روزنامہ مبلغ (آنلائن)
بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت
حضرت مولانا محمد علیؒ
منگل۔۲۰ اگست۲۰۱۴ء
۲۳ شوال ۱۴۳۵ ہجری
شمارہ نمبر:8
Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com
۱:کلامِ الٰہی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا
إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ ۚ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَىٰ أَنْ يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَٰذَا رَشَدًا
۱۸: الکھف: ۲۳۔۲۴
إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ ۚ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَىٰ أَنْ يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَٰذَا رَشَدًا
۱۸: الکھف: ۲۳۔۲۴
ترجمہ:
"اور کسی چیز کے متعلق (یوں) نہ کہہ کہ میں اسے کل کرنے والا ہوں
مگر جو اللہ چاہے اور جب تو بھول جائے تو اپنے رب کو یاد کر اور کہہ میرا رب مجھے اس سے قریب تربھلائی کا رستہ دکھائے گا"
"اور کسی چیز کے متعلق (یوں) نہ کہہ کہ میں اسے کل کرنے والا ہوں
مگر جو اللہ چاہے اور جب تو بھول جائے تو اپنے رب کو یاد کر اور کہہ میرا رب مجھے اس سے قریب تربھلائی کا رستہ دکھائے گا"
تفسیر:
"ان آیات کے نزول میں جو قصہ بیان کیا جاتاہے کہ قریش نے یہود مدینہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ آپؐ سے اصحاب کہف اور روح اور ذوالقرنین کے متعلق دریافت کرو ۔ اگر وہ جواب نہ دے سکے تو جھوٹا ہے اور دریافت کرنے پر آپ ؐ نے کل بتانے کا وعدہ کیا اور پھر پندرہ دن تک وحی نازل نہ ہوئی یہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک مشکوک سی روایت ہے اور یہود کا تعلق اصحاب کہف سے کچھ تھا بھی نہیں ۔
اصل بات یہ ہے کہ جب اصحاب کہف اور اور نکی مشکلات کا ذکراللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کسطرح پیغام حق پہنچانے میں انہیں ایک مدت غارمیں رہنا پڑا اور آخر انکو وہ راہ ملی کہ وہ پیغام حق پہنچانے کے قابل ہوئے یا ضمناً عیسائیت کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح تین سو سال کا عرصہ دراز وہ کھلے طور پر اپنے پیغام کو نہ پہنچا سکی تو بالمقابل اسلام کا ذکر کیا جیسا کہ لا اقرب ھذا من رشد سے ظاہر ہے یعنی جو بھلائی کا راستہ انکو دکھایا گیااس سے قریب تر کوئی بھلائی کا راستہ اللہ تعالیٰ امت محمدیہ کو دکھائے گا۔
اللہ تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں پھیلانا تو ایساکام ہے کہ خود اللہ تعالیٰ اسے چاہتا ہے باایں فرمایا کہ ایسے کام کی نسبت بھی یہ مت کہو کہ ہم کل یا قریب زمانہ میں ایسا کریں گے اور یہاں خطاب عام ہے مگر اصل خطاب انہی لوگوں کو ہے جو داعی الالحق ہیں کیونکہ اوپر ذکر دعوت الی الحق کا ہی تھا اوریہ جو فرمایا کہ سوائے اس کےکہ اللہ چاہے تو ایک معنی اس کے یوں کئے گئے ہیں کہ ایسا مت کہو سوائے اس کے کہ ساتھ انشا اللہ بھی کہو ۔ بالفاظ دیگر یہ بھی اللہ کی مشیت سے ہی ہوتا ہے ۔ انسان اپنے زور اور سعی سے کچھ نہیں کر سکتا اور طریق ادب یہی ہے کہ انسان ہر ایک معاملہ کو خود سے کوشش کرتا ہوا اللہ تعالیٰ کے سپرد کرے ۔
اور ایک معنے یوں کئے گئے ہیں کہ تم مت کہو سوائے اسکے کہ اللہ چاہے اور اللہ کی مشیت اسکی وحی کا نزول ہے ۔تو فرمایا کہ تم اپنی طرف سے مت کہو کہ ہم دنیامیں یوں خدا کا نام پھیلا لیں گے ہاں جو کچھ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اسکے مطابق کہہ دو۔
اور عسی ان یھدین ربی لاقرب من ھذا رشد میں بتایا کہ اسلام کے لئے دعوت الی الحق کے کام میں اس قدر مشکلات نہ ہونگی جیسے عیسائیت کے راستہ میں تھیں۔ چنانچہ ابتدائی تاریخ اسلام اور ابتدائی تاریخ عیسائیت میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے ۔
عیسائیت تین سو سال تک ایک سلطنت روما کے اندر بھی بمشکل آٹھواں حصہ ساتھ ملا سکی مگر اسلام تین سو سال میں کل روئے زمین پر پھیل گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غار میں ٹھہرنے کی طرف بھی یہاں اشارہ ہو سکتا ہے کہ آپؐ صرف تین دن غار میں رہے حالانکہ اصحاب کہف کو کئی سال تک اس حال میں رہنا پڑا۔
ایسا ہی اس زمانہ میں بھی کوئی شخص غور کرے تو کیسا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا نظارہ نظر آتا ہے کہ ایک مذہب کروڑ کروڑ روپیہ خرچ کر کے اور ہزار ہا مبلغ بھیج کر اس قدر کامیاب نہیں ہو سکتا جسقدر دوسرا مذہب اپنی کسمپرسی کی حالت میں ترقی کر رہا ہے ۔
ایک افریقہ کو دیکھو کہ عیسائیت اور اسلام کے مقابلہ ترقی میں وہاں کیسا لاقرب من ھذا رشدا کانظارہ نظر آرہا ہے ۔پھر آج کسی عیسائی ملک میں ایک مشن اسلامی چلا جائے تو اسکی فتوحات ایک طرف اور کسی اسلامی ملک میں سو مسیحی مشن چلے جائیں تو انکے نتائج کو دوسری طرف رکھ کر مقابلہ کر لو۔گو افسوس یہ ہے کہ باوجود اس قدر اسلام کےلئے سہولت کے مسلمان اسی کام میں سب سے بڑھ کر غفلت دکھا رہے ہیں ۔چنانچہ اس مقابلہ کے بعد فوراً عیسائیت کے اس زمانہ کی طرف توجہ دلائی ہے جب وہ غاروں میں چھپ چھپ کر گزارہ کرتے تھے اور اسی مقابلہ عیسائیت و اسلام کی پچھلی حالت کا ذکر چوتھے رکو ع میں ہے ۔
بیان القرآن ، اردو ترجمہ و تفسیر از حضرت امیرقوم مولانا محمدعلیؒ
۲:حدیثِ نبویؐ
۲:حدیثِ نبویؐ
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"جو شخص کم عمری میں قرآن کریم سیکھتاہے تو وہ (جزو بدن بن کر) گویا اس کے گوشت پوست اور خون میں رچ بس جاتا ہے اور جو بڑی عمر میں سیکھتا ہےاسکے قرآن کریم جلدی بھول جاتا ہے ۔ہاں اگر وہ اسے( قرآن کریم کو پڑھنا) ترک نہ کرے (مسلسل دوہرائی کرتا رہے ) تو اسکے لئے دوگنا اجر ہے "
میزان الاعتدال،ذکر عمر بن طلحہ بن علقمہ بن وقاص،جز ۵ صفحہ ۲۵۱
"جو شخص کم عمری میں قرآن کریم سیکھتاہے تو وہ (جزو بدن بن کر) گویا اس کے گوشت پوست اور خون میں رچ بس جاتا ہے اور جو بڑی عمر میں سیکھتا ہےاسکے قرآن کریم جلدی بھول جاتا ہے ۔ہاں اگر وہ اسے( قرآن کریم کو پڑھنا) ترک نہ کرے (مسلسل دوہرائی کرتا رہے ) تو اسکے لئے دوگنا اجر ہے "
میزان الاعتدال،ذکر عمر بن طلحہ بن علقمہ بن وقاص،جز ۵ صفحہ ۲۵۱
۳:سیرت خیر البشرؐ
از
حضرت مولانا محمد علی ؒ
دشمنوں سے فیاضی
"دشمنوں تک سے آپ ؐ اس قدر فیاضی سے پیش آتے کہ اس کی نظیر دوسرے انسان کی زندگی میں نہیں مل سکتی ۔ عبداللہ بن ابی جس کی ساری عمر آپ ؐ سےسخت عداوت رکھنے میں کٹی اور بارہا یہودیوں کو اور کفار کو مسلمانوں کے خلاف اکساتا رہا جب وہ فوت ہوا تو آپؐ نے اپنی قمیص عطا کی جسکا اسے کفن پہنایا گیا۔
مکہ کے خطرناک دشمن جنھوں نے ایسے ایسے ظلم مسلمانوں پر اور خود آپؐ پر کئے تھے جن کو سن کر رونگٹے کھڑ ہوتے ہیں جب آپ آخر کار ان پر فتح حاصل کرتے ہیں تو انکے قصور پر انکو ملامت تک بھی نہیں کرتے۔ایسے حالات میں کوئی دوسرا فاتح ہوتا تو عبرت ناک سزا اہل مکہ کو دیتا ۔مگر بیس سال کے لگاتار مظالم کو ،ہاں ان منصوبوں کو جو اسلام کو نیست و نابود کرنے کےلئے کئے گئے بغیر کسی درخواست کے معاف کر دیا ۔
دشمنوں کے چھ چھ ہزار قیدی بعض وقت صرف انکی درخواست پر آزاد کر دئیے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ آپ ؐ نے اپنی ذات کے متعلق کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ہاں ایسے لوگوں کو بعض وقت سزائیں بھی دیں جنھوں نے غداری کر کے اسلام کو نیست و نابود کرنا چاہا تھا ۔ جہاں عفو سے اصلاح ہوتی وہاں آپؐ عفو کرتے لیکن جہاں سزا کی ضرورت ہوتی وہاں سزا بھی دیتے ۔ان شریروں کو جو شرارت سے باز نہ آتے تھے سزا نہ دینا بدی کی اعانت کرنا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فیاضی بلاتفریق قوم و ملت کام کرتی تھی ۔ ایک عیسائی ایک یہودی ایک مشرک سے آپؐ اسی طرح فیاضی کا اظہار کرتے جسطرح ایک مسلمان سے ۔مسلمانوں کی خیرات کو آپ ؐ نے مسلمانوں محدود نہیں رکھا"
دشمنوں سے فیاضی
"دشمنوں تک سے آپ ؐ اس قدر فیاضی سے پیش آتے کہ اس کی نظیر دوسرے انسان کی زندگی میں نہیں مل سکتی ۔ عبداللہ بن ابی جس کی ساری عمر آپ ؐ سےسخت عداوت رکھنے میں کٹی اور بارہا یہودیوں کو اور کفار کو مسلمانوں کے خلاف اکساتا رہا جب وہ فوت ہوا تو آپؐ نے اپنی قمیص عطا کی جسکا اسے کفن پہنایا گیا۔
مکہ کے خطرناک دشمن جنھوں نے ایسے ایسے ظلم مسلمانوں پر اور خود آپؐ پر کئے تھے جن کو سن کر رونگٹے کھڑ ہوتے ہیں جب آپ آخر کار ان پر فتح حاصل کرتے ہیں تو انکے قصور پر انکو ملامت تک بھی نہیں کرتے۔ایسے حالات میں کوئی دوسرا فاتح ہوتا تو عبرت ناک سزا اہل مکہ کو دیتا ۔مگر بیس سال کے لگاتار مظالم کو ،ہاں ان منصوبوں کو جو اسلام کو نیست و نابود کرنے کےلئے کئے گئے بغیر کسی درخواست کے معاف کر دیا ۔
دشمنوں کے چھ چھ ہزار قیدی بعض وقت صرف انکی درخواست پر آزاد کر دئیے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ آپ ؐ نے اپنی ذات کے متعلق کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ہاں ایسے لوگوں کو بعض وقت سزائیں بھی دیں جنھوں نے غداری کر کے اسلام کو نیست و نابود کرنا چاہا تھا ۔ جہاں عفو سے اصلاح ہوتی وہاں آپؐ عفو کرتے لیکن جہاں سزا کی ضرورت ہوتی وہاں سزا بھی دیتے ۔ان شریروں کو جو شرارت سے باز نہ آتے تھے سزا نہ دینا بدی کی اعانت کرنا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فیاضی بلاتفریق قوم و ملت کام کرتی تھی ۔ ایک عیسائی ایک یہودی ایک مشرک سے آپؐ اسی طرح فیاضی کا اظہار کرتے جسطرح ایک مسلمان سے ۔مسلمانوں کی خیرات کو آپ ؐ نے مسلمانوں محدود نہیں رکھا"
کتاب سیرت خیرالبشرؐ، صفحات ۱۸۶۔ ۱۸۷
۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ
سو اے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔ سو اپنی پنج وقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو اور اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو ۔ہر ایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے .
نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہو کر ترک کرو یقیناًیاد رکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہے ہر ایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہو گی وہ عمل بھی ضائع نہیں ہوگا
ضرور ہے کہ انواع رنج و مصیبت سے تمہارا امتحان بھی ہو جیسا کہ پہلے مومنوں کے امتحان ہوئے سو خبردار رہو ایسا نہ ہو کہ ٹھوکر کھاؤ زمین تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی اگر تمہارا آسمان سے پختہ تعلق ہے جب کبھی تم اپنا نقصان کرو گے تو اپنے ہاتھوں سے نہ دشمن کے ہاتھوں سے۔ اگر تمہاری زمینی عزت ساری جاتی رہے تو خدا تمہیں ایک لازوال عزت آسمان پر دے گا سو تم اس کو مت چھوڑو اور ضرور ہے کہ تم دکھ دئے جاؤ اور اپنی کئی امیدوں سے بے نصیب کئے جاؤ۔ سو اِن صورتوں سے تم دلگیر مت ہو کیونکہ تمہارا خدا تمہیں آزماتا ہے کہ تم اس کی راہ میں ثابت قدم ہو یا نہیں اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان پر فرشتے بھی تمہاری تعریف کریں تو تم ماریں کھاؤ اور خوش رہو اور گالیاں سنو اور شکر کرو اور ناکامیاں دیکھو اور پیوند مت توڑو ۔
تم خدا کی آخری جماعت ہو سو وہ عمل نیک دکھلاؤ جو اپنے کمال میں انتہائی درجہ پر ہو۔ ہر ایک جو تم میں سست ہوجائے گا وہ ایک گندی چیز کی طرح جماعت سے باہر پھینک دیا جائے گا اور حسرت سے مرے گا اور خدا کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا دیکھو مَیں بہت خوشی سے خبر دیتا ہوں کہ تمہارا خدا درحقیقت موجود ہے اگرچہ سب اُسی کی مخلوق ہے لیکن وہ اُس شخص کو چن لیتا ہے جو اُس کو چنتا ہے وہ اُس کے پاس آ جاتا ہے جو اُس کے پاس جاتا ہے جو اُس کو عزت دیتا ہے وہ اس کو بھی عزت دیتا ہے۔ تم اپنے دلوں کو سیدھے کر کے اور زبانوں اور آنکھوں اور کانوں کو پاک کر کے اس کی طرف آجاؤکہؔ وہ تمہیں قبول کرے گا۔
کشتی نوح،روحانی خزائن،جلد ۱۹،صفحہ۱۵
سو اے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔ سو اپنی پنج وقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو اور اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو ۔ہر ایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے .
نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہو کر ترک کرو یقیناًیاد رکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہے ہر ایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہو گی وہ عمل بھی ضائع نہیں ہوگا
ضرور ہے کہ انواع رنج و مصیبت سے تمہارا امتحان بھی ہو جیسا کہ پہلے مومنوں کے امتحان ہوئے سو خبردار رہو ایسا نہ ہو کہ ٹھوکر کھاؤ زمین تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی اگر تمہارا آسمان سے پختہ تعلق ہے جب کبھی تم اپنا نقصان کرو گے تو اپنے ہاتھوں سے نہ دشمن کے ہاتھوں سے۔ اگر تمہاری زمینی عزت ساری جاتی رہے تو خدا تمہیں ایک لازوال عزت آسمان پر دے گا سو تم اس کو مت چھوڑو اور ضرور ہے کہ تم دکھ دئے جاؤ اور اپنی کئی امیدوں سے بے نصیب کئے جاؤ۔ سو اِن صورتوں سے تم دلگیر مت ہو کیونکہ تمہارا خدا تمہیں آزماتا ہے کہ تم اس کی راہ میں ثابت قدم ہو یا نہیں اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان پر فرشتے بھی تمہاری تعریف کریں تو تم ماریں کھاؤ اور خوش رہو اور گالیاں سنو اور شکر کرو اور ناکامیاں دیکھو اور پیوند مت توڑو ۔
تم خدا کی آخری جماعت ہو سو وہ عمل نیک دکھلاؤ جو اپنے کمال میں انتہائی درجہ پر ہو۔ ہر ایک جو تم میں سست ہوجائے گا وہ ایک گندی چیز کی طرح جماعت سے باہر پھینک دیا جائے گا اور حسرت سے مرے گا اور خدا کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا دیکھو مَیں بہت خوشی سے خبر دیتا ہوں کہ تمہارا خدا درحقیقت موجود ہے اگرچہ سب اُسی کی مخلوق ہے لیکن وہ اُس شخص کو چن لیتا ہے جو اُس کو چنتا ہے وہ اُس کے پاس آ جاتا ہے جو اُس کے پاس جاتا ہے جو اُس کو عزت دیتا ہے وہ اس کو بھی عزت دیتا ہے۔ تم اپنے دلوں کو سیدھے کر کے اور زبانوں اور آنکھوں اور کانوں کو پاک کر کے اس کی طرف آجاؤکہؔ وہ تمہیں قبول کرے گا۔
کشتی نوح،روحانی خزائن،جلد ۱۹،صفحہ۱۵
۵:دینی مسائل اور انکا حل
مسجد کےلئے چندہ
کہیں سے خط آیا کہ ہم ایک مسجد بنانا چاہتے ہیں اور تبرکاً آپ سے بھی چندہ چاہتے ہیں ۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایاکہ
"ہم تو دے سکتے ہیں اور یہ کچھ بڑی بات نہیں مگر جبکہ خود ہمارے ہاں بڑے بڑے اہم اور ضروری سلسلے خرچ کے موجود ہیں جن کے مقابل میں اس قسم کے خرچوں میں شامل ہونا اسراف معلوم ہوتا ہے تو ہم کسطرح سے شامل ہوں ۔یہاں جو مسجد خدا بنا رہا ہے اور وہی مسجد اقصی ہے ۔وہ سب سے مقدم ہے ۔اب لوگوں کو چاہیے کہ اس کے واسطے روپیہ بھیج کر ثواب میں شامل ہوں ۔
ہمارا دوست وہ ہے جو ہماری بات کو مانےنہ وہ کہ جو اپنی بات کو مقدم رکھے
حضرت امام ابوحنیفہؒ کے پاس ایک شخص آیاکہ ہم مسجد بنانے لگے ہیں آپ بھی اس میں کچھ چندہ دیں انہوں نے عذر کیا کہ میں اس میں کچھ نہیں دے سکتا۔حالانکہ وہ چاہتے تو بہت کچھ دیتے ۔ اس شخص نے کہا کہ ہم آپ سے بہت نہیں مانگتے صرف تبرکاً کچھ دے دیجیے۔ آخر انھوں نے ایک دو آنے کے قریب سکہ دیا۔شام کے وقت وہ شخص دو آنے لیکر واپس آیا اور کہنے لگا کہ حضرت یہ تو کھوٹے نکلےہیں ۔وہ بہت ہی خوش ہوئے اور فرمایا : خوب ہوا ۔دراصل میرا جی نہیں چاہتا تھا کہ میں کچھ دوں ۔مسجدیں بہت ہیں اور مجھے اس میں اسراف نظر آتاہے "
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒہمارا دوست وہ ہے جو ہماری بات کو مانےنہ وہ کہ جو اپنی بات کو مقدم رکھے
حضرت امام ابوحنیفہؒ کے پاس ایک شخص آیاکہ ہم مسجد بنانے لگے ہیں آپ بھی اس میں کچھ چندہ دیں انہوں نے عذر کیا کہ میں اس میں کچھ نہیں دے سکتا۔حالانکہ وہ چاہتے تو بہت کچھ دیتے ۔ اس شخص نے کہا کہ ہم آپ سے بہت نہیں مانگتے صرف تبرکاً کچھ دے دیجیے۔ آخر انھوں نے ایک دو آنے کے قریب سکہ دیا۔شام کے وقت وہ شخص دو آنے لیکر واپس آیا اور کہنے لگا کہ حضرت یہ تو کھوٹے نکلےہیں ۔وہ بہت ہی خوش ہوئے اور فرمایا : خوب ہوا ۔دراصل میرا جی نہیں چاہتا تھا کہ میں کچھ دوں ۔مسجدیں بہت ہیں اور مجھے اس میں اسراف نظر آتاہے "
الحکم،۲۴ مئی ۱۹۰۱ ء،صفحہ ۹
۶:پیغامِ امیر قومؒ
حضرت مولانا محمد علیؒ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا زبردست ایمان اور ایک پادری کی شہادت
"جن لوگوں نے حضرت صاحب(مرزا غلام احمد قادیانیؒ،ناقل) کا زمانہ دیکھا ہے یا جنھوں نے تاریخی طور پر انکی زندگی کا مطالعہ کیا ہے وہ آپ ؒ کی زندگی میں ایک اصولی با ت یہ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آپکے قلب میں اسقدر زبردست ایمان پیدا کیا تھا کہ ساری دنیا کی کسی مخالفت نے، کسی مشکل نے، کسی قسم کی تنگی اور زبردست سے زبردست دشمنی نے اس ایمان کو کبھی ایک لمحہ کےلئے بھی متزلزل نہیں ہونے دیا
ایک پادری نے آپ ؒ کی ایک سوانح لکھی ہے (یہ کتاب میرے پاس تھی لیکن وہ ڈلہوزی کے کتب خانہ میں جل گئی ہے) اس پادری کا نام والٹر تھا۔اس نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے ۔ مصنف دشمن ہے، مخالف ہے لیکن اس حقیقت کو دیکھ کر وہ بھی ششدر رہ گیا ہے کہ کس طرح پر جب چاروں طرف سے مخالفت کے بادل اٹھے ہوئے تھے اور تاریکیاں چار سو پھیلی ہوئی تھیں اور ایک قوم مقابلہ میں کھڑی تھی یہاں تک کہ مسلمان بھی مخالفین کے ساتھ ملکر تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے تھے ، آپ ؒ ایک پہاڑ کیطرح اپنی جگہ پر کھڑے تھے اور مخالفت کی انتہا کے وقت بھی آپ کے پائے ثبات میں جنبش نہیں آئی ۔
آخر غور کیجئے کہ جس اکیلے شخص نے دنیا کے خیالات کو باوجود انتہا درجہ کی مخالفت کے پلٹ کر رکھ دیا کیا وہ انسانی قوت تھی جو اس میں کام کرتی تھی؟ وہ خیالات جو عام طور پر مرزا صاحبؒ کے زمانہ میں پھیلے ہوئے تھے آج اگر کہیں ہیں تو دلوں کے کسی کونہ میں اسقدر دبے ہوئےہیں کہ انکا نشان نظر نہیں آتا "
ایک پادری نے آپ ؒ کی ایک سوانح لکھی ہے (یہ کتاب میرے پاس تھی لیکن وہ ڈلہوزی کے کتب خانہ میں جل گئی ہے) اس پادری کا نام والٹر تھا۔اس نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے ۔ مصنف دشمن ہے، مخالف ہے لیکن اس حقیقت کو دیکھ کر وہ بھی ششدر رہ گیا ہے کہ کس طرح پر جب چاروں طرف سے مخالفت کے بادل اٹھے ہوئے تھے اور تاریکیاں چار سو پھیلی ہوئی تھیں اور ایک قوم مقابلہ میں کھڑی تھی یہاں تک کہ مسلمان بھی مخالفین کے ساتھ ملکر تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے تھے ، آپ ؒ ایک پہاڑ کیطرح اپنی جگہ پر کھڑے تھے اور مخالفت کی انتہا کے وقت بھی آپ کے پائے ثبات میں جنبش نہیں آئی ۔
آخر غور کیجئے کہ جس اکیلے شخص نے دنیا کے خیالات کو باوجود انتہا درجہ کی مخالفت کے پلٹ کر رکھ دیا کیا وہ انسانی قوت تھی جو اس میں کام کرتی تھی؟ وہ خیالات جو عام طور پر مرزا صاحبؒ کے زمانہ میں پھیلے ہوئے تھے آج اگر کہیں ہیں تو دلوں کے کسی کونہ میں اسقدر دبے ہوئےہیں کہ انکا نشان نظر نہیں آتا "
خطبات مولانا محمد علیؒ ،جلد ۲۴ ، صفحہ ۱۔۲
ایک ضروری تجویز
بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ مزید جن احباب تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
مرکز (لاہور)
No comments :
Post a Comment