Saturday, August 30, 2014

اتوار۔ 31 اگست 2014، شمارہ: 19


روزنامہ مبلغ (آنلائن)


روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان

بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت

 حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ

احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

اتوار۔۳۱ اگست۲۰۱۴ء

۴ ذیقعد ۱۴۳۵ ہجری


شمارہ نمبر:۱۹
Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com

خوشخبری
اپ ڈیٹ
بلاگ پر نیا اضافہ
احباب جماعت احمدیہ لاہور کو یہ جان کر از حد خوشی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس بلاگ کے آڈیو ویڈیو سیکشن میں  خطباتِ حضرت مولانا محمدعلیؒ کی آڈیو ریکارڈنگز کی اشاعت کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔
 خطبات کو باقاعدہ کیٹیگرائزڈ(categorized) کیا جارہا ہے جسکےلئے متعلقہ بلاگ پر سیلیکٹ کیٹیگری(select category) کا آپشن موجود ہے ۔علاوہ ازیں کسی خاص خطبہ کی تلاش کےلئے سرچ کا آپشن بھی موجود ہے ۔

 براہ کرم آڈیو ویڈیو سیکشن کو وزٹ فرمائیں اور اس سلسلہ کو بہتر سے بہتر بنانے کےلئے ہمیں اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ فرمائیں ۔

جزاکم اللہ تعالیٰ خیرا کثیرا





۱:کلامِ الٰہی 


يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ

آل عمران:102 

ترجمہ:۔ ائے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقویٰ کروجیسا اسکے تقویٰ کا حق ہے اور تم نہ مرو مگر ایسی حالت میں کہ تم فرمانبردار ہو۔
تفسیر:
اسلام کے کمالات اور اسکے امتیازی نشانوں کا ذکر کر کے اب مسلمانوں کو بتایا ہے کہ وہ کن اصول کو مدنظر رکھ کر دنیا میں ایک کامیاب قوم بن سکتے ہیں اور اس رکوع میں کامیابی کے تین عظیم الشان گر بتائے ہیں جن میں سے سب سے پہلی بات ہے اتقواللہ حق تقاتہ۔ تقوی اللہ کے معنے پہلے بیان ہو چکے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حقوق کی نگہداشت۔یا ان حقوق اور ذمہ داریوں کی حفاظت جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ذمہ ڈال رکھی ہے خواہ انکی طرف شریعت ہدایت کرتی ہو یا عقل انسانی۔
گویا قوم کے ہر فرد کے اندر پہلے فرداً فرداً ذمہ داری کا احساس پیدا ہونا ضروری ہے اور یہی کامیابی کی عمارت کی خشتِ اول ہے ۔ مگر صرف اس احساس کا پیداہونا بھی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ حق تقاتہ بڑھا کر بتایا کہ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کےلئے قوم کے ہر فرد کو اپنی اپنی جگہ پر پورا زور لگانا چاہیے ۔
اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کا حق اس انسان نے ادا کردیا جس نے اپنی طرف سے پورا زور لگا دیا ۔اس لئے اللہ تعالیٰ خود ہی فرماتا ہے لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا ۔ پس اتقواللہ حق تقاتہ ہی وہی مراد ہے جو فاتقواللہ مااستطعتم (۶۴:التغابن۔ ۱۶) سے ہے ۔اور جن لوگوں نے پہلے الفاظ سے دوسرے الفاظ کو منسوخ سمجھا ہے انھوں نے سخت غلطی کھائی ہے اور اسکے مطابق دوسری جگہ جہاد کا حکم ہے جاھدو فی اللہ حق جہادہ ( ۲۶: الحج: ۷۸) ۔دونوں میں اپنی مقدرت کے مطابق زور لگانا ہے ۔تکلیف مالایطاق اس میں داخل نہیں ۔
اور آخر پر فرمایا لاتموتن الا و انتم مسلمون ۔جس میں یہ بتایا کہ کہ تم پر کوئی آن ایسی نہ آئے کہ کامل فرمانبرداری کی حالت نہ ہو اور مسلم وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے ہر ایک مسلم بچا رہتا ہے 

بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ


۲:حدیثِ نبویؐ
حضرت عمرؓ بیان کرتےہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں جو نبی اور شہید تو نہیں مگر قیامت کے دن نبی اور شہید بھی ان پر رشک کر یں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آپس میں کسی رحمی رشتہ اور مالی دلچسپی کے بغیر اللہ کی خاطر محبت کرتےہیں۔ انکے چہرے نوارانی ہونگے اور نور پر فائز کئے جائیں گے جب لوگ خوف زدہ اور غمزدہ ہونگے وہ ہر خوف اور حزن سے آزاد کئے جائیں گے یہ اولیاء اللہ ہیں "

سنن ابی داود، کتاب البیوع، باب الرھن، حدیث نمبر ۳۰۶۰ 

۳:سیرت خیر البشرؐ
از
 حضرت مولانا محمد علی 

"قریش نے جب دیکھا کہ آپؐ   نے اپنی دعوت کو نہیں چھوڑا تو پھر ایک وفد ابوطالب کے پاس پہنچا ۔ اس دفعہ مصمم ارادہ کر کے گئے کہ قطعی فیصلہ کر کے آئیں گے چنانچہ انھوں نے ابو طالب کو اپنا پہلی دفعہ آنا بھی یاد دلایا اور کہا کہ اب ہم اس سے زیادہ قطعاً برداشت نہیں کر سکتے پس یا تو تم اپنے بھتیجے سے الگ ہو جاو یا خود بھی اسکے ساتھ مل جاو تاکہ ہمارے اور تمھارے درمیان فیصلہ ہو اور جنگ ہو کر ہم دونوں میں سے ایک فریق ہلاک ہوجائے۔یہ قریش کی طرف سے اعلان جنگ تھااور یہ موقع ابوطالب کے لئے نہایت سخت تھا ۔ایک طرف قوم سے مقابلہ مشکل نظر آتا تھا دوسری طرف آنحضرت صلعم کی محبت دل میں ایسی تھی کہ وہ آپ کو بھی نہ چھوڑ سکتا تھا اس حالت میں اس نے آنحضرت صلعم کو بلایا اور جو کچھ قریش کہہ گئے تھے آپؐ   سے کہا مجھ پر اور اپنے اوپر رحم کرو۔ مجھ پر ایسا بوجھ نہ ڈالو جس کو میں اٹھا نہیں سکتا ۔یعنی قوم کے مقابلہ کی مجھ میں تاب نہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال کیا کہ ابو طالب بھی اب آپؐ    کا ساتھ چھوڑتا ہے ۔قوم تو سب پہلے ہی دشمن ہے ۔صرف ابو طالب کے درمیان میں حائل ہونے کی وجہ سے وہ علی الاعلان آپؐ   کو قتل نہیں کر سکتے تھے ۔ابوطالب کی علیحدگی کے صاف طور پر یہ معنے تھے کہ اب دنیا میں کوئی انسان آپؐ   کو دشمنوں کےشر سے بچانے میں معاون نہ ہوگا۔ ساتھی سب الگ ہو کر حبش میں جا چکےہیں ۔قوم دشمن ہےاور ایسی خطرناک دشمن کہ جان لینے کے درپے ہے مگر کیا ہی ثبات و استقلال کا نمونہ ہے جو اس وقت آپؐ    نے دکھایا ۔کوئی مایوسی کا خیال آپؐ   کے دل میں نہیں آیا ۔اللہ تعالیٰ کی حفاظت پر کس قدربھروسہ ہے کہ کسی انسان کی حفاظت کی پرواہ تک نہیں کرتے ۔ادھر ابو طالب کے منہ سے وہ کلمات نکلتے ہیں ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جواب میں فرماتے ہیں ۔
ائے چچا اگر سورج کو میرے دائیں ہاتھ میں اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ میں رکھ دیں اور یہ چاہیں کہ میں اس کام کو چھوڑ دوں تو میں ہر گز نہ چھوڑوں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو غالب کر ے یا میں کام کرتا کرتا مر جاوں ۔
ساتھ ہی اس خیال سے کہ ایسے چچا کو جو آپؐ   سے دلی محبت رکھتا ہے اور جو اب تک دشمنوں کے مقابل آپؐ  کی حفاظت میں سپر بنا رہا ہے ایسا جواب دینا پڑا جو اسکے منشاء کے خلاف ہے ، آپؐ   کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور بچشم پر نم آپؐ   اٹھ کر چلے ۔
ابو طالب نے گو بظاہر اپنے آبائی مذہب کو ترک نہ کیا تھا مگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا سچے دل سے شیدا تھا ۔آپؐ   کو چھوڑنا اسکےلئے موت سے بدتر تھا۔ اس نے فوراً آپ ؐ کو واپس بلایا اور کہا 
ائے بھتیجے جاو اور جو چاہو کرو میں کسی صورت میں تمھارا ساتھ نہ چھوڑوں گا  "

کتاب سیرت خیرالبشرؐ، صفحہ  ۶۹، ۷۰


۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ 
اے بزرگو! یہ وہ زمانہ ہے جس میں وہی دین اور دینوں پر غالب ہوگا جو اپنی ذاتی قوت سے اپنی عظمت دکھاوے۔ پس جیسا کہ ہماے مخالفوں نے ہزاروں اعتراض کر کے یہ ارادہ کیا ہے کہ اسلام کے نورانی اور خوبصورت چہرہ کو بدشکل اور مکروہ ظاہر کریں ایسا ہی ہماری تمام کوششیں اسی کام کے لئے ہونی چاہئیں کہ اس پاک دین کی کمال درجہ کی خوبصورتی اور بے عیب اور معصوم ہونا بپایۂ ثبوت پہنچا ویں۔
یقیناًؔ سمجھو کہ گمراہوں کی حقیقی اور واقعی خیرخواہی اسی میں ہے کہ ہم جھوٹے اور ذلیل اعتراضات کی غلطیوں پر اُن کو مطلع کریں اور اُن کو دکھلاویں کہ اسلام کا چہرہ کیسا نورانی کیسا مبارک اور کیسا ہر ایک داغ سے پاک ہے۔
 ہمارا کام جو ہمیں ضرور ہی کرنا چا ہیے وہ یہی ہے کہ یہ دجل اور افترا جس کے ذریعہ سے قوموں کو اسلام کی نسبت بدظن کیا گیا ہے اُس کو جڑ سے اکھاڑدیں۔ یہ کام سب کاموں پر مقدم ہے جس میں اگر ہم غفلت کریں تو خدا اور رسول کے گنہگار ہوں گے۔
سچی ہمدردی اسلام کی اور سچی محبت رسول کریم کی اسی میں ہے کہ ہم ان افتراؤں سے اپنے مولیٰ و سیّد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کا دامن پاک ثابت کر کے دکھلائیں اور وسواسی دلوں کو یہ ایک نیا موقعہ وسوسہ کا نہ دیں کہ گویا ہم تحکّم سے حملہ کرنے والوں کو روکنا چاہتے ہیں اور جواب لکھنے سے کنارہ کش ہیں۔
 ہر ایک شخص اپنی رائے اور خیال کی پیروی کرتا ہے۔ لیکن خداتعالیٰ نے ہمارے دل کو اسی امر کے لئے کھولا ہے کہ اس وقت اور اس زمانہ میں اسلام کی حقیقی تائید اسی میں ہے کہ ہم اُس تخم بدنامی کو جو بویا گیا ہے اور اُن اعتراضات کو جو یورپ اور ایشیا میں پھیلائے گئے ہیں جڑ سے اکھاڑ کر اسلامی خوبیوں کے انوار اور برکات اس قدر غیر قوموں کودکھلاویں کہ ان کی آنکھیں خیرہ ہو جائیں اور اُن کے دل اُن مفتریوں سے بے زار ہو جائیں جنہوں نے دھوکہ دے کر ایسے مزخرفات شائع کئے ہیں
اور ہمیں ان لوگوں کے خیالات پر نہایت افسوس ہے جو باوجودیکہ وہ دیکھتے ہیں کہ کس قدر زہریلے اعتراضات پھیلائے جاتے اور عوام کو دھوکہ دیا جاتا ہے پھر بھی وہ کہتے ہیں کہ ان اعتراضات کے ردّ کرنے کی کچھ بھی ضرورت نہیں صرف مقدمات اٹھانا اور گورنمنٹ میں میموریل بھیجنا کافی ہے۔ 
یہ سچ ہے کہ ہماری گورنمنٹ محسنہ ہر ایک مظلوم کا انصاف دینے کے لئے طیّار ہے لیکن ہمیں آنکھ کھول کر یہ بھی دیکھنا چا ہیے کہ وہ ضرر جو قوم کو مخالفوں کے اعتراضات سے پہنچ رہا ہے وہ صرف یہی نہیں کہ اُن کے سخت الفاظ سے بہت سے دل زخمی ہیں بلکہ ایک خطرناک ضرر تو یہ ہے کہ اکثر جاہل اور نادان اُن اعتراضات کو صحیح سمجھ کر اسلام سےنفرت ؔ پیدا کرتے جاتے ہیں۔
 سو جس ضرر کا لوگوں کے ایمان پر اثر ہے اور جو ضرر فی الواقع اعظم اور اکبر ہے وہی اس قابل ہے کہ سب سے پہلے اس کا تدارک کیا جائے ایسا نہ ہو کہ ہم ہمیشہ سزا دلانے کی فکروں میں ہی لگے رہیں اور ان شیطانی وساوس سے نادان لوگ ہلاک ہو جائیں۔
 خداتعالیٰ جو اپنے دین اور اپنے رسول کے لئے ہم سے زیادہ غیرت رکھتا ہے وہ ہمیں ردّ لکھنے کی جابجا ترغیب دے کر بدزبانی کے مقابل پر یہ حکم فرماتا ہے کہ
 ’’جب تم اہل کتاب اور مشرکوں سے دکھ دینے والی باتیں سنو اور ضرور ہے کہ تم آخری زمانہ میں بہت سے دلآزار کلمات سنو گے پس اگر تم اس وقت صبر کرو گے تو خدا کے نزدیک اولواالعزم سمجھے جاؤ گے‘‘۔
 دیکھو یہ کیسی نصیحت ہے اور یہ خاص اسی زمانہ کے لئے ہے کیونکہ ایسا موقعہ اور اس درجہ کی تحقیر اور توہین اور گالیاں سننے کا نظارہ اس سے پہلے کبھی مسلمانوں کو دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ یہی زمانہ ہے جس میں کروڑ ہا توہین اور تحقیر کی کتابیں تالیف ہوئیں۔ یہی زمانہ ہے جس میں ہزارہا الزام محض افترا کے طور پر ہمارے پیارے نبی ہمارے سیّد و مولیٰ ہمارے ہادی و مقتدا جناب حضرت محمد مصطفٰی احمد مجتبیٰ افضل الرسل خیرالوریٰ صلّی اللہ علیہ وسلم پر لگائے گئے
 سو میں حلفاًکہہ سکتا ہوں کہ قرآن شریف میں یعنی سورہ آل عمران میں یہ حکم ہمیں فرمایا گیا ہے کہ ’’تم آخری زمانہ میں نا منصف پادریوں اور مشرکوں سے دکھ دینے والی باتیں سنو گے اور طرح طرح کے دلآزار کلمات سے ستائے جاؤ گے اور ایسے وقت میں خداتعالیٰ کے نزدیک صبر کرنا بہتر ہوگا‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بار بار صبر کے لئے تاکید کرتے ہیں ۔
روحانی خزائن، جلد13 صفحہ 382، 383 ، 384

۵:دینی مسائل اور انکا حل
از
حضرت مجدد و امام الزمان مرزا غلام احمد قادیانی ؒ

ایک شخص کا سوال حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی خدمت میں پیش ہو کہ
نماز فجرکی آذان کے بعد دوگانہ فرض سے پہلے اگر کوئی شخص نوافل ادا کرے تو جائز ہے ؟
فرمایا:
نماز فجر کی آذان کے بعد سورج نکلنے تک دو رکعت سنت اور دو رکعت فرض کے سوا اور کوئی نماز نہیں ۔
بد ۷ فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۴



۶:پیغامِ امیر قومؒ
حضرت مولانا محمد علیؒ

قادیانی دوستوں کے ساتھ ہمارا طرز عمل

"بے شک قادیانی دوست ہمیں برا کہتے ہیں، ہمیں بدترین قوم قرار دیتے ہیں، ہمارا طرز عمل انکے ساتھ محبت و اخلاص اور رواداری کا ہی ہونا چاہیے "

"  ایک ضروری بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت کے اندر بعض جگہ بعض دوستوں میں تھوڑی تھوڑی کدورتیں ہیں ۔سب جگہ نہیں ۔کہیں کہیں۔انہیں دور کرنا چاہیے۔ ان کدورتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جماعت بد دل ہوجاتی ہے اور اسکی ترقی رک جاتی ہے ۔لہذا جسطرح ہو ان آپس کی رنجشوں اور کدورتوں کو دور کریں ۔ہر ایک جماعت میں جہاں جہاں ضرورت ہو دو دو چار چار دوست اس کام کو اپنے ذمہ لیں اور جن دوستوں کو آپس میں رنجش ہے انکی صلح صفائی کرا دیں ۔شروع شروع میں رنجش معمولی ہوتی ہے لیکن اگر اسے دور نہ کیا جائے تو مسالہ ملتارہتا ہے اور وہ بہت بڑھ جاتی ہے لہذا ان رنجشوں اور کدورتوں کو دور کرنا چاہیے آپس میں محبت بڑھانی چاہیے۔

 دوسری بات جس کا ذکر کل جنرل کونسل کے اجلاس کے بعد بھی ہوا تھا وہ ہمارے جماعت قادیان کے ساتھ تعلقات ہیں ۔ان تعلقات میں ہماری طرف سے ذاتی حملے کا عنصر ہر گز نہیں ہوناچاہیے ۔جس طرح دوسرے لوگ تم پر کفر کا فتوی لگاتے ہیں ، ہمیں اور ہمارے مرشد کو کافر اور دجال کہتے ہیں لیکن اسکے باوجود ہم انہیں سمجھانے کی کوشش ہی کرتے ہیں اور ان میں سے جو شخص ہمیں یا حضرت مسیح موعودؑ کو ایسا کہتا ہے، اسے ہم اسکا ذاتی فعل سمجھتے ہیں ۔یہی طریقہ اور وطیرہ ہمارا جماعت قادیان کے متعلق ہونا چاہیے ۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ رواداری دو طرفہ ہونی چاہیے ۔یہ کیا کہ قادیان والے ہمیں گالیاں دیتے رہیں، ہم پر جھوٹے الزام لگاتے جائیں اور ہم خاموش بیٹھے رہیں؟ اور اس کے جواب میں سچی باتیں بھی نہ کہیں؟ اور سچے واقعات کا بھی اظہار نہ کریں؟ انہیں میں کہتاہوں کہ رواداری دو طرفہ ہی نہیں یک طرفہ بھی ہوتی ہے ۔ گو یہ مشکل ہے لیکن ہمیں یہی کر کے دکھلانی چاہیے اور اگر صبر اور برداشت سے کام لیا جائے تو یہ کچھ مشکل بھی نہیں ۔
بے شک قادیانی دوست ہمیں برا کہتے ہیں، ہمیں بدترین قوم قرار دیتے ہیں، ہمارا طرز عمل انکے ساتھ محبت و اخلاص اور رواداری کا ہی ہونا چاہیے ۔
ہاں عقائد باطلہ کی تردید ضرور کرو اور بڑے زور کے ساتھ کرو لیکن اخلاق و معقولیت کے ساتھ ۔اپنے دلوں کو ذرا ٹھنڈا رکھو ۔صبر اور برداشت سے کام لو ۔بدگوئی کا مقابلہ بدگوئی سے نہ کرو۔
ہمارے اخبار کی پالیسی بھی یہی ہونی چاہیے   "

خطبات مولانا محمد علیؒ
جلد ۱۵، اقباس از صفحہ ۳۵۴، ۳۵۵


۷:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں 
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)

ہست اوخیرالرسل خیرالانام

ہر نبوت را بروشد اختتام

"نبوت کا دعوی نہیں بلکہ محدثیت کا دعوٰی ہے جو خدا تعالیٰ کےحکم سے کیا گیاہے"

"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "

" یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے؟"
روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹

"میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اورنبی کے میری الہام میں میری نسبت خدا تعالٰی کی طرف سے بے شک ہیں  لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں اور جیسے یہ محمول نہیں ایسا ہی نبی کر کے پکارنا  جو حدیثوں میں مسیح موعودؑ کےلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔ یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "
سراج منیر،صفحہ ۳

"سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں ۔ آنے والے مسیح موعودؑ  کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویؐ سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور معمولی محاوہ مکالمات الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا؟"
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"

یہ بھی یاد رہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے"

روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209
"سمیت نبیا من اللہ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ"
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر 




روحانی خزائن جلد 22 صفحہ  689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65) 

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب
 انکے اپنے اشعار میں 

ما مسلمانیم از فضلِ خدا 
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا

اندریں دیں آمدہ از مادریم 
ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم

آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست
بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست

یک قدم دوری ازاں روشن کتاب
نزد ماکفر است و خسران و تباب

آں رسولے کش محمدؐ ہست نام
دامنِ پاکش بدستِ ما مدام

مہرِ اوباشیرشداندربدن
 جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن 

ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام

(کتاب سراج منیر، ضمیمہ صفحہ ز)

 ایک ضروری تجویز

بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین 
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

Simple News Ticker


روزنامہ مبلغ (آنلائن)


روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان



بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت

 حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ

احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

جمعہ۔۱۲ستمبر ۲۰۱۴ء

۱۶ذیقعد ۱۴۳۵ ہجری


شمارہ نمبر:30

Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com


    خوشخبری
اپ ڈیٹ

بلاگ پر نیا اضافہ
احباب جماعت احمدیہ لاہور کو یہ جان کر از حد خوشی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس بلاگ کے آڈیو ویڈیو سیکشن میں  خطباتِ حضرت مولانا محمدعلیؒ کی آڈیو ریکارڈنگز کی اشاعت کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔
 خطبات کو باقاعدہ کیٹیگرائزڈ(categorized) کیا جارہا ہے جسکےلئے متعلقہ بلاگ پر سیلیکٹ کیٹیگری(select category) کا آپشن موجود ہے ۔علاوہ ازیں کسی خاص خطبہ کی تلاش کےلئے سرچ کا آپشن بھی موجود ہے ۔

 براہ کرم آڈیو ویڈیو سیکشن کو وزٹ فرمائیں اور اس سلسلہ کو بہتر سے بہتر بنانے کےلئے ہمیں اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ فرمائیں ۔

جزاکم اللہ تعالیٰ خیرا کثیرا





۱:کلامِ الٰہی 

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
النحل: 90 

ترجمہ:۔  اللہ تمھیں عدل اور احان اور قر یبیوں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برائی اور زیادتی سے روکتا ہے ۔وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔
تفسیر
جب قرآن کریم کو تبیانا لکل شئی کہا تو اب اسکی جامع تعلیم کا ایک نمونہ پیش کیا ہے اور اس آیت میں خیر اور شر کو پورے طور پر جمع کیا ہے ۔خیرکی اقسام میں عدل اور احسان اور ایتاذی القربیٰ کو بیان کیا ہے اور شر میں فحشاء اور منکر اور بغی اور تینوں باتیں ایک ترتیب میں ہیں ۔
عدل ادنیٰ درجہ کی نیکی ہے جو مساوات کے رنگ میں ہے یعنی جو کوئی تمھارے ساتھ نیکی کرے کرنا یا احسان کے عوض احسان۔ احسان وہ نیکی ہے جو بطور ابتداء بغیر کسی معاوضہ کے یا معاوضہ کے خیال کے کی جائے اور ایتاذالقربیٰ سے مراد صرف قریبیوں کو دینا نہیں گو صلہ رحمی بجائے خود ایک ایسی اعلیٰ درجہ کی نیکی ہے جس سے سب نیکیاں پیداہوتی ہیں ، بلکہ ایسا ایتاء مراد ہے جیسے ذی القربیٰ کا ہوتا ہے ۔
قریبیوں کا انسان کسی احسان کے خیال سے نہیں دیتا ۔یہ بھی نہیں سمجھتا کہ میں کوئی  نیکی کر رہاہوں بلکہ یہ ایک فطری خواہش کےما تحت ہوتا ہے۔
 پس یہ تیسرا مرتبہ یہ چاہتا ہے کہ نیکی انسان میں فطری خواہش کی طرح بن جائے ۔ایک کام کو جب انسان بار بار کرتاہے تو آخر ہوتے ہوتے وہ اسکی طبیعت کا جزو بن جاتا ہے ۔پس انسان اس قدر احسان کی عادت کر ے اور اسقدر بار بار اس کا اعادہ کرے کہ آخر ہوتے ہوتے احسان کرنا اسکی فطری خواہش کی طرح ہوجائے ۔
اور اقسام شر میں سب سے پہلے فحشاء کا ذکر کیا۔ یعنی ہر ایک فعل جو بذات خود قبیح ہے گو اسکا اثر دوسروں پر ہو یا نہ ہو اور دوسری ۱سم منکر ہے جسے دوسرے منائیں اور اسکا انکار کیا جائے ۔ گویا اس کا اثر دوسروں پر بھی پڑتاہے ۔

اور تیسری قسم بغی ہے جس میں انسان حد سے نکلنا چاہتا ہے ۔وہ گیا ایسا تجاوز ہے جس کا اثر بہت ہی وسیع ہے  ۔ایک دوسرے رنگ میں فحشاء قوت شہویہ سےپیدا ہوتا ہے۔ منکر قوت غضبیہ سے، بغی قوت وہمیہ سے ۔
شہوت کا اثر بد دوسرے انسانوں پر بہت کم پڑتا ہے اور عموماً اس میں ظلم کر رنگ بہت کم ہوتا ہے۔ غضب کے اثر بد کا دائرہ وسیع ہو جاتا ہے اور عموماً اس سے دوسرے انسانوں کو تکلیف پہنچتی ہے مگر سب سے بڑے مظالم دنیا میں قوت وہیمہ سے پیدا ہوتے ہیں، جسکی وجہ سے قوموں کی قومیں اور ملکوں کے ملک صرف ایک وہی کے ماتحت تباہ کردئیے جاتے ہیں ۔اور اگر یہ تینوں قوتیں حالت اعتدال پر آجائیں تو انسان بدی کی تمام راہوں سے بچ سکتا ہے ۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اس آیت کو خطبہ جمعہ کے آخر میں داخل کیا ہے ۔

بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ


۲:حدیثِ نبویؐ

سب سے بڑا عبادت گزار اور صحیح مومن

حضرت امیر معاویہؓ  بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جس شخص کو اللہ تعالیٰ بھلائی اور ترقی دینے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرماتا ہے۔

بخاری کتاب العم  باب من یرداللہ بہ خیرا حدیث نمبر ۲۸۳۰

۳:سیرت خیر البشرؐ
 باب چہارم
آفتاب رسالت کے طلوع سے پہلے کا زمانہ 
ظھرالفساد فی البر و البحر
(30:الروم:41)
برو بحر میں فساد ظاہر ہو گیا
از
 حضرت مولانا محمد علی 

نوٹ:  حضرت مولانا محمد علیؒ  کے اس عظیم الشان شاہکار اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ امی و ابی کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب سیرت خیرالبشر ؐ کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ

گزشتہ سے پیوستہ

عرب کی اصل اور مذہبی حالت

"خانہ کعبہ کے تین سو ساٹھ بتوں کے علاوہ قبیلے اپنے بت الگ بھی رکھتے تھے بلکہ ہر گھر میں الگ الگ بت بھی رہتا تھا جہاں دودھ وغیرہ اشیاء کے چڑھاوے چڑھتے تھے اور وہاں پروہت کوئی نہ ہونے کی وجہ سے ان چیزوں کو کتے کھا جاتے تھے غرض بت پرستی ان لوگوں کے خون کے اندر ایسی رچی ہوئی تھی کہ انکی روز مرہ زندگی کے تمام کاروبار پر اس کا اثر تھا۔

انکا یہ اعتقاد تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام کاروبارِ عالم کو اور اپنی قدرتوں کو ،جیسے بیمار کو شفا دینا، اولاد دینا، قحطو وبا کو دور کرنا، دوسروں کےسپرد کر رکھا ہے اور یہ بھی کہ بتوں کی پرستش سے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے ۔وہ بتوں کو سجدہ بھی کرتے ، انکے گرد طواف بھی کرتے، ان پر قربانیاں بھی کرتے تھے۔
کھیتوں کی پیداوار میں سے اور مویشیوں کی نسل میں سے انکے لئے نذریں مانتے اور ان پر چڑھاوے چڑھاتے۔
اس ذلیل کن بت پرستی سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیس سال کے عرصہ میں " 

جاری ہے

کتاب سیرت خیرالبشرؐ،باب دوئم، صفحہ21


۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ 

ان دوستوں کےلئےجو سلسلہ بیعت میں داخل ہیں 
نصیحت کی باتیں 

عزیزاں بے خلوص و صدق نکشا یند راہے
 را مصفّا قطرۂ باید کہ تا گوہر شود پیدا
(گزشتہ سےپیوستہ)

حرمت خنزیز

" ایک نکتہ اس جگہ یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ خنزیر جو حرام کیا گیا ہے۔ خدا نے ابتدا سے اس کے نام میں ہی حرمت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کیونکہ خنزیر کا لفظ خنز اور ار سے مرکب ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ میں اس کو بہت فاسد اور خراب دیکھتا ہوں۔ خنزکے معنے بہت فاسد اور ار کے معنے دیکھتا ہوں۔
پس اس جانور کا نام جو ابتداء سے خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو ملا ہے وہی اس کی پلیدی پر دلالت کرتا ہے اور عجیب اتفاق یہ ہے کہ ہندی میں اس جانور کو سور کہتے ہیں۔ یہ لفظ بھی سوء اور ار سے مرکب ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ میں اس کو بہت برا دیکھتا ہوں اور اس سے تعجب نہیں کرنا چاہئے کہ سوء کا لفظ عربی کیونکر ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ہم نے اپنی کتاب منن الرحمٰن میں ثابت کیا ہے کہ تمام زبانوں کی ماں عربی زبان ہے اور عربی کے لفظ ہر ایک زبان میں نہ ایک دو بلکہ ہزاروں ملے ہوئے ہیں۔
سو سوء عربی لفظ ہے۔ اسی لئے ہندی میں سوء کا ترجمہ بد ہے۔ پس اس جانور کو بد بھی کہتے ہیں۔ اس میں کچھ بھی شک معلوم نہیں ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں جبکہ تمامؔ دنیا کی زبان عربی تھی۔ اس ملک میں یہ نام اس جانور کا عربی میں مشہور تھا جو خنزیر کے نام کے ہم معنی ہے پھر اب تک یادگار باقی رہ گیا۔
ہاں یہ ممکن ہے کہ شاستری میں اس کے قریب قریب یہی لفظ متغیر ہو کر اور کچھ بن گیا ہو۔ مگر صحیح لفظ یہی ہے کیونکہ اپنی وجہ تسمیہ ساتھ رکھتا ہے۔ جس پر لفظ خنزیر گواہ ناطق ہے اور یہ معنے جو اس لفظ کے ہیں۔ یعنی بہت فاسد۔ اس کی تشریح کی حاجت نہیں۔
 اس بات کا کس کو علم نہیں کہ یہ جانور اول درجہ کا نجاست خور اور نیز بے غیرت اور دیوث ہے۔ اب اس کے حرام ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ قانون قدرت یہی چاہتا ہے کہ ایسے پلید اور بد جانور کے گوشت کا اثر بھی بدن اور روح پر بھی پلید ہی ہو کیونکہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ غذاؤں کا بھی انسان کی روح پر ضرور اثر ہے۔
 پس اس میں کیاشک ہے کہ ایسے بد کا اثر بھی بد ہی پڑے گا۔ جیسا کہ یونانی طبیبوں نے اسلام سے پہلے ہی یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس جانور کا گوشت بالخاصیت حیا کی قوت کو کم کرتا ہے اور دیوثی کو بڑھاتا ہے اور مردار کا کھانا بھی اسی لئے اس شریعت میں منع ہے کہ مرداربھی کھانے والے کو اپنے رنگ میں لاتا ہے 

اور نیز ظاہری صحت کیلئے بھی مضر ہے۔ اور جن جانوروں کا خون اندر ہی رہتا ہے جیسے گلا گھونٹا ہوا یا لاٹھی سے مارا ہوا۔ یہ تمام جانور درحقیقت مردار کے حکم میں ہی ہیں۔ کیا مردہ کا خون اندر رہنے سے اپنی حالت پر رہ سکتا ہے؟ نہیں بلکہ وہ بوجہ مرطوب ہونے کے بہت جلد گندہ ہوگا اور اپنی عفونت سے تمام گوشت کو خراب کرے گا اور نیز خون کے کیڑے جو حال کی تحقیقات سے بھی ثابت ہوئے ہیں۔ مر کر ایک زہر ناک عفونت بدن میں پھیلا دیں گے۔

کتاب : اسلامی اصول کی فلاسفی 
 روحانی خزائن، جلد ۱۰صفحہ ۳۳۸، ۳۳۹

۵:دینی مسائل اور انکا حل
ارشاد مبارک حضرت مجدد اعظم و امام الزمان
مرزا غلام احمد قادیانی رحمتہ اللہ علیہ  

جوتے پہنے ہوئےنماز؟


"جوتے پہنے ہوئے نماز پڑھنا شرعاً جائز ہے "

بدر۱۱ اپریل ۱۹۰۷ء ص ۳

۶:پیغامِ امیر قومؒ
حضرت مولانا محمد علیؒ

حضرت مرزا صاحبؒ کا پیدا کردہ انقلاب

"اس زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک مجدد کھڑا  کیا جسکے درد دل نے ایک انقلاب پیدا کر دیا. حضر ت مرزا صاحبؒ نے جو اپنے آپکو  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز کہا، بہت لوگ اس سے ٹھوکر کھاتے ہیں اور اس پراعتراض کرتے ہیں ۔اسکا مطلب صرف اسقدر ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جو درد موجود تھا، اسکی ایک چنگاری آپ کے دل میں پڑگئی اور پھر آپؒ   اور سینکڑوں ہزاروں دلوں میں پڑ گئی۔
خوب یاد رکھو! جس طرح بھوک کے بغیر کوئی غذا لذیذ نہیں معلوم ہوتی، انسان کو بھوک نہ تو اسے اچھی سے اچھی چیز پکا اسکے سامنے رکھی جائے ، اسکو مرغوب نہ ہوگی ۔لیکن سخت اشتہاء کی حالت میں موٹی سے موٹی سوکھی روٹی بھی اسکو دے دو ،تو وہ بہت رغبت سے کھائے گا ۔بالکل یہی حالت دین کےلئے درد، سوزو گداز اور جنون کی ہے ۔ یہ درد دلوں میں پیدا ہو تو تو دعا کے لئے تڑپ پیداہوتی ہے تو دعا میں نور پیدا ہو تو نصرت الٰہی آتی ہے ۔پس پہلے اپنے دلوں کے اندر دین کا یہ درد پیدا کرو پھر خدا کے آگے گرو۔اسکے ہی حضور روو اور گڑگڑاو۔ جب تمھارے دلوں میں درد اور جنون پیدا ہو جائے گا، تو تم کو دعاوں میں بھی لذت ملے گی اور خدا کی نصرت بھی  آجائےگی ۔
میں اپنی جماعت کے متعلق کیا کہوں؟ خود اپنے متعلق نہیں کہہ سکتا ۔انسان کے اندر اپنی عزت کےلئے ایک خیال پیدا ہوجاتا ہے تو وہ اسکے لئے لڑتا ہے ۔لیکن دین کےجنون کا یہ تقاضا ہے کہ انسان اپنی عزت کےلئے پریشان ہونے کی بجائے اللہ اور رسول ؐ کی عزت کےلئے پریشان ہو۔
انسان اپنی یاد گار قائم رکھنے کےلئے دنیا میں بڑے بڑے کا کر جاتے ہیں لیکن ہمارے دلوں میں ذاتی یاد گاروں کو قائم کرنے کی بجائےیہ آرزو ہونی چاہیے کہ دنیا میں خدا اور اسکےرسولؐ کی یاد گار قائم ہو ۔اللہ کا نام بلند ہو اور اسکا دین پھیلے۔
خوب یاد رکھو! خدا ناقدردان نہیں ۔ وہ بڑا قدر دان اور شکور ہے ۔ اگر تم اپنی کوششوں کو خدا کےلئے وقف کر دو تو وہ تم کو اجر دے گا، جو تم اپنی کوششوں سے اپنے لئے ہر گز حاصل نہیں کر سکتے ۔لیکن اسکےلئے ضرورت ہے کہ ہم اپنے دل میں اس بات کا پختہ عہد کر لیں کہ ہم نے خدا کے نام کو بلند کرنے اور پھیلانے کےلئے مجنونانہ کوشش کرنی ہے کہ کسی دوسرے خیال کو بھی پاس نہیں آن دینا ۔
ضرورت ہے کہ ہم بالکل اسی کام کےلئے وقف ہو جائیں ۔اگر ہم یہ عہد پختہ طور پر د ل میں کر کے کوشش کریں تو بہت تھوڑے عرصہ میں وہ کام کر سکتے ہیں جو دنیا کے باقی تمام مسلمانوں سے نہیں ہو سکتا "

پیغامِ صلح ، ۹ فروری   ۱۹۳۸ ء
خطبات مولانا محمد علیؒ
جلد ۱۳، اقباس از صفحہ ۲۲،۲۳


۷:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں 
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)

ہست اوخیرالرسل خیرالانام

ہر نبوت را بروشد اختتام

"نبوت کا دعوی نہیں بلکہ محدثیت کا دعوٰی ہے جو خدا تعالیٰ کےحکم سے کیا گیاہے"

"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "

" یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے؟"
روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹

"میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اورنبی کے میری الہام میں میری نسبت خدا تعالٰی کی طرف سے بے شک ہیں  لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں اور جیسے یہ محمول نہیں ایسا ہی نبی کر کے پکارنا  جو حدیثوں میں مسیح موعودؑ کےلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔ یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "
سراج منیر،صفحہ ۳

"سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں ۔ آنے والے مسیح موعودؑ  کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویؐ سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور معمولی محاوہ مکالمات الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا؟"
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"

یہ بھی یاد رہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے"

روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209
"سمیت نبیا من اللہ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ"
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر 




روحانی خزائن جلد 22 صفحہ  689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65) 

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب
 انکے اپنے اشعار میں 

ما مسلمانیم از فضلِ خدا 
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا

اندریں دیں آمدہ از مادریم 

ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم

آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست

بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست

یک قدم دوری ازاں روشن کتاب

نزد ماکفر است و خسران و تباب

آں رسولے کش محمدؐ ہست نام

دامنِ پاکش بدستِ ما مدام

مہرِ اوباشیرشداندربدن

 جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن 

ہست اوخیرالرسل خیرالانام

ہر نبوت را بروشد اختتام

(کتاب سراج منیر، ضمیمہ صفحہ ز)
۸:
 ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف

اس ہفتہ کی کتاب

 ایک ضروری تجویز

بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین 
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام


Friday, August 29, 2014

جمعہ ۔ 29 اگست 2014، شمارہ: 17


روزنامہ مبلغ (آنلائن)


روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان

بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت

 حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ

احمدیہ انجمن اشاعت اسلام

جمعہ۔۲۹ اگست۲۰۱۴ء

۲ذیقعد ۱۴۳۵ ہجری


شمارہ نمبر:۱۷
Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com




۱:کلامِ الٰہی 


فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ 

آل عمران: 159

ترجمہ:۔ سو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے تو انکےلئے نرم ہے ۔ اور اگر تو سخت کلام، سخت دل ہوتا تو تیرے ارد گرد سے بکھر جاتے 
تفسیر:
آپؐ   کے اخلاق اور خلق لینت کا کمال
ہر ایک خلق کا اظہار کامل رنگ میں  اس وقت ہوتا ہے جب اسکے اظہار کے مخالف موقع ہو۔ جنگ کا وقت ایسا ہوتا ہے کہ اس میں نرمی کے اظہار کا موقع نہیں ہوتا بلکہ انسان کے اندر جس قدر شدت ہے اس کا اظہار جنگ میں پورے زور کے ساتھ ہوتا ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ جب ان احکام کی تعمیل میں جو کسی فوج کو دئیے گئے ہوں، فروگزاشت ہو یا ان احکام کی تعمیل نہ ہو تو پھر قواعد جنگ اس امر کے مقتضی ہوتے ہیں کہ سخت سے سخت سزا دی جائے ۔پس اول تو موقعہ اظہا لینت کا نہیں اظہار شدت کا تھا ۔دوسرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کی گئی جس کی وجہ سے اسقدر عظیم مصیبت آپؐ   کو اور مسلمانوں کو برداشت کرنی پڑی اوریہ موقع سخت سے سخت سزا کو چاہتا تھا مگر اس موقع پر نافرمانی کرنے والوں کو ایک حرف بھی ملامت کا نہ کہنا ظاہر کرتا ہے ظاہر کرتا ہے کہ نبی کریم صلعم میں کس قدر کمال خلق لینت کا موجود تھا کہ سخت سے سخت حالات کے ماتحت بھی، ہاں ان حالات کےماتحت بھی جو بظاہر خلق لینت کےمنافی معلوم ہوتے ہیں آپؐ   کے اندر اس خلق کا اظہار ہوتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسے تعریف کے موقع پر بیان فرمایا ہے ورنہ آپؐ   کے خلق لینت تو بے شمار تھے ۔دن رات خدام سے، بیبیوں سے، دوستوں سے، دشمنوں سے لینت کا برتاو آپؐ   فرماتے تھے مگر یہ موقع اس خلق کے کمال کو دکھانے والا تھا۔
نبی کریم صلعم کی نرمی اور رحمت کے متعلق اور بھی بہت سی آیات قرآنی شاہد ہیں جیسا کہ فرمایا 
عزیز علیہ ما عنتم (۹: توبہ: ۱۲۷)
کوئی دکھ تم کو پہنچے تو اسکو تکلیف ہوتی ہے
 اورفرمایا 
واخفض جناحک للمومنین (۱۵: الحجر: ۱۸۸) 
اور ایک روایت میں ہے
 انا لکم مثل الوالد 
بلکہ والد سے بہت بڑھ کر شفقت اور محبت آپؐ   کے دل میں بھری ہوئی تھی  ۔
نبی کریم صلعم کے اس خلق کے اظہار میں یہ بتانا مقصود ہے کہ آپؐ   کے پیرو بھی اور بالخصوص وہ لوگ جو دوسروں کے لئے پیشواء یا سردار کے طور پر ہوتے ہیں وہ اس قسم کے اخلاق اپنے اندر پیدا کریں تو ہی جماعت قائم رہ سکتی ہے ورنہ کوئی جماعت نہیں بن سکتی چنانچہ اس کی طرف ایک حدیث میں اشارہ ہے 
لااحلم احب الی اللہ من حلم امام  و رفقہ ولا جھل الغض الی اللہ من جھل امام و خرقہ (غق)
یعنی کوئی حلم اور نرمی اما کے حلم اور نرمی سے بڑھ کر اللہ کو پسند نہیں اور کوئی جہل امام کی جہالت سے بڑھ کر اللہ نے نزدیک نا پسندیدہ نہیں 


بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ


۲:حدیثِ نبویؐ
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک بار عید کا دن تھا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میر پاس تشریف لائے۔ اس وقت دو بچیاں جنگ بعاث پر مشتمل گیت گار رہی تھیں۔ وہ پیشہ ور گانے والی نہیں تھیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بستر پر منہ دوسری طرف کر کے لیٹ گئے۔تھوڑی دیر بعد ابو بکر آئے مجھے ڈانٹا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں شیطانی آلات کیوں بجائے جا رہے ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہؐ نے فرمایا:

ائے ابوبکر ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج ہماری عید ہے 

صحیح بخاری، کتاب الجمعہ، باب الحراب و باب سنتہ العیدین،حدیث نمبر ۸۹۷، ۸۹۹


۳:سیرت خیر البشرؐ
از
 حضرت مولانا محمد علی 

"زید کو صفوان بن امیہ نے قتل کے ارادہ سے خریدا ۔ انکے قتل کے وقت ابو سفیان اور دیگر بڑے بڑے قریش موجودتھے ۔جب ان پر تلوار چلنے کو نکل چکی تھی تو ابو سفیان نے کہا کیا تم پسند نہیں کرتے کہ تم بچ جاو اور محمد صلعم قتل کئے جاویں ۔انھوں نے کہا کہ میں تو اپنی جان کو اتنی وقت بھی نہیں دیتا کہ میں بچ جاوں اور رسول صلعم کو ایک کانٹا چبھ جائے۔ یہ ان لوگوں کے رسول اللہ صلعم کے ساتھ عشق کا ایک نمونہ ہے 
اس قسم کے واقعات سے، جب قبائل نے دھوکہ دے کر آپؐ    کے بے گناہ مبلغین کو ذبح کرنا شروع کیا تو آپؐ    کو نہایت درجہ کا دکھ پہنچا ۔آپؐ   ہر قسم کی تکلیف برداشت کر سکتے تھے مگر ان لوگوں کا دکھ اور تکلیف آپؐ   سے برداشت نہ ہوتا تھا جنھوں نے پیغام حق قبول کر کے آپؐ   کا ساتھ دیا اور ہر قسم کی قربانیاں کر کے دکھا دیا کہ وہ خدا کے نزدیک کسقدر بلند مقام پر پہنچ چکے ہیں ۔قاریوں کے قتل کے واقعات نے اس قدر آپؐ   کی طبعیت کو صدمہ پہنچایا کہ آپؐ   نے ایک دفعہ ان بعض قبائل پر جو دغا بازی سے مسلمانوں کو قتل کر رہے تھے بد دعا کرنے کا ارادہ کیا اور کچھ دن بد دعا بھی کی ۔
ایسے لوگوں کی سزا تو یہ تھی کہ انکو اسی طرح اذیت پہنچا کر قتل کیا جاتا۔ مگر آپؐ   نے اللہ تعالیٰ پر ہی معاملہ کو چھوڑا مگر وہ خدا جس نے آپؐ    کو رحمتہ اللعالمین بنا کر بھیجا نہ چاہتا تھا کہ دشمن کےلئے بھی آپؐ   کے سراسر رحم دل سے بددعا نکلے ۔اس لئے آپؐ   پر وحی الٰہی نازل ہوئی جو اس باب کے عنوان میں درج ہے 
"تمھارا اس معاملہ میں کوئی اختیار نہیں اللہ چاہے تو ان پر رجوع برحمت کرے اور چاہے تو انکو عذاب دے ۔بے شک وہ ظالم ہیں "
اس پاک پیغام کے نازل ہوتے ہی آپؐ    نے بد دعا کرنی چھوڑ دی ۔اور کس ہادی کی زندگی میں ایسا پاک نمونہ ہم کو مل سکتا ہے ؟ "

کتاب سیرت خیرالبشرؐ، صفحہ  ۱۰۹، ۱۱۰


۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ 

اصلاح کی کامل ضرورت کے وقت آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت


" ہماے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایسے وقت میں مبعوث ہوئے تھے۔ جبکہ دنیا ہر ایک پہلو سے خراب اور تباہ ہو چکی تھی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ظھر الفساد فی البر و البحر پ۲۱ ۱؂  (الروم: ۲۴)
یعنی جنگل بھی بگڑ گئے اور دریا بھی بگڑ گئے۔ یہ اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ جو اہل کتاب کہلاتے ہیں وہ بھی بگڑ گئے اور جو دوسرے لوگ ہیں جن کو الہام کا پانی نہیں ملا وہ بھی بگڑ گئے ہیں۔ پس قرآن شریف کا کام دراصل ُ مردوں کو زندہ کرنا تھا۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔
اعلمواان اللہ یحی الارض بعد موتھا (الحدید: ۱۸)
یعنی یہ بات جان لو کہ اب اللہ تعالیٰ نئے سرے سے زمین کو بعد اس کے مرنے کے زندہ کرنے لگا ہے۔ اس زمانہ میں عرب کا حال نہایت درجہ کی وحشیانہ حالت تک پہنچا ہوا تھا اور کوئی نظام انسانیت کا ان میں باقی نہیں رہا تھا اور تمام معاصی ان کی نظر میں فخر کی جگہ تھے۔ ایک ایک شخص صدہا بیویاں کرلیتا تھا۔ حرام کا کھانا ان کے نزدیک ایک شکار تھا۔ ماؤں کے ساتھ نکاح کرنا حلال سمجھتے تھے۔ اسی واسطے اللہ تعالیٰ کو کہنا پڑا۔ کہ
 حرمت علیکم امھتکم۱؂ (النسا: ۲۴)
یعنی آج مائیں تمہاری تم پر حرام ہوگئیں۔ ایسا ہی وہ مردار کھاتے تھے۔ آدم خور بھی تھے۔ دنیا کا کوئی بھی گناہ نہیں جو نہیں کرتے تھے۔ اکثر معاد سے منکر تھے۔ بہت سے ان میں سے خدا کے وجود کے بھی قائل نہ تھے۔ لڑکیوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کرتے تھے۔ یتیموں کو ہلاک کر کے ان کا مال کھاتے تھے۔ بظاہر تو انسان تھے مگر عقلیں مسلوب تھیں۔ نہ حیا تھی نہ شرم تھی نہ غیرت تھی۔ شراب کو پانی کی طرح پیتے تھے۔ جسؔ کا زناکاری میں اول نمبر ہوتا تھا۔ وہی قوم کا رئیس کہلاتا تھا۔ بے علمی اس قدر تھی کہ اردگرد کی تمام قوموں نے ان کا نام اُ ّ می رکھ دیا تھا۔ ایسے وقت میں اور ایسی قوموں کی اصلاح کیلئے ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم شہر مکہ میں ظہور فرما ہوئے۔ پس وہ تین قسم کی اصلاحیں جن کا ہم ابھی ذکر کر چکے ہیں۔ ان کا درحقیقت یہی زمانہ تھا۔ پس اسی وجہ سے قرآن شریف دنیا کی تمام ہدایتوں کی نسبت اَکمل اور اَتم ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کیونکہ دنیا کی اور کتابوں کو ان تین قسم کی اصلاحوں کا موقعہ نہیں ملا اور قرآن شریف کو ملا۔
روحانی خزائن، جلد10 صفحہ 328، 329 

۵:دینی مسائل اور انکا حل
از
حضرت مجدد و امام الزمان مرزا غلام احمد قادیانی ؒ
قصر نماز و حد سفر

"میری دانست میں جس سفر میں عزم سفر ہو پھر وہ خواہ تین چار کوس ہی کا سفر کیوں نہ ہو اس میں قصر جائز ہے ۔یہ ہماری سیر سفر نہیں ہے ۔ہاں اگر امام مقیم ہے تو اسکے پیچھے پوری نماز پڑھنی پڑے گی"

البدر، یکم ستمبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۲، ۳



۶:پیغامِ امیر قومؒ
حضرت مولانا محمد علیؒ


" میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ کام اس طرح نہیں چلا کرتے کہ میں نے یہاں کھڑے ہو کر خطبہ دے دیا اور وہ اخبار میں چھپ گیا اور آپ نےاسے پڑھ لیا ۔اس کام کےلئے پوری کوشش اور ہمت کی ضرورت ہے۔ قربانی کی ضرورت ہے۔ تم میں سے ایک ایک فرد اس کفر و شرک کے قلعے کو توڑنے کےلئے اٹھ کھڑا ہو۔ یہ بات قربانیوں کےبغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور اسکے ساتھ ہی میں پھر یہ کہتا ہوں کہ ہمارا اصل کام غلبہ اسلام اور اشاعت قرآن ہے ۔اس بات کا بھی خیال رکھو کہ ان چھوٹے چھوٹےمخمصوں میں پڑ کر اس اصل کام سے تمھاری توجہ نہ ہٹ جائے ۔اسی میں اپنی ساری طاقت نہ صرف کر دوبلکہ اپنی طاقت کے بڑے حصہ کو دشمن کے مقابلہ کےلئے تیار محفوظ رکھو۔ "

خطبات مولانا محمد علیؒ
جلد ۱۵، اقباس از صفحہ ۱۶۵


۷:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں 
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)

ایک اعتراض کا جواب کہ حضرت مرزا صاحبؒ اگر کلمہ گوووں کو مسلمان سمجھتے ہیں تو پھر اپنے پیروکاروں کو غیر احمدی مسلمانوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کیوں کیا؟

حضرت مسیح موعودؑ کے الفاظ ہی میں جواب 
"جبکہ وہ لوگ ہم کو کافر قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ہم انکو کافر کہنے میں غلطی پر ہیں تو ہم خود کافر ہیں تو اس صورت میں انکے پیچھے نماز کیونکر جائز ہو سکتی ہے ۔ایسا ہی جواحمدی انکے پیچھے نماز پڑھتا ہے جب تک توبہ نہ کرے اسکے پیچھے نماز نہ پڑھو"

بدر ۲۳ مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۰

مختصر تبصرہ از ایڈیٹر 

نوٹ: پس ایسے افراد کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکا ہے جو ایک کلمہ گو کی تکفیر کرنے میں پہل کرتے ہیں اور از روئے شریعت ایک مومن کو ناحق طور  پر کافر قرار دینے کی پاداش میں بطور سزا خود کفر کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ لہذا ایسے افراد کے پیچھے نماز کیونکر جائز ہو سکتی ہےجب کہ وہ شریعت کی نافرمانی کر کے خود شریعت کےفتوی کے نیچے ہیں ؟ جیسا کہ ہم نے اپنے ایک سابقہ خصوصی شمارہ بعنوان کفرو اسلام میں بھی اس معاملہ میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب خود انہی کی تحریرات کی روشنی میں کافی وضاحت کےساتھ پیش کیا تھا جسے مختصراً یہاں دوبارہ پیش کرتے ہیں:


حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ فرماتے ہیں :



"ابتداء سے میرا یہی  مذہب ہے کہ میرے دعوی کے انکار سے کوئی شخص کافر یا دجال نہیں ہو سکتا"
تریاق القلوب ،صفحہ ۱۳۰

"ہم کسی کلمہ گو کو اسلام سے خارج نہیں کہتے جب تک کہ وہ ہمیں کافر کہہ کر خود کافر نہ بن جائے"
ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۶۳۵

"جو ہمیں کافر نہیں کہتا ہم اسے ہر گز کافر نہیں کہتے ۔لیکن جو ہمیں کافر کہتا ہے اسے کافر نہ سمجھیں تو اس میں حدیث اور متفق علیہ مسئلہ کی مخالفت لازم آتی ہے اور یہ ہم سے ہو نہیں سکتا"
ملفوظات جلد ۵ صفحہ  ۶۳۶


پس ہمارے پیارے امام حضرت مسیح موعودؑ نےیہاں شریعت کے فیصلہ کو مقدم کرتے ہوئے اس کی پاسداری کی ہے اور اپنے پیروکاروں کو بھی شریعت ہی میں موجود ایک فیصلہ کی پاسداری کا حکم دیا ہے ۔

کلمہ گو مومن کی تکفیر کرنے والا شریعت کا باغی ہے اور اسی سلوک کا مستحق ہے جو وہ دوسرے کلمہ گو مومن کے لئے روا رکھے ہوئے ہے۔


پس یہاں غور کیجئے کہ ہمارے پیارے امام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کو شریعت کا کس قدر پاس ہے غیر احمدی مکفر تو ایک طرف،خود اپنی جماعت تک کے افراد کو اس سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا اور آپکے ارشاد مبارک سے صاف ثابت ہے کہ ایک شخص احمدی کہلا کر اگر ایسے مکفر ین کے پیچھے نماز پڑھتا ہے تو پھروہ بھی شریعت کا مخالف قرار پائے کر انہیں کا ساتھی شمار ہو گا ۔ لہذا اسکے پیچھے بھی ایک احمدی کی نماز جائز نہیں جب تک کہ وہ توبہ نہ کرے ۔

ہاں اگر غیر احمدی مکفر بھی توبہ کرتا ہے اور پھر شریعت کی پاسداری میں  کسی بھی کلمہ گو  کے مکفر کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا اور ہمارے امام ؑ کو  مسلمان یقین کرتا ہے اور ہمارے پیچھے نماز بھی پڑھتاہے تو ایسے غیر احمدی مسلمان کے پیچھے نماز بالکل جائز ہے ۔(ایڈیٹر)


 ایک ضروری تجویز

بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین 
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام