Sunday, August 17, 2014

اتوار۔ 17 اگست 2014ء شمارہ:5

روزنامہ مبلغ (آنلائن)
روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان


بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت
 حضرت مولانا محمد علیؒ

شمارہ:
اتوار۔۱۷ اگست۲۰۱۴ء
۲۰ شوال ۱۴۳۵ ہجری
جلد:5
Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com


۱:کلامِ الٰہی 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۗ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ
آل عمران: ۱۴
ترجمہ:
لوگوں کو نفسانی خواہشوں کی محبت بھلی معلوم ہوتی ہے (جیسے) عورتیں اور بیٹے اور ڈھیروں ڈھیر سونا اور چاندی اور پلے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتی، یہ اس ورلی زندگی کا سامان ہے اور اللہ کے پاس اچھا ٹھکانہ ہے 
تفسیر:
عیسائیوں کے ساتھ بحث میں دنیا کی محبوب چیزوں کا ذکر بالخصوص کیا ہے اور اس میں اشارہ ہے کہ یہ قوم دنیا کی مرغوب چیزوں کی محبت میں پڑ کر اللہ کو بالکل بھول جائے گی ۔بالخصوص یہاں ڈھیروں ڈھیر سونے چاندی کا ذکر بتاتا ہے کہ یہ عرب کے لوگوں کا نقشہ نہیں ۔جن کے پاس اگر سونا اور چاندی ہو گا بھی تو برائے نام اور آیت کا خاتمہ ان الفاظ پر کیا ہے کہ حسن مآب اللہ کے پاس ہے ۔گویا یہ بتایا ہے کہ مرغوبات دنیا کو اپنی زندگی کا مقصد بنانا انجام کار مفید نہیں ۔ان سے بے شک فائدہ اٹھائے مگر مد نظر خدا کی رضا ہو۔

بیان القرآن ، اردو ترجمہ و تفسیر از حضرت امیرقوم مولانا محمدعلیؒ
۲:حدیثِ نبویؐ:

حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے ۔ اس کا تمام معاملہ خیر پر مشتمل ہے اور یہ مقام صرف مومن کو حاصل ہے ۔اسے کوئی خوشی پہنچتی ہے تو یہ اس پر شکر بجا لاتا ہے، الحمدللہ پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ کے حضورسجدہ ریز ہوتا ہے تو یہ امر اسکےلئے خیر کا موجب ہوتا ہے ۔اور اگر اسکو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو یہ صبر کرتا ہے تو یہ امر بھی اسکے لئے خیر کا موجب بن جاتاہے  "

مسلم، کتاب الزھد


۳:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی رحمة اللہ علیہ

"سو تم مصیبت کو دیکھ کر اور بھی قدم آگے رکھو کہ یہ تمھاری ترقی کا ذریعہ ہے ۔اور اسکی توحید زمین پر پھیلانے کےلئے اپنی تمام طاقت سے کوشش کرو ۔ اور اسکے بندوں پر رحم کرو اور ان پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو۔اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو ۔ اور کسی پر تکبر نہ کرو گو اپنا ماتحت ہو ۔ اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو۔غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاو تا قبول کئے جاو۔ بہت ہیں حلم ظاہر کرتے ہیں مگر اندر سے بھیڑیے ہیں ۔بہت ہیں جو اوپر سے صاف ہیں مگر اندر سے سانپ ہیں۔ سو تم اسکی جناب میں مقبول نہیں ہو سکتے جب تک ظاہر وباطن ایک نہ ہو "
کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹، صفحات ۱۱۔۱۲

۴:پیغامِ امیر قومؒ
حضرت مولانا محمد علیؒ
میں کہتا ہوں تم میں سے ہر ایک شخص مبلغ ہے
تم میں سے ہر ایک پر تبلیغ کا فرض عائد ہوتا ہے 

"دوسروں کا تو کیا ذکر کیا جائے۔میں دیکھتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ ہماری جماعت نے اس زمانہ میں لوگوں سے کافر کہلوا کر اپنی دنیا کو "خراب" کیا، مسیح موعودؑ کا ہاتھ پکڑا، اور امام وقت کو پہچانا اور دنیا میں برے بنے ۔مگر ان میں بھی بہت لوگ ایسے ہیں کہ شناخت امام کے بعد بھی وہ اثا قلتم الی الارض کی جو حالت تھی اس پر غالب نہیں آئے۔ اگر ہم اپنی جماعت کا مقابلہ عام مسلمانوں کے ساتھ کریں تو مسلمانوں کے مقابلہ میں بہت سی خوبیاں ہمیں اس جماعت میں نظر آتی ہیں ۔ہماری جماعت کے لوگ اپنے مالوں کو خدا کے راستہ میں قربان کرتے ہیں اور جماعت کا کثیر حصہ نماز روزہ کا بھی پابند ہے ۔زکوة بھی دیتے ہیں اور جملہ ارکان اسلام کی تعمیل کی بھی کوشش کرتے ہیں مگر ایک نقص اس جماعت کے افراد میں بھی بہت نظر آتا ہے کہ وہ جو حکم ہے انفروا فی سبیل اللہ ۔اس معاملہ میں میں نے محسوس کیا ہے کہ ان میں حرکت نہیں ایک سکون کی حالت ہے 

خوب یاد رکھو جو قوم سکون پر مطمئن ہو گئی وہ ترقی سے رک گئی ہماری جماعت کے لوگ اگر اتنی بات پر خوش ہو گئے ہیں کہ ان کے مالوں سے کچھ حصہ خدا کی راہ میں نکل جاتا ہے تو وہ غلطی پر ہیں ۔وہ حرکت جو قوم کےلئےترقی کا موجب ہو، وہ اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے۔

گزشتہ دنوں مجھے دہلی جانے کا اتفاق ہوا ۔ میں نے جماعت کے دوستوں کو بلایا ۔ میں نے ان سے پوچھا کہ تمھاری روزانہ کی زندگی میں کوئی ایسا وقت بھی ہے جب تم خدا کے کام میں لگ جاتے ہو۔یا دفتر سے آئے اور آرام کیا اور اگلے دن پھر وہی سلسلہ شروع ہو گیا ۔ خدا کے کام کےلئے بھی کوئی حصہ زندگیوں میں رکھنا چاہیے۔اگر تم زمین سے اوپر اٹھ کر زندگی کے بلند مقصد کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو کچھ کام خدا کی راہ میں بھی کرو۔پھر میں نے ایک دوست سے اقرار لیا کہ وہ اس کام کو کریں گے اور اپنے وقت کا کچھ نہ کچھ حصہ خدا کے راستہ میں دیں گے۔ دہلی میں دو جگہ جمعہ کا اجتماع ہونا چاہیے۔ اور اس وقت کوئی شخص خدا کا کلام سنا دے اور قرآن شریف کا درس دے دے ۔اور اسکے بعد ہر ایک دوست اپنی ہفتہ کی تبلیغی رپورٹ بھیجے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس وقت وہ لوگ جنھوں نے خدا کےلئے کام کرنے کا اقرار کیا ہے وہ اپنے اپنے کاموں کو اس مجمع میں پیش کریں کہ انھوں نے سارا ہفتہ کیا کام کیا ہے اور وہ کہاں کہاں پہنچے اور کتنے لوگوں تک یہ پیغام پہنچایا۔

حضرت مسیح موعودؑ صرف اس لئے نہیں آئے تھے کہ ہمارے ایمان میں صرف اس بات کا اضافہ ہوجائے کہ لوگوں نے اتنے مجدد مانے ہیں اور ہم نے اتنے مجدد مانے ہیں ۔اصل چیز تو عمل ہے جسکےلئے حضرت مسیح موعودؑ آئے تھے

ہر ایک بیرونی جماعت یہ چاہتی ہے کہ ہمارے پاس مبلغ آئے لیکن میں پوچھتا ہوں تم کیا ہو؟ تم مبلغ نہیں ؟ تم حرکت کیوں نہیں کرتے ؟ حضرت صاحب کے زمانہ میں کتنے مبلغ تھے ؟ وہ کاروبار بھی کرتے تھے اور ان میں سے ہر ایک شخص مبلغ بھی تھا ۔جو صداقت اس میں بھر گئی تھی وہ جوش مار کر نکلتی تھی اور اب جماعتیں مبلغ مانگتی ہیں؟ اور جب کسی جماعت میں مبلغ بھیج دیا جاتا ہے تو وہ اسکا جزو لاینفک بن جاتا ہے کہ اگر ہم انکو اس جگہ سے ہلانا چاہیں تو جماعت تڑپ اٹھتی ہے اور یہی حالت مبلغین کی ہوگئی ہے

 وہ اپنی جگہ سے حرکت کرنا نہیں چاہتے ۔جہاں جماعتیں یہ چاہتی ہیں کہ انکا کام مبلغ کریں ،
وہاںمبلغ یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ انکے پاس آئیں وہ خود باہر نہ نکلیں ۔  لیکن میں کہتا 

ہوں

 تم میں سے ہر ایک شخص مبلغ ہے تم میں سے ہر ایک پر تبلیغ کا فرض عائد ہوتا ہے   "
پیغام صلح ،۲۸ مارچ ، ۱۹۴۵




نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ


خدام و مبلغین 
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
مرکز (لاہور)

No comments :

Post a Comment