روزنامہ مبلغ (آنلائن)
بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت
حضرت مولانا محمد علیؒ
سوموار۔۱۸ اگست۲۰۱۴ء
۲۱ شوال ۱۴۳۵ ہجری
شمارہ نمبر:6
Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com
۱:کلامِ الٰہی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هَٰذِهِ ۖ وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا بِمُوسَىٰ وَمَنْ مَعَهُ ۗ أَلَا إِنَّمَا طَائِرُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
۷:الاعراف: ۱۳۱
ترجمہ:سو جب انکو سکھ پہنچتا، کہتے یہ ہمارا حق ہے اور اگر انکو دکھ پہنچتا، تو اسے موسیؑ اور اسکے ساتھیوں کی شومی بتاتے سنو انکی شومی صرف اللہ کی طرف سے ہے لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے
تفسیر:مسلمانوں کے مسائل اور مجدد صد چہادھم حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ :
جب کوئی راستباز آتا ہے اور وہ ایک اچھی راہ کی طرف بلاتا ہے اور بری راہ سے روکتا ہے اور لوگ اس کی بات نہ ماننے سے مصائب میں مبتلا ہوتےہیں تو بجائے اسکے کہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ کریں اور راہ حق کو قبول کریں یوں کہنے لگتے ہیں کہ یہ مصائب اس شخص کی وجہ سے ہی ہم پر آرہے ہیں ۔ان کو توجہ دلائی ہے کہ داعی خیر کی وجہ سے نہیں بلکہ انکے اپنے اعمال بد کی وجہ سے ان پر مصائب آتی ہیں ۔ آج مسلمانوں کا یہی حال ہے جب چودھویں صدی کے سر پر ایک مجدد آیااور اس نے بتایا کہ تمھاری کامیابی اپنی اصلاح اور اشاعت اسلام میں ہے تو بجائےاس کےکہ حق بات کو قبول کرتے اس کی مخالفت کی اور غط راہوں پر پڑے۔وہ مصائب اور بھی بڑھیں تو اب لگے کہنے کہ ہماری مصائب تو اسکے آنے سے اور بھی زیادہ ہوئیں ۔کاش مسلمان اس آیات قرآنی سے کچھ سبق سیکھتے ۔
بیان القرآن ، اردو ترجمہ و تفسیر از حضرت امیرقوم مولانا محمدعلیؒ
۲:حدیثِ نبویؐ
۲:حدیثِ نبویؐ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے:
ائے اللہ! میں تجھ سے یہ دعا مانگتا ہوں کہ میرے ذکر کو بلند کر دے اور میرے بوجھ کو ہلکا کر دے میرے معاملہ کو درست کر دے اور میرے دل کو پاک بنا دے میرے اعضائے نہانی کی حفاظت فرما اور میرے دل کو روشن کر دے اور میرے گناہ بخش دے ۔میں تجھ سے جنت میں بلند درجات کا طالب ہوں ۔آمین
(مستدرک حاکم کتاب الدعا ،جلد ا صفحہ ۷۰۱ ،حدیث نمبر ۱۹۱۱)
۳:سیرت خیر البشرؐ
از
حضرت مولانا محمد علی ؒ
"یہ امر ضرور قابل توجہ ہے کہ مکہ میں بڑے بڑے سرداران قریش ایمان سے محروم رہ جاتے ہیں اور زیادہ تر ضعفا ہی دین اسلام میں داخل ہوتے ہیں ۔ اس نکتہ کو ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ خوب واضح کرتا ہے ۔ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک نابینا شخص تھے ۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اشراف قریش کو جو آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے دین اسلام کی تبلیغ کر رہے تھے ۔ عین اس وقت کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انکے ساتھ باتوں میں مصروف تھے ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد میں پہنچے اور نابینائی کی وجہ سے نہ جان کر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کس سے اور کیا کلام کر رہے ہیں پہنچتے ہی کچھ سوال کر کے اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو کچھ کہا نہیں، جھڑکا نہیں مگر بتقاضائے بشریت آپ ؐ کی پیشانی پر شکن آیا ۔ ابن مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ پر تو اس بات کا کوئی اثر نہ پڑ سکتا تھا مگر وہ خدا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب خلق عظیم بنانا چاہتا تھا ،اسکی جناب میں یہ پیشانی کا شکن بھی پسند نہ آیا ۔ اور آپؐ پر وحی نازل ہوئی عبس و تولی ان جا ءہ الا عمی۔ پیشانی پر شکن ڈالا اور منہ پھیر لیا اس بات پر کہ اندھا آپؐ کے پاس آیا ہے ۔ اور پھر فرمایا کہ تم کو کیا علم ہے کہ یہی شخص اس سے فائدہ اٹھائے ۔کیونکہ قرآن ایک تذکرہ ہے جس کے ساتھ ایک کمزور اور عاجز انسان اعلی سے اعلی مقامات پر پہنچائے جائیں گے ۔ پس بڑے آدمیوں کا زیادہ خیال مت کرو کہ انکے اسلام قبول کرنے نہ کرنے پر اسلام کا غلبہ مقدر ہے ، نہیں بلکہ انہیں چھوٹے چھوٹے انسانوں کو اٹھا کر اسلام اس بلند مقام پر پہنچائے گا کہ جہاں انکا وہم گمان بھی نہیں جاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سورہ عبس و تولی اب بھی قرآن کریم کا حصہ ہے اور چالیس کروڑ انسان اس کو دن رات پڑھتے ہیں اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا قلب ہی وہ سرچشمہ نہ تھا جس سے پھوٹ کر وحی الٰہی نکلتی ہو ۔کیونکہ گو اس میں تو کچھ شک نہیں کہ انسان بعض وقت دوسرے سے بدسلوکی کر کے خود پچھتاتا ہے مگر اول تو یہاں کوئی بد سلوکی نہیں ،دوسرے جو انسان اپنے کسی فعل پر پچھتائے وہ اس فعل کو ایسا مٹانا چاہتا ہے کہ اس کا ذکر بھی باقی نہ رہے ۔ مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کلام کو جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشری کمزوری کا ذکر ہے تمام دنیا میں ہمیشہ کےلئے پھیلاتے ہیں اور ان خدام کے منہ سے شب و روز یہ لفظ کہلواتے ہیں جن کے دل آپؐ کی محبت سے غایت درجہ کی عزت اور محبت سے بھرے ہوئے ہیں ۔ ہاں جس قلب صافی پر یہ خارجی وحی نازل ہوتی ہے اسکی بے انتہا وسعت کا بھی اس واقعہ سے پتہ لگتا ہے کہ جس بات کو دوسرے لوگ مخفی کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ خود شرح صدر سے اس بات کا اعلان کرتا ہے"
کتاب سیرت خیرالبشرؐ، صفحہ۶۰
۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ
"بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو نہ انکی تحقیر اور عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو نہ کہ خود نمائی سے انکی تذلیل اور امیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرو نہ خود پسندی سے ان پر تکبر۔ہلاکت کی راہوں سےڈرتے رہو ۔خدا سے ڈرتے رہو اور تقوی اختیار کرو اور مخلوق کی پرستش نہ کرو اور اپنے مولی کی طرف منقطع ہو جاو اور دنیا سے دل برداشتہ رہو اور اسکی کے ہو جاو اور اسی کےلئے زندگی بسر کرو اور اس کےلئے ہر ایک ناپاکی اور گناہ سے نفرت کرو کیونکہ وہ پاک ہے ۔چاہیے کہ ہر ایک صبح تمھارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقوی سے رات بسر کی اور ہر ایک شام تمھارے لئے گواہی دے تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا ۔دنیا کی لعنتوں سے مت ڈرو کہ وہ دھوئیں کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو جاتی ہیں اور وہ دن کو رات نہیں کر سکتیں بلکہ تم خدا کی لعنت سے ڈرو جو آسمان سے نازل ہوتی ہے اور جس پر پڑتی ہے اسکی دونوں جہانوں میں بیخ کنی کر جاتی
ہے "
کشتی نوح ،روحانی خزائن، جلد ۱۹ صفحہ ۱۲
۵:دینی مسائل اور انکا حل
کیا آذان کے وقت بات کرنا اور پڑھنا منع ہے ؟
عصر کی اذان ہوئی اور نواب صاحب اور مشیر اعلی خاموش ہو گئے۔ حضرت اقدس مرزا صاحب ؒ نے فرمایا
"اذان میں باتیں کرنی منع نہیں ہیں۔ آپ اگر کچھ اور بات پوچھنا چاہتے ہیں تو پوچھ لیں۔ کیونکہ بعض باتیں انسان کے دل میں ہوتی ہیں اور وہ کسی وجہ سے انکو نہیں پوچھتا ۔ اور پھر رفتہ رفتہ وہ برا نتیجہ پیدا کرتی ہیں ۔ جو شکوک پیدا ہوں انکو فوراًنکالنا چاہیے ۔یہ بری غذا کی طرح ہوتی ہیں اگر نہ نکالی جائیں تو سوء ہضمی ہوجاتی ہے ۔"
"سترہ اپریل ۱۹۰۲ کو ایک شخص اپنا مضمون اشتہار دربارہ طاعون سنا رہا تھا ۔ اذان ہونے لگی ۔ وہ چپ ہو گیا ۔ حضرت اقدس مسیح موعودؒ نے فرمایا ۔ پڑھتے جاو"
الحکم مئی ۱۹۰۲
۶:پیغامِ امیر قومؒ
حضرت مولانا محمد علیؒ
یہ ہے وہ ایمان جو حضرت مرزا صاحبؒ نے اپنے ماننے والوں میں پیدا کیا
"لوگ دعاوی تو بڑے بڑے کر لیتے ہیں اور وہ بھی جن میں ایمان ابھی کمزور ہوتاہے یا مطلق ہوتا ہی نہیں، دعاوی کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس کے دل میں ایمان پیدا ہو جاتا ہے اسکے اندر ایک انقلاب رونما ہوجاتا ہے ۔ اسکی کوششوں اور خیالات پر اسکا ایک نمایاں اثر ہوتا ہے ۔ وہ غور و فکر کرتا ہے تو اس امر پر کہ کن ذرائع سے اس مقصد کو وہ حاصل کرے ۔ اسکو ہر وقت یہ فکر ہوتی ہے کہ کس طرح اس مقصد کو حاصل کیا جائے۔ اسکا ہر قدم اسکے حصول کی طرف اٹھتا ہے ۔ غرضیکہ اسکی نقل و حرکت اور اسکے تمام اعضاء دل و دماغ پر ایک انقلاب آجاتا ہے وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ہر وقت کوشاں اور مشغول نظر آتا ہے ۔ یہ ہے وہ ایمان جو حضرت مرزا صاحبؒ نے اپنے ماننے والوں میں پیدا کیا ۔
ہم میں سے ہر ایک احمدی کو اس انقلاب کو پیدا کرنے والازبردست ایمان اپنے قلوب میں پیدا کرنا چاہیے ۔ آپ کا ایمان نہ صرف اس بات پر محکم ہو کہ اسلام تمام دنیا پر غالب آئے گا بلکہ اس امر پر بھی محکم ایمان ہونا چاہیے کہ میں قرآن کو ہاتھ میں لے کر اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خوب یاد رکھو کہ اگر تم خدا کے راستہ میں کسی کام کو کرنے کےلئے نکلو اور کامیابی کا کوئی سامان نظر نہ آتا ہو تو خدا کے حضور گرو اور اس سے مدد چاہو۔ دنیا کے کاموں میں تو ظاہر سامانوں پر ایک امید لگائی جا سکتی ہے لیکن خدا کے کاموں کو سر انجام دینے کےلئے ظاہر سامانوں کی عدم موجودگی سے گھبرانا نہیں چاہیے ۔ اصلاح کا کام ہوتا ہی خدا کے تصرف سے ہے ۔ یہ انسان کے بس کی بات نہیں ۔دیکھیے! قرآن کریم اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام دنیا پر پہنچانا یہ کوئی چھوٹا ساکام نہیں ہے ۔دنیا کے سب کاموں سے زیادہ عظیم الشان کام ہے ۔ دنیا تو اسقدر وسیع ہے کہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتاکہ ہماری آواز کس طرح دنیا میں پہنچ سکتی ہے ۔ "
خطبات مولانا محمد علیؒ ،جلد ۲۴، صفحہ ۵۔۶
ایک ضروری تجویز
بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ مزید جن احباب تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
مرکز (لاہور)
No comments :
Post a Comment