Sunday, October 26, 2014

مبلغ(آن لائن)-26 اکتوبر 2014، ہفتہ وار شمارہ: 48


 مبلغ (آنلائن)


روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان



بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت

 حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ

عالمگیر جماعت احمدیہ


 انجمن اشاعت اسلام


اتوار ۔۲۶ اکتوبر ۲۰۱۴ء

یکم محرم  ۱۴۳۵ ہجری


ہفتہ وار شمارہ نمبر:48

Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com




اس ہفتہ کی کتاب 
مسیح موعودؑ اور ختم نبوت

از 
حضرت مولانا محمدعلیؒ 

 سیکشن نمبر 8 میں ملاحظہ فرمائیں 





۱:کلامِ الٰہی 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
: 30



ترجمہ:۔  اے لوگو جو ایمان لائے وہ اللہ کےلئے کھڑے ہونے والے انصاف کی گواہی دینے والے ہو جاو اور کسی قوم کی دشمی تم کو اس پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو، انصاف کرو یہ تقویٰ سے قریب تر ہے اور اللہ کا تقویٰ کرو، اللہ اس سے خبردار ہے جو تم کرتے ہو
تفسیر
انسان کی وہ صفات جو خواہشات سفلی سے بالا تر ہیں جن کی طر اس رکوع میں توجہ دلائی ہے انکا خلاصہ حقوق اللہ اور حقوق العباد میں آجاتا ہے ۔ان ددنوں کے قیام کی طرف یہاں توجہ دلائی ہے ۔قوامین للہ میں حقوق اللہ کیطرف اور شہداء بالقسط میں حقوق العباد کی طرف۔
قوام ۔۔ایک امر کی طرف پورا زور لگانے والا ۔مگر یہاں بجائے اس امر کے ذکر کے صرف اللہ فرمایا یعنی حقوق اللہ کی حفاظت پر پورا زور لگانے والے ہو ۔النسا: ۱۳۵ میں جہاں صرف حقوق العباد کی طرف توجہ دلائی تھی ۔فرمایا قوامین بالقسط شھد ا ء اللہ ۔
حقوق العباد کی عظمت پر پھر زور دیا ہے ۔پچھلے رکوع میں صرف اسقدر  فرمایا تھا کہ کسی قوم کی دشمنی کی وجہ سے تم اس پر زیادتی نہ کرو ۔یہاں انصاف کےلئے حکم دیا ہے اور انصاف حقوق میں یہ ہے کہ ان حقوق کو ادا کیا جائے ۔
تقویٰ سے قریب تر کہہ کر بتا دیا کہ تقویٰ حفاظت حقوق سے ہی حاصل ہوتا ہے ۔جب دشمنوں کے حقوق کی ادائیگی بھی ایسی ضروری ہے تو پھر اپنے عزیز اور دوستوں اور مسلمان بھائیوں کے حقوق کی ذمہ داری کس قدر بڑی ہے ۔کہاں ہیں وہ مسلمان جو اس تعلیم میں مخاطب ہیں  

بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ

...................................................................................................................................................................


۲:حدیثِ نبویؐ

یہ وہ مسلمان ہے جس کےلئے اللہ کا عہدہے

(حضرت) انسؓ سے روایت ہے کہا رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ:


جو شخص ہماری نماز پڑھتا ہو اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرتا ہے اور ہمارا ذبیحہ کھاتا ہو تو یہ وہ مسلمان ہے کہ اسکے لئے اللہ کا عہد اور اس کے رسول کا عہد ہے ۔ سو تم اللہ کے عہد کو مت توڑو


بخاری (8: 28)

مختصر نوٹ:


گویا جس شخص میں یہ موٹا نشان پایا جاتا ہو کہ وہ مسلمانوں کی طرح نماز پڑھتا ہو اور قبلہ کی طرف منہ کرتا وہ خدا اور اسکے رسول کے نزدیک مسلم ہے اور مسلم ہونے کے لحاظ اللہ اور اسکے رسول کی امان میں ہے ۔

جو شخص اسے کافر کہتا ہے وہ اللہ اور سکے رسول کے عہد کو توڑتا ہے ۔ پس کلمہ گو کی تکفیر خدا اور اسکے رسول کے عہد کو توڑنے کے برابر ہے ۔

کتاب: احادیث العمل صفحہ39
از
 حضرت مولانا محمدعلیؒ 


...................................................................................................................................................................


۳:سیرت خیر البشرؐ
باب سوئم
آنحضرتؐ    سے پہلے ملک عرب کی اصلاح کی کوششیں

لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنْفَكِّينَ حَتَّىٰ تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ

(البینة:1،2)
جو لوگ اہل کتاب میں سے کافر ہیں اور مشرک آزاد ہونے والےنہ تھے یہاں تک کے انکے پاس کھلی دلیل آئے، یعنی اللہ کی طرف سے رسول جو پاک صحیفے پڑھتا ہے 
از
 حضرت مولانا محمد علی 

نوٹ:  حضرت مولانا محمد علیؒ  کے اس عظیم الشان شاہکار اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ امی و ابی کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب سیرت خیرالبشر ؐ کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ


تینوں(تحریکاتِ    اصلاح) کی ناکامی اور عرب کی گناہ کی غلامی

"نبی کریم صلعم کے ظہور سے پہلے تین متفرق تحریکات مذہبی کےلئے جن سب کی غرض ملک عرب کی اصلاح تھی، اسباب کا پیداہونا اور پھر ان تینوں کا بعض حالتوں میں صدیوں تک کام کر کے اور ہر قسم کے سامان حتی کہ سلطنت کے رعب تک موجود ہوتے ہوئے ناکام رہنا اور پھر ان تینوں کے بعد ایک فرد واحد کا تنھائی کی حالت میں اٹھنا اور بیکسی کی حالت میں چھوڑے جانا اور آخر کار چند سال کے عرصہ میں ملک عرب نے نہ صرف مذہب کو بلکہ اسکے عادات و اطوار اور اخلاق و حالات سب کوایسا بدل دینا کہ گویا اس ملک کی کایا ہی پلٹ دی ، ایک ایسا حیرت انگیز عمل ہے جس کی کوئی اور نظیر تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے ۔

جاری ہے 

کتاب سیرت خیرالبشرؐ،باب سوئم ، صفحہ29



...................................................................................................................................................................

۴:تاریخ خلافت راشدہؓ
از حضرت مولانا محمد علیؒ 
حضرت ابوبکر صدیقؓ
زمانہ خلافت
۲ ربیع الاول ۱۱ ہجری تا ۲۲ جمادی الثانی ۱۳ ہجری
جون ۶۳۲ء تا اگست ۶۳۴ء 

نوٹ:  حضرت مولانا محمد علیؒ  کے اس عظیم الشان شاہکار اور خلفائے راشدین کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب تاریخ خلافت راشدہ کو  کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ

سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار کامشورہ
 اور حضرت ابوبکرؓ کی بیعت


"ابھی حضرت ابوبکرؓ و عمر مسجد ہی میں تھے کہ ایک انصاری نے یہ خبر پہنچائی کہ انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں (جو اہل مدینہ کے کونسل ہال کے طور پرتھا) جمع ہو کر امیر کے انتخاب کی تجویز کر رہے ہیں ۔ موقع بہت نازک تھا ۔ اگر انصار اپنی جگہ پر کسی امیر کا انتخاب کر لیتے جسے عرب کے لوگ قبول نہ کرتے تو اسلام کا اتحاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ساتھ ہی پاش پاش ہوجاتا ۔ اس لئے اس خبر کے سنتے ہی حضرت ابوبکرؓ ، عمر ؓ اور عبیدہؓ نے سقیفہ بنی ساعدہ کا رخ کیا ۔

وہاں سعد بن عبادہؓ کی تقریر پر یہ فیصلہ ہو ہی چکا تھا کہ سعد کو امیر منتخب کیا جائے چنانچہ ان حضرات کے وہاں پہنچنے پر ایک انصاری نے انصار کے فضائل پر کچھ تقریر کی ۔ حضرت ابوبکرؓ اٹھے اور فرمایا کہ انصار نے دین اسلام کی جو خدمت کی ہے اسکا کوئی انکار نہیں کر سکتا اور وہ اپنی خدمات کی وجہ سے بے شک  فضیلت رکھتے ہیں ۔ لیکن ملک عرب سوائے قریش کے ایک بادشاہ پر راضی نہ ہوگا۔ اور یہی بات درست بھی تھی  "



جاری ہے


کتاب تاریخ خلافت راشدہ ،باب اول ، صفحہ6، 7

...................................................................................................................................................................

۵:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ 



"فاسقوں کا طریق"


*"یہ فاسقوں کا طریق ہے کہ نکتہ چینی کے وقت میں اس پہلو کو چھوڑ دیتے ہیں جس کے صد ہا نظائر موجود ہیں ۔اور بدنیتی کے جوش سے ایک ایسے پہلو کو لے لیتے ہیں جو نہایت قلیل الوجود اور متشابہات کے حکم میں ہوتا ہے اور نہیں جانتے کہ یہ متشابہتات کا پہلو جو شاذ کے طور پر پاک لوگوں کے وجود میں پایا جاتا ہے یہ شریر انسانوں کے امتحان کے لئے رکھا گیا ہے ۔اگر خدا تعالی ٰ چاہتا تو اپنے پاک  بندو ں کاطریق اور عمل  ہر ایک پہلو سے ایسا صاف اور روشن دکھلاتا کہ شریر انسان کو اعتراض کی گنجائش نہ ہوتی مگر خدا تعالی ٰ نے ایسا نہ کیا تا وہ خبیث طبع انسانوں کا خبث ظاہر کرے ۔نبیوں اور رسولوں اور اولیا کے کارناموں میں ہزا ر ہا نمونے ان کی تقوی اور طہارت اور امانت اور دیانت اور صدق اور پاس عہد کے ہوتے ہیں ۔اور خود خدا تعالیٰ کی تائیدات انکی پاک باطنی کی گواہ ہوتی ہیں لیکن شریر انسان ان نمونوں کو نہیں دیکھتا اور بدی کی تلاش میں رہتا ہے ۔آخر و ہ حصہ متشابہات کا جو قرآن شریف کی طرح اسکے نسخہ وجود میں بھی ہوتا ہے مگر نہایت کم،شریر انسان اسی کو اپنے اعتراض کا نشانہ بناتا ہے اور اسطرح ہلاکت کی راہ اختیار کر کے جہنم میں جاتا ہے "
روحانی خزائن جلد 15 صفحہ  424  تریاق القلوب


...................................................................................................................................................................


۶:دینی مسائل اور انکا حل

ارشاد مبارک حضرت مجدد اعظم و امام الزمان
مرزا غلام احمد قادیانی رحمتہ اللہ علیہ  

غیر کفو میں نکاح
ایک دوست کا سوال پیش ہوا کہ ایک احمدی اپنی لڑکی غیر کفو کے ایک احمدی کے ہاں دینا چاہتا ہے حالانکہ اپنی کفو میں رشتہ موجود ہے ۔اس کے متعلق آپکا کیا حکم ہے 

" اگر حسب مراد  رشتہ ملے تو اپنی کفو میں کرنا بہ نسبت غیر کفو میں کرنے سے بہتر ہے لیکن یہ ایسا امر نہیں کہ بطور فرض کےہو۔ 
ہر ایک شخص ایسے معاملات میں اپنی مصلحت اور اپنی اولاد کی بہتری کو خوب سمجھ سکتاہے ۔
اگر کفو میں وہ کسی کو اس لائق نہیں دیکھتا تو دوسری جگہ دینے میں حرج نہیں اور ایسے شخص کو مجبور کرنا کہ وہ بہر حال اپنی کفو میں اپنی لڑکی دیوے، جائز نہیں  "

البدر ۱۱ اپریل ۱۹۰۷ ء ص۳
...................................................................................................................................................................


۷:پیغام امیر قوم
حضرت مولانا محمدعلیؒ

انقلابِ    نماز
نماز انسان کے کیریکٹر میں استقلال پیدا کرتی ہے 

"مذہب جو عظیم الشان انقلاب پیدا کرتا ہے وہ ہے انسان کے کیریکٹر کی مضبوط کرنا۔نماز انسان کے کیریکٹر کو اس قدر مضبوط کر دیتی ہے کہ وہ خدا کے سوائے کسی کے سامنے نہیں جھکتا اور خدا کے سامنے جھکتا ہوا اپنے مال میں دوسرے کا حق سمجھتا ہے ۔پھر وہ انسانوں کے ساتھ تعلقات میں بھی پختہ اور مضبوط ہوتاہے۔ 

امانت میں خیانت نہیں کرتا۔عہد کو پورا کرتاہے ۔شہادت پر مضبوط کھڑا ہوتاہے ۔دونوں تعلقات میں یعنی خدا کے ساتھ تعلق میں اور انسان کے ساتھ تعلق میں استقلال، ہمیشگی اور مضبوطی ہوتی ہے اور کوئی چیز اس کے قدم کو لغزش نہیں دے سکتی۔

سخت ترین دشمن بھی جب آپؐ   کی سیرت کو لکھنے بیٹھتے ہیں، تو ایک عجیب چیز جو انھیں نظر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ نہایت درجہ کی غربت، بے کسی اور بغیر مال کے ان حالات میں جو آپؐ   کے تھے ، وہی اخلاق اس وقت بھی قائم رہے جب آپؐ   بادشاہ بن گئے۔خزانہ مال اور دولت کی کوئی کمی نہ رہی ۔
سخت سے سخت متعصب سیرت نویس نے بھی اس کو محسوس کیا ہے کہ آپؐ   کی حالت دونوں وقتوں میں ایک ہی رہی ۔

آپؐ   تو خدا کے رسول تھےمگر آپؐ   نے جن لوگوں کی تربیت کی انہی صفات سے انہیں بھی متصف کر دیا اور ان میں استقلال پیدا کر کے پہاڑ کی طرح انھیں مضبوط کر دیا ۔

یہی نماز جو آج لوگوں کو بے سود نظر آتی ہے، اسی سے کیسا بلند کیریکٹر پیدا ہوا صحابہ ؓ میں ۔ مال کا خرچ کرنا، امانتوں میں خیانت نہ کرنا، ایفائے عہد، اخلاص، شہادتوں میں صداقت، دوسرے کے مال پر نظر نہ اٹھانا۔ یہ تمام خوبیاں اس قوم میں نماز ہی سے پیدا ہوئیں اور ایسی پیدا ہوئیں کہ انکی نظیر نہیں ملتی۔
دوسرے لوگ کیا؟ مسلمان بھی آج اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ آنحضرت صلعم سے پیشتر اہل عرب میں بلند صفات موجود تھیں۔محمدرسول اللہ صلی اللہ صلعم نے انہیں ذرا سا بیدار کر دیا۔
یہ درست نہیں ۔عرب کے اندر اعلیٰ صفات آپؐ   کی تعلیم ہی سے پیدا ہوئیں 

ولیم میور ایک متعصب سیرت نویس نے لکھا ہے کہ محمد(رسول اللہ صلعم) نے جو انقلاب پیدا کر دیا اس بارے میں جو لو گ یہ سمجھتے ہیں کہ عرب کی حالت پہلے ہی سے ایسی تھی ، آپؐ   نے صرف ایک حرکت دی اور انقلاب برپا ہو گیا، وہ غلطی پر ہیں ۔یعنی جو تحریکات عرب کے اندر پیدا ہوئیں ان میں سےکوئی ان پر اثر انداز نہ ہو سکی ۔یہودیوں کے پاس دولت تھی،عیسائیوں کی پشت پر سلطنتیں تھیں ۔ان سب نے عرب کی اصلاح کی کوشش کی مگر عرب کی بت پرستی پر اثر نہ ڈال سکے ۔ نہ انکی خانہ جنگیوں کو دور کر کے ان میں اتفاق پیدا کر سکے ۔

ایک اندرونی تحریک ان لوگوں کی بھی پیدا  ہوئی، جو اپنے آپ کو حنیف کہتے تھے مگر عرب کی حالت ویسی ہی گری ہوئی رہی ۔محمد رسول اللہ صلعم کی تشریف آوری سے اور آپؐ   کی تعلیم سے یہی لوگ بلند سے بلند ترقی کے مینار پر پہنچ گئے ۔

وہ عرب کے لوگ جو کیریکٹریس(characterless) تھے، جواء، شراب خوری، زنا ، جنگ وجدال میں پیش پیش تھے، قرآن کریم کے ذریعہ سے ان کے اندر ایسے اخلاق پیدا ہو گئے کہ دنیا کے اخلاق انکے آگے جھک گئے ۔لڑائیوں میں بھی انکے اندر ایسے اخلاق پیدا ہوگئے کہ دنیا انکے اخلاق کے آگے جھک گئی ۔لڑائیوں میں بھی انکے اخلاق ہی انکی امداد کرتےتھے ۔انکا استقلال دشمن کے پاوں اکھاڑ دیتا تھا ۔

یہ اخلاق پیدا ہوئے کن چیزوں سے ؟ ان چیزوں سے جنھیں تم چھوٹی سمجھ رہے ہو ۔یہ نماز! جن لوگوں پر نئی تعلیم اور روشنی کا اثر ہے ، کہتے ہیں کہ نماز سے کچھ نہیں بنتا ۔ خدا سے تعلق تو ایک طرف نماز انسان کے کیریکٹر میں استقلال پیدا کرتی ہے ۔انسان پہاڑ بن جاتا ہے ۔دکھوں اور تکلیفوں میں پیچھے نہیں ہٹتا ۔دنیا کی تمام طاقتوں کا مقابلہ کر سکتا ہے ۔ "




پیغام صلح ۹ مارچ ۱۹۳۹ء
خطبات مولانا محمدعلیؒ جلد ۱۴ صفحہ ۳۷

...................................................................................................................................................................


۸:
 ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف

اس ہفتہ کی کتاب مسیح موعودؑ اور ختم نبوت




مستقل سیکشن 

 عقائد حضرت مولانا محمد علی ؒ 
انکی اپنی قلم سے 

تبدیلی عقیدہ کے ناپاک الزام پر حلف
عقیدہ کس نے بدلا ؟
قادیانی جماعت کے پیشواء ثانی اور ہمنواوں نے 
یا جماعت احمدیہ لاہور نے؟



میرا عقیدہ دربارہ نبوت مسیح موعودؑ کیاتھا؟ میں نے اسکو ابتدائے اختلاف ہی میں کھول کر بیان کردیا تھا ۔میں پہلے بھی اسی پر قائم تھا، اب بھی اسی پر قائم ہوں اور انہیں الفاظ میں پھر اپنے عقیدہ کو نقل کرتا ہوں 



"میں یہ مانتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ شرعی اصطلاح میں نبی اور رسول نہ تھے ۔یعنی نبی اس لئے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ پر غیب کے اخبار ظاہر کرتا تھا اور رسول اس لئے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مامور کر کے اصلاح کےلئے بھیجا تھا ۔

یعنی آپ ان معنوں میں نبی اور رسول تھے جن معنوں میں اس امت کے دوسرے مجدد بھی نبی اور رسول کہلا سکتے ہیں "
......................

"اس امت کے دوسرے مجددوں پر آپؒ   کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپؒ   کی آمد کے متعلق صریح پیشگوئیاں موجود ہیں ۔۔۔۔ پھر جس عظیم الشان فتنہ کی اصلاح کےلئے آپکو ؒ بھیجا گیا، دوسرے کسی مجدد کو اتنا عظیم الشان کام سپرد نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔


......................

ایسا ہی آپکوؒ کو جو علم کلام دیا گیا وہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس کو لیکر مسلمان کل مذاہب پر غالب آ سکتے ہیں ، دوسرے کسی مجدد کو ایسا علم کلام نہیں دیا گیا ۔"


......................
"میں حقیقی نبوت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم یقین کرتا ہوں ۔آپؐ    کے بعد نہ کوئی پرانا نبی واپس آئے گا نہ کوئی نیا نبی مبعوث ہوگا"

منقول از میرے عقائد، مطبوعہ ۳۳ اگست ۱۹۱۴ء



......................

"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر قسم اٹھاتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ میرے علم میں ۱۹۰۱ ء سے لیکر ۱۹۰۸ء تک حضرت مسیح موعودؑ کا یہی عقیدہ تھا کہ انکا نہ ماننے والا بھی مسلمان اور دائرہ اسلام میں ہے اور انکا منکر کافر اور دائرہ اسلام سے خارج نہیں اور میرا بھی یہی عقیدہ ۱۹۰۱ء سے لیکر آج تک بربنائے عقیدہ حضرت مسیح موعودؑ ہے "

پیغام صلح ۔لاہور۔۲۱ستمبر ۱۹۴۴



......................

"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اس بات پر حلف اٹھاتا ہوں کہ میرا عقیدہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب قادیانی مجدد اور مسیح موعودؑ ہیں مگر نبی نہیں اور نہ انکے انکار سے کوئی شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے 
اور یہی عقیدہ حضرت مرزا صاحب کا تھا



اے خدا اگر میں نے تیر نام لیکر اس قسم کے کھانے میں جھوٹ بولا ہے تو تو اپنی طرف سے ایسی عبرت ناک سزا مجھ پر بھیج جس میں انسانی ہاتھ کا کوئی دخل نہ ہو اور جس سے دنیا سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھا کرمخلوق خدا کو دھوکہ دینے والوں پر خدا تعالیٰ کی گرفت کتنی سخت اور درد ناک ہوتی ہے "

پیغام صلح ۔لاہور۔۱۱دسمبر ۱۹۴۶



......................

"ہم اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ ۱۹۰۱ ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دعوی میں تبدیلی کی"

ستر بزرگان لاہور کا حلف

......................


......................

حضرت مولانا نور الدینؒ کا عقیدہ
انکی اپنی قلم سے 

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ


دل چیر کر دیکھا یا دکھانا انسانی طاقت سے باہر ہے ۔قسم پر کوئی اعتبار کرے تو واللہ العظیم کے برابر کوئی قسم مجھے نظر نہیں آتی۔نہ آپ میرے ساتھ میری موت کے بعد ہونگے نہ کوئی اور میرے ساتھ سوائے میرے ایمان و اعمال کے ہوگا۔پس یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش ہونے والا ہے ۔
میں مرزا صاحب کو مجدد اس صدی کا یقین کرتا ہوں ۔میں انکو راستباز مانتاہوں ۔
حضرت محمد الرسول اللہ النبی العربی المکی المدنی خاتم النبیین کا غلام اور اسکی شریعت کا بدل خادم مانتا ہوں اور مرزا خود اپنے آپکو جاں نثار غلام نبی عربی محمدؐ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن مناف  کامانتے تھے 



نبی کے لغوی معنی پیش از وقت اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر خبر دینے والا ہم لوگ یقین کرتے ہیں نہ شریعت لانے والا۔



مرزا صاحب اور میں خود جو شخص ایک نقطہ بھی قرآن شریف کا اور شریعت محمدؐ رسول کا نہ مانے، میں اسے کافر اور لعنتی اعتقاد کرتا ہوں ۔



یہی میرا اعتقاد ہے اور یہی میرے نزدیک مرزا غلام احمد کا تھا ۔

کوئی رد کرے یا نہ مانے یا منافق کہے اس کا معاملہ حوالہ بخدا۔

نورالدین بقلم خود 
۲۲ اکتوبر  ۱۹۱۰ء 

......................

قادیانی جماعت کے پیشواء
مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کا سابقہ عقیدہ
خود انکی اپنی قلم سے 


"اس آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپؐ    کے بعد کوئی شخص نہیں آئے گا جس کو نبوت کے مقام پر کھڑا کیا جائے اور وہ آپؐ    کی تعلیم کو منسوخ کر دے اور نئی شریعت جاری کر دے ۔بلکہ جسقدر 

اولیاء اللہ 
ہونگے  اور متقی اور پرھیز گار لوگ ہونگے سب کو آپؐ   کی غلامی میں ہی ملے گیا جو کچھ ملے گا ۔
اس طرح خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ
 آپؐ    کی نبوت نہ صرف اس زمانہ کےلئے ہے بلکہ
آئندہ بھی کوئی نبی نہیں آئے گا"

تشحیذ الاذہان بابت اپریل ۱۹۱۰ء 


......................


قادیانی جماعت کے ھیڈ 

مولوی محمد سرور شاہ صاحب کا سابقہ عقیدہ


"لفظ نبی کے معنی اپنے مصدروں کے لحاظ سے دو ہیں ۔

اول اپنے خدا سے اخبار غیب پانے والا 
دوئم عالی مرتبہ شخص ۔جس شخص کو اللہ تعالیٰ بکثرت شرف مکالمہ سے ممتاز کرے اور غیب کی خبروں پر مطلع کرے ، وہ نبی ہے 



اس رنگ میں میرے نزدیک تمام مجددین سابق مختلف مدارج کے انبیاء گزرے ہیں "
بدر مورخہ ۱۶ فروری ۱۹۱۱ء 


......................

مفتی محمد صادق صاحب کا سابقہ عقیدہ 

اس کو عربی لغت میں نبی کہتے ہیں 



"شبلی نے دریافت کیا کہ کیاہم لوگ مرزا صاحب کونبی مانتے ہیں ؟

میں نے عرض کیا کہ ہمارا عقیدہ اس معاملہ میں دیگر مسلمانوں کی طرح ہے کہ آنحضرت صلعم خاتم النبیین ہیں ۔
آپکے بعد کوئی دوسرا نبی آنیوالانہیں ۔نہ نیا نہ پرانا ۔
ہاں مکالمات الٰہیہ کا سلسلہ برابر جاری ہے وہ بھی آنحضرت صلعم کے طفیل آپؐ    سے فیض حاصل کر کے اس امت میں ایسے آدمی ہوتے رہے جنکو الہام الٰہی سے مشرف کیا گیا اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے ۔



چونکہ حضرت مرزا صاحب بھی الہام الہی سے مشرف ہوتے رہے اور الہام الٰہی کے سلسلہ میں آپکو خدا تعالیٰ نے بہت سی آئندہ کی خبریں بطور پیشگوئی کے بتلائی تھیں جو پوری ہوتی رہیں اس واسطے مرزا صاحب ایک پیشگوئی کرنے والے تھے اور اسکو 

عربی لغت میں نبی کہتے ہیں "
بدر۔جلد نمبر ۹ ، ۵۱/۵۲



......................

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں 
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)

ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام

"نبوت کا دعوی نہیں بلکہ محدثیت کا دعوٰی ہے جو خدا تعالیٰ کےحکم سے کیا گیاہے"

"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "

" یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے؟"

روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹

......................

"میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اورنبی کے میری الہام میں میری نسبت خدا تعالٰی کی طرف سے بے شک ہیں  لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں اور جیسے یہ محمول نہیں ایسا ہی نبی کر کے پکارنا  جو حدیثوں میں مسیح موعودؑ کےلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔
 یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "

سراج منیر،صفحہ ۳
......................
"سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں ۔ آنے والے مسیح موعودؑ  کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویؐ سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور معمولی محاوہ مکالمات الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا؟"
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"
......................

یہ بھی یاد رہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے"
روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209



......................

"سمیت نبیا من اللہ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ"
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر 


روحانی خزائن جلد 22 صفحہ  689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65) 
......................
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب
 انکے اپنے اشعار میں 

ما مسلمانیم از فضلِ خدا 
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا

اندریں دیں آمدہ از مادریم 

ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم

آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست

بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست

یک قدم دوری ازاں روشن کتاب

نزد ماکفر است و خسران و تباب

آں رسولے کش محمدؐ ہست نام

دامنِ پاکش بدستِ ما مدام

مہرِ اوباشیرشداندربدن

 جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن 

ہست اوخیرالرسل خیرالانام

ہر نبوت را بروشد اختتام

(کتاب سراج منیر، ضمیمہ صفحہ ز)

 ایک ضروری تجویز

بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ

خدام و مبلغین 
عالمگیرجماعت احمدیہ 


 انجمن اشاعت اسلام
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام

No comments :

Post a Comment