روزنامہ مبلغ (آنلائن)
بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت
حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
جمعرات۔۲۸ اگست۲۰۱۴ء
یکم ذیقعد ۱۴۳۵ ہجری
شمارہ نمبر:۱۶
Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com
۱:کلامِ الٰہی
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
الانفال: 24
ترجمہ:۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ اور رسول کا حکم مانو، جب وہ تم کو اس کام کےلئے بلاتا ہے جو تمھیں زندگی دیتا ہے
تفسیر:
اللہ اور رسولؐ کی فرمانبرداری کا نتیجہ بتایا ہے کہ وہ تمھاری زندگی کا موجب ہے ۔آج مسلمان قوم جس موت کے نیچے ہے اسی کا علاج یہاں بتایا ہے۔صحابہ رضی اللہ عنہم تو کوئی حکم نہیں ملا جسکی انھوں نے فرمانبرداری نہ کی ہو اور اسی لئے وہ ایک زندہ قوم تھے ۔مگر آج اسلام کا دعوی کرنےوالے اللہ اور اسکے رسولؐ کی فرمانبرداری سے باہر نکلے ہوئے ہیں ۔انہیں کو یہ زندگی کا پیغام دیاہے ۔کیا مسلمان اس پر توجہ کریں گے؟ انکی زندگی حکومت و باشاہت سے نہیں بلکہ اللہ اور رسولؐ کی فرمانبرداری سے ہے۔ حکومت اور بادشاہت تو محض غلام ہیں۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول جو مردوں کو زندہ کرتاہے اس سے مراد احیائے روحانی ہی ہوا کرتا ہے ۔پس اگر حضرت عیسیؑ نے مردہ زندہ کئے تو ہمارے نبی کریمؐ نے اس سے لاکھوں درجہ بڑھ کر مردے زندہ کئے۔
یہ ہے کہ وہ اس سے سب سے زیادہ قریب ہے یہاں تک کہ قلب انسان اور انسان، جن میں کوئی فرق نہیں ان دونوں کے درمیان بھی اللہ تعالیٰ حائل ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا
اللہ اور رسولؐ کی فرمانبرداری کا نتیجہ بتایا ہے کہ وہ تمھاری زندگی کا موجب ہے ۔آج مسلمان قوم جس موت کے نیچے ہے اسی کا علاج یہاں بتایا ہے۔صحابہ رضی اللہ عنہم تو کوئی حکم نہیں ملا جسکی انھوں نے فرمانبرداری نہ کی ہو اور اسی لئے وہ ایک زندہ قوم تھے ۔مگر آج اسلام کا دعوی کرنےوالے اللہ اور اسکے رسولؐ کی فرمانبرداری سے باہر نکلے ہوئے ہیں ۔انہیں کو یہ زندگی کا پیغام دیاہے ۔کیا مسلمان اس پر توجہ کریں گے؟ انکی زندگی حکومت و باشاہت سے نہیں بلکہ اللہ اور رسولؐ کی فرمانبرداری سے ہے۔ حکومت اور بادشاہت تو محض غلام ہیں۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول جو مردوں کو زندہ کرتاہے اس سے مراد احیائے روحانی ہی ہوا کرتا ہے ۔پس اگر حضرت عیسیؑ نے مردہ زندہ کئے تو ہمارے نبی کریمؐ نے اس سے لاکھوں درجہ بڑھ کر مردے زندہ کئے۔
اللہ کے انسان اور اسکے قلب کے درمیان حائل ہونے سے مراد
یہ ہے کہ وہ اس سے سب سے زیادہ قریب ہے یہاں تک کہ قلب انسان اور انسان، جن میں کوئی فرق نہیں ان دونوں کے درمیان بھی اللہ تعالیٰ حائل ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا
نحن اقرب الیہ من حبل الورید (ق۔ ۱۶)
یعنی ہم انسان کی رگ حیات سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں حالانکہ رگ حیات ہی انسان کی زندگی ہے ۔ اور اللہ کےقریب ہونے کی طرف اس لئے توجہ دلائی کہ پھر اسکو چھوڑ کر دوسری طرف کیوں جاتا ہے یا یہ فرمانبرداری میں جلدی کرنے کےلئے ترغیب ہے ۔ایسا نہ ہو کہ وہ مہلت جو انسان کو دی گئی ہے انسان کے ہاتھ سے نکل جائے اور یہ بھی صحیح ہے کہ قلب انسانی اللہ تعالیٰ کے تصرف میں ہے ۔اسکے عزائم بعض وقت رکھے کے رکھے جاتےہیں اور اللہ تعالیٰ کسی مصلحت سے انکو فسخ کردیتا ہے ۔
اس لئے انسان کو جب نیکی کا موقع ملے اس سے فوراً فائدہ اٹھائے ۔ ایسا نہ ہو کہ نیکی کو ترک کرتے کرتے اسکے قلب کی حالت یہاں تک پہنچ جائے کہ پھر وہ نیک تحریک ہی اسکے اندر نہ ہو ۔اوریا مراد یا ہے کہ تم اگر فرمانبرداری کرو تو تمھارے ضعف کو اللہ تعالیٰ قوت سے بدل دے گا اور بزدلی کی جگہ تم میں ہمت پیدا کر دے گا اور خوف کی جگہ امن دے دیگا۔
بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ
۲:حدیثِ نبویؐ
حضرت عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
دنیا تو چند روز کا سامان ہے اور دنیا کے سامانوں میں سب سے بہتر چیز نیک عورت کا وجود ہے
صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب خیر متاع الدنیا، حدیث نمبر ۲۶۶۸
۳:سیرت خیر البشرؐ
از
حضرت مولانا محمد علی
"آپؐ کی بعثت سے پہلے کی زندگی کے واقعات سے یہ بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپؐ بچپن میں اعلیٰ درجہ کے باحیا اور بردبار تھے ۔زیادہ کھیل کود آپؐ کی عادت نہ تھی ابو طالب نے آپؐ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت عباسؓ سے کہا کہ میں نے کبھی آپؐ سے جھوٹ، ہنسی،مخول، جہالت، بچوں کے ساتھ رہنا نہیں دیکھا۔
ملک عرب کا عام شغل اس زمانہ میں جنگ تھا مگر آپؐ کو اس سے کچھ مناسبت نہ تھی ۔حرب فجار میں آپؐ شامل بھی ہوئے تو اپنے چچوں کو تیر وغیرہ پکڑانے کا کام کرتے تھے ۔ ملک کی توہم پرستیوں کو آپؐ کے سینہ صافی کوئی دخل نہ تھا اور یہ بالکل سچ ہے کہ آپؐ کا سینہ بچپن ہی سے ہر قسم کی آلائش سے صاف کر دیا گیا اور وہ کشفی نظارہ جس میں آپؐ کے سینہ کو دھوتےہوئے دکھایا گیا اسی حقیقت کو ظاہر کرنے کےلئے تھاکہ آپؐ کا قلب ہر قسم کی آلائشوں سے پاک ہے ۔
بت پرستی سے آپؐ کو بچپن ہی سے نفرت تھی۔ ایک دن کسی مجلس میں لات و عزیٰ کے ذکر پر فرمایا کہ مجھے جیسی ان سے نفرت ہے اور کسی چیز سے ایسی نفرت نہیں ۔بلکہ شرک کی رسومات میں بھی آپؐ کبھی شریک نہیں ہوئے یہاں تک کہ وہ کھانا بھی کھانے سے انکار کیا جو بتوں کے نام پر چڑھایا گیا تھا "
"آپؐ کی بعثت سے پہلے کی زندگی کے واقعات سے یہ بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپؐ بچپن میں اعلیٰ درجہ کے باحیا اور بردبار تھے ۔زیادہ کھیل کود آپؐ کی عادت نہ تھی ابو طالب نے آپؐ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت عباسؓ سے کہا کہ میں نے کبھی آپؐ سے جھوٹ، ہنسی،مخول، جہالت، بچوں کے ساتھ رہنا نہیں دیکھا۔
ملک عرب کا عام شغل اس زمانہ میں جنگ تھا مگر آپؐ کو اس سے کچھ مناسبت نہ تھی ۔حرب فجار میں آپؐ شامل بھی ہوئے تو اپنے چچوں کو تیر وغیرہ پکڑانے کا کام کرتے تھے ۔ ملک کی توہم پرستیوں کو آپؐ کے سینہ صافی کوئی دخل نہ تھا اور یہ بالکل سچ ہے کہ آپؐ کا سینہ بچپن ہی سے ہر قسم کی آلائش سے صاف کر دیا گیا اور وہ کشفی نظارہ جس میں آپؐ کے سینہ کو دھوتےہوئے دکھایا گیا اسی حقیقت کو ظاہر کرنے کےلئے تھاکہ آپؐ کا قلب ہر قسم کی آلائشوں سے پاک ہے ۔
بت پرستی سے آپؐ کو بچپن ہی سے نفرت تھی۔ ایک دن کسی مجلس میں لات و عزیٰ کے ذکر پر فرمایا کہ مجھے جیسی ان سے نفرت ہے اور کسی چیز سے ایسی نفرت نہیں ۔بلکہ شرک کی رسومات میں بھی آپؐ کبھی شریک نہیں ہوئے یہاں تک کہ وہ کھانا بھی کھانے سے انکار کیا جو بتوں کے نام پر چڑھایا گیا تھا "
کتاب سیرت خیرالبشرؐ، صفحہ ۴۹، ۵۰
۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ
"اور مکالمہ الٰہیہ کی حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے نبیوں کی طرح اس شخص کو جو فنا فی النبی ہے اپنے کامل مکالمہ کا شرف بخشے۔ اس مکالمہ میں وہ بندہ جو کلیم اللہ ہو خدا سے گویا آمنے سامنے باتیں کرتا ہے۔ وہ سوال کرتا ہے خدا اس کا جواب دیتا ہے۔ گو ایسا سوال جواب پچاس۵۰ دفعہ واقعہ ہو یا اس سے بھی زیادہ۔
خدا تعالیٰ اپنے مکالمہ کے ذریعہ سے تین۳ نعمتیں اپنے کامل بندہ کو عطا فرماتا ہے۔
اول:ان کی اکثر دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اور قبولیت سے اطلاع دی جاتی ہے۔
دوم: اس کو خدا تعالیٰ بہت سے امور غیبیہ پر اطلاع دیتا ہے۔
سوم: اس پر قرآن شریف کے بہت سے علوم حکمیہ بذریعہ الہام کھولے جاتے ہیں۔
پس جو شخص اس عاجز کا مکذب ہوکر پھر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ ہنر مجھ میں پایا جاتا ہے میں اس کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ ان تینوں باتوں میں میرے ساتھ مقابلہ کرے
اور فریقین میں قرآن شریف کے کسی مقام کی سات آیتیں تفسیر کے لئے بالاتفاق منظور ہوکر ان کی تفسیر دونوں فریق لکھیں یعنی فریق مخالف اپنے الہام سے اس کے معارف لکھے اور میں اپنے الہام سے لکھوں
اور چند ایسے الہام قبل ازوقت وہ پیش کرے جن میں قبولیت دعا کی بشارت ہو۔ اور وہ دعا فوق الطاقت ہو ایسا ہی میں بھی پیش کروں
اور چند امور غیبیہ جو آنے والے زمانہ سے متعلق ہیں وہ قبل از وقت ظاہر کرے اور ایسا ہی میں بھی ظاہر کروں اور دونوں فریق کے یہ بیان اشتہارات کے ذریعہ سے شائع ہو جائیں تب ہر ایک کا صدق کذب کھل جائے گا۔
مگر یاد رکھنا چاہئے کہ ہرگز ایسا نہیں کرسکیں گے مکذبین کے دلوں پر خدا کی لعنت ہے خد ان کو نہ قرآن کا نور دکھلائے گا نہ بالمقابل دعا کی استجابت جو اعلام قبل ازوقت کے ساتھ ہو اور نہ امور غیبیہ پر اطلاع دے گا 3 33 ۔۱ پس اب میں نے یہ اشتہار دے دیا ہے جو شخص اس کے بعد سیدھے طریق سے میرے ساتھ مقابلہ نہ کرے اور نہ تکذیب سے باز آوے وہ خدا کی لعنت فرشتوں کی لعنت اور تمام صلحاء کی لعنت کے نیچے ہے۔ وما علی الرسول الَّا البلاغ۔ "
روحانی خزائن، جلد13 صفحہ 303
۵:دینی مسائل اور انکا حل
از
حضرت مجدد و امام الزمان مرزا غلام احمد قادیانی ؒ
قضا عمری پر سوال ہوا کہ جمعتہ الوداع کےدن لوگ تمام نمازیں پڑھتے ہیں کہ گزشتہ نمازیں جو ادا نہیں کیں وہ ادا ہو جائیں اس کا وجود ہے یا نہیں ؟
حضرت مجدد اعظمؒ نے ارشاد فرمایا :
"یہ ایک فضول امر ہے مگر ایک دفعہ ایک شخص نماز پڑھ رہا تھا کسی شخص نے حضرت علیؓ کو کہا کہ آپ خلیفہ وقت ہیں اسے منع کیوں نہیں کرتے فرمایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اس آیت کے نیچے ملزم نہ بنایاجاوں
ارایت الذی ینھی عبدااذا صلی
ہاں اگر کسی شخص نے عمداً نماز اس لئے ترک کی ہے کہ قضا عمری کےدن پڑھ لوں گا تو اس نے ناجائز کیا ہے اور اگر ندامت کے طور پر تدارک مافات کرتا ہے تو پڑھنے دو کیوں منع کرتے ہو۔آخر دعا ہی کرتا ہے ۔ہاں اس میں پست ہمتی ضرور ہے ۔پھر دیکھو منع کرنے سے کہیں تم بھی اس آیت کےنیچے نہ آجاو"
الحکم ۲۴ اپریل ۱۹۰۳ء
ایک شخص نے سوال کیا کہ میں چھ ماہ تک تارک صلوٰة تھا اب میں نے توبہ کی ہے کیا وہ سب نمازیں اب پڑھوں؟
فرمایا:
" نماز کی قضاء نہیں ہوتی ۔اسکا علاج توبہ ہی کافی ہے "
بدر ۲۴ دسمبر ۱۹۰۷ ء
قضا عمری پر سوال ہوا کہ جمعتہ الوداع کےدن لوگ تمام نمازیں پڑھتے ہیں کہ گزشتہ نمازیں جو ادا نہیں کیں وہ ادا ہو جائیں اس کا وجود ہے یا نہیں ؟
حضرت مجدد اعظمؒ نے ارشاد فرمایا :
"یہ ایک فضول امر ہے مگر ایک دفعہ ایک شخص نماز پڑھ رہا تھا کسی شخص نے حضرت علیؓ کو کہا کہ آپ خلیفہ وقت ہیں اسے منع کیوں نہیں کرتے فرمایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اس آیت کے نیچے ملزم نہ بنایاجاوں
ارایت الذی ینھی عبدااذا صلی
ہاں اگر کسی شخص نے عمداً نماز اس لئے ترک کی ہے کہ قضا عمری کےدن پڑھ لوں گا تو اس نے ناجائز کیا ہے اور اگر ندامت کے طور پر تدارک مافات کرتا ہے تو پڑھنے دو کیوں منع کرتے ہو۔آخر دعا ہی کرتا ہے ۔ہاں اس میں پست ہمتی ضرور ہے ۔پھر دیکھو منع کرنے سے کہیں تم بھی اس آیت کےنیچے نہ آجاو"
الحکم ۲۴ اپریل ۱۹۰۳ء
ایک شخص نے سوال کیا کہ میں چھ ماہ تک تارک صلوٰة تھا اب میں نے توبہ کی ہے کیا وہ سب نمازیں اب پڑھوں؟
فرمایا:
" نماز کی قضاء نہیں ہوتی ۔اسکا علاج توبہ ہی کافی ہے "
بدر ۲۴ دسمبر ۱۹۰۷ ء
۶:پیغامِ امیر قومؒ
حضرت مولانا محمد علیؒ
"اپنے گھر کے اندر تبدیلی پیدا کرو۔میرے خیال میں اسکی زیادہ تر ذمہ داری مردوں پر ہے ۔وہ اسکے متعلق اپنے گھروں میں تحریک اور تاکید نہیں کرتے حالانکہ یہ انکا فرض ہے ۔دیکھیے باہر آکر نمبر دار بن جانا کوئی حقیقت نہیں رکھتا اوریہ بڑی آسان بات ہے ۔تم اپنے گھروں کے اندر کوئی تحریک اور تبدیلی پیدا کرو۔
اگر تمھارے گھروں کے اندر دینی کاموں کے ساتھ کوئی شوق اور رغبت پیدا نہیں ہوئی تو اسکا مطلب یہ ہے کہ خود تمھارے اپنے اندر کوئی روشنی نہیں ۔چراغ میں روشنی ہوتی ہے تو وہ دوسروں پر روشنی ڈالتا ہے ۔سورج کے اندر روشنی ہوتی ہے، وہ ساری دنیا کو روشن کر دیتا ہے ۔اسی طرح جس شخص کےاندر روحانی و ایمانی روشنی ہے وہ ضرور دوسروں پر اثر ڈالے گا ۔
جوشخص اپنے گھر کے اندر روشنی نہیں ڈال سکتا سمجھو اسکے اندر یہ روشنی موجود ہی نہیں ۔اگر تمھارے گھر کے آدمیوں میں سخت دلی ہے تو انہیں بار بار سمجھاو۔ بار بار سمجھانے سے پتھر پر بھی اثر ہوجاتا ہے ۔انکے لئے دعا کرو "
خطبات مولانا محمد علیؒ
جلد ۱۵، اقباس از صفحہ ۳۱۷
۷:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)
ایک اعتراض کا جواب کہ حضرت مرزا صاحبؒ اگر کلمہ گوووں کو مسلمان سمجھتے ہیں تو پھر اپنے پیروکاروں کو غیر احمدی مسلمانوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کیوں کیا؟
حضرت مسیح موعودؑ کے الفاظ ہی میں جواب
"جبکہ وہ لوگ ہم کو کافر قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ہم انکو کافر کہنے میں غلطی پر ہیں تو ہم خود کافر ہیں تو اس صورت میں انکے پیچھے نماز کیونکر جائز ہو سکتی ہے ۔ایسا ہی جواحمدی انکے پیچھے نماز پڑھتا ہے جب تک توبہ نہ کرے اسکے پیچھے نماز نہ پڑھو"
بدر ۲۳ مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۰
مختصر تبصرہ از ایڈیٹر
نوٹ: پس ایسے افراد کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکا ہے جو ایک کلمہ گو کی تکفیر کرنے میں پہل کرتے ہیں اور از روئے شریعت ایک مومن کو ناحق طور پر کافر قرار دینے کی پاداش میں بطور سزا خود کفر کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ لہذا ایسے افراد کے پیچھے نماز کیونکر جائز ہو سکتی ہےجب کہ وہ شریعت کی نافرمانی کر کے خود شریعت کےفتوی کے نیچے ہیں ؟ جیسا کہ ہم نے اپنے ایک سابقہ خصوصی شمارہ بعنوان کفرو اسلام میں بھی اس معاملہ میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب خود انہی کی تحریرات کی روشنی میں کافی وضاحت کےساتھ پیش کیا تھا جسے مختصراً یہاں دوبارہ پیش کرتا ہوں
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ فرماتے ہیں :
"ابتداء سے میرا یہی مذہب ہے کہ میرے دعوی کے انکار سے کوئی شخص کافر یا دجال نہیں ہو سکتا"
پس ہمارے پیارے امام حضرت مسیح موعودؑ نےیہاں شریعت کے فیصلہ کو مقدم کرتے ہوئے اس کی پاسداری کی ہے اور اپنے پیروکاروں کو بھی شریعت ہی میں موجود ایک فیصلہ کی پاسداری کا حکم دیا ہے ۔
کلمہ گو مومن کی تکفیر کرنے والا شریعت کا باغی ہے اور اسی سلوک کا مستحق ہے جو وہ دوسرے کلمہ گو مومن کے لئے روا رکھے ہوئے ہے۔
پس یہاں غور کیجئے کہ ہمارے پیارے امام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کو شریعت کا کس قدر پاس ہے غیر احمدی مکفر تو ایک طرف،خود اپنی جماعت تک کے افراد کو اس سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا اور آپکے ارشاد مبارک سے صاف ثابت ہے کہ ایک شخص احمدی کہلا کر اگر ایسے مکفر ین کے پیچھے نماز پڑھتا ہے تو پھروہ بھی شریعت کا مخالف قرار پائے کر انہیں کا ساتھی شمار ہو گا ۔ لہذا اسکے پیچھے بھی ایک احمدی کی نماز جائز نہیں جب تک کہ وہ توبہ نہ کرے ۔
ہاں اگر غیر احمدی مکفر بھی توبہ کرتا ہے اور پھر شریعت کی پاسداری میں کسی بھی کلمہ گو کے مکفر کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا اور ہمارے امام ؑ کو مسلمان یقین کرتا ہے اور ہمارے پیچھے نماز بھی پڑھتاہے تو ایسے غیر احمدی مسلمان کے پیچھے نماز بالکل جائز ہے ۔(ایڈیٹر)
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)
ایک اعتراض کا جواب کہ حضرت مرزا صاحبؒ اگر کلمہ گوووں کو مسلمان سمجھتے ہیں تو پھر اپنے پیروکاروں کو غیر احمدی مسلمانوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کیوں کیا؟
حضرت مسیح موعودؑ کے الفاظ ہی میں جواب
"جبکہ وہ لوگ ہم کو کافر قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ہم انکو کافر کہنے میں غلطی پر ہیں تو ہم خود کافر ہیں تو اس صورت میں انکے پیچھے نماز کیونکر جائز ہو سکتی ہے ۔ایسا ہی جواحمدی انکے پیچھے نماز پڑھتا ہے جب تک توبہ نہ کرے اسکے پیچھے نماز نہ پڑھو"
بدر ۲۳ مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۰
مختصر تبصرہ از ایڈیٹر
نوٹ: پس ایسے افراد کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکا ہے جو ایک کلمہ گو کی تکفیر کرنے میں پہل کرتے ہیں اور از روئے شریعت ایک مومن کو ناحق طور پر کافر قرار دینے کی پاداش میں بطور سزا خود کفر کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ لہذا ایسے افراد کے پیچھے نماز کیونکر جائز ہو سکتی ہےجب کہ وہ شریعت کی نافرمانی کر کے خود شریعت کےفتوی کے نیچے ہیں ؟ جیسا کہ ہم نے اپنے ایک سابقہ خصوصی شمارہ بعنوان کفرو اسلام میں بھی اس معاملہ میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب خود انہی کی تحریرات کی روشنی میں کافی وضاحت کےساتھ پیش کیا تھا جسے مختصراً یہاں دوبارہ پیش کرتا ہوں
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ فرماتے ہیں :
"ابتداء سے میرا یہی مذہب ہے کہ میرے دعوی کے انکار سے کوئی شخص کافر یا دجال نہیں ہو سکتا"
تریاق القلوب ،صفحہ ۱۳۰
"ہم کسی کلمہ گو کو اسلام سے خارج نہیں کہتے جب تک کہ وہ ہمیں کافر کہہ کر خود کافر نہ بن جائے"
ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۶۳۵
"جو ہمیں کافر نہیں کہتا ہم اسے ہر گز کافر نہیں کہتے ۔لیکن جو ہمیں کافر کہتا ہے اسے کافر نہ سمجھیں تو اس میں حدیث اور متفق علیہ مسئلہ کی مخالفت لازم آتی ہے اور یہ ہم سے ہو نہیں سکتا"
ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۶۳۶
پس ہمارے پیارے امام حضرت مسیح موعودؑ نےیہاں شریعت کے فیصلہ کو مقدم کرتے ہوئے اس کی پاسداری کی ہے اور اپنے پیروکاروں کو بھی شریعت ہی میں موجود ایک فیصلہ کی پاسداری کا حکم دیا ہے ۔
کلمہ گو مومن کی تکفیر کرنے والا شریعت کا باغی ہے اور اسی سلوک کا مستحق ہے جو وہ دوسرے کلمہ گو مومن کے لئے روا رکھے ہوئے ہے۔
پس یہاں غور کیجئے کہ ہمارے پیارے امام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کو شریعت کا کس قدر پاس ہے غیر احمدی مکفر تو ایک طرف،خود اپنی جماعت تک کے افراد کو اس سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا اور آپکے ارشاد مبارک سے صاف ثابت ہے کہ ایک شخص احمدی کہلا کر اگر ایسے مکفر ین کے پیچھے نماز پڑھتا ہے تو پھروہ بھی شریعت کا مخالف قرار پائے کر انہیں کا ساتھی شمار ہو گا ۔ لہذا اسکے پیچھے بھی ایک احمدی کی نماز جائز نہیں جب تک کہ وہ توبہ نہ کرے ۔
ہاں اگر غیر احمدی مکفر بھی توبہ کرتا ہے اور پھر شریعت کی پاسداری میں کسی بھی کلمہ گو کے مکفر کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا اور ہمارے امام ؑ کو مسلمان یقین کرتا ہے اور ہمارے پیچھے نماز بھی پڑھتاہے تو ایسے غیر احمدی مسلمان کے پیچھے نماز بالکل جائز ہے ۔(ایڈیٹر)
ایک ضروری تجویز
بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ مزید جن احباب تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
No comments :
Post a Comment