روزنامہ مبلغ (آنلائن)
بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت
حضرت مولانا محمد علیؒ
بدھ۔۲۱ اگست۲۰۱۴ء
۲۴شوال ۱۴۳۵ ہجری
شمارہ نمبر:9
Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com
۱:کلامِ الٰہی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ ۖ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
5:المائدہ:67
ترجمہ:
تفسیر:
تبلیغ حق اور عصمت کا تعلق
جب یہود و نصاریٰ کی عداوت و استہزا کا ذکرکیا کہ ان میں سے میانہ روی تھوڑوں میں پائی جاتی ہے اور اکثر کی حالت بہت بری ہے تو اب فرماتا ہے کہ تمھارا کام پیغام کا پہنچا دینا ہے ۔اگر کسی قوم کے غلبہ کی وجہ سے یا انکے دنیوی جاہ و جلال سے ڈر کر ایک پیغام کو نہ پہنچاو گے تو تم نے کسی پیغام کو بھی نہیں پہنچایا۔
رسول میں اسکے پیرو بھی شامل ہیں جو اسکے بعد اسکے پیغام کو دنیامیں پہنچانے والے قرار پائے ۔ہاں ایسے حالات میں جب چاروں طرف دشمن ہی دشمن ہوں تو اسکا پیغام پہنچانا جو سب کی غلطیوں کو دور کرتا ہے سب پر مہین ہے ،سب کو اپنا دشمن بنا لینا ہے ۔ اس لئے ساتھ ہی یہ وعدہ دیا کہ ان دشمنوں سے اللہ تعالیٰ آپؐ کو اور آپکے دین کو محفوظ رکھے گا۔اور ضمناً اس میں آنحضرت صلعم کی عصمت کو بھی بیان کر دیا ۔ اور فی الحقیقت اس عصمت کا اور دشمنوں کے شر سے بچانے کا بڑا تعلق بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جب انبیاء کو ایک صفا جوہر سے بناتا ہے تو وہ غرض جس کےلئے وہ ایسا کرتا ہے پوری نہیں ہوتی اگر وہ انکو دشمنوں کی شرارتوں اور منصوبوں سے محفوظ نہ رکھے ۔یہاں تک کہ وہ اپنا پیغام پورے طور پر دنیا میں پہنچا دیں ۔
پس عصمت حقیقی اور عصمت ظاہری ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، اور یہاں دونوں مراد ہیں ۔بعض لوگوں نے صرف عصمت ظاہری یعنی دشمنوں سے بچانا مراد لیا ہے اور بعض نے صرف عصمت باطنی یعنی صدور ذنب سے محفوظ رکھنا ۔مگر حق یہ ہے کہ یہ الفاظ دونوں قسم کی عصمت پر حاوی ہیں
یہ اسکی مثل ہی نہیں اس سے بدتر ہے جو عیسائی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب سے شرک، بت پرستی، شرابخوری، زنا، باہم جنگ و جدل سب کچھ چھڑا لیا مگر خانہ کعبہ کی عظمت کو نہ چھڑا سکتے تھے ۔
اس موقع پر حضرت ابوھریرہؓ کی روایت بیان کی جاتی ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دو علم محفوظ کئے ۔ایک کو تو میں نے پھیلا دیا اور دوسرے کا نام لوں تو یہ میری گردن کاٹی جاتی ہے تو اس سے یہ ہر گز مراد نہیں کہ علم دین کا کوئی حصہ ایسا تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں تک نہ پہنچایا تھا ،اور چھپا کر ابوھریرہؓ سے ذکر کر دیا تھا ۔
یہ خیال کم فہمی سے پیدا ہوا ہے ۔سارے کا سارا علم دین قرآن و حدیث میں موجود ہے ۔حضرت ابو ھریرہؓ کا منشاء صرف احادیث فتن سے تھا جو اس زمانہ سے تعلق رکھتی تھیں ۔چانچہ اس کے مطابق ان کی دوسری حدیث ہے جس میں یہ لفظ آتے ہیں کہ میں ساٹھویں سال اور لڑکوں کی امارت سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں اور یہی وہ سال تھا جس میں یزید کو بادشاہت ملی اور دین میں فساد اسی سے شروع ہوتا ہے تو چونکہ یہ احادیث دین میں داخل نہ تھیں ،صرف واقعات کی خبریں تھیں اس لئے حضرت ابو ھریرہؓ انکو عام طور پر بیان نہ کرتے تھے ۔
رہا کتمان ہدایت یعنی دین کے کسی حصہ کا نہ پہنچانا اس میں سخت وعید ہے جو خود قرآن شریف میں موجود ہے
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ (2:البقرة:159)
ترجمہ: جو لوگ اس کو چھپاتے ہیں جو ہم نے کھلی باتوں اور ہدایت سے اتارا ہے اسکےبعد کہ ہم نے اسے لوگوں کےلئے کھول کر کتاب میں بیان کر دیا یہی ہیں کہ اللہ ان پر لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں
جب یہود و نصاریٰ کی عداوت و استہزا کا ذکرکیا کہ ان میں سے میانہ روی تھوڑوں میں پائی جاتی ہے اور اکثر کی حالت بہت بری ہے تو اب فرماتا ہے کہ تمھارا کام پیغام کا پہنچا دینا ہے ۔اگر کسی قوم کے غلبہ کی وجہ سے یا انکے دنیوی جاہ و جلال سے ڈر کر ایک پیغام کو نہ پہنچاو گے تو تم نے کسی پیغام کو بھی نہیں پہنچایا۔
رسول میں اسکے پیرو بھی شامل ہیں جو اسکے بعد اسکے پیغام کو دنیامیں پہنچانے والے قرار پائے ۔ہاں ایسے حالات میں جب چاروں طرف دشمن ہی دشمن ہوں تو اسکا پیغام پہنچانا جو سب کی غلطیوں کو دور کرتا ہے سب پر مہین ہے ،سب کو اپنا دشمن بنا لینا ہے ۔ اس لئے ساتھ ہی یہ وعدہ دیا کہ ان دشمنوں سے اللہ تعالیٰ آپؐ کو اور آپکے دین کو محفوظ رکھے گا۔اور ضمناً اس میں آنحضرت صلعم کی عصمت کو بھی بیان کر دیا ۔ اور فی الحقیقت اس عصمت کا اور دشمنوں کے شر سے بچانے کا بڑا تعلق بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جب انبیاء کو ایک صفا جوہر سے بناتا ہے تو وہ غرض جس کےلئے وہ ایسا کرتا ہے پوری نہیں ہوتی اگر وہ انکو دشمنوں کی شرارتوں اور منصوبوں سے محفوظ نہ رکھے ۔یہاں تک کہ وہ اپنا پیغام پورے طور پر دنیا میں پہنچا دیں ۔
پس عصمت حقیقی اور عصمت ظاہری ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، اور یہاں دونوں مراد ہیں ۔بعض لوگوں نے صرف عصمت ظاہری یعنی دشمنوں سے بچانا مراد لیا ہے اور بعض نے صرف عصمت باطنی یعنی صدور ذنب سے محفوظ رکھنا ۔مگر حق یہ ہے کہ یہ الفاظ دونوں قسم کی عصمت پر حاوی ہیں
اہل تشیع کے خیال کا رد
اہل تشیع کا یہ خیال کہ اس آیت میں تبلیغ سے مراد حضرت علیؓ کی خلافت کی تبلیغ ہے ،الفاظ کے ساتھ ہنسی ہے ۔ما انزال الیک سے مراد گویا پیغام توحید اور نیکی کی دعوت نہیں بلکہ حضرت علی ؓ کو عرب کی بادشاہت کا مل جانا ہے اور یہ کہنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علیؓ کی خلافت کا ذکر کرنے سے ڈرتے تھے کہ صحابہؓ مخالف ہو جائیں گے ،بدترین حملہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا جا سکتا ہے ۔ یہ اسکی مثل ہی نہیں اس سے بدتر ہے جو عیسائی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب سے شرک، بت پرستی، شرابخوری، زنا، باہم جنگ و جدل سب کچھ چھڑا لیا مگر خانہ کعبہ کی عظمت کو نہ چھڑا سکتے تھے ۔
اس موقع پر حضرت ابوھریرہؓ کی روایت بیان کی جاتی ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دو علم محفوظ کئے ۔ایک کو تو میں نے پھیلا دیا اور دوسرے کا نام لوں تو یہ میری گردن کاٹی جاتی ہے تو اس سے یہ ہر گز مراد نہیں کہ علم دین کا کوئی حصہ ایسا تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں تک نہ پہنچایا تھا ،اور چھپا کر ابوھریرہؓ سے ذکر کر دیا تھا ۔
یہ خیال کم فہمی سے پیدا ہوا ہے ۔سارے کا سارا علم دین قرآن و حدیث میں موجود ہے ۔حضرت ابو ھریرہؓ کا منشاء صرف احادیث فتن سے تھا جو اس زمانہ سے تعلق رکھتی تھیں ۔چانچہ اس کے مطابق ان کی دوسری حدیث ہے جس میں یہ لفظ آتے ہیں کہ میں ساٹھویں سال اور لڑکوں کی امارت سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں اور یہی وہ سال تھا جس میں یزید کو بادشاہت ملی اور دین میں فساد اسی سے شروع ہوتا ہے تو چونکہ یہ احادیث دین میں داخل نہ تھیں ،صرف واقعات کی خبریں تھیں اس لئے حضرت ابو ھریرہؓ انکو عام طور پر بیان نہ کرتے تھے ۔
رہا کتمان ہدایت یعنی دین کے کسی حصہ کا نہ پہنچانا اس میں سخت وعید ہے جو خود قرآن شریف میں موجود ہے
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ (2:البقرة:159)
ترجمہ: جو لوگ اس کو چھپاتے ہیں جو ہم نے کھلی باتوں اور ہدایت سے اتارا ہے اسکےبعد کہ ہم نے اسے لوگوں کےلئے کھول کر کتاب میں بیان کر دیا یہی ہیں کہ اللہ ان پر لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں
پس نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کا کوئی حصہ چھپایا، نہ ابو ھریرہؓ نے۔(معاذاللہ،ناقل)
یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعداءمکہ کی نسبت بہت زیادہ ہو گئے تھے ۔وہاں صرف قریش تھے۔یہاں ایک گروہ منافقوں کا، ایک یہود کا، ایک عیسائیوں کا۔ پھر سب قبال عرب خلاف اٹھ کھڑ ے ہوئے تھے اور قریش نے اب اپنی ساری طاقت کو اکٹھا کر کے مسلمانوں کو تباہ کرنے کی ٹھان لی تھی اس لئے وعدہ حفاظت کی خاص ضرورت ہوئی اور اس قدر دشمنوں میں جو شب روز آپ ؐ کی جان کے درپے تھے آپ کا بچ رہنا ایک عظیم الشان معجزہ ہے ۔
اور چونکہ اس رکوع میں عیسائیوں کے غلو کا خاص رد ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ مخالفت دین اسلام کی اس قوم کی طرف سے ہونے والی تھی اور یہی سب سے بڑے دشمن عصمت انبیاء کے بن جانے تھے اس لئے انکے غلو کا ذکر کرنے سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عصمت کا ذکر کیا۔ تا ان پراتمام حجت ہو اور تا مسلمان انکی مخالفت سے گھبرائیں نہیں ۔
بیان القرآن ، اردو ترجمہ و تفسیر از حضرت امیرقوم مولانا محمدعلیؒ
۲:حدیثِ نبویؐ
محبتِ حسنؓ و حسینؓحضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسنؓ اور حسینؓ کے بارے میں فرماتے تھے
یہ میرے بیٹے ہیں اور میرے نواسے ہیں ۔ائے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں۔ تو بھی ان سے محبت کراور ان سے بھی محبت کر جو ان دونوں سے محبت کرتےہیں
جامع ترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب الحسن حدیث نمبر 3702
۳:سیرت خیر البشرؐ
از
حضرت مولانا محمد علی ؒ
حبیبِ خدا حضرت محمدؐ کی شجاعت
"فروتنی اور حلم کی صفات بھی آپ ؐ میں کمال کو پہنچی ہوئی تھیں مگر باوجود اسکے شجاع تھے۔دشمن کا خوف کبھی آپ ؐ کے دل میں جاں گزین نہیں ہوا ۔جب مکہ میں آپؐ کو قتل کرنے کے منصوبے ہوتے تھے تب بھی آپ ؐ اسی آزادی سے دن کو اور رات کی تاریکی میں باہرنکلتے تھے ۔مکہ سے سب دوستوں کو رخصت کر دیا اور آپؐ دشمنوں کے اندر اکیلے رہے ۔غار ثور میں جب دشمن سر پر تھا تب بھی آپ ؐ کے منہ سے یہ کلمہ نکلا لاتحزن غم کی کوئی بات نہیں ۔
میدان جنگ میں جب ساری فوج نرغہ میں آگئی تو آپ ؐ نے نہایت درجہ کی شجاعت سے آوازدے کر سب کو اکٹھا کر لیا ۔ایک اور موقع پر جب فوج بھاگ نکلی تو آپؐ اکیلے دشمن کی طرف بڑھ رہے تھے اور بلند آواز سے کہہ رہے تھے کہ میں رسول اللہ ہوں۔
ڈاکہ کا خطرہ ہوا تو آپؐ سب سے پہلے زین کے گھوڑے پر بیٹھ کر پتہ لانے کےلئے باہرنکل گئے ۔
کسی سفر میں اکیلے درخت کے نیچے لیٹے ہوئے تھے کہ ایک دشمن سر پر آ پہنچا اور تلوار کھینچ کر اور آپ ؐ کو جگا کر کہا کہ ا ب کون تم کو میرے ہاتھ سے بچا سکتا ہے ۔آپؐ ذرہ بھر نہیں گھبرائےاور فرمایا خدا۔قدرت کی بات کہ تلوار اسکے ہاتھ سے گر پڑی تب آپؐ اسی تلوار کو اٹھا کر اس سے وہی دریافت کرتےہیں تو وہ عاجزی کا اظہار کرتا ہے آپ ؐ اسے اپنی حالت پر چھوڑ دیتے ہیں "
حبیبِ خدا حضرت محمدؐ کی شجاعت
"فروتنی اور حلم کی صفات بھی آپ ؐ میں کمال کو پہنچی ہوئی تھیں مگر باوجود اسکے شجاع تھے۔دشمن کا خوف کبھی آپ ؐ کے دل میں جاں گزین نہیں ہوا ۔جب مکہ میں آپؐ کو قتل کرنے کے منصوبے ہوتے تھے تب بھی آپ ؐ اسی آزادی سے دن کو اور رات کی تاریکی میں باہرنکلتے تھے ۔مکہ سے سب دوستوں کو رخصت کر دیا اور آپؐ دشمنوں کے اندر اکیلے رہے ۔غار ثور میں جب دشمن سر پر تھا تب بھی آپ ؐ کے منہ سے یہ کلمہ نکلا لاتحزن غم کی کوئی بات نہیں ۔
میدان جنگ میں جب ساری فوج نرغہ میں آگئی تو آپ ؐ نے نہایت درجہ کی شجاعت سے آوازدے کر سب کو اکٹھا کر لیا ۔ایک اور موقع پر جب فوج بھاگ نکلی تو آپؐ اکیلے دشمن کی طرف بڑھ رہے تھے اور بلند آواز سے کہہ رہے تھے کہ میں رسول اللہ ہوں۔
ڈاکہ کا خطرہ ہوا تو آپؐ سب سے پہلے زین کے گھوڑے پر بیٹھ کر پتہ لانے کےلئے باہرنکل گئے ۔
کسی سفر میں اکیلے درخت کے نیچے لیٹے ہوئے تھے کہ ایک دشمن سر پر آ پہنچا اور تلوار کھینچ کر اور آپ ؐ کو جگا کر کہا کہ ا ب کون تم کو میرے ہاتھ سے بچا سکتا ہے ۔آپؐ ذرہ بھر نہیں گھبرائےاور فرمایا خدا۔قدرت کی بات کہ تلوار اسکے ہاتھ سے گر پڑی تب آپؐ اسی تلوار کو اٹھا کر اس سے وہی دریافت کرتےہیں تو وہ عاجزی کا اظہار کرتا ہے آپ ؐ اسے اپنی حالت پر چھوڑ دیتے ہیں "
کتاب سیرت خیرالبشرؐ، صفحہ۱۹۲
۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ
" سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل کرو تا تم بخشے جاو"
"توکل کا مقام ہر ایک مقام سے بڑھ کر ہے "
تم ریاکاری کے ساتھ اپنے تئیں بچا نہیں سکتے کیونکہ وہ خدا جو تمہارا خدا ہے اس کی انسان کے پاتال تک نظر ہے کیا تم اس کو دھوکا دے سکتے ہو پس تم سیدھے ہو جاؤ اور صاف ہو جاؤ اور پاک ہو جاؤ اور کھرے ہو جاؤ اگر ایک ذرہ تیرگی تم میں باقی ہے تو وہ تمہاری ساری روشنی کو دور کر دے گی۔
اور ؔ اگر تمہارے کسی پہلو میں تکبر ہے یا ریا ہے یا خود پسندی ہے یا کسل ہے تو تم ایسی چیز نہیں ہو کہ جو قبول کے لائق ہو ایسا نہ ہو کہ تم صرف چند باتوں کو لے کر اپنے تئیں دھوکہ دو کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا کر لیا ہے کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا
تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل کرو تا تم بخشے جاؤ۔ نفسانیت کی فربہی چھوڑ دو کہ جس دروازے کے لئے تم بلائے گئے ہو اس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہو سکتا۔ کیا ہی بدقسمت وہ شخص ہے جو ان باتوں کو نہیں مانتا جو خدا کے منہ سے نکلیں اور میں نے بیان کیں۔
تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم باہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی۔تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے اور بدبخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہیں بخشتا سو اس کا مجھ میں حصہ نہیں۔
خدا کی لعنت سے بہت خائف رہو کہ وہ قدوس اور غیور ہے بدکار خدا کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔ متکبر اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔ ظالم اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا خائن اُس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔ اور ہر ایک جو اس کے نام کیلئے غیرت مند نہیں اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔
وہ جو دنیا پر کتوں یا چیونٹیوں یا ِ گدّوں کی طرح گرتے ہیں اور دنیا سے آرام یافتہ ہیں وہ اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتے ہر ایک ناپاک آنکھ اس سے دورہے ہر ایک ناپاک دل اس سے بے خبر ہے وہ جو اس کے لئے آگ میں ہے وہ آگ سے نجات دیا جائے گا وہ جو اس کے لئے روتا ہے وہ ہنسے گا۔ وہ جو اس کے لئے دنیا سے توڑتا ہے وہ اس کو ملے گا تم سچے دل سے اور پورے صدق سے اور سرگرمی کے قدم سے خدا کے دوست بنو تا وہ بھی تمہارا دوست بن جائے۔
تم ماتحتوں پر اور اپنی بیویوں پر اور اپنے غریب بھائیوں پر رحم کرو تا آسمان پر تم پر بھی رحم ہو۔ تم سچ مچ اُس کے ہو جاؤ۔ تا وہ بھی تمہارا ہو جاوے۔ دنیا ہزاروں بلاؤں کی جگہ ہے جن میں سے ایک طاعون بھی ہے سو تم خدا سے صدق کے ساتھ پنجہ مارو تا وہ یہ بلائیں تم سے دور رکھے کوئی آفت زمین پر پیدا نہیں ہوتی جب تک آسمان سے حکم نہ ہو اور کوئی آفت دور نہیں ہوتی جب تک آسمان سے رحم نازل نہ ہو سو تمہاری عقلمندی اسی میں ہے کہ تم جڑ کو پکڑو نہ شاخ کو۔
تمہیں دوا اور تدبیر سے ممانعت نہیں ہے مگر اُن پر بھروسہ کرنے سے ممانعت ہے اور آخر وہی ہوگا جو خدا کا ارادہ ہوگا اگر کوئی طاقت رکھے تو توکّل کا مقام ہر ایک مقام سے بڑھ کر ہے۔
کشتی نوح،روحانی خزائن،جلد ۱۹،صفحہ۱۲
" سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل کرو تا تم بخشے جاو"
"توکل کا مقام ہر ایک مقام سے بڑھ کر ہے "
تم ریاکاری کے ساتھ اپنے تئیں بچا نہیں سکتے کیونکہ وہ خدا جو تمہارا خدا ہے اس کی انسان کے پاتال تک نظر ہے کیا تم اس کو دھوکا دے سکتے ہو پس تم سیدھے ہو جاؤ اور صاف ہو جاؤ اور پاک ہو جاؤ اور کھرے ہو جاؤ اگر ایک ذرہ تیرگی تم میں باقی ہے تو وہ تمہاری ساری روشنی کو دور کر دے گی۔
اور ؔ اگر تمہارے کسی پہلو میں تکبر ہے یا ریا ہے یا خود پسندی ہے یا کسل ہے تو تم ایسی چیز نہیں ہو کہ جو قبول کے لائق ہو ایسا نہ ہو کہ تم صرف چند باتوں کو لے کر اپنے تئیں دھوکہ دو کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا کر لیا ہے کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا
تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل کرو تا تم بخشے جاؤ۔ نفسانیت کی فربہی چھوڑ دو کہ جس دروازے کے لئے تم بلائے گئے ہو اس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہو سکتا۔ کیا ہی بدقسمت وہ شخص ہے جو ان باتوں کو نہیں مانتا جو خدا کے منہ سے نکلیں اور میں نے بیان کیں۔
تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم باہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی۔تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے اور بدبخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہیں بخشتا سو اس کا مجھ میں حصہ نہیں۔
خدا کی لعنت سے بہت خائف رہو کہ وہ قدوس اور غیور ہے بدکار خدا کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔ متکبر اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔ ظالم اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا خائن اُس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔ اور ہر ایک جو اس کے نام کیلئے غیرت مند نہیں اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔
وہ جو دنیا پر کتوں یا چیونٹیوں یا ِ گدّوں کی طرح گرتے ہیں اور دنیا سے آرام یافتہ ہیں وہ اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتے ہر ایک ناپاک آنکھ اس سے دورہے ہر ایک ناپاک دل اس سے بے خبر ہے وہ جو اس کے لئے آگ میں ہے وہ آگ سے نجات دیا جائے گا وہ جو اس کے لئے روتا ہے وہ ہنسے گا۔ وہ جو اس کے لئے دنیا سے توڑتا ہے وہ اس کو ملے گا تم سچے دل سے اور پورے صدق سے اور سرگرمی کے قدم سے خدا کے دوست بنو تا وہ بھی تمہارا دوست بن جائے۔
تم ماتحتوں پر اور اپنی بیویوں پر اور اپنے غریب بھائیوں پر رحم کرو تا آسمان پر تم پر بھی رحم ہو۔ تم سچ مچ اُس کے ہو جاؤ۔ تا وہ بھی تمہارا ہو جاوے۔ دنیا ہزاروں بلاؤں کی جگہ ہے جن میں سے ایک طاعون بھی ہے سو تم خدا سے صدق کے ساتھ پنجہ مارو تا وہ یہ بلائیں تم سے دور رکھے کوئی آفت زمین پر پیدا نہیں ہوتی جب تک آسمان سے حکم نہ ہو اور کوئی آفت دور نہیں ہوتی جب تک آسمان سے رحم نازل نہ ہو سو تمہاری عقلمندی اسی میں ہے کہ تم جڑ کو پکڑو نہ شاخ کو۔
تمہیں دوا اور تدبیر سے ممانعت نہیں ہے مگر اُن پر بھروسہ کرنے سے ممانعت ہے اور آخر وہی ہوگا جو خدا کا ارادہ ہوگا اگر کوئی طاقت رکھے تو توکّل کا مقام ہر ایک مقام سے بڑھ کر ہے۔
۵:دینی مسائل اور انکا حل
از
حضرت مجدد و امام الزمان مرزا غلام احمد قادیانی ؒ
عظمتِ حدیث رسولؐ اور جماعت احمدیہ کا فرض
"میرا مذہب یہ ہے کہ حدیث کی بڑی تعظیم کرنی چاہیے کیونکہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہے ۔جب تک قرآن شریف سے متعارض نہ ہو تو مستحسن یہی ہے کہ اس پر عمل کیا جاوے ۔مگر نماز کے بعد دعا کے متعلق حدیث سے التزام ثابت نہیں ۔ہمارا تو یہ اصول ہے کہ ضعیف سے ضعیف حدیث پر بھی عمل کیا جاوے جو قرآن سے مخالف نہ ہو"
الحکم ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۲ء،صفحہ ۱
"ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن و سنت نہ ہو تو خواہ کیسی ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو۔اس پر عمل کریں اور انسان کی بنائے ہوئے فقہ پر اسکو ترجیح دیں ۔اور اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کر لیں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا تعالیٰ کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے ۔اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی صحیح فتوی نہ دے سکے تو اس صورت میں علماء اپنے خدا داد اجتہاد سے کام لیں لیکن ہوشیار رہیں کہ مولوی عبدا للہ چکڑ الوی کی طرح بے وجہ احادیث کا انکار نہ کریں ۔ہاں جہاں قرآن و سنت سے کسی حدیث کو معارض پاویں تو اس حدیث کو چھوڑ دی "
عظمتِ حدیث رسولؐ اور جماعت احمدیہ کا فرض
"میرا مذہب یہ ہے کہ حدیث کی بڑی تعظیم کرنی چاہیے کیونکہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہے ۔جب تک قرآن شریف سے متعارض نہ ہو تو مستحسن یہی ہے کہ اس پر عمل کیا جاوے ۔مگر نماز کے بعد دعا کے متعلق حدیث سے التزام ثابت نہیں ۔ہمارا تو یہ اصول ہے کہ ضعیف سے ضعیف حدیث پر بھی عمل کیا جاوے جو قرآن سے مخالف نہ ہو"
الحکم ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۲ء،صفحہ ۱
"ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن و سنت نہ ہو تو خواہ کیسی ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو۔اس پر عمل کریں اور انسان کی بنائے ہوئے فقہ پر اسکو ترجیح دیں ۔اور اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کر لیں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا تعالیٰ کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے ۔اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی صحیح فتوی نہ دے سکے تو اس صورت میں علماء اپنے خدا داد اجتہاد سے کام لیں لیکن ہوشیار رہیں کہ مولوی عبدا للہ چکڑ الوی کی طرح بے وجہ احادیث کا انکار نہ کریں ۔ہاں جہاں قرآن و سنت سے کسی حدیث کو معارض پاویں تو اس حدیث کو چھوڑ دی "
الحکم ۳۰ نومبر ۱۹۰۲ء، ص۹
۶:پیغامِ امیر قومؒ
۶:پیغامِ امیر قومؒ
حضرت مولانا محمد علیؒ
"آج میں اپنے تمام احباب کو توجہ دلاتاہوں کہ اپنے گھروں کو وہ گھر بناو جس کا نقشہ آیت فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ (النور: ۳۶)
میں کھینچا گیا ہے ۔ان میں خدا کا ذکر ہو۔میں اس سے پیشتر کئی ایک خطبوں میں توجہ دلا چکا ہوں میں نہیں جانتا اس پر عمل شروع ہوا ہے یا نہیں ۔چھوٹا یا بڑا امیر غریب تم میں سے ہر ایک صبح قرآن کریم کی تلاوت ضرور کرے ۔
میں نوجوانوں سے خاص کر درخواست کرتا ہوں کہ صبح شیو کرتے ہیں ۔ میں اس وقت یہ نہیں کہتا کہ ڈاڑھی مونڈھنا برا ہے یا اسکا رکھنا اچھا ہے ۔دین کی اہم ضرورت میں سے ہے یا نہیں ۔میں اس کا مرید ہوں جس نے ڈاڑھی منڈھوانے والے کو اپنے پاس بٹھانے والے پر اعتراض کرنے والے کو کہا تھا کہ آپ کو ڈاڑھیوں کی فکر ہے اور مجھے دلوں کی فکر ہے ۔ہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ آپ جتنا وقت داڑھی مونڈھنے پر خرچ کرتے ہیں ، کم از کم اتنا وقت ضرور قرآن شریف کو پڑھنے پر بھی خرچ کریں۔ اگر آپ کو جسم کی صفائی کی فکر ہے تو اسقدر فکر دل کی صفائی کی بھی کیجیے۔
میرے ایک نسبتی بھائی ہیں وہ ایک دفعہ مجھ سے کہنے لگے، میں جب صبح ڈاڑھی مونڈھنے کےلئے تیاری کرتا ہوں تو قلب ساتھ ساتھ ملامت بھی کرتا ہے کہ وقت کو کیوں ضائع کر رہے ہو ؟ آدھ گھنٹہ یونہی ضائع صرف ہو جاتا ہے ۔تو میں نوجوانوں کو ڈاڑھی رکھنے یا نہ رکھنے کے متعلق اس وقت کچھ نہیں کہتا ۔صرف یہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ قرآن شریف کو روزانہ پڑھنے کی عادت ضرور ڈالیں "
خطبات مولانا محمد علیؒ ،جلد ۲۴ ، صفحہ ۸۴
۷:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں
"مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں کافر نہیں اور لاالہ الا اللہ محمدرسول اللہ میرا عقیدہ ہےاور ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت میرا ایمان ہے ۔میں اپنے اس بیان کی صحت پر اس قدر قسمیں کھاتاہوں جسقدر خدا تعالیٰ کے پاک نام ہیں اور جس قدر قرآن کریم کے حرف ہیں اور جسقدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تعالیٰ کے نزدیک کمالات ہیں ۔کوئی عقیدہ میرا اللہ اور سول کے فرمودہ کے برخلاف نہیں اور جو کوئی ایسا خیال کرتا ہے خود اسکی غلط فہمی ہے اور جو شخص مجھے اب بھی کافر سمجھتا ہے اور تکفیر سے باز نہیں آتاوہ یقیناً یاد رکھے کہ مرنے کےبعد اس سے پوچھا جائے گا۔ میں اللہ جلشانہ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میرا خدا اور رسولؐ پر وہ یقین ہے کہ اگر اس زمانہ کے تمام ایمانوں کو ترازو کے ایک پلہ میں رکھا جائے اور میرا ایمان دوسرے پلہ میں تو بفضلہ تعالیٰ یہی پلہ بھاری ہوگا "
کرامات الصادقین،صفحہ ۲۵
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں
"مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں کافر نہیں اور لاالہ الا اللہ محمدرسول اللہ میرا عقیدہ ہےاور ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت میرا ایمان ہے ۔میں اپنے اس بیان کی صحت پر اس قدر قسمیں کھاتاہوں جسقدر خدا تعالیٰ کے پاک نام ہیں اور جس قدر قرآن کریم کے حرف ہیں اور جسقدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تعالیٰ کے نزدیک کمالات ہیں ۔کوئی عقیدہ میرا اللہ اور سول کے فرمودہ کے برخلاف نہیں اور جو کوئی ایسا خیال کرتا ہے خود اسکی غلط فہمی ہے اور جو شخص مجھے اب بھی کافر سمجھتا ہے اور تکفیر سے باز نہیں آتاوہ یقیناً یاد رکھے کہ مرنے کےبعد اس سے پوچھا جائے گا۔ میں اللہ جلشانہ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میرا خدا اور رسولؐ پر وہ یقین ہے کہ اگر اس زمانہ کے تمام ایمانوں کو ترازو کے ایک پلہ میں رکھا جائے اور میرا ایمان دوسرے پلہ میں تو بفضلہ تعالیٰ یہی پلہ بھاری ہوگا "
کرامات الصادقین،صفحہ ۲۵
ایک ضروری تجویز
بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ مزید جن احباب تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
مرکز (لاہور)
No comments :
Post a Comment