Friday, August 22, 2014

جمعہ۔22 اگست 2014، شمارہ:10۔ کفرواسلام


روزنامہ مبلغ (آنلائن)


روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان



بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت

 حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ

احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

 (مرکز لاہور)

جمعہ۔۲۲ اگست۲۰۱۴ء

۲۵شوال ۱۴۳۵ ہجری


شمارہ نمبر:۱۰
Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com




۱:کلامِ الٰہی 
السلام علیکم اسلام کانشان
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِنْدَ اللَّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ ۚ كَذَٰلِكَ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
النسا: 94
ترجمہ:ائے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم اللہ کی راہ میں نکلو تو تحقیق کر لیا کرواورجو تمھیں السلام علیکم کہے اسےیہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں تم دنیا کی زندگی کا سامان چاہتےہو پس اللہ کے پاس غنیمتیں بہت ہیں ۔تم بھی پہلے ایسےہی تھے سو اللہ نے تم پر احسان کیا، سو تحقیق کر لیا کرو اللہ تعالیٰ اس سے جو تم کرتے ہو خبردار ہے ۔


تفسیر:
قتل بربنائے کفر نہیں بر بنائے جنگ ہے :
یہاں سمجھایا کہ گو چاروں طرف تمھارے دشمن پھیلے ہوئے ہوں تاہم جب تک یہ امر محقق نہ ہو جائے کہ ایک شخص تمھارا دشمن ہے اسے قتل نہ کرو۔پچھلے رکوع سے ظاہر ہو چکا ہے اور قرآن شریف کے اور مقامات سے بھی ثابت ہے کہ کافر کو صرف اس حالت میں قتل کرنا جائز ہے جب وہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے والوں میں سے ہو۔اس لئے عام الفاظ میں کہا کہ تحقیق کر لیا کروکہ کون دشمن ہے اور کون نہیں اور صرف دشمن کو مارو، دوسرے کو نہیں ۔

سلام سے مراد: تحیہ اسلامی ہے یعنی السلام علیکم کہنا جو ظاہر نشان اسلام کا ہے اور ایک مسلمان اس کے ذریعہ سے فوراً پہچان سکتا ہے کہ اسکا مخاطب مسلمان ہے یا نہیں ۔
دشمن قوم میں سے السلام علیکم کہنےوالے کا حکم :یہاں اس مشتبہ حالت کا ذکر کیا ہے جب قوم تو دشمن ہو مگر ایک شخص اس میں سے مسلمان ہو چکا ہو تو اسکے مسلمان ہونے کا ثبوت اسی قدر کافی ہے کہ وہ اپنے مخاطب کو السلام علیکم کہے ۔اس صورت میں گو وہ دشمن قوم کا ایک جزو ہو مگر اسے قتل نہیں کرنا چاہیے ۔بعض ایسے واقعات بھی ہوئے اورجب ایک شخص نے نبی کریم صلعم کے سامنے عذر کیا کہ جس شخص نے اظہار اسلام کیا تھا وہ محض اپنی جان بچانے کےلئے تھے تو آپ ؐ نے فرمایا 
ھلا شقت قبلہ
کیا تم نے اسکا دل پھاڑ کر دیکھ لیا تھا
کذالک کنتم من قبل  میں یہ بتایا کہ تم بھی کلمہ شہادت کے اقرار سے اسلام میں داخل ہو گئے تھے ۔جو بات تمھارے لئے کافی تھی وہ دوسروں کے لئے بھی کافی ہے ۔دوسری بات جو یہاں فرمائی کہ مال غنیمت کے لالچ سے کسی کو قتل نہ کرو ۔اللہ تعالیٰ نے تمھارے لئے حصول مقصد کے اور بہتیرے سامان بنا دئیے ہیں ۔مال غنیمت کے سامان کو یہاں دنیا کا سامان کہا ہے اور یوں مسلمانوں کو بتایا ہے کہ جوشخص مال غنیمت کا خیال دل میں لاتا ہے وہ خدا کی راہ میں جنگ نہیں کرتا۔

السلام علیکم اسلام کا نشان ہے : یہاں قرآن شریف تو فرماتا ہے کہ السلام علیکم کہنے والے کو بھی یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں مگر آج مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ اگر سارے حالات بھی ایک شخص کے ایک مسلمان کے دیکھتے ہوں تو پھر بھی فتوی کفر لگانے سے نہیں ٹلتے اور جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محض السلام علیکم کہنے والے کے بارے میں فرمایا تھا کہ تم نے کوئی اسکا دل پھاڑ کر نہیں دیکھا تھا اسکے بالکل خلاف جب ایک شخص عقائد اسلامی کا اظہارکرتاہے تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ باتیں یہ منافقانہ کہتا ہے ۔مسلمان کی شناخت تو قرآن کریم نے اتنی موٹی دی ہے کہ وہ السلام علیکم کہتا ہو اور بس اور آج علماء کی یہ حالت ہے کہ ایک شخص کے اقوال کو لے کر بال کی کھال اتارتے ہیں اور تب صبر کرتے ہیں جب کافر بنا لیتے ہیں ۔
(حضرت استاذی المکرمیؒ! تب بھی صبر کہاں کرتے ہیں ؟ ایڈیٹر) 

بیان القرآن ، اردو ترجمہ و تفسیر از حضرت امیرقوم مولانا محمدعلیؒ

۲:حدیثِ نبویؐ

عنوان:
 لاتکفر اہل قلبتک(الحدیث)
اپنے اہل قبلہ کی تکفیر مت کرو
حدیث:۱
انس سے روایت ہے کہا رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ
جو شخص ہماری نماز پڑھتاہو اور ہمارے قبلہ کیطرف منہ کرتا ہے اور ہمارا ذبیحہ کھاتا ہو تو یہ وہ مسلمان ہے کہ اس کےلئے اللہ کا عہد ہے اور اسکے رسول کا عہد ہے سوتم اللہ کے عہد کو مت توڑو۔

بخاری ۸: ۲۸
مختصر نوٹ:
گویا جس شخص میں یہ موٹا نشان پایا جاتا ہو کہ وہ مسلمانوں کی طرح نماز پڑھتاہواور قبلہ کی طرف منہ کرتا ہو وہ خدا اور اسکے رسولؐ کے نزدیک مسلم ہے اور مسلم ہونے کے لحاظ سے اللہ اور اسکے رسولؐ کی امان میں ہے ۔جو شخص اسے کافر کہتا ہے وہ اللہ اور اسکے رسولؐ کے عہد کو توڑتا ہے ۔پس کلمہ گو کی تکفیر خدا اور اسکے رسول کے عہد کو توڑنے کے برابر ہے 
حدیث:۲
انس سے روایت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔نبی صلعم نے فرمایا 
کوئی شخص نہیں جو سچے دل سے گواہی دے کہ اللہ کے سوا معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں مگر اللہ اسے دوزخ پر حرا کر دے گا۔
بخاری ۳ : ۴۹
مختصر نوٹ:
صدقا من قلبہ کے الفاظ نے اس بات کو صاف کر دیا کہ یہ اس شخص کا ذکر ہے جس کے قلب میں ایمان داخل ہو چکا ۔ایسے شخص کے اعمال بھی اسکے اقرار کے مطابق ہونگے۔
حدیث:۳

 جو اپنے بھائی کو کہے ’یا کافر‘ تو وہ (کفر) ان دونوں میں سے کسی ایک پر لوٹتا ہے
متفق علیہ 


ترجمہ و مختصر نوٹ
 از
 حضرت مولانا محمد علی ؒ
کتاب احادیث العمل



۳:سیرت خیر البشرؐ
از
 حضرت مولانا محمد علی ؒ

"آپؐ   نے کبھی کسی کو گالی نہیں دی بلکہ سخت کلامی سے بھی آپ کسی سے بھی پیش نہ آتے تھے ۔جسکو سمجھانا ہوتا ہے نہایت نرمی اور محبت سے سمجھاتے بلکہ دوسروں کو بھی سخت کلامی سے روکتے ۔یہودی آپؐ   کو بجائےالسلام علیکم کہنے کے السام علیکم کہا کرتے تھے یعنی تم پر موت آئے۔ حضرت عائشہؓ نے سنا تو بے اختیار بول اٹھیں کہ خدا تمھیں ہلا ک کرے  تمھیں پر موت آئے۔آپؐ    نے فرمایا عائشہ خدا سخت کلامی کو پسند نہیں کرتا"
کتاب سیرت خیرالبشرؐ، صفحہ۱۸۹


۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ 
بیعت کی حقیقت
وہ میری جماعت سے نہیں ہے؟؟؟
انؔ سب باتوں کے بعد پھر میں کہتا ہوں کہ یہ مت خیال کرو کہ ہم نے ظاہری طور پر بیعت کر لی ہے ظاہر کچھ چیز نہیں خدا تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے اور اُسی کے موافق تم سے معاملہ کرے گا۔
 دیکھو میں یہ کہہ کر فرض تبلیغ سے سبکدوش ہوتا ہوں کہ گناہ ایک زہر ہے اُس کو مت کھاؤ۔ خدا کی نافرمانی ایک گندی موت ہے اس سے بچو دعا کرو تا تمہیں طاقت ملے
 جو شخص دعا کے وقت خدا کو ہر ایک بات پر قادر نہیں سمجھتا بجزوعدہ کی مستثنیات کے وہ میری جماعت میں سے نہیں۔ جو شخص جھوٹ اور فریب کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص دنیا کے لالچ میں پھنسا ہوا ہے اور آخرت کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم نہیں رکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص پورے طور پر ہر ایک بدی سے اور ہر ایک بدعملی سے یعنی شراب سے قمار بازی سے بد نظری سےاور خیانت سے رشوت سے اور ہر ایک ناجائز تصرّف سے توبہ نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔
 جو شخص پنجگانہ نماز کا التزام نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص دعا میں لگا نہیں رہتا اور انکسار سے خدا کو یاد نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص بدرفیق کو نہیں چھوڑتا جو اس پر بد اثر ڈالتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا اور امور معروفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں اُن کی بات کو نہیں مانتا اور ان کی تعہّد خدمت سے لا پروا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص اپنی اہلیہ اور اُس کے اقارب سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔
جو شخص اپنے ہمسایہ کو ادنیٰ ادنیٰ خیر سے بھی محروم رکھتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص نہیں چاہتا کہ اپنے قصور وار کا گناہ بخشے اور کینہ پرور آدمی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص اُس عہد کو جو اُس نے بیعت کے وقت کیا تھا کسی پہلو سے توڑتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص مجھے فی الواقع مسیح موعود و مہدی معہود نہیں سمجھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے
اور جو شخص اموؔ ر معروفہ میں میری اطاعت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے
اور جو شخص مخالفوں کی جماعت میں بیٹھتا ہے اور ہاں میں ہاں ملاتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ ہر ایک زانی،فاسق، شرابی، خونی، چور، قمار باز، خائن، مرتشی، غاصب، ظالم، دروغ گو، جعل ساز اور ان کا ہم نشین اور اپنے بھائیوں اور بہنوں پر تہمتیں لگانے والا جو اپنے افعال شنیعہ سے توبہ نہیں کرتا اور خراب مجلسوں کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔
 یہ سب زہریں ہیں تم ان زہروں کو کھا کر کسی طرح بچ نہیں سکتے اور تاریکی اور روشنی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتی۔ ہر ایک جو پیچ در پیچ طبیعت رکھتا ہے اور خدا کے ساتھ صاف نہیں ہے وہ اُس برکت کو ہرگز نہیں پاسکتا جو صاف دلوں کو ملتی ہے کیا ہی خوش قسمت وہ لوگ ہیں جو اپنےدلوں کو صاف کرتے ہیں اور اپنے دلوں کو ہر ایک آلودگی سے پاک کر لیتے ہیں اور اپنے خدا سے وفاداری کا عہد باندھتے ہیں کیونکہ وہ ہرگز ضائع نہیں کئے جائیں گے ممکن نہیں کہ خدا ان کو رسوا کرے کیونکہ وہ خدا کے ہیں اور خدااُن کا وہ ہر ایک بلا کے وقت بچائے جائیں گے۔ 
کشتی نوح،روحانی خزائن،جلد ۱۹،صفحات ۱۸ تا ۲۰

۵:دینی مسائل اور انکا حل
از
حضرت مجدد و امام الزمان مرزا غلام احمد قادیانی ؒ

"آجکل اکثر مسلمانوں نے استخارہ کی سنت کو ترک کر دیا ہے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیش آمدہ امر میں استخارہ فرما لیا کرتےتھے ۔سلف صالحین کا بھی یہی طریق تھا ۔چونکہ دہریت کی ہوا پھیلی ہوئی ہے اس لئے لوگ اپنے فضل پر نازاں ہو کر کوئی کام شروع کرلیتےہیں اور پھر نہاں در نہاں اسباب سے جن کا انہیں علم نہیں ہوتا ہے نقصان اٹھا تے ہیں ۔اصل میں یہ استخارہ ان بد رسومات کی عوض میں رائج کیا گیا تھا جو مشرک لوگ کسی کام کی ابتدا سے پہلے کرتے تھے لیکن اب مسلمان اسے بھول گئے ہیں ۔حالانکہ استخارہ سے ایک عقل سلیم عطا ہوتی ہے جسکے مطابق کام کرنے سے کامیابی ہوتی ہے ۔ "
البدر ۱۳ جون ۱۹۰۷، صفحہ ۳

۶:پیغامِ امیر قومؒ
حضرت مولانا محمد علیؒ
ہمارا کام اور ہماری منزل

"ہم لوگ شائد سمجھتے ہیں کہ ہمارا صرف کام اتنا ہی ہے کہ ہم نے اماالزمان کو شناخت کر لیا ہے اور انہیں مسیح موعودؑ مان لیا ہے یا اس سے بڑھ کر یہ کہ ہم نے اپنے اموال سے کچھ حصہ خدا کی راہ میں خرچ کر دیا ہے یا کسی صاحب علم نے اپنے علم سے کچھ تھوڑی بہت خدمات سر انجام دے دی ہیں۔ نہیں بلکہ ہمیں اپنے اندر وہ روحانی قوت پیدا کرنی ہے جس کے ذریعہ سے ہم میں سے ہر ایک تمام دنیا کا فاتح بن سکتاہے ۔
یہ قصے نہیں ۔صحابہ رضی اللہ عنہم نے روحانیت کی قوت ہی سے تمام دنیا کو فتح کیا ۔کیا جنگوں میں انکی کوئی مادی طاقت اور قوت بازو دشمنوں سے بڑھ کر تھی؟ 
نہیں بلکہ غور کرنے پر معلوم ہو گا کہ یہ صرف روحانی ہی قوت جس کے ذریعے سے وہ جسمانی طور سے بھی دنیا میں غالب آگئے ۔لہذا تمام دنیا کو قرآن اور حضر ت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے روشن اور منور کرنے کےلئے لازمی ہے کہ ہم اس روحانی قوت کے حصول کےلئے انتہائی کوشش کریں ۔
خوب یاد رکھئیے! روحانی قوت و طاقت بڑی زبردست طاقت ہے جسکے سامنے کوئی مادی قوت نہیں ٹھہر سکتی ۔ایک غیرب اور مفلس آدمی بھی اگر خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے تو وہ نہ صرف دنیا کو منور کر سکتا ہے بلکہ وہ دنیا کی نظروں میں بھی معزز ہوسکتا اور بڑا بن سکتا ہے ۔
صحابہ رضی اللہ عنہم کو دیکھ لیجئے۔کیا تھے اور کیا بن گئے۔حضرت بلالؓ کو دیکھیے۔ایک حبشی غلام اور پھر غلام ۔لیکن خدا تعالیٰ سے تعلق پید ا کر کے وہ مقام حاصل کیا کہ آج تک تمام اسلامی دنیا میں احترام کے ساتھ انکا نام لیا جاتا ہے ۔ایک نہیں دو نہیں قوم کی قوم نے اس روحانی قوت کو حاصل کیا اور تمام دنیا کی رہبر بن گئی  "

خطبات مولانا محمد علیؒ ،جلد ۲۴ ، صفحات ۱۴، ۱۵


۷:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں 

مسئلہ کفرواسلام

"ابتداء سے میرا یہی  مذہب ہے کہ میرے دعوی کے انکار سے کوئی شخص کافر یا دجال نہیں ہو سکتا"
تریاق القلوب ،صفحہ ۱۳۰

"ہم کسی کلمہ گو کو اسلام سے خارج نہیں کہتے جب تک کہ وہ ہمیں کافر کہہ کر خود کافر نہ بن جائے"
ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۶۳۵

"جو ہمیں کافر نہیں کہتا ہم اسے ہر گز کافر نہیں کہتے ۔لیکن جو ہمیں کافر کہتا ہے اسے کافر نہ سمجھیں تو اس میں حدیث اور متفق علیہ مسئلہ کی مخالفت لازم آتی ہے اور یہ ہم سے ہو نہیں سکتا"
ملفوظات جلد ۵ صفحہ  ۶۳۶

ایک ضروری تجویز

بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین 
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
مرکز (لاہور)

No comments :

Post a Comment