روزنامہ مبلغ (آنلائن)
بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت
حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام
اتوار۔۳۱ اگست۲۰۱۴ء
۴ ذیقعد ۱۴۳۵ ہجری
شمارہ نمبر:۱۹
Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com
اپ ڈیٹ
بلاگ پر نیا اضافہ
احباب جماعت احمدیہ لاہور کو یہ جان کر از حد خوشی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس بلاگ کے آڈیو ویڈیو سیکشن میں خطباتِ حضرت مولانا محمدعلیؒ کی آڈیو ریکارڈنگز کی اشاعت کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔
خطبات کو باقاعدہ کیٹیگرائزڈ(categorized) کیا جارہا ہے جسکےلئے متعلقہ بلاگ پر سیلیکٹ کیٹیگری(select category) کا آپشن موجود ہے ۔علاوہ ازیں کسی خاص خطبہ کی تلاش کےلئے سرچ کا آپشن بھی موجود ہے ۔
براہ کرم آڈیو ویڈیو سیکشن کو وزٹ فرمائیں اور اس سلسلہ کو بہتر سے بہتر بنانے کےلئے ہمیں اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ فرمائیں ۔
جزاکم اللہ تعالیٰ خیرا کثیرا
۱:کلامِ الٰہی
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ
آل عمران:102
ترجمہ:۔ ائے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقویٰ کروجیسا اسکے تقویٰ کا حق ہے اور تم نہ مرو مگر ایسی حالت میں کہ تم فرمانبردار ہو۔
تفسیر:
اسلام کے کمالات اور اسکے امتیازی نشانوں کا ذکر کر کے اب مسلمانوں کو بتایا ہے کہ وہ کن اصول کو مدنظر رکھ کر دنیا میں ایک کامیاب قوم بن سکتے ہیں اور اس رکوع میں کامیابی کے تین عظیم الشان گر بتائے ہیں جن میں سے سب سے پہلی بات ہے اتقواللہ حق تقاتہ۔ تقوی اللہ کے معنے پہلے بیان ہو چکے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حقوق کی نگہداشت۔یا ان حقوق اور ذمہ داریوں کی حفاظت جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ذمہ ڈال رکھی ہے خواہ انکی طرف شریعت ہدایت کرتی ہو یا عقل انسانی۔
گویا قوم کے ہر فرد کے اندر پہلے فرداً فرداً ذمہ داری کا احساس پیدا ہونا ضروری ہے اور یہی کامیابی کی عمارت کی خشتِ اول ہے ۔ مگر صرف اس احساس کا پیداہونا بھی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ حق تقاتہ بڑھا کر بتایا کہ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کےلئے قوم کے ہر فرد کو اپنی اپنی جگہ پر پورا زور لگانا چاہیے ۔
اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کا حق اس انسان نے ادا کردیا جس نے اپنی طرف سے پورا زور لگا دیا ۔اس لئے اللہ تعالیٰ خود ہی فرماتا ہے لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا ۔ پس اتقواللہ حق تقاتہ ہی وہی مراد ہے جو فاتقواللہ مااستطعتم (۶۴:التغابن۔ ۱۶) سے ہے ۔اور جن لوگوں نے پہلے الفاظ سے دوسرے الفاظ کو منسوخ سمجھا ہے انھوں نے سخت غلطی کھائی ہے اور اسکے مطابق دوسری جگہ جہاد کا حکم ہے جاھدو فی اللہ حق جہادہ ( ۲۶: الحج: ۷۸) ۔دونوں میں اپنی مقدرت کے مطابق زور لگانا ہے ۔تکلیف مالایطاق اس میں داخل نہیں ۔
اور آخر پر فرمایا لاتموتن الا و انتم مسلمون ۔جس میں یہ بتایا کہ کہ تم پر کوئی آن ایسی نہ آئے کہ کامل فرمانبرداری کی حالت نہ ہو اور مسلم وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے ہر ایک مسلم بچا رہتا ہے
اسلام کے کمالات اور اسکے امتیازی نشانوں کا ذکر کر کے اب مسلمانوں کو بتایا ہے کہ وہ کن اصول کو مدنظر رکھ کر دنیا میں ایک کامیاب قوم بن سکتے ہیں اور اس رکوع میں کامیابی کے تین عظیم الشان گر بتائے ہیں جن میں سے سب سے پہلی بات ہے اتقواللہ حق تقاتہ۔ تقوی اللہ کے معنے پہلے بیان ہو چکے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حقوق کی نگہداشت۔یا ان حقوق اور ذمہ داریوں کی حفاظت جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ذمہ ڈال رکھی ہے خواہ انکی طرف شریعت ہدایت کرتی ہو یا عقل انسانی۔
گویا قوم کے ہر فرد کے اندر پہلے فرداً فرداً ذمہ داری کا احساس پیدا ہونا ضروری ہے اور یہی کامیابی کی عمارت کی خشتِ اول ہے ۔ مگر صرف اس احساس کا پیداہونا بھی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ حق تقاتہ بڑھا کر بتایا کہ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کےلئے قوم کے ہر فرد کو اپنی اپنی جگہ پر پورا زور لگانا چاہیے ۔
اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کا حق اس انسان نے ادا کردیا جس نے اپنی طرف سے پورا زور لگا دیا ۔اس لئے اللہ تعالیٰ خود ہی فرماتا ہے لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا ۔ پس اتقواللہ حق تقاتہ ہی وہی مراد ہے جو فاتقواللہ مااستطعتم (۶۴:التغابن۔ ۱۶) سے ہے ۔اور جن لوگوں نے پہلے الفاظ سے دوسرے الفاظ کو منسوخ سمجھا ہے انھوں نے سخت غلطی کھائی ہے اور اسکے مطابق دوسری جگہ جہاد کا حکم ہے جاھدو فی اللہ حق جہادہ ( ۲۶: الحج: ۷۸) ۔دونوں میں اپنی مقدرت کے مطابق زور لگانا ہے ۔تکلیف مالایطاق اس میں داخل نہیں ۔
اور آخر پر فرمایا لاتموتن الا و انتم مسلمون ۔جس میں یہ بتایا کہ کہ تم پر کوئی آن ایسی نہ آئے کہ کامل فرمانبرداری کی حالت نہ ہو اور مسلم وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے ہر ایک مسلم بچا رہتا ہے
بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ
۲:حدیثِ نبویؐ
حضرت عمرؓ بیان کرتےہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں جو نبی اور شہید تو نہیں مگر قیامت کے دن نبی اور شہید بھی ان پر رشک کر یں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آپس میں کسی رحمی رشتہ اور مالی دلچسپی کے بغیر اللہ کی خاطر محبت کرتےہیں۔ انکے چہرے نوارانی ہونگے اور نور پر فائز کئے جائیں گے جب لوگ خوف زدہ اور غمزدہ ہونگے وہ ہر خوف اور حزن سے آزاد کئے جائیں گے یہ اولیاء اللہ ہیں "
سنن ابی داود، کتاب البیوع، باب الرھن، حدیث نمبر ۳۰۶۰
۳:سیرت خیر البشرؐ
از
حضرت مولانا محمد علی
"قریش نے جب دیکھا کہ آپؐ نے اپنی دعوت کو نہیں چھوڑا تو پھر ایک وفد ابوطالب کے پاس پہنچا ۔ اس دفعہ مصمم ارادہ کر کے گئے کہ قطعی فیصلہ کر کے آئیں گے چنانچہ انھوں نے ابو طالب کو اپنا پہلی دفعہ آنا بھی یاد دلایا اور کہا کہ اب ہم اس سے زیادہ قطعاً برداشت نہیں کر سکتے پس یا تو تم اپنے بھتیجے سے الگ ہو جاو یا خود بھی اسکے ساتھ مل جاو تاکہ ہمارے اور تمھارے درمیان فیصلہ ہو اور جنگ ہو کر ہم دونوں میں سے ایک فریق ہلاک ہوجائے۔یہ قریش کی طرف سے اعلان جنگ تھااور یہ موقع ابوطالب کے لئے نہایت سخت تھا ۔ایک طرف قوم سے مقابلہ مشکل نظر آتا تھا دوسری طرف آنحضرت صلعم کی محبت دل میں ایسی تھی کہ وہ آپ کو بھی نہ چھوڑ سکتا تھا اس حالت میں اس نے آنحضرت صلعم کو بلایا اور جو کچھ قریش کہہ گئے تھے آپؐ سے کہا مجھ پر اور اپنے اوپر رحم کرو۔ مجھ پر ایسا بوجھ نہ ڈالو جس کو میں اٹھا نہیں سکتا ۔یعنی قوم کے مقابلہ کی مجھ میں تاب نہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال کیا کہ ابو طالب بھی اب آپؐ کا ساتھ چھوڑتا ہے ۔قوم تو سب پہلے ہی دشمن ہے ۔صرف ابو طالب کے درمیان میں حائل ہونے کی وجہ سے وہ علی الاعلان آپؐ کو قتل نہیں کر سکتے تھے ۔ابوطالب کی علیحدگی کے صاف طور پر یہ معنے تھے کہ اب دنیا میں کوئی انسان آپؐ کو دشمنوں کےشر سے بچانے میں معاون نہ ہوگا۔ ساتھی سب الگ ہو کر حبش میں جا چکےہیں ۔قوم دشمن ہےاور ایسی خطرناک دشمن کہ جان لینے کے درپے ہے مگر کیا ہی ثبات و استقلال کا نمونہ ہے جو اس وقت آپؐ نے دکھایا ۔کوئی مایوسی کا خیال آپؐ کے دل میں نہیں آیا ۔اللہ تعالیٰ کی حفاظت پر کس قدربھروسہ ہے کہ کسی انسان کی حفاظت کی پرواہ تک نہیں کرتے ۔ادھر ابو طالب کے منہ سے وہ کلمات نکلتے ہیں ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جواب میں فرماتے ہیں ۔
ائے چچا اگر سورج کو میرے دائیں ہاتھ میں اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ میں رکھ دیں اور یہ چاہیں کہ میں اس کام کو چھوڑ دوں تو میں ہر گز نہ چھوڑوں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو غالب کر ے یا میں کام کرتا کرتا مر جاوں ۔
ساتھ ہی اس خیال سے کہ ایسے چچا کو جو آپؐ سے دلی محبت رکھتا ہے اور جو اب تک دشمنوں کے مقابل آپؐ کی حفاظت میں سپر بنا رہا ہے ایسا جواب دینا پڑا جو اسکے منشاء کے خلاف ہے ، آپؐ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور بچشم پر نم آپؐ اٹھ کر چلے ۔
ابو طالب نے گو بظاہر اپنے آبائی مذہب کو ترک نہ کیا تھا مگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا سچے دل سے شیدا تھا ۔آپؐ کو چھوڑنا اسکےلئے موت سے بدتر تھا۔ اس نے فوراً آپ ؐ کو واپس بلایا اور کہا
ائے بھتیجے جاو اور جو چاہو کرو میں کسی صورت میں تمھارا ساتھ نہ چھوڑوں گا "
"قریش نے جب دیکھا کہ آپؐ نے اپنی دعوت کو نہیں چھوڑا تو پھر ایک وفد ابوطالب کے پاس پہنچا ۔ اس دفعہ مصمم ارادہ کر کے گئے کہ قطعی فیصلہ کر کے آئیں گے چنانچہ انھوں نے ابو طالب کو اپنا پہلی دفعہ آنا بھی یاد دلایا اور کہا کہ اب ہم اس سے زیادہ قطعاً برداشت نہیں کر سکتے پس یا تو تم اپنے بھتیجے سے الگ ہو جاو یا خود بھی اسکے ساتھ مل جاو تاکہ ہمارے اور تمھارے درمیان فیصلہ ہو اور جنگ ہو کر ہم دونوں میں سے ایک فریق ہلاک ہوجائے۔یہ قریش کی طرف سے اعلان جنگ تھااور یہ موقع ابوطالب کے لئے نہایت سخت تھا ۔ایک طرف قوم سے مقابلہ مشکل نظر آتا تھا دوسری طرف آنحضرت صلعم کی محبت دل میں ایسی تھی کہ وہ آپ کو بھی نہ چھوڑ سکتا تھا اس حالت میں اس نے آنحضرت صلعم کو بلایا اور جو کچھ قریش کہہ گئے تھے آپؐ سے کہا مجھ پر اور اپنے اوپر رحم کرو۔ مجھ پر ایسا بوجھ نہ ڈالو جس کو میں اٹھا نہیں سکتا ۔یعنی قوم کے مقابلہ کی مجھ میں تاب نہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال کیا کہ ابو طالب بھی اب آپؐ کا ساتھ چھوڑتا ہے ۔قوم تو سب پہلے ہی دشمن ہے ۔صرف ابو طالب کے درمیان میں حائل ہونے کی وجہ سے وہ علی الاعلان آپؐ کو قتل نہیں کر سکتے تھے ۔ابوطالب کی علیحدگی کے صاف طور پر یہ معنے تھے کہ اب دنیا میں کوئی انسان آپؐ کو دشمنوں کےشر سے بچانے میں معاون نہ ہوگا۔ ساتھی سب الگ ہو کر حبش میں جا چکےہیں ۔قوم دشمن ہےاور ایسی خطرناک دشمن کہ جان لینے کے درپے ہے مگر کیا ہی ثبات و استقلال کا نمونہ ہے جو اس وقت آپؐ نے دکھایا ۔کوئی مایوسی کا خیال آپؐ کے دل میں نہیں آیا ۔اللہ تعالیٰ کی حفاظت پر کس قدربھروسہ ہے کہ کسی انسان کی حفاظت کی پرواہ تک نہیں کرتے ۔ادھر ابو طالب کے منہ سے وہ کلمات نکلتے ہیں ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جواب میں فرماتے ہیں ۔
ائے چچا اگر سورج کو میرے دائیں ہاتھ میں اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ میں رکھ دیں اور یہ چاہیں کہ میں اس کام کو چھوڑ دوں تو میں ہر گز نہ چھوڑوں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو غالب کر ے یا میں کام کرتا کرتا مر جاوں ۔
ساتھ ہی اس خیال سے کہ ایسے چچا کو جو آپؐ سے دلی محبت رکھتا ہے اور جو اب تک دشمنوں کے مقابل آپؐ کی حفاظت میں سپر بنا رہا ہے ایسا جواب دینا پڑا جو اسکے منشاء کے خلاف ہے ، آپؐ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور بچشم پر نم آپؐ اٹھ کر چلے ۔
ابو طالب نے گو بظاہر اپنے آبائی مذہب کو ترک نہ کیا تھا مگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا سچے دل سے شیدا تھا ۔آپؐ کو چھوڑنا اسکےلئے موت سے بدتر تھا۔ اس نے فوراً آپ ؐ کو واپس بلایا اور کہا
ائے بھتیجے جاو اور جو چاہو کرو میں کسی صورت میں تمھارا ساتھ نہ چھوڑوں گا "
کتاب سیرت خیرالبشرؐ، صفحہ ۶۹، ۷۰
۴:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ
اے بزرگو! یہ وہ زمانہ ہے جس میں وہی دین اور دینوں پر غالب ہوگا جو اپنی ذاتی قوت سے اپنی عظمت دکھاوے۔ پس جیسا کہ ہماے مخالفوں نے ہزاروں اعتراض کر کے یہ ارادہ کیا ہے کہ اسلام کے نورانی اور خوبصورت چہرہ کو بدشکل اور مکروہ ظاہر کریں ایسا ہی ہماری تمام کوششیں اسی کام کے لئے ہونی چاہئیں کہ اس پاک دین کی کمال درجہ کی خوبصورتی اور بے عیب اور معصوم ہونا بپایۂ ثبوت پہنچا ویں۔ہمارا کام جو ہمیں ضرور ہی کرنا چا ہیے وہ یہی ہے کہ یہ دجل اور افترا جس کے ذریعہ سے قوموں کو اسلام کی نسبت بدظن کیا گیا ہے اُس کو جڑ سے اکھاڑدیں۔ یہ کام سب کاموں پر مقدم ہے جس میں اگر ہم غفلت کریں تو خدا اور رسول کے گنہگار ہوں گے۔
سچی ہمدردی اسلام کی اور سچی محبت رسول کریم کی اسی میں ہے کہ ہم ان افتراؤں سے اپنے مولیٰ و سیّد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کا دامن پاک ثابت کر کے دکھلائیں اور وسواسی دلوں کو یہ ایک نیا موقعہ وسوسہ کا نہ دیں کہ گویا ہم تحکّم سے حملہ کرنے والوں کو روکنا چاہتے ہیں اور جواب لکھنے سے کنارہ کش ہیں۔
ہر ایک شخص اپنی رائے اور خیال کی پیروی کرتا ہے۔ لیکن خداتعالیٰ نے ہمارے دل کو اسی امر کے لئے کھولا ہے کہ اس وقت اور اس زمانہ میں اسلام کی حقیقی تائید اسی میں ہے کہ ہم اُس تخم بدنامی کو جو بویا گیا ہے اور اُن اعتراضات کو جو یورپ اور ایشیا میں پھیلائے گئے ہیں جڑ سے اکھاڑ کر اسلامی خوبیوں کے انوار اور برکات اس قدر غیر قوموں کودکھلاویں کہ ان کی آنکھیں خیرہ ہو جائیں اور اُن کے دل اُن مفتریوں سے بے زار ہو جائیں جنہوں نے دھوکہ دے کر ایسے مزخرفات شائع کئے ہیں
اور ہمیں ان لوگوں کے خیالات پر نہایت افسوس ہے جو باوجودیکہ وہ دیکھتے ہیں کہ کس قدر زہریلے اعتراضات پھیلائے جاتے اور عوام کو دھوکہ دیا جاتا ہے پھر بھی وہ کہتے ہیں کہ ان اعتراضات کے ردّ کرنے کی کچھ بھی ضرورت نہیں صرف مقدمات اٹھانا اور گورنمنٹ میں میموریل بھیجنا کافی ہے۔
یہ سچ ہے کہ ہماری گورنمنٹ محسنہ ہر ایک مظلوم کا انصاف دینے کے لئے طیّار ہے لیکن ہمیں آنکھ کھول کر یہ بھی دیکھنا چا ہیے کہ وہ ضرر جو قوم کو مخالفوں کے اعتراضات سے پہنچ رہا ہے وہ صرف یہی نہیں کہ اُن کے سخت الفاظ سے بہت سے دل زخمی ہیں بلکہ ایک خطرناک ضرر تو یہ ہے کہ اکثر جاہل اور نادان اُن اعتراضات کو صحیح سمجھ کر اسلام سےنفرت ؔ پیدا کرتے جاتے ہیں۔
سو جس ضرر کا لوگوں کے ایمان پر اثر ہے اور جو ضرر فی الواقع اعظم اور اکبر ہے وہی اس قابل ہے کہ سب سے پہلے اس کا تدارک کیا جائے ایسا نہ ہو کہ ہم ہمیشہ سزا دلانے کی فکروں میں ہی لگے رہیں اور ان شیطانی وساوس سے نادان لوگ ہلاک ہو جائیں۔
خداتعالیٰ جو اپنے دین اور اپنے رسول کے لئے ہم سے زیادہ غیرت رکھتا ہے وہ ہمیں ردّ لکھنے کی جابجا ترغیب دے کر بدزبانی کے مقابل پر یہ حکم فرماتا ہے کہ
’’جب تم اہل کتاب اور مشرکوں سے دکھ دینے والی باتیں سنو اور ضرور ہے کہ تم آخری زمانہ میں بہت سے دلآزار کلمات سنو گے پس اگر تم اس وقت صبر کرو گے تو خدا کے نزدیک اولواالعزم سمجھے جاؤ گے‘‘۔
دیکھو یہ کیسی نصیحت ہے اور یہ خاص اسی زمانہ کے لئے ہے کیونکہ ایسا موقعہ اور اس درجہ کی تحقیر اور توہین اور گالیاں سننے کا نظارہ اس سے پہلے کبھی مسلمانوں کو دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ یہی زمانہ ہے جس میں کروڑ ہا توہین اور تحقیر کی کتابیں تالیف ہوئیں۔ یہی زمانہ ہے جس میں ہزارہا الزام محض افترا کے طور پر ہمارے پیارے نبی ہمارے سیّد و مولیٰ ہمارے ہادی و مقتدا جناب حضرت محمد مصطفٰی احمد مجتبیٰ افضل الرسل خیرالوریٰ صلّی اللہ علیہ وسلم پر لگائے گئے
سو میں حلفاًکہہ سکتا ہوں کہ قرآن شریف میں یعنی سورہ آل عمران میں یہ حکم ہمیں فرمایا گیا ہے کہ ’’تم آخری زمانہ میں نا منصف پادریوں اور مشرکوں سے دکھ دینے والی باتیں سنو گے اور طرح طرح کے دلآزار کلمات سے ستائے جاؤ گے اور ایسے وقت میں خداتعالیٰ کے نزدیک صبر کرنا بہتر ہوگا‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بار بار صبر کے لئے تاکید کرتے ہیں ۔
روحانی خزائن، جلد13 صفحہ 382، 383 ، 384
۵:دینی مسائل اور انکا حل
از
حضرت مجدد و امام الزمان مرزا غلام احمد قادیانی ؒ
ایک شخص کا سوال حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی خدمت میں پیش ہو کہ
نماز فجرکی آذان کے بعد دوگانہ فرض سے پہلے اگر کوئی شخص نوافل ادا کرے تو جائز ہے ؟
فرمایا:
نماز فجر کی آذان کے بعد سورج نکلنے تک دو رکعت سنت اور دو رکعت فرض کے سوا اور کوئی نماز نہیں ۔
بد ۷ فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۴
ایک شخص کا سوال حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی خدمت میں پیش ہو کہ
نماز فجرکی آذان کے بعد دوگانہ فرض سے پہلے اگر کوئی شخص نوافل ادا کرے تو جائز ہے ؟
فرمایا:
نماز فجر کی آذان کے بعد سورج نکلنے تک دو رکعت سنت اور دو رکعت فرض کے سوا اور کوئی نماز نہیں ۔
بد ۷ فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۴
۶:پیغامِ امیر قومؒ
حضرت مولانا محمد علیؒ
"بے شک قادیانی دوست ہمیں برا کہتے ہیں، ہمیں بدترین قوم قرار دیتے ہیں، ہمارا طرز عمل انکے ساتھ محبت و اخلاص اور رواداری کا ہی ہونا چاہیے "
" ایک ضروری بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت کے اندر بعض جگہ بعض دوستوں میں تھوڑی تھوڑی کدورتیں ہیں ۔سب جگہ نہیں ۔کہیں کہیں۔انہیں دور کرنا چاہیے۔ ان کدورتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جماعت بد دل ہوجاتی ہے اور اسکی ترقی رک جاتی ہے ۔لہذا جسطرح ہو ان آپس کی رنجشوں اور کدورتوں کو دور کریں ۔ہر ایک جماعت میں جہاں جہاں ضرورت ہو دو دو چار چار دوست اس کام کو اپنے ذمہ لیں اور جن دوستوں کو آپس میں رنجش ہے انکی صلح صفائی کرا دیں ۔شروع شروع میں رنجش معمولی ہوتی ہے لیکن اگر اسے دور نہ کیا جائے تو مسالہ ملتارہتا ہے اور وہ بہت بڑھ جاتی ہے لہذا ان رنجشوں اور کدورتوں کو دور کرنا چاہیے آپس میں محبت بڑھانی چاہیے۔
دوسری بات جس کا ذکر کل جنرل کونسل کے اجلاس کے بعد بھی ہوا تھا وہ ہمارے جماعت قادیان کے ساتھ تعلقات ہیں ۔ان تعلقات میں ہماری طرف سے ذاتی حملے کا عنصر ہر گز نہیں ہوناچاہیے ۔جس طرح دوسرے لوگ تم پر کفر کا فتوی لگاتے ہیں ، ہمیں اور ہمارے مرشد کو کافر اور دجال کہتے ہیں لیکن اسکے باوجود ہم انہیں سمجھانے کی کوشش ہی کرتے ہیں اور ان میں سے جو شخص ہمیں یا حضرت مسیح موعودؑ کو ایسا کہتا ہے، اسے ہم اسکا ذاتی فعل سمجھتے ہیں ۔یہی طریقہ اور وطیرہ ہمارا جماعت قادیان کے متعلق ہونا چاہیے ۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ رواداری دو طرفہ ہونی چاہیے ۔یہ کیا کہ قادیان والے ہمیں گالیاں دیتے رہیں، ہم پر جھوٹے الزام لگاتے جائیں اور ہم خاموش بیٹھے رہیں؟ اور اس کے جواب میں سچی باتیں بھی نہ کہیں؟ اور سچے واقعات کا بھی اظہار نہ کریں؟ انہیں میں کہتاہوں کہ رواداری دو طرفہ ہی نہیں یک طرفہ بھی ہوتی ہے ۔ گو یہ مشکل ہے لیکن ہمیں یہی کر کے دکھلانی چاہیے اور اگر صبر اور برداشت سے کام لیا جائے تو یہ کچھ مشکل بھی نہیں ۔
بے شک قادیانی دوست ہمیں برا کہتے ہیں، ہمیں بدترین قوم قرار دیتے ہیں، ہمارا طرز عمل انکے ساتھ محبت و اخلاص اور رواداری کا ہی ہونا چاہیے ۔
ہاں عقائد باطلہ کی تردید ضرور کرو اور بڑے زور کے ساتھ کرو لیکن اخلاق و معقولیت کے ساتھ ۔اپنے دلوں کو ذرا ٹھنڈا رکھو ۔صبر اور برداشت سے کام لو ۔بدگوئی کا مقابلہ بدگوئی سے نہ کرو۔
ہمارے اخبار کی پالیسی بھی یہی ہونی چاہیے "
خطبات مولانا محمد علیؒ
جلد ۱۵، اقباس از صفحہ ۳۵۴، ۳۵۵
۷:حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)
ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام
"نبوت کا دعوی نہیں بلکہ محدثیت کا دعوٰی ہے جو خدا تعالیٰ کےحکم سے کیا گیاہے"
"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "
" یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے؟"
روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹
"میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اورنبی کے میری الہام میں میری نسبت خدا تعالٰی کی طرف سے بے شک ہیں لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں اور جیسے یہ محمول نہیں ایسا ہی نبی کر کے پکارنا جو حدیثوں میں مسیح موعودؑ کےلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔ یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "
سراج منیر،صفحہ ۳
"سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں ۔ آنے والے مسیح موعودؑ کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویؐ سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور معمولی محاوہ مکالمات الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا؟"
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"
یہ بھی یاد رہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے"
روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209
"سمیت نبیا من اللہ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ"
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب
انکے اپنے اشعار میں
ما مسلمانیم از فضلِ خدا
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا
اندریں دیں آمدہ از مادریم
ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم
آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست
بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست
یک قدم دوری ازاں روشن کتاب
نزد ماکفر است و خسران و تباب
آں رسولے کش محمدؐ ہست نام
دامنِ پاکش بدستِ ما مدام
مہرِ اوباشیرشداندربدن
جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن
ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)
ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام
"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "
" یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے؟"
روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹
"میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اورنبی کے میری الہام میں میری نسبت خدا تعالٰی کی طرف سے بے شک ہیں لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں اور جیسے یہ محمول نہیں ایسا ہی نبی کر کے پکارنا جو حدیثوں میں مسیح موعودؑ کےلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔ یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "
سراج منیر،صفحہ ۳
"سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں ۔ آنے والے مسیح موعودؑ کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویؐ سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور معمولی محاوہ مکالمات الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا؟"
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"
یہ بھی یاد رہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے"
روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209
"سمیت نبیا من اللہ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ"
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر
روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65)
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب
انکے اپنے اشعار میں
ما مسلمانیم از فضلِ خدا
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا
اندریں دیں آمدہ از مادریم
ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم
آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست
بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست
یک قدم دوری ازاں روشن کتاب
نزد ماکفر است و خسران و تباب
آں رسولے کش محمدؐ ہست نام
دامنِ پاکش بدستِ ما مدام
مہرِ اوباشیرشداندربدن
جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن
ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام
(کتاب سراج منیر، ضمیمہ صفحہ ز)
ایک ضروری تجویز
بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ مزید جن احباب تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین
جماعت احمدیہ عالمگیر
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام