفاظ کو ظاہر سے پھیرا جائے"
روحانی خزائن ،جلد 14، صفحہ 279
"سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں ۔ آنے والے مسیح موعودؑ کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویؐ سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور معمولی محاوہ مکالمات الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا؟"
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28
"میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اورنبی کے میری الہام میں میری نسبت خدا تعالٰی کی طرف سے بے شک ہیں لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں اور جیسے یہ محمول نہیں ایسا ہی نبی کر کے پکارنا جو حدیثوں میں مسیح موعودؑ کےلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔ یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "
سراج منیر،صفحہ ۳
"یہ بھی یاد رہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے"
روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209
"یہ الفاظ بطور استعارہ ہیں جیسے حدیث میں بھی مسیح موعود کےلئے نبی کا لفظ آیا ہے ۔ظاہر ہے کہ جسکو خدا بھیجتا ہے وہ اسکا فرستادہ ہی ہوتا ہے اور فرستادہ کو عربی میں رسول کہتے ہیں اور جو غیب کی خبر خدا سےپا کر دیوے اسکو عربی میں نبی کہتے ہیں ۔اسلامی اصطلاح کے معنے الگ ہیں ۔
اسجگہ محض لغوی معنے مراد ہیں "
روحانی خزائن ،جلد 17، حاشیہ صفحہ 366
"سمیت نبیا من اللہ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ"
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر
روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65)
روحانی خزائن ،جلد 17، حاشیہ صفحہ 366
ایک ضروری تجویز
ایک ضروری تجویز
بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ مزید جن احباب تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
No comments :
Post a Comment