Wednesday, August 27, 2014

بدھ ۔27 اگست 2014، شمارہ: 15


روزنامہ مبلغ (آنلائن)


روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان

بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت

 حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ

احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

بدھ۔۲۷ اگست۲۰۱۴ء

۳۰ شوال ۱۴۳۵ ہجری


شمارہ نمبر:۱۵
Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com




۱:کلامِ الٰہی 


إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَٰئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُمْ مِنْ وَلَايَتِهِمْ مِنْ شَيْءٍ حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا ۚ وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ


الانفال: ۷۳
ترجمہ:۔ جو ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کی اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا ، اور وہ جنھوں نے (انکو) پناہ دی اور مدد دی یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور وہ جو ایمان لائے مگر انھوں نے ہجرت نہیں کی تم پر انکی دوستی کا کوئی حق نہیں یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں اور اگر تم سے دین کے متعلق مدد چاہیں تو تم پر مدد دینا فرض ہے سوائے اس کے کہ (یہ مدد) ان لوگوں کے خلاف ہو جنکے اور تمھارے درمیاں عہد ہے اور اللہ جو تم کرتے ہو اسے دیکھتا ہے 
تفسیر:

اس آیت میں مسلمانان مدینہ کے ان مسلمانوں کے ساتھ تعلقات کا ذکر ہے جو کفار کے اندر رہ گئے تھے اور انھوں نے ہجرت نہیں کی ۔انکے متعلق فرمایا کہ انکی ولایت کا کوئی حق مسلمانوں پر نہیں۔ یعنی ان مہاجرین اور ان انصار پر جو مدینہ میں ایک جمعیت بن گئی تھی اور جنکی اپنی حکومت قائم ہو گئی تھی ۔گو محض مسلمان ہونے کے لحاظ سے وہ انکے بھائی ہوں مگر ولایت جس میں لین دین، تجارت، میراث ،عہد نصرت وغیرہ کے تعلقات شامل ہیں وہ انکے ساتھ نہیں کیونکہ ان کافر قوموں کے ساتھ ایسے تعلقات قائم نہیں اور عام حالت ان کافر قوموں کی  یہ تھی کہ وہ مسلمانوں کے دشمن تھے اور عموماً ان سے برسر پیکار رہتے تھے ۔
پس جن کافر قوموں سے مسلمانوں کے تعلقات ولایت ہیں، جو مسلمان ان میں ملے رہ گئے ہیں اور وہاں سے ہجرت نہیں کرتے ان کو بھی انہیں قوموں کے حکم میں رکھا ہے اور یہی حق بھی تھا
ایک استثناء
 اور دینی حالت کی وجہ سے ایک حالت کو مستثنیٰ کیا ہے یعنی اگر وہ مسلمان دین کے بارہ میں تم سے مدد مانگیں تو انکو مدد دو اور ظاہر ہے کہ مدد جنگ کی صورت میں ہوگی تاکہ ان کافر قوموں کے ظلم سے انہیں نجات حاصل ہو۔اسطرح پر انکی مدد کرنا مسلمانوں کا فرض قرار دیا
کفار سے ایفائے عہد
لیکن اس سے پھر ایک حالت کو مستثنیٰ کیا یعنی اگر ایک کافر قوم کے ساتھ تمھارا عہد ہو تو پھر دینی رنگ میں انکی مدد کرنا جائز نہیں ۔ تو کیا ان سے تعلقات ولایت بھی ہونگے یا نہیں سو یہ امر ظاہر ہے کہ ایک کافر قوم سے مسلمانوں کا معائدہ ہے تو ایک حد تک تعلقات ولایت تو ان میں قائم ہیں یعنی انکے ساتھ لین دین تجارت وغیرہ ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات ایسے معاہدات کی رو سے جنگوں میں وہ مسلمانوں کے اور مسلمان انکے معاون بن جاتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ جو مسلمان ان میں ہوں ان سے وہ تعلقات نہ ہوں صرف تعلقات وراثت کو انکی صورت میں بھی جائز قرار نہیں دیا گیا۔

بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ


۲:حدیثِ نبویؐ

ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ 
تم میں سے بہترین آدمی تمھارے لئے اذان دیں اورتمھاری امامت وہ کریں جو تم میں سے سب سےبڑھکر قرآن جاننے والے ہوں
مشکوٰاة (۴ : ۲۶ بروایت ابوداود)

مختصر نوٹ: موذن اور امام دونوں روحانی منصب ہیں اس لئے بہترین آدمیوں کو ان کاموں کےلئےمنتخب کرنے کی ضرورت ہے 


ترجمہ از حضرت مولانا محمد علیؒ
کتاب احادیث العمل صفحہ ۱۲۸

۳:سیرت خیر البشرؐ
از
 حضرت مولانا محمد علی ؒ

طائف سے واپس آکر آپؐ    نے مال غنیمت کا حسب قاعدہ پانچواں حصہ بیت المال کےلئے نکال کر باقی سپاہیوں میں تقسیم کر دیا ۔قیدیوں میں آپؐ   کی دودھ بہن شیما بھی تھیں ۔انکو آپؐ   کے سامنے لایا گیا ۔آپ صلعم نے جب انہیں پہنچانا تو فوراً اپنی چادر بچھا دی اور نہایت عزت اور احترم کےساتھ اس پر بٹھایا ۔

کس قدرپاسداری حقوق کی آپؐ    کے قلب مقدس میں ہے ۔ یہ کوئی حقیقی بہن نہیں مگر آپؐ   اتنی عزت کرتے ہیں کہ حقیقی بہنوں کی بھی اتنی عزت دنیا میں کوئی نہیں کرتا ۔آپؐ   نے چاہا کہ شیما آپؐ   کے ساتھ مدینہ چلیں مگر انھوں نے اپنی قوم میں رہنا پسندکیا اور آپؐ   نے نہایت احترام اور تحائف کے ساتھ انکو رخصت کیا۔


کتاب سیرت خیرالبشرؐ، صفحہ ۱۴۴


۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ 

خدا ترس اور متدین اور پرہیز گار علماء کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ جب تک ان کے ہاتھ میں کسی کے کافر ٹھہرانے کیلئے ایسی صحیحہ یقینیہ قطعیہ وجوہ نہ ہوں کہ جن اقوال کی بناء پر اس پر کفر کا الزام لگایا جاتا ہے ان اقوال مستلزم کفر کا وہ اپنے ُ منہ سے صاف اقرار کرے انکار نہ کرے تب تک ایسے شخص کو کافر بنانے میں جلدی نہ کریں
لیکن دیکھنا چاہئے کہ میاں نذیر حسین اسی تقویٰ کے طریق پر چلے ہیں یا اور طرف قدم مارا۔ سو واضح ہو کہ میاں نذیر حسین نے تقویٰ اور دیانت کے طریق کو بکلی چھوڑ دیا میں نے دہلی میں تین اشتہار جاری کئے 
اور اپنے اشتہارات میں بار بار ظاہر کیا کہ میں مسلمان ہوں اور عقیدۂ اسلام رکھتا ہوں بلکہ میں نے اللہ جلّ شانہٗ کی قسم کھا کر پیغام پہنچایا کہ میری کسی تحریر یا تقریر میں کوئی ایسا امر نہیں ہے جو نعوذ باللہ عقیدۂ اسلام کے مخالف ہو صرف معترضین کی اپنی ہی غلط فہمی ہے ورنہ میں تمام عقائد اسلام پر بدل و جان ایمان رکھتا ہوں اور مخالف عقیدۂ اسلام سے بیزار ہوں
لیکن حضرت میاں صاحب نے میری باتوں کی طرف کچھ بھی التفات نہ کی اور بغیر اس کے کہ کچھ تحقیق اور تفتیش کرتے مجھے کافر ٹھہرایا بلکہ میری طرف سے أَنَامُؤمن انا مؤمن کے صاف اقرارات بھی سن کر پھر بھی لَسْتَ مُؤْمِنًا کہہ دیا اور جا بجا اپنی تحریروں اور تقریروں اور اپنے شاگردوں کے اشتہارات میں اس عاجز کا نام کافر و بے دین اور دجال رکھا اور عام طور پر مشتہر کردیا کہ یہ شخص کافر اور بے ایمان اور خدا اور رسول ؐ سے روگردان ہے
سو میاں صاحب کی اس پھونک سے عوام الناس میں ایک سخت آندھی پیدا ہوگئی اور ہندوستان اور پنجاب کے لوگ ایک سخت فتنہ میں پڑ گئے خاص کر دہلی والے تو میاں صاحب کی اس اخگر اندازی سے آگ ببولا بن گئے شاید دہلی میں ساٹھ یا ستر۷۰ ہزار کے قریب مسلمان ہوگا لیکن ان میں سے واللہ اعلم شاذو نادر کوئی ایسا فرد ؔ ہوگا جو اس عاجز کی نسبت گالیوں اور لعنتوں اور ٹھٹھوں کے کرنے یا سننے میں شریک نہ ہوا ہو
 یہ تمام ذخیرہ میاں صاحب کے ہی اعمال نامہ سے متعلق ہے جس کو انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اپنی عاقبت کیلئے اکٹھا کیا انہوں نے سچی گواہی پوشیدہ کر کے لاکھوں دلوں میں جما دیا کہ درحقیقت یہ شخص کافر اور لعنت کے لائق اور دین اسلام سے خارج ہے اور میں نے انہیں دنوں میں جب کہ میں دہلی میں مقیم تھا شہر میں تکفیر کا عام غوغا دیکھ کر ایک خاص اشتہارانہیں میاں صاحب کو مخاطب کر کے شائع کیا اور چند خط بھی لکھے اور نہایت انکسار اور فروتنی سے ظاہر کیا کہ میں کافر نہیں ہوں۔ 

روحانی خزائن، جلد۴ صفحات ۳۱۲، ۳۱۳، ۳۱۴

۵:دینی مسائل اور انکا حل
از
حضرت مجدد و امام الزمان مرزا غلام احمد قادیانی ؒ
قرض سے نجات کیونکر حاصل ہو؟

ایک شخص نے اپنے قرض سے متعلق دعا کے واسطے عرض کی ۔فرمایا
"استغفار بہت پڑھا کرو۔ انسان کے واسطے غموں سے سبکدوش ہونے کےواسطے یہ طریق ہے"

الحکم ۱۹ جنوری ۱۹۰۱ء 


 کیا جماعت جمعہ دو آدمیوں سے ہو سکتی ہے ؟

مسئلہ پیش ہوا کہ دو احمدی کسی گاوں میں ہوں تو وہ بھی جمعہ پڑھ لیا کریں یا نہ؟
حضرت اقدسؑ  نے مولوی محمد احسن صاحبؒ سے خطاب فرمایا تو انھوں نے عرض کیا کہ دو سے جماعت ہو جاتی ہے اس لئے جمعہ بھی ہوجاتا ہے ۔حضرت مسیح موعودؑ نے ارشاد فرمایا ہاں پڑھ لیا کریں ۔
فقہا نے تین آدمی لکھے ہیں ۔اگر کوئی اکیلا ہو تو وہ اپنی بیوی وغیر کو پیچھے کھڑا کر کے نماز پڑھ سکتا ہے 
الحکم ۱۰ مارچ ۱۹۰۵ ء



۶:پیغامِ امیر قومؒ
حضرت مولانا محمد علیؒ

"میں دین کو دنیا پر مقدم کرونگا"
"اس آیت و  جاھدو فی اللہ حق جھادہ  کو جسطرح سے اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحب(یعنی حضرت مرزا غلام احمدؒ ،ناقل) کے قلب پر وارد کیا، اس مقام پر کوئی شخص اپنی عقل سے نہ پہنچ سکتا تھا ۔آپؒ    نے ایک فقرہ کے اندر اس آیت کے مفہوم کو لے لیا 
"میں دین کو دنیا پر مقدم کرونگا"
یعنی خدا کے نام کو دنیا میں پھیلانے کےلئے جہاد کرونگا جو اسکے جہاد کا حق ہے ۔یہ دین اور دنیا کا تعلق ہے ۔اسلام یا احمدیت دنیا کو چھڑاتے نہیں ۔تم کماو جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 
"کہو اگر باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیبیاں اور تمھارے کنبے اور مال جو تم کماتے ہو اور تجارت جسکے مندا پڑ جانے سے تم ڈرتے ہو اور مکان جنکو تم پسند کرتے ہو تمھارے نزدیک اللہ اور اسکے رسول اور اسکی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا "
حقیقت یہ ہے کہ یہ چیزیں اچھی ہیں اگر اللہ اور اسکے رسولؐ کے نام کو پھیلانے میں مدد دیتی ہیں ۔اور اگر یہ چیزں اللہ اور اسکے رسولؐ  سے زیادہ عزیز ہیں تو یہ کچھ بھی نہیں، بلکہ تباہی کا باعث ہیں ۔
تو بات یہ ہے کہ حضرت صاحبؒ نے اس نکتہ کو محسوس کیا اور عہد لیا کہ 
دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا
کیونکہ اسلام کا سپاہی اور مجاہد بننے کےلئے یہ عہد ضروری تھا ۔
سو یاد رکھو! جو شخص احمدیت کے اندر داخل ہوتا ہے وہ اسلام کا مجاہد بن کر داخل ہوتا ہے ۔وہ اسلام کا سپاہی بننے کا اقرار کر کے اسکے اندر داخل ہوتا ہے ۔وہ اسلام کا سپاہی ہے جو اسلام کی مملکت کو وسیع کرنے کےلئے اپنی طاقت کو خرچ کرتا ہے "


خطبات مولانا محمد علیؒ
جلد ۱۷ ، اقباس از صفحہ ۳۴، ۳۵ 


۷:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں 
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)


"خدائے تعالیٰ جانتا ہے کہ میں مسلمان ہوں اور ان سب عقائد پر ایمان رکھتا ہوں جو اہل سنت والجماعت مانتے ہیں اور کلمہ طیبہ لااِلٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللہ کا قائل ہوں اور قبلہ کی طرف نماز پڑھتا ہوں اور میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور یہ بھی لکھا کہ میں ملائک کا منکر بھی نہیں بخدا میں اسی طرح ملائک کو مانتا ہوں جیسا کہ شرع میں مانا گیا اور یہ بھی بیان کیا کہ میں لیلتہ القدر کا بھی انکاری نہیں بلکہ میں اس لیلتہ القدر پر ایمان رکھتا ہوں جس کی تصریح قرآن اور حدیثوں میں وارد ہوچکی ہے اور یہ بھی ظاہر کردیا کہ میں وجود جبرائیل اور وحی رسالت پر ایمان رکھتا ہوں انکاری نہیں۔ اور نہ حشر و نشر اور یوم البعث سے منکر ہوں اور نہ خام خیال نیچریوں کی طرح اپنے مولیٰ کی کامل عظمتوں اور کامل قدرتوں اور اس کے نشانوں میں شک رکھتا ہوں اور نہ کسی استبعاد عقلی کی وجہ سے معجزات کے ماننے سے منہ پھیرنے والا ہوں اور کئی دفعہ میں نے عام جلسوں میں ظاہر کیا کہ خدائے تعالیٰ کی غیر محدود قدرتوں پر میرا یقین ہے بلکہ میرے نزدیک قدرت کی غیر محدودیّت الوہیت کا ایک ضروری لازمہ ہے اگر خدا کو مان کر پھر کسی امر کے کرنے سے اس کو عاجز قرار دیا جائے تو ایسا خدا خدا ہی نہیں اور اگر نعوذ باللہ وہ ایسا ہی ضعیف ہے تو اس پر بھروسہ کرنے والے جیتے ہی مر گئے اور تمام امیدیں ان کی خاک میں مل گئیں بلاشبہ کوئی بات اس سے انہونی نہیں ہاں وہ بات ایسی چاہئے کہ خداتعالیٰ کی شان اور تقدس کو زیبا ہو اور اس کے صفات کاملہ اور اس کے مواعید صادقہ کے برخلاف نہ ہو۔ لیکن میاں صاحب نے باوجود میرے ان تمام اقرارات کے صاف لکھا کہ تم پر کفر کا فتویٰ ہوچکا اور ہم تم کو کافر اور بے ایمان سمجھتے ہیں"


 ایک ضروری تجویز

بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین 
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

No comments :

Post a Comment