Saturday, August 23, 2014

ہفتہ۔23 اگست 2014، شمارہ:11۔ دعا


روزنامہ مبلغ (آنلائن)


روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان



بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت

 حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ

احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

 (مرکز لاہور)

ہفتہ۔۲۳ اگست۲۰۱۴ء

۲۶شوال ۱۴۳۵ ہجری


شمارہ نمبر:۱۱
Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com



حاجتیں پوری کریں گے کیا تیری عاجز بشر
کر بیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے
(مسیح موعودؑ)

۱:کلامِ الٰہی 

دعا اور اسکی اہمیت و قبولیت

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ
 186:البقرة
ترجمہ:اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو میں قریب ہوں میں دعا کرنے والے کی دعا کو جب وہ مجھے پکارتا ہے قبول کرتا ہوں،پس چاہیے کہ میری فرمانبرداری کریں اور چاہیے کہ مجھ پر ایمان لائیں تاکہ ہدایت پائیں 
تفسیر:اس آیت میں جس میں قرب الٰہی کا ذکر ہے رمضان کے احکام میں لانے سے یہ اشارہ ہے کہ رمضان میں قرب الٰہی کی راہیں بہت کھل جاتی ہیں ۔اس کا طریق یہ بتا دیا کہ دعا کرو تو میرا قرب مل سکتا ہے ۔رمضان میں نبی کریم صلعم کا طرز عمل بھی یہی بتاتا ہے کہ آپؐ   عبادت اور دعاپر بہت زور دیتے تھے اور سخاوت بھی دیگر ایام سے بڑھ کر کرتے تھے ۔گویا یہی مہینہ مسلمانوں کےلئے مجاہدات کا مہینہ ہے جس کے اندر تزکیہ نفس ہو کر اللہ کا قرب حاصل ہو سکتا ہے اور انسانی زندگی کی اصل غرض پوری ہو سکتی ہے ۔
اذا سالک عبادی میں اس تڑپ کا ذکر ہے جو مومنوں کے دل میں پیدا ہوتی ہے اور دعوةالداع سے مراد اسی تڑپ کا اظہار ہے جب انسان دعا میں اسے اختیار کرتا ہے ۔پس یہاں جس دعا کی قبولیت کا ذکر ہے وہ صرف قرب الٰہی کو حاصل کرنے کی دعا ہے اور جو انسان ایسی دعا کرتا ہے اسکی اللہ تعالیٰ بھی ضرور قبول فرماتا ہے ۔ اسی لئے فرمایا کہ میری فرمانبرداری کریں اور مجھ پرایمان لائیں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ سیدھی راہ پا لیں گے یعنی وہ راہ جو میرے قرب میں پہنچا دیتی ہے ۔فی الواقع فطرت انسانی جب صفائی پر ہوتی ہے اور روزہ سے اس میں صفائی ضرور آتی ہے تو اسکے اندر یہ تڑپ پیدا ہوتی ہے کہ قرب الٰہی کو حاصل کرے ۔اس قرب کو حاصل کرنے کےلئے یہ بتایا کہ نرے روزے سے ہی نہیں بلکہ پھر دعا بھی ساتھ کرو۔گویا استعینوا بالصبر والصلوٰة میں روزہ اگر صبر کا پہلو ہے تو صلوٰة دعا کا پہلو ہے ۔پس یہ مہینہ عبادات کے لئے مخصوص ہے ۔
سیاق سباق عبارت سے ظاہر ہے کہ یہاں انہی دعاوں کی قبولیت کا ذکر ہے جو قرب الٰہی کے حصول کےلئے کی جائے۔عام دعاوں کا یہاں ذکر نہیں جو بندہ اپنے مصائب کےلئے کرتا ہے ۔انکا ذکر دوسری جگہ ان الفاظ میں ہے 

فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِنْ شَاءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُونَ
6:الانعام: 41
یعنی جس مصیبت کے دور کرنے کےلئے تم اسے پکارتے ہو اسے اگر چاہے تو دور کر دے ۔یعنی یہ ضروری نہیں کہ دنیوی معاملات میں اللہ تعالیٰ ساری دعاوں کو قبول کرے ۔جسے چاہے اسے قبول کرے ۔اسی لئے دوسری جگہ فرمایا ولنبلونکم بشی من الخوف۔یعنی آزمائش کے طورپر اللہ تعالیٰ کچھ تکلیف انسانوں پر بھی وارد کرتا رہا ہے ۔ہاں قرب الٰہی کی راہیں اسقدر کھلی ہیں کہ جب انسان اس کےلئے قدم اٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اسکی پکار کو سن لیتا ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا 
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا
29: النکبوت: 69
ایک ممکنہ اعتراض کا جواب:
اس پر اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اگر بعض دعائیں قبول نہیں ہوتیں تو دعا ایک لغو امر ہے، ایسا ہی ہے جیسا کوئی کہے بعض وقت دوا مفید نہیں پڑتی تو دوا کرنا ہی لغو امر ہے ۔جس قدر اسباب دنیا میں ہیں وہ ایک حد تک ہی فائدہ پہنچاتے ہیں، اور ہر دعا کو قبول کرنے کے یہ معنی ہوئے کہ خدا حاکم نہیں بلکہ بندہ حاکم ہے کہ جو وہ مانگے خدا کو مجبوراً دینا پڑتا ہے ۔وہاں دعا کی قبولیت کا یقین اس سے ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض وقت اپنے بندوں کو قبل از وقت نتیجہ سے اطلاع دیتا ہے ۔

بیان القرآن ، اردو ترجمہ و تفسیر از حضرت امیرقوم مولانا محمدعلیؒ


۲:حدیثِ نبویؐ
دعا کا قصہ 

 عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا
" آپﷺ سے پہلی امتوں میں سے تین آدمی سفر کے دوران بارش کی وجہ سے ایک غار میں چلے گئے پس غار (دھانے پر پتھر گرنے کی وجہ سے) بند ہو گئی، تو انہوں نے ایک دوسرے کو کہا کہ اللہ تعالیٰ کی قسم! آج تمہیں سچائی کے علاوہ کوئی چیز نجات نہیں دے سکتی، لہذا ہر شخص اپنے اپنے سچے عمل کے واسطے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے ان میں سے ایک نے کہا اے اللہ! آپ کو بخوبی علم ہے کہ میں نے چند سیر چاولوں کی مزدوری کے عوض ایک مزدور رکھا لیکن وہ اجرت لیے بغیر چلا گیا میں نے اس کی مزدوری کے چاولوں کی زراعت کی پھر اس کی آمدن سے گائے کا ایک گلہ خریدا۔ کچھ عرصہ بعد اس نے آ کر مزدوری طلب کی۔ تو میں نے اس کو کہا کہ یہ گائے کا سارا گلہ لے جا۔ تو اس نے کہا کہ میرے تو صرف چند سیر چاول تھے میں نے کہا کہ یہ گائے کا گلہ لے جا کیونکہ یہ ساری گائیں اسی چاولوں کی آمدن سے ہیں تو وہ لے گیا۔ یا اللہ! آپ جانتے ہیں اگر میں نے یہ کام آپ سے ڈر کر کیا ہے تو آپ اس چٹان کو غار کے دھانے سے دور کر کے ہمیں اس مصیبت سے نجات دے دیں۔ اس دعا کی وجہ سے چٹان ان سے کچھ سرک گئی (اس کے بعد) دوسرے شخص نے دعا کی یا اللہ! آپ کو بخوبی علم ہے کہ میرے ماں باپ بوڑھے تھے اور میں ہر روز رات کو آ کر اپنی بکریوں کا دودھ ان کو پلاتا تھا۔ ایک رات میں بکریوں کے چرانے کی وجہ سے لیٹ ہو گیا کہ میرے ماں پاب سو گئے اور میری بیوی بچے بھوک کے مارے بلبلاتے رہے میں ان کو ماں پاب کے دودھ پینے سے پہلے دودھ نہیں پلانا چاہتا تھا اور ماں پاب کو بیدار کر کے ان کی نیند بھی خراب نہیں کرنا چاہتا تھا کہ ان کے آرام میں خلل پڑے۔ دودھ بھی ضرورپلانا چاہتا تھا اس لیے دودھ لیے صبح تک انتظار کرتا رہا۔ اے اللہ! آپ تو جانتے ہیں اگر میں نے یہ کام آپ سے ڈر کر کیا ہے تو آپ ہمیں اس غار میں بند ہونے والی مصیبت سے نجات دیں اور غار کا منہ کھول دیں۔ تو چٹان اتنی سرک گئی کہ ان کو آسمان نظر آنے لگا۔ تیسرے نے دعا کرتے ہوئے کہا اے اللہ! آپ کو بخوبی علم ہے کہ میری ایک چچا زاد بہن تھی جو مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی میں نے اس کو بہت ورغلایا اور گناہ کی دعوت دی وہ انکار کرتی رہی حتی کہ اس نے مجبور ہو کر مجھے سو دینار دینے کو کہا۔ میں نے بہت کوشش کے بعد اس کو سو دینار کر دیئے تو مجبور ہو کر اس نے اپنا آپ میرے سپرد کر دیا۔ (جب میں اس سے اپنی نفسانی خواہش کرنے کے لیے) اس کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا تو اس نے کہا اللہ سے ڈر اور اس مہر کو ناحق مت توڑ۔ اس کے ان الفاظ سے مجھ پر تیرا ایسا خوف طاری ہوا کہ میں نے اس کو چھوڑ دیا اور وہ سو دینار بھی اس کو معاف کر دیئے جو میں نے اس کو دیئے تھے۔یا اللہ! آپ تو جانتے ہی ہیں ، اگر میں نے یہ کام آپ سے ڈر کر کیا ہے تو یہ مصیبت جس میں ہم پھنسے ہوئے ہیں دور کر دے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی مصیبت دور کر دی اور وہ سب باہر آ گئے۔"


اور بخاری شریف کی ایک روایت میں اس طرح ہے۔ "وہ آپس میں کہنے لگے (اب کیا کرنا) ایسا کرو اللہ سے اپنے اپنے عمدہ عمل بیان کر کے دعا کرو تا کہ وہ تمہیں اس مصیبت سے نکال دے۔ تو ان میں سے ایک نے کہا، اے اللہ! میرے ماں باپ بہت بوڑھے تھے۔۔۔۔ آخر حدیث تک۔


تخریج: صحیح البخاری: کتاب البیوع، باب اذا اشتری شیئاً لغیرہ بغیر اذنہ فرضی۔
 صحیح مسلم کتاب الذکر و الدعاء۔ باب قصۃ اصحاب الغار الثلاثہ




۳:سیرت خیر البشرؐ
از
 حضرت مولانا محمد علی ؒ
امانت،صدق،راستبازی،ایفائے عہد و عفت 
"امانت صدق اور راستبازی آپؐ   کی سارے عرب میں مشہور تھی یہاں تک کہ آپؐ   کا نام ہی الامین ہوگیا۔ خود ابوجہل کا اعتراف موجود ہے جب اس نے نبی صلعم سے کہا ہم آپؐ   کو جھوٹا نہیں کہتے بلکہ اس پیغام کو جھوٹا کہتے ہیں جو آپؐ   لائے ہیں ۔
نضر بن الحرث نے خود اپنے ساتھیوں کو جب وہ رسول اللہ صلعم کے خلاف مشورے کر رہے تھے یوں ملزم کیا کہ محمد صلعم تم میں ایک لڑکا تھا سب سے پسندیدہ۔بات میں سب سے سچا۔امانت میں سب سے بڑھ کر اورجب وہ بوڑھا ہوگیا اور تمھارے پاس کچھ پیغام لایا تو تم اسے ساحکر کہتے ہو ۔خدا کی قسم وہ ساحر نہیں ۔
آپؐ   نے جو عہد کیا اسکو بڑےبڑے نقصان اٹھا کر بھی پورا کیا ۔کفار کے ساتھ جو حدیبیہ میں عہد ہوا اہل مکہ میں سے کوئی مسلمان ہوا کہ اہل مکہ میں سے جو مسلمان ہو کر آپؐ   کے پاس آئے تو اس واپس کر دیں گے اسکو آپؐ   نے ایسے ایسے حالات میں پورا کیا کہ خود مسلمانوں کی آنکھوں میں خون اتر رہا تھا ۔
عفت اور پرھیز گاری کےلحاظ سے بھی آپؐ   نے کامل نمونہ دکھایا ۔پچیس برس کی عمر تک شادی نہیں کی مگر آپؐ   کی عفت پر کوئی شخص ہلکے سے ہلکے دھبے کا نشان بھی نہیں بتا سکتا۔ "


کتاب سیرت خیرالبشرؐ، صفحہ۱۸۹۔۱۹۰


۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ 
قبولیت دعا کی شرط
جب سے خدا نے آسمان اور زمین کو بنایا کبھی ایسا اتفاق نہ ہوا کہ اس نے نیکوں کو تباہ اور ہلاک اور نیست ونابود کر دیا ہو بلکہ وہ اُن کے لئے بڑے بڑے کام دکھلاتا رہا ہے اور اب بھی دکھلائے گا وہ خدا نہائت وفادار خدا ہے اور وفاداروں کے لئے اُس کے عجیب کام ظاہر ہوتے ہیں دنیا چاہتی ہے کہ ان کو کھا جائے اور ہر ایک دشمن ان پر دانت پیستا ہے مگر وہ جو ان کا دوست ہے ہر ایک ہلاکت کی جگہ سے ان کو بچاتا ہے اور ہر ایک میدان میں ان کو فتح بخشتا ہے کیا ہی نیک طالع وہ شخص ہے جو اُس خدا کا دامن نہ چھوڑے۔ ہم اُس پر ایمان لائے ہم نے اُس کو شناخت کیا۔ تمام دنیا کا وہی خدا ہے جس نے میرے پر وحی نازل کی جس نے میرے لئے زبردست نشان دکھلائے جس نے مجھے اس زمانہ کے لئے مسیح موعود کر کے بھیجا اس کے سوا کوئی خدا نہیں نہ آسمان میں نہ زمین میں جوؔ شخص اُس پر ایمان نہیں لاتا وہ سعادت سے محروم اور خذلان میں گرفتار ہے۔ ہم نے اپنے خدا کی آفتاب کی طرح روشن وحی پائی ہم نے اُسے دیکھ لیا کہ دنیا کا وہی خدا ہے اُس کے سوا کوئی نہیں کیا ہی قادر اور قیوم خدا ہے جس کو ہم نے پایا۔ کیا ہی زبردست قدرتوں کا مالک ہے جس کو ہم نے دیکھا سچ تو یہ ہے کہ اُس کے آگے کوئی بات اَنْہونی نہیں مگر وہی جو اُس کی کتاب اور وعدہ کے برخلاف ہے سو جب تم دعا کرو تو اُن جاہل نیچریوں کی طرح نہ کرو جو اپنے ہی خیال سے ایک قانون قدرت بنا بیٹھے ہیں جس پر خدا کی کتاب کی مہر نہیں کیونکہ وہ مردود ہیں اُن کی دعائیں ہرگز قبول نہیں ہوں گی وہ اندھے ہیں نہ سوجاکھے وہ مُردے ہیں نہ زندے خدا کے سامنے اپنا تراشیدہ قانون پیش کرتے ہیں اور اُس کی بے انتہا قدرتوں کی حد بست ٹھہراتے ہیں اور اُس کو کمزور سمجھتے ہیں سو ان سے ایسا ہی معاملہ کیا جائے گا جیسا کہ ان کی حالت ہے لیکن جب تو دعا کے لئے کھڑا ہو تو تجھے لازم ہے کہ یہ یقین رکھے کہ تیرا خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے تب تیری دعا منظور ہوگی اور تو خدا کی قدرت کے عجائبات دیکھے گا جو ہم نے دیکھے ہیں اور ہماری گواہی رویت سے ہے نہ بطور قصّہ کے۔ اُس شخص کی دعا کیونکر منظور ہو اور خود کیونکر اس کو بڑی مشکلات کے وقت جو اُس کے نزدیک قانون قدرت کے مخالف ہیں دعا کرنے کا حوصلہ پڑے جو خدا کو ہر ایک چیز پر قادر نہیں سمجھتا۔ مگر اے سعید انسان تو ایسا مَتْ کر تیرا خدا وہ ہے جس نے بیشمار ستاروں کو بغیر ستون کے لٹکا دیا اورجس نے زمین وآسمان کو محض عدم سے پیدا کیا ۔کیا تو اُس پر بدظنی رکھتا ہے کہ وہ تیرے کام میں عاجز آجائے گا *بلکہ تیری ہی بدظنی تجھے محروم رکھے گی ہمارے خدا میں بے شمار عجائبات ہیں مگر وہی دیکھتے ہیں جو صدق اور وفا سے اس کے ہو گئے ہیں وہ غیروں پر جو اس کی قدرتوں پر یقین نہیں رکھتے اور اُس کے صادق وفادارنہیں ہیں وہ عجائبات ظاہر نہیں کرتا۔ کیا بدبخت وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتہ نہیں کہ اُس کا ایک خدا ہے جو ہر ایک چیز پر قادر ہے۔ ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے ہماری اعلیٰ لذّات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوب صورتی اس میں پائی۔ یہ دولت لینے کے لایق ہے اگرچہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگرچہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو۔

کشتی نوح،روحانی خزائن،جلد ۱۹،صفحات ۲۰۔۲۱

۵:دینی مسائل اور انکا حل
از
حضرت مجدد و امام الزمان مرزا غلام احمد قادیانی ؒ

نماز میں اپنی زبان میں دعا
آیا نمازمیں اپنی زبان میں عا مانگنا جائز ہے ؟ 
حضورؑ عالی مقام نے ارشاد فرمایا:

"سب زبانیں خدا تعالیٰ نے بنائی ہیں۔ چاہیے کہ انسان اپنی زبان میں جس کو اچھی طرح سمجھ سکتاہے نماز کے اندر دعائیں مانگے کیونکہ اسکا اثر دل پڑ پڑتاہے تا عاجزی اور خشوع پیداہو۔ کلام الٰہی کو عربی میں پڑھو اور اسکے معنے یاد رکھو اور دعا بے شک اپنی زبان میں مانگو۔جو لوگ نماز کو جلدی جلدی پڑھتے ہیں اور پیچھے لمبی دعائیں کرتے ہیں وہ حقیقت سے نا آشنا ہیں ۔دعا کاوقت نماز ہے ۔ نماز میں بہت دعائیں مانگو۔"

بدر یکم اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۲
بدر ۲ جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۳

۶:پیغامِ امیر قومؒ
حضرت مولانا محمد علیؒ

دعا کامیابی کا ذریعہ

"نوجوانوں اور دیگر احباب کو چاہیے کہ وہ رات کو اٹھیں کیونکہ دراصل وہی وقت دعا کی قبولیت کا ہوتا ہے اور خدا کے حضور گریں اور گریہ و زاری کریں تاکہ وہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکیں اور اپنی روحانی قوت کو ترقی دے سکیں ۔جوانی میں یہ ڈالی ہوئی عادت بڑھاپےتک ساتھ رہے گی۔
امام الزماں حضرت مسیح موعودؑ نے یہی کام ہمارے ذمہ لگایا کہ ہم قرآن کریم اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےلائے ہوئے نور کو دنیا میں پھیلا دیں ۔اس میں اگر کامیابی چاہتے ہیں تو اسکا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے دعا۔
خوب یاد رکھئیے دعا ہی صرف روحانی ترقیات کے حصول اور خدا کے قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔خدا کا قرب بے شک بہت سے لوگوں کو نماز اور سجدہ میں حاصل ہوتا ہے لیکن حقیقی قرب اس وقت حاصل ہوتا ہے جب انسان اسکا اظہار اپنے کاروبار، لین دین ،دوستوں اور رشتہ داروں کے روز مرہ کے سلوک میں کرے ۔مشکلات کا سامنا ہو ,دنیا کے دھندوں سے دوچار ہو ،اس وقت خدا پر ایمان رکھتا ہو تو یہ وہ ایمان ہے جو تڑپ کر کی ہوئی دعا کے ذریعہ سے پیدا ہوتا ہے 
میں تمام احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر وہ اپنے اس عظیم الشان نصب العین میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو یقینی طور پر جان لیں کہ اسکا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ دعا ہے ۔
اس لئے جس قدر بھی ممکن ہو سکے "


خطبات مولانا محمد علیؒ ،جلد ۲۴ ، صفحات ۱۴، ۱۵


۷:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں 
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)

ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب
"ہمارے مذہب کا خلاصہ اورلب لباب یہ ہےلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ہمارا اعتقاد جو اہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جسکے ساتھ ہم بفضل اور توفیق باری تعالیٰ اس عالم گزران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین و خیر المرسلین ہیں جنکے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے ۔اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شعشہ یا نقطہ اس کی شرائع و حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہوسکتا اور نہ کم ہو سکتاہے اور اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہو سکتا جو احکام فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کے تبدیل یا تغیر کر سکتا ہو۔اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اور ملحد اور کافر ہے "

ازالہ اوہام ،روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۶۹۔۱۷۰

ایک ضروری تجویز

بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین 
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
مرکز (لاہور)


No comments :

Post a Comment