Wednesday, October 8, 2014

پیر تا بدھ-6 تا 8 ستمبر 2014، شمارہ: 43 حفاظت قرآن


روزنامہ مبلغ (آنلائن)


روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان



بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت

 حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ

عالمگیر جماعت احمدیہ

 انجمن اشاعت اسلام

پیر تا بدھ ۔۶ تا ۸ ستمبر ۲۰۱۴ء

۱۰ تا ۱۲ ذوالحج ۱۴۳۵ ہجری


شمارہ نمبر:43

Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com

اپ ڈیٹ

اس ہفتہ کی کتاب 
جمع قرآن 

از حضرت مولانا محمد علیؒ 
 سیکشن نمبر 8 میں ملاحظہ فرمائیں 





۱:کلامِ الٰہی 



إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ

7:القصص

ترجمہ:۔ 

ہم نے خود یہ نصیحت اتاری ہے اور ہم خود ہی اسکی حفاظت کرنے والے ہیں  

تفسیر


حفاظت قرآن پر غیر مسلم محققین کی شہادت

حفاظت قرآن سے مراد یہ ہے کہ اس میں کوئی کمی بیشی، تغیر و تبدل نہ ہو ۔ یہ ایک دعویٰ ہے جس کی صداقت آج دشمنوں تک کو مسلم ہے ۔
 میور کہتاہے 
"جہاں تک ہماری معلومات ہیں دنیا بھر میں ایک بھی ایسی کتاب نہیں جو اس کی طرح بارہ صدیوں تک ہر قسم کی تحریف سے پاک رہی ہو "
پھر وان ہیمر کا قول نقل کرتا ہے 
"ہم ایسے ہی یقین سے قرآن کو بعینہ محمد(صلعم) کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ سمجھتے ہیں، جیسے مسلمان اسے خدا کا کلام سمجھتے ہیں "

اور واقعات خود بھی بتاتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ کتاب جس کے پہلے دن سے لکھے جا کر بکثرت نسخے ہر قوم اور ہر ملک میں شائع ہوئے اور آخر مشرق سے مغر ب تک پھیل گئے، ان ہزار در ہزار قدیم نسخوں میں ایک بھی ایسا نسخہ نہیں ملتا جس میں ایک حرف کا یا ایک زیرو زبر کا فرق ہو ۔

اہل تشیع میں سے محقق اسکی حفاظت ہی کے قائل ہیں اور اگر نہ ہوں تو اس الزم کے نیچے ہیں کہ حضرت علیؓ نے اپنی خلافت میں قرآن کو کیوں مکمل نہ کیا؟

یہ ایک وسیع مضمون ہے جس پر پوری تحقیقات میں نے اپنی کتاب
 جمع قرآن میں شائع کی ہے اور یہاں اس کو دہرانے کی گنجائش نہیں۔


بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ

...................................................................................................................................................................

۲:حدیثِ نبویؐ


 عمرؓ بن خطاب سے روایت ہے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،فرماتے تھے


اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی وہ نیت کرتا ہے ۔پس جسکی ہجرت اللہ اور اسکے رسول کےلئے ہو تو اسکی ہجرت اللہ اور اسکےرسول کےلئے ہو گی۔ اور جس کی ہجرت دنیا کےلئے ہو کہ اسے وہ حاصل کرے یا عورت کےلئے کہ اس سے نکاح کرے تو اسکی ہجرت اسی کام کےلئے ہوئی جسکےلئے اس نے ہجرت کی ہے 


بخاری
 (10: 1)
 (83: 23)

مختصر نوٹ:


امام بخاریؒ اس حدیث کو اپنی جامع کے شروع میں لائے ہیں اور یہ گویا کتاب کےلئے تمہید ہے ۔ خاص اس باب سے اسکا کوئی تعلق نہیں ۔ بلکہ اس میں بتایا ہے کہ وہ اعلیٰ درجہ کے نیک کام جنکی طرف پیغمبر اسلامؐ نے ہدایت فرمائی وہ اسی وقت انسان کےلئے مفید ہو سکتے ہیں جب اسکی نیت اچھی ہو ۔ نیک عمل کےلئے نیت بھی نیک ہونی چاہیے ۔ برا عمل بہرحال برا ہے ۔ وہ اچھی نیت سے اچھا نہیں ہو جاتا۔

ہجرت کے لفظی معنے کسی کو چھوڑدینا یا کسی جگہ سے چلا جانا ہے اور ادنیٰ خواہشات اور برئے اعمال کے ترک کرنے پر بھی یہ لفظ بولاجا تا ہے مگر اس لفظ کا خاص استعمال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے مدینہ چلا جانے پر ہے ۔ اور اسے ایسی تاریخی حیثیت حاصل ہو گئی ہے کہ اسی سے اسلامی سنہ شروع ہوتا ہے ۔

کتاب: احادیث العمل صفحہ11، 12
از
 حضرت مولانا محمدعلیؒ 


...................................................................................................................................................................


۳:سیرت خیر البشرؐ
باب سوئم
آنحضرتؐ    سے پہلے ملک عرب کی اصلاح کی کوششیں

لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنْفَكِّينَ حَتَّىٰ تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ

(البینة:1،2)
جو لوگ اہل کتاب میں سے کافر ہیں اور مشرک آزاد ہونے والےنہ تھے یہاں تک کے انکے پاس کھلی دلیل آئے، یعنی اللہ کی طرف سے رسول جو پاک صحیفے پڑھتا ہے 
از
 حضرت مولانا محمد علی 

نوٹ:  حضرت مولانا محمد علیؒ  کے اس عظیم الشان شاہکار اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ امی و ابی کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب سیرت خیرالبشر ؐ کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ


یہودیوں کی تبلیغ
"انبیائے بنی اسرائیل کے زمانہ میں عرب میں بت پرستی انتہا درجہ کو پہنچی ہوئی تھی ۔ حضرت سلیمانؑ نے یمن کی ایک ملکہ کو توحید کی تعلیم پر قائم کیا ۔

بعثت نبویؐ سے تقریباً ایک ہزار سال قبل یہودی ملک عرب میں آکر آباد ہوئے ۔ غالباً یہ وہ زمانہ تھا جب پانچویں صدی قبل مسیح میں بخت نصر یہودیوں کی بربادی کے درپے ہوا۔ اسی کے ظلم سے تنگ آکر اور کسی قدر اس لئے بھی کہ آخری نبی کے ظہور کی پیشگوئیاں ان میں شائع اور عام تھیں ، ان لوگوں نے عرب کو اپنا مسکن بنایا اور خیبر خالص یہودیوں کی آبادی ہو گیا۔

جب انکی قوت یہاں مظبوط ہو گئی تو انھوں نے اپنا مذہب یہاں پھیلانا شروع کیا ۔یہاں تک کہ حضرت مسیحؑ سے کوئی ساڑھے تین سو سال پیشتر یمن کے بادشاہ ذونو اس نے یہودیوں کا مذہب اختیار کیا اور اس زمانہ میں کچھ بادشاہت کے رعب سے، کچھ جبرو تشدد سے یہودی مذہب کاخاصہ غلبہ ملک عرب میں ہوگیا۔ 

مگر باوجود ساری کوششوں کے عرب کی آبادی ویسی کی ویسی ہی بت پرستی میں مبتلا رہی اور یہودی مذہب کا اثر چند دن زور پکڑ کر آخر پھر حالت تنزل کی طرف لوٹ گیا اور عرب کا قومی مذہب وہی رہا جو یہودیوں کی آمد اور انکی تبلیغ سے پہلے تھا  " ۔

جاری ہے 

کتاب سیرت خیرالبشرؐ،باب سوئم ، صفحہ27



...................................................................................................................................................................

۴:تاریخ خلافت راشدہؓ
از حضرت مولانا محمد علیؒ 
حضرت ابوبکر صدیقؓ
زمانہ خلافت
۲ ربیع الاول ۱۱ ہجری تا ۲۲ جمادی الثانی ۱۳ ہجری
جون ۶۳۲ء تا اگست ۶۳۴ء 

نوٹ:  حضرت مولانا محمد علیؒ  کے اس عظیم الشان شاہکار اور خلفائے راشدین کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب تاریخ خلافت راشدہ کو  کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ

رسول اللہ صلعم سے تعلقات کا مزید استحکام

"آنحضرت صلعم اور حضرت ابوبکرؓ کا تعلق محبت کمال کو پہنچا ہوا تھا تاہم حضرت عائشہ صدیقہ کےنکاح سے یہ تعلق اور بھی زیادہ ہو گیا ۔

بعثت نبوی کے دسویں سال میں یا اس سے کچھ پیشتر حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہو گیا۔ اور جہاں چاروں طر ف سے آپ تکالیف اور پریشانیوں کا نشانہ بنے ہوئے تھے، اس نہایت ہی غمگسار رفیق زندگی کی مفارقت نے آپکے غموں کو اور بھی بڑھا دیا ۔

 آپکی طبیعت پر اس بوجھ کو دیکھ کر ایک صحابیہ نے حضرت ابوبکرؓ کی صاحبزادی حضرت عائشہ کا نام نکاح کےلئے پیش کیا ۔ آپ نے اسے پسند فرمایا اور ہجرت سے تین سال پیشتر بعثت کے دسویں سال میں نکاح ہو گیا ۔ اور ہجرت کے ڈیڑھ سال بعد مدینہ میں جا کر رخصتانہ ہوا۔ "



جاری ہے


کتاب تاریخ خلافت راشدہ ،باب اول ، صفحہ4

...................................................................................................................................................................

۵:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ 



حفاظت قرآن بذریعہ روحانی خلفا و مجددین



پس یہ آیت درحقیقت اس دوسری انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون لئے بطور تفسیر کے واقعہ ہے اور اس سوال کا جواب دے رہی ہے کہ حفاظت قرآن کیونکر اور کس طور سے ہوگی سو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس نبی کریم کے خلیفے وقتاً فوقتاً بھیجتا رہوں گا اور خلیفہ کے لفظ کو اس اشارہ کے لئے اختیار کیا گیا کہ وہ نبی کے جانشین ہوں گے اور اس کی برکتوں میں سے حصہ پائیں گے جیسا کہ پہلے زمانوں میں ہوتا رہا۔

اور ان کے ہاتھ سے برجائی دین کی ہوگی اور خوف کے بعد امن پیدا ہوگا یعنی ایسے وقتوں میں آئیں گے کہ جب اسلام تفرقہ میں پڑا ہوگا پھر ان کے آنے کے بعد جو اُن سے سرکش رہے گا وہی لوگ بدکار اور فاسق ہیں۔

 یہ اس بات کا جواب ہے کہ بعض جاہل کہا کرتے ہیں کہ کیا ہم پر اولیاء کا ماننا فرض ہے سو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بیشک فرض ہے اور ان سے مخالفت کرنے والے فاسق ہیں اگر مخالفت پر ہی مریں-

 اس جگہ معترض صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ
 الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی

اور پھر اعتراض کیاہے کہ جب کہ دین کمال کو پہنچ چکا ہے اور نعمت پوری ہوچکی تو پھر نہ کسی مجدد کی ضرورت ہے نہ کسی نبی کی

مگر افسوس کہ معترض نے ایسا خیال کرکے خود قرآن کریم پر اعتراض کیا ہے کیونکہ قرآن کریم نے اس امت میں خلیفوں کے پیدا ہونے کا وعدہ کیا ہے جیسا کہ ابھی گذر چکا ہے اور فرمایا ہے کہ ان کے وقتوں میں دین استحکام پکڑے گا اور تزلزل اور تذبذب دور ہوگا۔ اور خوف کے بعد امن پیدا ہوگا پھر اگر تکمیل دین کے بعد کوئی بھی کارروائی درست نہیں تو بقول معترض کے جو تیس سال کی خلافت ہے وہ بھی باطل ٹھہرتی ہے کیونکہ جب دین کامل ہوچکا تو پھر کسی دوسرے کی ضرورت نہیںؔ ۔ لیکن افسوس کہ معترض بے خبر نے ناحق آیت اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیَْنَکُمْ کو پیش کردیا۔

 ہم کب کہتے ہیں کہ مجدد اور محدث دنیا میں آکر دین میں سے کچھ کم کرتے ہیں یا زیادہ کرتے ہیں بلکہ ہمارا تو یہ قول ہے کہ ایک زمانہ گذرنے کے بعد جب پاک تعلیم پرخیالات فاسدہ کا ایک غبار پڑ جاتا ہے اور حق خالص کا چہرہ چھپ جاتا ہے۔ تب اس خوبصورت چہرہ کو دکھلانے کے لئے مجدد اور محدث اور روحانی خلیفے آتے ہیں نہ معلوم کہ بے چارہ معترض نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ مجدد اور روحانی خلیفے دنیا میں آکر دین کی کچھ ترمیم و تنسیخ کرتے ہیں۔

 نہیں وہ دین کو منسوخ کرنے نہیں آتے بلکہ دین کی چمک اور روشنی دکھانے کو آتے ہیں اور معترض کا یہ خیال کہ ان کی ضرورت ہی کیا ہے صرف اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ معترض کو اپنے دین کی پرواہ نہیں اور کبھی اس نے غور نہیں کی کہ اسلام کیا چیز ہے اور اسلام کی ترقی کس کو کہتے ہیں اور حقیقی ترقی کیونکر اور کن راہوں سے ہوسکتی ہے اور کس حالت میں کسی کو کہا جاتا ہے کہ وہ حقیقی طور پر مسلمان ہے

 یہی وجہ ہے کہ معترض صاحب اس بات کو کافی سمجھتے ہیں کہ قرآن موجود ہے اور علماء موجود ہیں اور خود بخود اکثر لوگوں کے دلوں کو اسلام کی طرف حرکت ہے پھر کسی مجدد کی کیا ضرورت ہے

 لیکن افسوس کہ معترض کو یہ سمجھ نہیں کہ مجددوں اور روحانی خلیفوں کی اس امت میں ایسے ہی طور سے ضرورت ہے جیسا کہ قدیم سے انبیاء کی ضرورت پیش آتی رہی ہے"


کتاب شہادت القرآن
روحانی خزائن جلد 6 صفحات339, 340

...................................................................................................................................................................


۶:دینی مسائل اور انکا حل

ارشاد مبارک حضرت مجدد اعظم و امام الزمان
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی رحمتہ اللہ علیہ  

راگ
بعض لوگ راگ سنتے ہیں آیا یہ جائز ہے ؟

 "اس طرح سے بزرگان دین پر بد ظنی کرنا اچھا نہیں ۔ حسن ظن سے کام لینا چاہیے ۔ حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اشعار سنے تھے ۔ لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک صحابی مسجد میں شعر پڑھتا تھا ۔حضرت عمرؓ نے اسکو منع کیا ۔ 

اس نے جواب دیا، میں نبی کریم صلعم کے سامنے مسجد میں شعر پڑھا کرتا تھا ۔توکون ہے جو مجھے روک سکے ۔ یہ سنکر امیرالمومنین بالکل خاموش ہوگئے۔


قرآن شریف کو بھی خوش الحانی سےپڑھنا چاہیے ۔بلکہ اسقدر تاکید ہے کہ جو شخص قرآن شریف کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ اور خود اس میں ایک اثر ہے ۔


عمدہ تقریر اگر خوش الحانی سے کی جائے تو اسکا بھی اثر ہوتا ہے ۔ وہی تقریر ژولیدہ زبان سے کی جائے تو اس میں کوئی اثر نہیں ہوگا۔ 


جس شے میں خدا نے تاثیررکھی ہے اور اسکو اسلام کی طرف کھینچنے کا آلہ بنایا جاوے تو اس میں کیا حرج ہے ۔


حضرت داود کی زبور گیتوں میں تھی جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ جب حضرت داود علیہ السلام خدا کی مناجات تھے تو پہاڑ بھی اسکے ساتھ روتے تھے اور پرندے بھی اسکے ساتھ تسبیح کرتے تھے "

البدر ۱۷ نومبر ۱۹۰۵ ء 
...................................................................................................................................................................


۷:پیغام امیر قوم
حضرت مولانا محمدعلیؒ


اللہ تعالیٰ کے کامل مقرب
 حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم 

"باوجود اس کے کہ کہ خدا انسان سے اتنا قریب ہے کیا انسان اسکے اس قرب کو محسوس کرتا ہے؟ خدا پر ایمان اسی چیز کا نام ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس قرب کو محسوس کرے ۔ 

انسان جب ایک معمولی حاکم کے سامنے ہوتا ہے یا کسی ایسے شخص کے سامنے ہوتا ہے جسکی عزت اور احترام اسکے دل میں ہو، تو نہ اس سے کوئی ایسی حرکت سرزد ہوتی ہے جو اسکے عزت و احترام کے منافی ہو اور نہ اسکی زبان سے کوئی ایسا لفظ نکل سکتا ہے ۔


تو اگر وہ اللہ تعالیٰ کے اس قرب کو کو محسوس کرے تو اسکے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہوں پر چلنا کس قدر آسان ہو جاتا ہے ۔ 


وہ ہستی جس نے ہمیں پیدا کیا، جس نے ہمیں سب سامان عطا فرمائے، مال و دولت اور مرتبہ دیا ، وہ جس نے ہمیں ہدایت دی ، وہ جو ہمارا حقیقی بادشاہ ہے ، فی الحقیقت ہم اس سے کسی وقت غائب نہیں ہو سکتے ۔وہ ہر وقت اور ہر حالت میں ہم پر موجود ہے ۔ 


اللہ تعالیٰ کے قرب کا احساس انسان کو ہر بدی سے روک سکتا ہے خواہ کتنی بھی زبردست کشش اس میں موجود ہو ۔ اخلاق کی صحیح تکمیل اسی قرب الٰہی کے احساس سے ہوتی ہے ۔ پھر جسقدر زیادہ قوی یہ احساس ہوگا ، اسی قدر زیادہ انسان کے اندر بدی پر غالب آنے کی قوت ہو گی ۔ اسی قدر زیادہ اس کا نیکی پر قدم استوار ہو گا ۔ 


یہی مطلب الایمان یزید و ینقص کا ہے ۔ ایمان بڑھتا بھی رہتا ہے اور گھٹتا بھی رہتا ہے ۔ قرب الٰہی کی تجلیات ہیں ۔ اسکے احساسات کے مدارج ہیں ۔ کسی انسان پر قرب الٰہی کی تجلی بہت زبردست ہوتی ہے، کسی پر کم ۔ پھر ایک ہی انسان پر کسی وقت  یہ تجلی بہت زبردست ہوتی ہے ، کسی وقت کم ہو جاتی ہے ۔


عبادت کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے وقت انسان جس قدر اس قرب کو محسوس کرتا ہے ، اسقدر دوسرے اوقات میں محسوس نہیں کرتا سوائے ان لوگوں کے جن کے قلوب پر یہ احساس کامل ہو چکا ہے 


اللہ تعالیٰ کے اس قرب کی تجلی کا کامل اور مکمل ظہور اور اسکے قرب کا کامل احساس جسقدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتا ہے ، دوسرے کسی انسان کی زندگی میں نظر نہیں آتا۔ اور یہ زبردست احساس فطری طور پر بھی آپؐ   کے اندر موجود تھا ۔ اس لئے وحی سے پیشتر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ؐ نے ساری زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا ۔ آپؐ    سے کبھی کوئی ایسا فعل سرزد نہیں ہوا جو معیوب ہو ۔


پچیس سال تک آپؐ    تجرد کی حالت میں رہتے ہیں لیکن سخت سے سخت دشمن بھی آپؐ    کی عفت کے خلاف ایک لفظ نہیں کہہ سکتا بلکہ دشمنوں کا سر بھی یہاں آکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھک جاتا ہے ۔ 


آپؐ   نے اس عمر میں بھی کبھی شراب کو نہیں چھوا، کبھی جوئے کے نزدیک نہیں گئے ۔ ہر معاملہ میں الامین تھے ۔گویا اسوقت بھی قرب الٰہی کا وہ کامل احساس آپ ؐ کے قلب میں تھا جس نے آپؐ   کو ہر بدی سے روکے رکھا ۔


پھر اس فطری نور کو وحی نے نور علیٰ نور کا مصداق کر دیا ۔ نور تو پہلے ہی موجود تھا مگر وحی الٰہی سے اسکے اندر وہ کمال پیدا ہوا کہ آپؐ   نے سارے ملک عرب کو بدیوں سے پاک کر دیا ۔ دوسروں کے دلوں کی تاریکیوں کو بھی دور کر دیا ۔ دوسرے قلوب کےاندر بھی قرب الٰہی کا احساس پیدا کر دیا اور اس حد تک کیا کہ دوسرے کسی نبی یا مصلح  کی زندگی میں بھی وہ حالت نظر نہیں آتی "


پیغام صلح 5 ستمبر 1945 ء
خطبات مولانا محمد علیؒ، جلد 19 صفحات 188, 189

...................................................................................................................................................................


۸:
 ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف

اس ہفتہ کی کتاب جمع قرآن 




مستقل سیکشن 

 عقائد حضرت مولانا محمد علی ؒ 
انکی اپنی قلم سے 

تبدیلی عقیدہ کے ناپاک الزام پر حلف
عقیدہ کس نے بدلا ؟
قادیانی جماعت کے پیشواء ثانی اور ہمنواوں نے 
یا جماعت احمدیہ لاہور نے؟



میرا عقیدہ دربارہ نبوت مسیح موعودؑ کیاتھا؟ میں نے اسکو ابتدائے اختلاف ہی میں کھول کر بیان کردیا تھا ۔میں پہلے بھی اسی پر قائم تھا، اب بھی اسی پر قائم ہوں اور انہیں الفاظ میں پھر اپنے عقیدہ کو نقل کرتا ہوں 



"میں یہ مانتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ شرعی اصطلاح میں نبی اور رسول نہ تھے ۔یعنی نبی اس لئے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ پر غیب کے اخبار ظاہر کرتا تھا اور رسول اس لئے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مامور کر کے اصلاح کےلئے بھیجا تھا ۔

یعنی آپ ان معنوں میں نبی اور رسول تھے جن معنوں میں اس امت کے دوسرے مجدد بھی نبی اور رسول کہلا سکتے ہیں "
......................

"اس امت کے دوسرے مجددوں پر آپؒ   کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپؒ   کی آمد کے متعلق صریح پیشگوئیاں موجود ہیں ۔۔۔۔ پھر جس عظیم الشان فتنہ کی اصلاح کےلئے آپکو ؒ بھیجا گیا، دوسرے کسی مجدد کو اتنا عظیم الشان کام سپرد نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔


......................

ایسا ہی آپکوؒ کو جو علم کلام دیا گیا وہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس کو لیکر مسلمان کل مذاہب پر غالب آ سکتے ہیں ، دوسرے کسی مجدد کو ایسا علم کلام نہیں دیا گیا ۔"


......................
"میں حقیقی نبوت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم یقین کرتا ہوں ۔آپؐ    کے بعد نہ کوئی پرانا نبی واپس آئے گا نہ کوئی نیا نبی مبعوث ہوگا"

منقول از میرے عقائد، مطبوعہ ۳۳ اگست ۱۹۱۴ء



......................

"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر قسم اٹھاتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ میرے علم میں ۱۹۰۱ ء سے لیکر ۱۹۰۸ء تک حضرت مسیح موعودؑ کا یہی عقیدہ تھا کہ انکا نہ ماننے والا بھی مسلمان اور دائرہ اسلام میں ہے اور انکا منکر کافر اور دائرہ اسلام سے خارج نہیں اور میرا بھی یہی عقیدہ ۱۹۰۱ء سے لیکر آج تک بربنائے عقیدہ حضرت مسیح موعودؑ ہے "

پیغام صلح ۔لاہور۔۲۱ستمبر ۱۹۴۴



......................

"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اس بات پر حلف اٹھاتا ہوں کہ میرا عقیدہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب قادیانی مجدد اور مسیح موعودؑ ہیں مگر نبی نہیں اور نہ انکے انکار سے کوئی شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے 
اور یہی عقیدہ حضرت مرزا صاحب کا تھا



اے خدا اگر میں نے تیر نام لیکر اس قسم کے کھانے میں جھوٹ بولا ہے تو تو اپنی طرف سے ایسی عبرت ناک سزا مجھ پر بھیج جس میں انسانی ہاتھ کا کوئی دخل نہ ہو اور جس سے دنیا سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھا کرمخلوق خدا کو دھوکہ دینے والوں پر خدا تعالیٰ کی گرفت کتنی سخت اور درد ناک ہوتی ہے "

پیغام صلح ۔لاہور۔۱۱دسمبر ۱۹۴۶



......................

"ہم اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ ۱۹۰۱ ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دعوی میں تبدیلی کی"

ستر بزرگان لاہور کا حلف

......................


......................

حضرت مولانا نور الدینؒ کا عقیدہ
انکی اپنی قلم سے 

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ


دل چیر کر دیکھا یا دکھانا انسانی طاقت سے باہر ہے ۔قسم پر کوئی اعتبار کرے تو واللہ العظیم کے برابر کوئی قسم مجھے نظر نہیں آتی۔نہ آپ میرے ساتھ میری موت کے بعد ہونگے نہ کوئی اور میرے ساتھ سوائے میرے ایمان و اعمال کے ہوگا۔پس یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش ہونے والا ہے ۔
میں مرزا صاحب کو مجدد اس صدی کا یقین کرتا ہوں ۔میں انکو راستباز مانتاہوں ۔
حضرت محمد الرسول اللہ النبی العربی المکی المدنی خاتم النبیین کا غلام اور اسکی شریعت کا بدل خادم مانتا ہوں اور مرزا خود اپنے آپکو جاں نثار غلام نبی عربی محمدؐ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن مناف  کامانتے تھے 



نبی کے لغوی معنی پیش از وقت اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر خبر دینے والا ہم لوگ یقین کرتے ہیں نہ شریعت لانے والا۔



مرزا صاحب اور میں خود جو شخص ایک نقطہ بھی قرآن شریف کا اور شریعت محمدؐ رسول کا نہ مانے، میں اسے کافر اور لعنتی اعتقاد کرتا ہوں ۔



یہی میرا اعتقاد ہے اور یہی میرے نزدیک مرزا غلام احمد کا تھا ۔

کوئی رد کرے یا نہ مانے یا منافق کہے اس کا معاملہ حوالہ بخدا۔

نورالدین بقلم خود 
۲۲ اکتوبر  ۱۹۱۰ء 

......................

قادیانی جماعت کے پیشواء
مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کا سابقہ عقیدہ
خود انکی اپنی قلم سے 


"اس آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپؐ    کے بعد کوئی شخص نہیں آئے گا جس کو نبوت کے مقام پر کھڑا کیا جائے اور وہ آپؐ    کی تعلیم کو منسوخ کر دے اور نئی شریعت جاری کر دے ۔بلکہ جسقدر 

اولیاء اللہ 
ہونگے  اور متقی اور پرھیز گار لوگ ہونگے سب کو آپؐ   کی غلامی میں ہی ملے گیا جو کچھ ملے گا ۔
اس طرح خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ
 آپؐ    کی نبوت نہ صرف اس زمانہ کےلئے ہے بلکہ
آئندہ بھی کوئی نبی نہیں آئے گا"

تشحیذ الاذہان بابت اپریل ۱۹۱۰ء 


......................


قادیانی جماعت کے ھیڈ 

مولوی محمد سرور شاہ صاحب کا سابقہ عقیدہ


"لفظ نبی کے معنی اپنے مصدروں کے لحاظ سے دو ہیں ۔

اول اپنے خدا سے اخبار غیب پانے والا 
دوئم عالی مرتبہ شخص ۔جس شخص کو اللہ تعالیٰ بکثرت شرف مکالمہ سے ممتاز کرے اور غیب کی خبروں پر مطلع کرے ، وہ نبی ہے 



اس رنگ میں میرے نزدیک تمام مجددین سابق مختلف مدارج کے انبیاء گزرے ہیں "
بدر مورخہ ۱۶ فروری ۱۹۱۱ء 


......................

مفتی محمد صادق صاحب کا سابقہ عقیدہ 

اس کو عربی لغت میں نبی کہتے ہیں 



"شبلی نے دریافت کیا کہ کیاہم لوگ مرزا صاحب کونبی مانتے ہیں ؟

میں نے عرض کیا کہ ہمارا عقیدہ اس معاملہ میں دیگر مسلمانوں کی طرح ہے کہ آنحضرت صلعم خاتم النبیین ہیں ۔
آپکے بعد کوئی دوسرا نبی آنیوالانہیں ۔نہ نیا نہ پرانا ۔
ہاں مکالمات الٰہیہ کا سلسلہ برابر جاری ہے وہ بھی آنحضرت صلعم کے طفیل آپؐ    سے فیض حاصل کر کے اس امت میں ایسے آدمی ہوتے رہے جنکو الہام الٰہی سے مشرف کیا گیا اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے ۔



چونکہ حضرت مرزا صاحب بھی الہام الہی سے مشرف ہوتے رہے اور الہام الٰہی کے سلسلہ میں آپکو خدا تعالیٰ نے بہت سی آئندہ کی خبریں بطور پیشگوئی کے بتلائی تھیں جو پوری ہوتی رہیں اس واسطے مرزا صاحب ایک پیشگوئی کرنے والے تھے اور اسکو 

عربی لغت میں نبی کہتے ہیں "
بدر۔جلد نمبر ۹ ، ۵۱/۵۲



......................

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں 
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)

ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام

"نبوت کا دعوی نہیں بلکہ محدثیت کا دعوٰی ہے جو خدا تعالیٰ کےحکم سے کیا گیاہے"

"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "

" یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے؟"

روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹

......................

"میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اورنبی کے میری الہام میں میری نسبت خدا تعالٰی کی طرف سے بے شک ہیں  لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں اور جیسے یہ محمول نہیں ایسا ہی نبی کر کے پکارنا  جو حدیثوں میں مسیح موعودؑ کےلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔
 یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "

سراج منیر،صفحہ ۳
......................
"سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں ۔ آنے والے مسیح موعودؑ  کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویؐ سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور معمولی محاوہ مکالمات الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا؟"
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"
......................

یہ بھی یاد رہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے"
روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209



......................

"سمیت نبیا من اللہ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ"
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر 


روحانی خزائن جلد 22 صفحہ  689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65) 
......................
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب
 انکے اپنے اشعار میں 

ما مسلمانیم از فضلِ خدا 
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا

اندریں دیں آمدہ از مادریم 

ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم

آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست

بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست

یک قدم دوری ازاں روشن کتاب

نزد ماکفر است و خسران و تباب

آں رسولے کش محمدؐ ہست نام

دامنِ پاکش بدستِ ما مدام

مہرِ اوباشیرشداندربدن

 جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن 

ہست اوخیرالرسل خیرالانام

ہر نبوت را بروشد اختتام

(کتاب سراج منیر، ضمیمہ صفحہ ز)

 ایک ضروری تجویز

بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ

خدام و مبلغین 
عالمگیرجماعت احمدیہ 


 انجمن اشاعت اسلام
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام

No comments :

Post a Comment