Tuesday, August 19, 2014

منگل۔19اگست 2014 شمارہ: 7 حب رسولؐ


روزنامہ مبلغ (آنلائن)

روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان
بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت

 حضرت مولانا محمد علیؒ

منگل۔۱۹ اگست۲۰۱۴ء

۲۲ شوال ۱۴۳۵ ہجری
شمارہ نمبر:7
Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com



خصوصی اشاعت 
حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

۱:کلامِ الٰہی 

بسم اللہ الرحمن الرحیم
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ
۳:آل عمران: ۳۱

ترجمہ:کہہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہوئے تو میری پیروی کروکہ اللہ تم سے محبت کرے اور تمھیں تمھارے گناہ بخش دے اور اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے 

تفسیر:
کفار کے ذکر میں مسلمانوں کو ہدایت
یہ قرآن کریم کا کمال ہے کہ ان تمام آیات میں جن میں کسی خاص قوم سے خطاب ہے ایک طرف اگران پر اتمام حجت کرتا چلا جاتا اور لطیف سے لطیف امور کی طرف انکو توجہ دلاتا ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کو بھی کامل ہدایت دیتا چلا جاتا ہے ۔ ان آیات میں جیسا کہ بیان ہو چکا، خاص خطاب عیسائیوں سے ہے اور اس لئے انکو بتایا ہے کہ تم خدا کے محب اور محبوب ہونے کے بڑے دعوےدار ہو اور اس بات کے مدعی ہو کہ تمھارا مذہب خدا سے محبت سکھاتا ہے مگر خود مسیح جسکی پیروی سے تم خدا کی محبت کے مقام تک پہنچ سکتے تھے تم کو ہدایت دے گیا کہ تمھاری خدا سے محبت اسی صورت میں قائم رہ سکتی ہے کہ میرے پیچھے آنے والے کو مانواور اسکی اتباع کرو اور یوں یہاں مسیح کے ان الفاظ کیطرف اشارہ ہے جو یوحنا ۱۴: ۱۵،۱۶ میں مذکور ہیں 
"اگر تم مجھ سے پیار کرتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو اور میں اپنے باپ سے درخواست کرونگا اور وہ تمھیں دوسرا تسلی دینے والا بخشے گا"
جس لفظ کے معنی تسلی دینے والا کئے گئے ہیں اسکے معنی شفیع بھی ہو سکتے ہیں جیسا کہ بائبل کے نئے ترجموں کے حواشی پر صاف نوٹ دیا ہوا ہے ۔ اب جائے غور ہے کہ یہ دوسرا تسلی دہندہ اور دوسرا شفیع جو مسیحؑ کے بعد دنیا میں آیا کون ہے ؟
عیسائیوں کو حکم تھا کہ جب دوسرا شفیع دنیا میں آجائے تو اسکی اتباع کریں اور اسی بات پر قرآن کریم انکو یہاں ملزم کرتا ہے ۔
دوسری طرف مسلمانوں کو بھی بتاتا ہے کہ وہ نرے زبانی دعووں سے یا اپنے تجویز کردہ طریقوں سے خدا کے محبوب نہیں بن سکتے بلکہ ضروری ہے کہ محمد رسول اللہ صلعم کے کے نقش قدم پر چلیں ۔ اس بات کو بیان کرنے کی ضرورت اس لئے تھی کہ اس رکوع میں یہ ذکر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن قوموں کو پہلے چنا ، کسطرح وہ آخر رضائے الٰہی کی راہ سے دور پڑ گئیں۔ اس لئے مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ وہ رضائے الٰہی کے مقدم کرنے کو کبھی نہ چھوڑیں اور نہ دنیا کی مرغوبات میں حد سے زیادہ منہمک ہوں تاکہ انکاحشر دوسری قوموں کی طرح نہ ہو۔ 
الفاظ یغفرلکم ذنوبکم میں اسطرف بھی اشارہ ہے کہ گناہوں سے حفاظت کفارہ پر ایمان سے نہیں ہوتی بلکہ ان راہوں پر چلنے سے ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والی ہیں اور جن کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کامل طور پر دنیا پر ظاہر کیا جیسا کہ خود مسیحؑ نے بھی کہا تھا 
"مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر اب تم انکی برداشت نہیں کرسکتے۔ لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا" 

پس جب تمام سچائی کی راہ دکھانے والا ابھی آنا تھا تو کفارہ گناہوں سے کیونکر چھڑا سکتاتھا؟

بیان القرآن ، اردو ترجمہ و تفسیر از حضرت امیرقوم مولانا محمدعلیؒ


۲:حدیثِ نبویؐ

حدیث:۱
 حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسکے نزدیک اس کے باپ  اور اسکے بیٹے سے  اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوں 


مختصر تفسیر:
ایمان تو ہر انسان سے محبت کو چاہتا ہے اس لئے ہر انسانی خدمت کو ایمان کی ایک شاخ قرار دیا ۔لیکن وہ انسان جسکے برابر دنیا کا اور کوئی محسن نہیں ہوا ضروری ہے کہ اسکی محبت سب سے بڑھ کر انسان کے دل میں ہو ۔ اس لئے اسے ایمان کا اصل منشا قرار دیا ۔
محبت کا تقاضا یہ تھا کہ آج اس محسن نسل انسانی کو ساری دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا اور جو طرح طرح کہ جھوٹے الزامات آپ پر لگائے جاتے ہیں ان سے آپکا دامن پاک ثابت کیا جاتا ۔ مگر محبت پیغمبر کا دعوی مسلمانوں کی زبانوں پر ہے ، دلوں میں نہیں 
بخاری،کتاب ۲، باب ۷، حدیث نمبر ۱۴
ترجمہ و تفسیر از حضرت مولانا محمد علیؒ 

حدیث:۲
تفرقہ نہ ڈالو

حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"اللہ تعالیٰ تمھارے لئے تین باتیں پسند کرتا ہے :
* یہ کہ اللہ کی عبادت کرو
*اور یہ کہ کسی کو اسکا شریک نہ ٹھہراو
*اور یہ کہ سب ملکر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ ڈالو"

صحیح مسلم، کتاب الاقضیا،باب النھی عن کثرة المسائل



۳:سیرت خیر البشرؐ
از
 حضرت مولانا محمد علی ؒ
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلقات اپنے دوستوں سے حد درجہ کی محبت کے تھے ۔ جب کوئی شخص آپؐ   سے مصافحہ کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسکا ہاتھ چھوڑنے میں پہل نہ کرتے ۔ جس سے ملتے نہایت خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔ جرید بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے جب آپ صلعم کو دیکھا تبسم کرتے ہوئے دیکھا ۔یعنی ہر وقت خندہ پیشانی پایا۔ آپؐ   اپنے اصحاب سے مزاح کر لیتے اور بے تکلف بات چیت کرتے تھے ۔پیروں کی طرح کی خاموشی اختیار نہ کرتے تھے اور نہ بات کرنے میں اپنی بڑائی کا اظہار کرتے تھے ۔
اپنے صحابہ کے بچوں کو گود میں لیتے اور انکو پیار کرتے ۔ بسا اوقات بچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیشاب بھی کردیتے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر شکن نہ آتا ۔
اپنے پاس بیٹھنے والوں سے فرماتے  کہ میرے پاس کسی میرے دوست کی برائی بیان نہ کرو کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ سب کی طر ف سے میرے سینے میں صفائی ہو ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب رضوان اللہ علیہ اجمعین سے سلام کرنے اور مصافحہ کرنےمیں پہل کیا کرتے تھے۔انکو پکارتے تو عزت کےلئے کنیت سے مخاطب کرتے یا انکا محبوب نام لیتے ۔ "

کتاب سیرت خیرالبشرؐ، صفحات ۱۸۵۔ ۱۸۶



۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ 

"اورتمام آدم زادوں کےلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اوراس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاو اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے ۔
نجات یافتہ کون ہے ؟ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اسکے ہمرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب اور کسی کےلئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبیؐ ہمیشہ کےلئے زندہ ہے اور اسکے ہمیشہ زندہ رہنے کےلئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اسکیے افاضہ تشریعی اور روحانی کو قیامت تک جاری رکھا اور آخر کار اسکی روحانی فیض رسانی سے اس مسیح موعودؑ کو دنیا میں بھیجا جسکا آنا اسلامی عمارت کی تکمیل کےلئے ضروری تھا  "

کشتی نوح،روحانی خزائن،جلد ا۹،صفحات ۱۳۔۱۴


۵:دینی مسائل اور انکا حل


تسبیح پھیرنا کیسا ہے ؟

ایک شخص نے تسبیح کے متعلق پوچھا کہ تسبیح کرنے کے متعلق حضورؑ کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا:

"تسبیح کرنے والے کا اصل مقصود گنتی ہوتا ہے اور اس گنتی کو پورا کرنا چاہتا ہے ۔ اب تم خود سمجھ سکتے ہو کہ یا وہ گنتی پوری کرے اور یا وہ توجہ کرے ۔ اور یہ صاف بات ہے کہ گنتی کو پورا کرنے کی فکر کرنے والا سچی توبہ کر ہی نہیں سکتا۔ انبیاؑ اور کاملین لوگ جن کو اللہ کی محبت کا ذوق ہوتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے عشق میں فنا شدہ ہوتے ہیں انھوں نے گنتی نہیں کی اور نہ اسکی ضرورت سمجھی ۔ اہل حق تو ہر وقت خدا کو یاد کرتے رہتے ہیں ۔ اس لئے گنتی کا سوال اور خیال ہی بے ہودہ ہے ۔کیا کوئی اپنے محبوب کا نام گن کر لیا کرتا ہے ؟ اگر سچی محبت اللہ تعالیٰ سے ہو اور پوری توجہ الی اللہ ہو تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ پھر گنتی کا خیال پیدا ہی کیوں ہو گا۔وہ تو اسی ذکر کو اپنی روح کی غذا سمجھے گا اور جس قدر کثرت سے سوال کرے گا زیادہ لطف اور ذوق محسوس کرے گا اور اسمیں اور ترقی کرے گا۔لیکن اگر محض گنتی مقصود ہو گی تو وہ اسے ایک بیگانہ سمجھ کر پورا کرنا چاہے گا"
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ
الحکم ۱۰ جون ۱۹۰۴ء، صفحہ ۳

۶:پیغامِ امیر قومؒ
حضرت مولانا محمد علیؒ
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن منگوا کر پڑھنا اوررونا

"حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم بھی قرآن کریم پڑھنے یا سننے کے وقت رو پڑتے تھے ۔قرآن کریم پڑھوا کر سننا بھی ایک سنت ہے ۔ایک مرتبہ آپؐ  نے اپنی ایک صحابی حضرت مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا 
یا ابا مسعوداقرا علی القرآن 
مجھے قرآن کریم پڑھ کر سناو۔ انہوں نے عرض کیا
 یا رسول اللہ ا اقرا علیک وقد انزل علیک
کیا میں آپؐ   کو پڑھ کر سناوں ! حالانکہ آپ پر ہی تو یہ اترا ہے ۔
تو آپؐ   نے فرمایا میں دوسروں سے سننا بھی پسند کرتا ہوں ۔چنانچہ معلوم ہوا کہ قرآن کریم کا پڑھنا ہی نہیں بلکہ پڑھوا کر سننا بھی سنت ہے ۔ اس کے بعد ابو مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن کریم کا ایک حصہ پڑھنا شروع کیا ۔ابھی تقریباًچالیس آیا ت ہی پڑھی ہونگی کہ ایک آیت آ گئی ۔ آپؐ   نے اسے سن کر انہیں ختم کرنے کو ارشاد فرمایا ۔ حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے حسب ارشاد قرآن کریم کی تلاوت کو ختم کیا اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کے چہرہ کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسوجاری تھے ۔اور وہ آیت تھی 
فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ شَهِيدًا(النساء:۴۱) 
یعنی ہر امت سے ایک گواہ بلایا جائے گاکہ کہاں تک انھوں نے الٰہی احکام کی فرمانبرداری کی اور آپؐ   کو بھی اس امت پر بطور گواہ بلایا جائے گا۔ اس بات نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رلایا۔
فرمایا وہ لوگ جو میرے سامنے ہیں انکے متعلق تو میں گواہی دونگا لیکن وہ جو میرے بعد میں آنے والے ہیں انکے متعلق میں کیا گواہی دونگا؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ    کے سامنے ہمارے اس زمانہ کا نقشہ تھا کہ ظاہر میں تو ہم قرآن کریم کو سر پر بھی اٹھا لیتے ہیں لیکن اسکی حقیقی  عظمت اور عزت دلوں سے مفقود ہے ۔ "

خطبات مولانا محمد علیؒ ،جلد ۲۴، صفحہ ۴۲۔۴۲


ایک ضروری تجویز

بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ


خدام و مبلغین 
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
مرکز (لاہور)

No comments :

Post a Comment