Friday, August 29, 2014

جمعہ ۔ 29 اگست 2014، شمارہ: 17


روزنامہ مبلغ (آنلائن)


روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان

بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت

 حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ

احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

جمعہ۔۲۹ اگست۲۰۱۴ء

۲ذیقعد ۱۴۳۵ ہجری


شمارہ نمبر:۱۷
Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com




۱:کلامِ الٰہی 


فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ 

آل عمران: 159

ترجمہ:۔ سو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے تو انکےلئے نرم ہے ۔ اور اگر تو سخت کلام، سخت دل ہوتا تو تیرے ارد گرد سے بکھر جاتے 
تفسیر:
آپؐ   کے اخلاق اور خلق لینت کا کمال
ہر ایک خلق کا اظہار کامل رنگ میں  اس وقت ہوتا ہے جب اسکے اظہار کے مخالف موقع ہو۔ جنگ کا وقت ایسا ہوتا ہے کہ اس میں نرمی کے اظہار کا موقع نہیں ہوتا بلکہ انسان کے اندر جس قدر شدت ہے اس کا اظہار جنگ میں پورے زور کے ساتھ ہوتا ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ جب ان احکام کی تعمیل میں جو کسی فوج کو دئیے گئے ہوں، فروگزاشت ہو یا ان احکام کی تعمیل نہ ہو تو پھر قواعد جنگ اس امر کے مقتضی ہوتے ہیں کہ سخت سے سخت سزا دی جائے ۔پس اول تو موقعہ اظہا لینت کا نہیں اظہار شدت کا تھا ۔دوسرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کی گئی جس کی وجہ سے اسقدر عظیم مصیبت آپؐ   کو اور مسلمانوں کو برداشت کرنی پڑی اوریہ موقع سخت سے سخت سزا کو چاہتا تھا مگر اس موقع پر نافرمانی کرنے والوں کو ایک حرف بھی ملامت کا نہ کہنا ظاہر کرتا ہے ظاہر کرتا ہے کہ نبی کریم صلعم میں کس قدر کمال خلق لینت کا موجود تھا کہ سخت سے سخت حالات کے ماتحت بھی، ہاں ان حالات کےماتحت بھی جو بظاہر خلق لینت کےمنافی معلوم ہوتے ہیں آپؐ   کے اندر اس خلق کا اظہار ہوتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسے تعریف کے موقع پر بیان فرمایا ہے ورنہ آپؐ   کے خلق لینت تو بے شمار تھے ۔دن رات خدام سے، بیبیوں سے، دوستوں سے، دشمنوں سے لینت کا برتاو آپؐ   فرماتے تھے مگر یہ موقع اس خلق کے کمال کو دکھانے والا تھا۔
نبی کریم صلعم کی نرمی اور رحمت کے متعلق اور بھی بہت سی آیات قرآنی شاہد ہیں جیسا کہ فرمایا 
عزیز علیہ ما عنتم (۹: توبہ: ۱۲۷)
کوئی دکھ تم کو پہنچے تو اسکو تکلیف ہوتی ہے
 اورفرمایا 
واخفض جناحک للمومنین (۱۵: الحجر: ۱۸۸) 
اور ایک روایت میں ہے
 انا لکم مثل الوالد 
بلکہ والد سے بہت بڑھ کر شفقت اور محبت آپؐ   کے دل میں بھری ہوئی تھی  ۔
نبی کریم صلعم کے اس خلق کے اظہار میں یہ بتانا مقصود ہے کہ آپؐ   کے پیرو بھی اور بالخصوص وہ لوگ جو دوسروں کے لئے پیشواء یا سردار کے طور پر ہوتے ہیں وہ اس قسم کے اخلاق اپنے اندر پیدا کریں تو ہی جماعت قائم رہ سکتی ہے ورنہ کوئی جماعت نہیں بن سکتی چنانچہ اس کی طرف ایک حدیث میں اشارہ ہے 
لااحلم احب الی اللہ من حلم امام  و رفقہ ولا جھل الغض الی اللہ من جھل امام و خرقہ (غق)
یعنی کوئی حلم اور نرمی اما کے حلم اور نرمی سے بڑھ کر اللہ کو پسند نہیں اور کوئی جہل امام کی جہالت سے بڑھ کر اللہ نے نزدیک نا پسندیدہ نہیں 


بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ


۲:حدیثِ نبویؐ
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک بار عید کا دن تھا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میر پاس تشریف لائے۔ اس وقت دو بچیاں جنگ بعاث پر مشتمل گیت گار رہی تھیں۔ وہ پیشہ ور گانے والی نہیں تھیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بستر پر منہ دوسری طرف کر کے لیٹ گئے۔تھوڑی دیر بعد ابو بکر آئے مجھے ڈانٹا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں شیطانی آلات کیوں بجائے جا رہے ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہؐ نے فرمایا:

ائے ابوبکر ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج ہماری عید ہے 

صحیح بخاری، کتاب الجمعہ، باب الحراب و باب سنتہ العیدین،حدیث نمبر ۸۹۷، ۸۹۹


۳:سیرت خیر البشرؐ
از
 حضرت مولانا محمد علی 

"زید کو صفوان بن امیہ نے قتل کے ارادہ سے خریدا ۔ انکے قتل کے وقت ابو سفیان اور دیگر بڑے بڑے قریش موجودتھے ۔جب ان پر تلوار چلنے کو نکل چکی تھی تو ابو سفیان نے کہا کیا تم پسند نہیں کرتے کہ تم بچ جاو اور محمد صلعم قتل کئے جاویں ۔انھوں نے کہا کہ میں تو اپنی جان کو اتنی وقت بھی نہیں دیتا کہ میں بچ جاوں اور رسول صلعم کو ایک کانٹا چبھ جائے۔ یہ ان لوگوں کے رسول اللہ صلعم کے ساتھ عشق کا ایک نمونہ ہے 
اس قسم کے واقعات سے، جب قبائل نے دھوکہ دے کر آپؐ    کے بے گناہ مبلغین کو ذبح کرنا شروع کیا تو آپؐ    کو نہایت درجہ کا دکھ پہنچا ۔آپؐ   ہر قسم کی تکلیف برداشت کر سکتے تھے مگر ان لوگوں کا دکھ اور تکلیف آپؐ   سے برداشت نہ ہوتا تھا جنھوں نے پیغام حق قبول کر کے آپؐ   کا ساتھ دیا اور ہر قسم کی قربانیاں کر کے دکھا دیا کہ وہ خدا کے نزدیک کسقدر بلند مقام پر پہنچ چکے ہیں ۔قاریوں کے قتل کے واقعات نے اس قدر آپؐ   کی طبعیت کو صدمہ پہنچایا کہ آپؐ   نے ایک دفعہ ان بعض قبائل پر جو دغا بازی سے مسلمانوں کو قتل کر رہے تھے بد دعا کرنے کا ارادہ کیا اور کچھ دن بد دعا بھی کی ۔
ایسے لوگوں کی سزا تو یہ تھی کہ انکو اسی طرح اذیت پہنچا کر قتل کیا جاتا۔ مگر آپؐ   نے اللہ تعالیٰ پر ہی معاملہ کو چھوڑا مگر وہ خدا جس نے آپؐ    کو رحمتہ اللعالمین بنا کر بھیجا نہ چاہتا تھا کہ دشمن کےلئے بھی آپؐ   کے سراسر رحم دل سے بددعا نکلے ۔اس لئے آپؐ   پر وحی الٰہی نازل ہوئی جو اس باب کے عنوان میں درج ہے 
"تمھارا اس معاملہ میں کوئی اختیار نہیں اللہ چاہے تو ان پر رجوع برحمت کرے اور چاہے تو انکو عذاب دے ۔بے شک وہ ظالم ہیں "
اس پاک پیغام کے نازل ہوتے ہی آپؐ    نے بد دعا کرنی چھوڑ دی ۔اور کس ہادی کی زندگی میں ایسا پاک نمونہ ہم کو مل سکتا ہے ؟ "

کتاب سیرت خیرالبشرؐ، صفحہ  ۱۰۹، ۱۱۰


۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ 

اصلاح کی کامل ضرورت کے وقت آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت


" ہماے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایسے وقت میں مبعوث ہوئے تھے۔ جبکہ دنیا ہر ایک پہلو سے خراب اور تباہ ہو چکی تھی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ظھر الفساد فی البر و البحر پ۲۱ ۱؂  (الروم: ۲۴)
یعنی جنگل بھی بگڑ گئے اور دریا بھی بگڑ گئے۔ یہ اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ جو اہل کتاب کہلاتے ہیں وہ بھی بگڑ گئے اور جو دوسرے لوگ ہیں جن کو الہام کا پانی نہیں ملا وہ بھی بگڑ گئے ہیں۔ پس قرآن شریف کا کام دراصل ُ مردوں کو زندہ کرنا تھا۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔
اعلمواان اللہ یحی الارض بعد موتھا (الحدید: ۱۸)
یعنی یہ بات جان لو کہ اب اللہ تعالیٰ نئے سرے سے زمین کو بعد اس کے مرنے کے زندہ کرنے لگا ہے۔ اس زمانہ میں عرب کا حال نہایت درجہ کی وحشیانہ حالت تک پہنچا ہوا تھا اور کوئی نظام انسانیت کا ان میں باقی نہیں رہا تھا اور تمام معاصی ان کی نظر میں فخر کی جگہ تھے۔ ایک ایک شخص صدہا بیویاں کرلیتا تھا۔ حرام کا کھانا ان کے نزدیک ایک شکار تھا۔ ماؤں کے ساتھ نکاح کرنا حلال سمجھتے تھے۔ اسی واسطے اللہ تعالیٰ کو کہنا پڑا۔ کہ
 حرمت علیکم امھتکم۱؂ (النسا: ۲۴)
یعنی آج مائیں تمہاری تم پر حرام ہوگئیں۔ ایسا ہی وہ مردار کھاتے تھے۔ آدم خور بھی تھے۔ دنیا کا کوئی بھی گناہ نہیں جو نہیں کرتے تھے۔ اکثر معاد سے منکر تھے۔ بہت سے ان میں سے خدا کے وجود کے بھی قائل نہ تھے۔ لڑکیوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کرتے تھے۔ یتیموں کو ہلاک کر کے ان کا مال کھاتے تھے۔ بظاہر تو انسان تھے مگر عقلیں مسلوب تھیں۔ نہ حیا تھی نہ شرم تھی نہ غیرت تھی۔ شراب کو پانی کی طرح پیتے تھے۔ جسؔ کا زناکاری میں اول نمبر ہوتا تھا۔ وہی قوم کا رئیس کہلاتا تھا۔ بے علمی اس قدر تھی کہ اردگرد کی تمام قوموں نے ان کا نام اُ ّ می رکھ دیا تھا۔ ایسے وقت میں اور ایسی قوموں کی اصلاح کیلئے ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم شہر مکہ میں ظہور فرما ہوئے۔ پس وہ تین قسم کی اصلاحیں جن کا ہم ابھی ذکر کر چکے ہیں۔ ان کا درحقیقت یہی زمانہ تھا۔ پس اسی وجہ سے قرآن شریف دنیا کی تمام ہدایتوں کی نسبت اَکمل اور اَتم ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کیونکہ دنیا کی اور کتابوں کو ان تین قسم کی اصلاحوں کا موقعہ نہیں ملا اور قرآن شریف کو ملا۔
روحانی خزائن، جلد10 صفحہ 328، 329 

۵:دینی مسائل اور انکا حل
از
حضرت مجدد و امام الزمان مرزا غلام احمد قادیانی ؒ
قصر نماز و حد سفر

"میری دانست میں جس سفر میں عزم سفر ہو پھر وہ خواہ تین چار کوس ہی کا سفر کیوں نہ ہو اس میں قصر جائز ہے ۔یہ ہماری سیر سفر نہیں ہے ۔ہاں اگر امام مقیم ہے تو اسکے پیچھے پوری نماز پڑھنی پڑے گی"

البدر، یکم ستمبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۲، ۳



۶:پیغامِ امیر قومؒ
حضرت مولانا محمد علیؒ


" میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ کام اس طرح نہیں چلا کرتے کہ میں نے یہاں کھڑے ہو کر خطبہ دے دیا اور وہ اخبار میں چھپ گیا اور آپ نےاسے پڑھ لیا ۔اس کام کےلئے پوری کوشش اور ہمت کی ضرورت ہے۔ قربانی کی ضرورت ہے۔ تم میں سے ایک ایک فرد اس کفر و شرک کے قلعے کو توڑنے کےلئے اٹھ کھڑا ہو۔ یہ بات قربانیوں کےبغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور اسکے ساتھ ہی میں پھر یہ کہتا ہوں کہ ہمارا اصل کام غلبہ اسلام اور اشاعت قرآن ہے ۔اس بات کا بھی خیال رکھو کہ ان چھوٹے چھوٹےمخمصوں میں پڑ کر اس اصل کام سے تمھاری توجہ نہ ہٹ جائے ۔اسی میں اپنی ساری طاقت نہ صرف کر دوبلکہ اپنی طاقت کے بڑے حصہ کو دشمن کے مقابلہ کےلئے تیار محفوظ رکھو۔ "

خطبات مولانا محمد علیؒ
جلد ۱۵، اقباس از صفحہ ۱۶۵


۷:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں 
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)

ایک اعتراض کا جواب کہ حضرت مرزا صاحبؒ اگر کلمہ گوووں کو مسلمان سمجھتے ہیں تو پھر اپنے پیروکاروں کو غیر احمدی مسلمانوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کیوں کیا؟

حضرت مسیح موعودؑ کے الفاظ ہی میں جواب 
"جبکہ وہ لوگ ہم کو کافر قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ہم انکو کافر کہنے میں غلطی پر ہیں تو ہم خود کافر ہیں تو اس صورت میں انکے پیچھے نماز کیونکر جائز ہو سکتی ہے ۔ایسا ہی جواحمدی انکے پیچھے نماز پڑھتا ہے جب تک توبہ نہ کرے اسکے پیچھے نماز نہ پڑھو"

بدر ۲۳ مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۰

مختصر تبصرہ از ایڈیٹر 

نوٹ: پس ایسے افراد کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکا ہے جو ایک کلمہ گو کی تکفیر کرنے میں پہل کرتے ہیں اور از روئے شریعت ایک مومن کو ناحق طور  پر کافر قرار دینے کی پاداش میں بطور سزا خود کفر کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ لہذا ایسے افراد کے پیچھے نماز کیونکر جائز ہو سکتی ہےجب کہ وہ شریعت کی نافرمانی کر کے خود شریعت کےفتوی کے نیچے ہیں ؟ جیسا کہ ہم نے اپنے ایک سابقہ خصوصی شمارہ بعنوان کفرو اسلام میں بھی اس معاملہ میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب خود انہی کی تحریرات کی روشنی میں کافی وضاحت کےساتھ پیش کیا تھا جسے مختصراً یہاں دوبارہ پیش کرتے ہیں:


حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ فرماتے ہیں :



"ابتداء سے میرا یہی  مذہب ہے کہ میرے دعوی کے انکار سے کوئی شخص کافر یا دجال نہیں ہو سکتا"
تریاق القلوب ،صفحہ ۱۳۰

"ہم کسی کلمہ گو کو اسلام سے خارج نہیں کہتے جب تک کہ وہ ہمیں کافر کہہ کر خود کافر نہ بن جائے"
ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۶۳۵

"جو ہمیں کافر نہیں کہتا ہم اسے ہر گز کافر نہیں کہتے ۔لیکن جو ہمیں کافر کہتا ہے اسے کافر نہ سمجھیں تو اس میں حدیث اور متفق علیہ مسئلہ کی مخالفت لازم آتی ہے اور یہ ہم سے ہو نہیں سکتا"
ملفوظات جلد ۵ صفحہ  ۶۳۶


پس ہمارے پیارے امام حضرت مسیح موعودؑ نےیہاں شریعت کے فیصلہ کو مقدم کرتے ہوئے اس کی پاسداری کی ہے اور اپنے پیروکاروں کو بھی شریعت ہی میں موجود ایک فیصلہ کی پاسداری کا حکم دیا ہے ۔

کلمہ گو مومن کی تکفیر کرنے والا شریعت کا باغی ہے اور اسی سلوک کا مستحق ہے جو وہ دوسرے کلمہ گو مومن کے لئے روا رکھے ہوئے ہے۔


پس یہاں غور کیجئے کہ ہمارے پیارے امام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کو شریعت کا کس قدر پاس ہے غیر احمدی مکفر تو ایک طرف،خود اپنی جماعت تک کے افراد کو اس سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا اور آپکے ارشاد مبارک سے صاف ثابت ہے کہ ایک شخص احمدی کہلا کر اگر ایسے مکفر ین کے پیچھے نماز پڑھتا ہے تو پھروہ بھی شریعت کا مخالف قرار پائے کر انہیں کا ساتھی شمار ہو گا ۔ لہذا اسکے پیچھے بھی ایک احمدی کی نماز جائز نہیں جب تک کہ وہ توبہ نہ کرے ۔

ہاں اگر غیر احمدی مکفر بھی توبہ کرتا ہے اور پھر شریعت کی پاسداری میں  کسی بھی کلمہ گو  کے مکفر کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا اور ہمارے امام ؑ کو  مسلمان یقین کرتا ہے اور ہمارے پیچھے نماز بھی پڑھتاہے تو ایسے غیر احمدی مسلمان کے پیچھے نماز بالکل جائز ہے ۔(ایڈیٹر)


 ایک ضروری تجویز

بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین 
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

No comments :

Post a Comment