مبلغ (آنلائن)
بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت
حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ
عالمگیر جماعت احمدیہ
انجمن اشاعت اسلام
عالمگیر جماعت احمدیہ
انجمن اشاعت اسلام
اتوار ۔۹ نومبر ۲۰۱۴ء
ہفتہ وار شمارہ نمبر:49
Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com
اس ہفتہ کی کتاب
مسیح موعودؑ اور ختم نبوت
از
حضرت مولانا محمدعلیؒ
از
حضرت مولانا محمدعلیؒ
سیکشن نمبر 8 میں ملاحظہ فرمائیں
۱:کلامِ الٰہی
وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
البقرة: 23
یہ دعویٰ قرآن مجید میں کئی جگہ ہے کہیں اس رنگ میں کہ اس قرآن کی مثل لاو، کہیں یوں کہ دس سورتیں اس کی مثل بنا کر دکھاو اور آخری اور اقل مطالبہ یہ ہے کہ ایک ہی سورت اس کی مثل بنا کر لے آو۔ یہ تصریح نہیں کہ کس بارہ میں مثل ہو۔
مثل تین باتوں میں چاہیے :
ایک کتاب یا کلام کا بے مثل ہونا تین باتوں میں ہوسکتا ہے ۔ الفاظ کی ظاہری بندش کے لحاظ سے ،کمال اور جامعیت مضامین میں اور اس اثر کے لحاظ سے جو اس کلام سے پیدا ہو۔
فصاحت و بلاغت و سکن :
فصاحت و بلاغت میں قرآن کا بے مثل ہونا خود اس سے ظاہر ہے کہ یہ زبان عربی میں فصاحت و بلاغت کا معیار مانا جاتا ہے حالانکہ اس وقت نازل ہوا جب عربی زبان میں نثر کا رواج نہ تھا۔
بلحاظ کمالِ مضامین میں یہ حالت ہے کہ نہ صرف تمام مذاہب کے اصول باطلہ کی تردید کرتا ہے بلکہ اصول حقہ کو کھول کر بیان کرتا ہے بلکہ تمدن اور معاشرت اور سیاست کے اصول کو بھی بیان کرتا ہے ۔ پھر جس بات کا دعوی کرتا ہے اسکے دلائل بھی ساتھ دیتا ہے ۔
جامعیت مضامین قرآن :
بلحاظ جامعیت مضامین چھوٹی سے چھوٹی سورت بھی اپنے اندر یہ کمال رکھتی ہے کہ ایک خاص مضمون کو کمال تک پہنچاتی ہے اور ایک کتاب کا حکم رکھتی ہے مگر سب سے واضح معیار مثل ہونے یا نہ ہونے کا یہ ہے کہ جو کام اس کتاب نے کر دکھایا ہے وہ دوسری کسی کتاب نے کر کے نہیں دکھایا ۔ اور چونکہ اس سورت کی ابتدا اس دعویٰ سے تھی کہ یہ کتاب ہدایت ہے پس اسی میں بے مثل ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے ۔ یعنی کوئی ایسی کتاب یا سورت لاو جو دنیا کےلئے اسی طرح موجب ہدایت بنی ہو ۔
قرآن کریم نے جو انقلاب دنیا میں پیدا کیا اور جس طرح نہایت پستی کی حالت سے ایک قوم کو اٹھا کر اوج کمال تک پہنچا دیا، اسکے متعلق دنیا کو اعتراف ہے کہ ایسا کام کسی اور کتاب نے نہیں کر کے دکھایا۔
وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
البقرة: 23
ترجمہ:۔
اور اگر تمھیں اس میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا ہے تو ایک سورت اس جیسی لے آو اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اپنے مددگاروں کو بلا لو اگر تم سچے ہو
اور اگر تمھیں اس میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا ہے تو ایک سورت اس جیسی لے آو اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اپنے مددگاروں کو بلا لو اگر تم سچے ہو
تفسیر
مثل تین باتوں میں چاہیے :
ایک کتاب یا کلام کا بے مثل ہونا تین باتوں میں ہوسکتا ہے ۔ الفاظ کی ظاہری بندش کے لحاظ سے ،کمال اور جامعیت مضامین میں اور اس اثر کے لحاظ سے جو اس کلام سے پیدا ہو۔
فصاحت و بلاغت و سکن :
فصاحت و بلاغت میں قرآن کا بے مثل ہونا خود اس سے ظاہر ہے کہ یہ زبان عربی میں فصاحت و بلاغت کا معیار مانا جاتا ہے حالانکہ اس وقت نازل ہوا جب عربی زبان میں نثر کا رواج نہ تھا۔
بلحاظ کمالِ مضامین میں یہ حالت ہے کہ نہ صرف تمام مذاہب کے اصول باطلہ کی تردید کرتا ہے بلکہ اصول حقہ کو کھول کر بیان کرتا ہے بلکہ تمدن اور معاشرت اور سیاست کے اصول کو بھی بیان کرتا ہے ۔ پھر جس بات کا دعوی کرتا ہے اسکے دلائل بھی ساتھ دیتا ہے ۔
جامعیت مضامین قرآن :
بلحاظ جامعیت مضامین چھوٹی سے چھوٹی سورت بھی اپنے اندر یہ کمال رکھتی ہے کہ ایک خاص مضمون کو کمال تک پہنچاتی ہے اور ایک کتاب کا حکم رکھتی ہے مگر سب سے واضح معیار مثل ہونے یا نہ ہونے کا یہ ہے کہ جو کام اس کتاب نے کر دکھایا ہے وہ دوسری کسی کتاب نے کر کے نہیں دکھایا ۔ اور چونکہ اس سورت کی ابتدا اس دعویٰ سے تھی کہ یہ کتاب ہدایت ہے پس اسی میں بے مثل ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے ۔ یعنی کوئی ایسی کتاب یا سورت لاو جو دنیا کےلئے اسی طرح موجب ہدایت بنی ہو ۔
قرآن کریم نے جو انقلاب دنیا میں پیدا کیا اور جس طرح نہایت پستی کی حالت سے ایک قوم کو اٹھا کر اوج کمال تک پہنچا دیا، اسکے متعلق دنیا کو اعتراف ہے کہ ایسا کام کسی اور کتاب نے نہیں کر کے دکھایا۔
بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ
...................................................................................................................................................................
۲:حدیثِ نبویؐ
(حضرت) جابرؓ سے روایت ہے کہا کہ ابو حمید دودھ کا ایک پیالہ نقیع سے لایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایاکہ
اسے ڈھکا کیوں نہیں گو اس پر لکڑی ہی رکھ دیتے
بخاری (74: 11)
کتاب: احادیث العمل صفحہ397
از
حضرت مولانا محمدعلیؒ
...................................................................................................................................................................
۳:سیرت خیر البشرؐ
باب سوئم
آنحضرتؐ سے پہلے ملک عرب کی اصلاح کی کوششیںلَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنْفَكِّينَ حَتَّىٰ تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ
(البینة:1،2)
جو لوگ اہل کتاب میں سے کافر ہیں اور مشرک آزاد ہونے والےنہ تھے یہاں تک کے انکے پاس کھلی دلیل آئے، یعنی اللہ کی طرف سے رسول جو پاک صحیفے پڑھتا ہے
از
حضرت مولانا محمد علی
نوٹ: حضرت مولانا محمد علیؒ کے اس عظیم الشان شاہکار اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ امی و ابی کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب سیرت خیرالبشر ؐ کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ
تینوں(تحریکاتِ اصلاح) کی ناکامی اور عرب کی گناہ کی غلامی
"یہودیوں کا بنی اسماعیل یا عرب کے لوگوں کے ساتھ بھائی بھائی ہونے کا تعلق تھا ۔ انکی زبانیں انکی عادات بہت کچھ باہم ملتی تھیں ۔ ابولانبیاء حضرت ابراھیم علیہ السلام کو دونوں قومیں یکساں عزت کی نگاہ سے دیکھتی تھیں ۔ یمن کے بادشاہ تک نے یہودیوں کے دین کو قبول کر لیا ۔ ظاہری اسباب کافی سے زیادہ مقدر ہو چکے تھے کہ ملک عرب سارے کا سارا اس اثر کے نیچے یہودیوں کے دین کو قبول کر لیتا ۔ مگر یہ تمام اسباب ملک عرب کی حالت عامہ میں کوئی تغیر پیدا نہ کر سکے۔
اسکے بعد عیسائیت آئی ۔ اس کی فرضی توحید کچھ کچھ عرب کی فرضی توحید سے ملتی تھی ۔ جس قسم کی بت پرستی ان میں مروج تھی، اسکی قسم کی یونانی بت پرستی کےاثر کے نیچے عیسائیت کے عقیدہ تثلیث نے پرورش پائی تھی اور موجودہ عیسائیت کے اصل بانی پولوس نے انبیائے بنی اسرائیل کی توحید پر بت پرستی کا ایسا رنگ چڑھایا تھا کہ بت پرست قومیں گروہ در گروہ اس دین میں داخل ہونا شروع ہو گئی تھیں ۔
پھر عیسائیت میں شریعت کی پابندی کی کوئی قید نہ تھی ۔اور عرب کی طبائع بھی قیود شرعی کے پابند نہ ہونے کی وجہ سے اور ہر قسم کی عیاشی میں پڑ جانے سے عیسائیوں کی طرح ہی اباحت پسند ہوچکی تھیں۔ اور یوں عرب کے لوگوں کے لئے عیسائیت سہل ترین مذہب تھا "
جاری ہے اسکے بعد عیسائیت آئی ۔ اس کی فرضی توحید کچھ کچھ عرب کی فرضی توحید سے ملتی تھی ۔ جس قسم کی بت پرستی ان میں مروج تھی، اسکی قسم کی یونانی بت پرستی کےاثر کے نیچے عیسائیت کے عقیدہ تثلیث نے پرورش پائی تھی اور موجودہ عیسائیت کے اصل بانی پولوس نے انبیائے بنی اسرائیل کی توحید پر بت پرستی کا ایسا رنگ چڑھایا تھا کہ بت پرست قومیں گروہ در گروہ اس دین میں داخل ہونا شروع ہو گئی تھیں ۔
پھر عیسائیت میں شریعت کی پابندی کی کوئی قید نہ تھی ۔اور عرب کی طبائع بھی قیود شرعی کے پابند نہ ہونے کی وجہ سے اور ہر قسم کی عیاشی میں پڑ جانے سے عیسائیوں کی طرح ہی اباحت پسند ہوچکی تھیں۔ اور یوں عرب کے لوگوں کے لئے عیسائیت سہل ترین مذہب تھا "
کتاب سیرت خیرالبشرؐ،باب سوئم ، صفحہ29
...................................................................................................................................................................
۴:تاریخ خلافت راشدہؓ
از حضرت مولانا محمد علیؒ
حضرت ابوبکر صدیقؓ
زمانہ خلافت
۲ ربیع الاول ۱۱ ہجری تا ۲۲ جمادی الثانی ۱۳ ہجری
جون ۶۳۲ء تا اگست ۶۳۴ء
نوٹ: حضرت مولانا محمد علیؒ کے اس عظیم الشان شاہکار اور خلفائے راشدین کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب تاریخ خلافت راشدہ کو کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ
سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار کامشورہ
اور حضرت ابوبکرؓ کی بیعت
اور حضرت ابوبکرؓ کی بیعت
"ملک عرب میں آج تک کسی قوم کو دوسری قوم پر بادشاہت حاصل نہ ہوئی تھی لیکن انکے دلوں میں قریش کی خاص عزت تھی ۔اس لئے کہ وہ عرب کے روحانی مرکز خانہ کعبہ کے متولی تھے ۔
اول تو اہل عرب کے خون کے اندر آزادی ایسی رچی ہوئی تھی کہ ان کےلئے ایک بادشاہ یا امیر کا تسلیم کرنا مشکل کام تھا۔ ہر قوم اپنی جگہ آزادی کی خواہاں رہتی تھی ۔اور اگر وہ سب کے سب کسی شخص کوامیر تسلیم کرنے پر متفق بھی ہوتے تو سوائے قریش کے اور کسی قبیلہ کے آگے سر تسلیم خم نہ کرتے ۔
اس لئے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قریش سے تھے ۔اور اس لئے بھی کہ قریش کو ملک عرب کی سب قوموں پر خاص امتیاز حاصل تھا ۔
حضرت ابو بکر ؓ کی دور اندیشی نے اس با ت کو سمجھ لیا تھا اور یہی بات انھوں نے انصار کے مجمع میں پیش کی ۔ انصار کی طرف سے پہلے یہ کہا گیا کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک قریش میں سے مگر اس سے بھی اتحاد ٹوٹتا تھا ۔
آخر بہت سی بحث کے بعد انصار کو یہ بات سمجھ آگئی اور ان میں سے ایک شخص نے اٹھ کر کہا کہ ہم نے محض حصول رضائے الٰہی کےلئے اپنی جانیں اوراپنے مال خدا کی راہ میں دئیے تھے اور اب بھی اسلام کی بہتری کو مد نظر رکھ کر ہم اس بات پر راضی ہیں کہ قریش میں سے امیر کا انتخاب ہو اور ہم جس طرح رسول اللہ صلعم کے مددگار اور معاون تھے ، اسی طرح آپکے جانشین کے معاون رہیں گے ۔
اور حضرت ابوبکر ؓ کا ہاتھ پکڑ کر بیعت کی ۔اور بعض روایات میں ہے کہ پہلے حضرت عمرؓ اور ابو عبیدہ نے بیعت کی پھر انصار نے ۔ صرف سعد بھی عبادہؓ رہ گئے "
اول تو اہل عرب کے خون کے اندر آزادی ایسی رچی ہوئی تھی کہ ان کےلئے ایک بادشاہ یا امیر کا تسلیم کرنا مشکل کام تھا۔ ہر قوم اپنی جگہ آزادی کی خواہاں رہتی تھی ۔اور اگر وہ سب کے سب کسی شخص کوامیر تسلیم کرنے پر متفق بھی ہوتے تو سوائے قریش کے اور کسی قبیلہ کے آگے سر تسلیم خم نہ کرتے ۔
اس لئے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قریش سے تھے ۔اور اس لئے بھی کہ قریش کو ملک عرب کی سب قوموں پر خاص امتیاز حاصل تھا ۔
حضرت ابو بکر ؓ کی دور اندیشی نے اس با ت کو سمجھ لیا تھا اور یہی بات انھوں نے انصار کے مجمع میں پیش کی ۔ انصار کی طرف سے پہلے یہ کہا گیا کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک قریش میں سے مگر اس سے بھی اتحاد ٹوٹتا تھا ۔
آخر بہت سی بحث کے بعد انصار کو یہ بات سمجھ آگئی اور ان میں سے ایک شخص نے اٹھ کر کہا کہ ہم نے محض حصول رضائے الٰہی کےلئے اپنی جانیں اوراپنے مال خدا کی راہ میں دئیے تھے اور اب بھی اسلام کی بہتری کو مد نظر رکھ کر ہم اس بات پر راضی ہیں کہ قریش میں سے امیر کا انتخاب ہو اور ہم جس طرح رسول اللہ صلعم کے مددگار اور معاون تھے ، اسی طرح آپکے جانشین کے معاون رہیں گے ۔
اور حضرت ابوبکر ؓ کا ہاتھ پکڑ کر بیعت کی ۔اور بعض روایات میں ہے کہ پہلے حضرت عمرؓ اور ابو عبیدہ نے بیعت کی پھر انصار نے ۔ صرف سعد بھی عبادہؓ رہ گئے "
جاری ہے
کتاب تاریخ خلافت راشدہ ،باب اول ، صفحہ 7
...................................................................................................................................................................
۵:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ
بے جا جہاد کے مسئلوں کا مسلمانوں کے اخلاق پر اثر
*"بہتیرے مسلمان ایسے دیکھے جاتے ہیں کہ ان میں اور درندوں میں شاید کچھ تھوڑا ہی سا فرق ہوگا۔ اور ایک جین مت کا انسان اور یا بُدھ مذہب کا ایک پابند ایک مچھر یا پسّوکے مارنے سے بھی پرہیز کرتا اور ڈرتا ہے۔ مگر افسوس کہ ہم مسلمانوں میں سے اکثر ایسے ہیں کہ وہ ایک ناحق کا خون کرنے اور ایک بے گناہ انسان کی جان ضائع کرنے کے وقت بھی اُس قادر خدا کے مواخذہ سے نہیں ڈرتے جس نے زمین کے تمام جانوروں کی نسبت انسان کی جان کو بہت زیادہ قابلِ قدر قرار دیا ہے۔
اس قدر سخت دلی اور بے رحمی اور بے مہری کا کیا سبب ہے؟ یہی سبب ہے کہ بچپن سے ایسی کہانیاں اور قصّے اور بے جا طور پر جہاد کے مسئلے ان کے کانوں میں ڈالے جاتے اور اُن کے دل میں بٹھائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے رفتہ رفتہ ان کی اخلاقی حالت مردہ ہوجاتی ہے اور ان کے دل ان نفرتی کاموں کی بدی کو محسوس نہیں کر سکتے۔ بلکہ جو شخص ایک غافل انسان کو قتل کر کے اس کے اہل و عیال کو تباہی میں ڈالتا ہے وہ خیال کرتا ہے کہ گویا اُس نے بڑا ہی ثواب کا کام بلکہ قوم میں ایک فخر پیدا کرنے کا موقعہ حاصل کیا ہے۔
اور چونکہ ہمارے اس ملک میں اس قسم کی بدیوں کے روکنے کے لئے وعظ نہیں ہوتے اور اگر ہوتے بھی ہیں تو نفاق سے ۔اس لئے عوام الناس کے خیالات کثرت سے ان فتنہ انگیز باتوں کی طرف جھکے ہوئے ہیں چنانچہ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ اپنی قوم کے حال پر رحم کر کے اردو اور فارسی اور عربی میں ایسی کتابیں لکھی ہیں جن میں یہ ظاہر کیا ہے کہ مسلمانوں میں جہاد کا مسئلہ اور کسی خونی امام کے آنے کے انتظار کا مسئلہ اور دوسری قوموں سے بُغض
رکھنے کا مسئلہ یہ سب بعض کوتہ اندیش علماء کی غلطیاں ہیں
ورنہ اسلام میں بجز دفاعی طور کی جنگ یا ان جنگوں کے سوا جو بغرض سزائے ظالم یا آزادی قائم کرنے کی نیت سے ہوں اور کسی صورت میں دین کے لئے تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں اور دفاعی طور کی جنگ سے مراد وہ لڑائیاں ہیں جن کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب کہ مخالفوں کے بلوہ سے اندیشہ جان ہو یہ تین قسم کے شرعی جہاد ہیں بجز ان تین صورتوں کی جنگ کے اور کوئی صورت جو دین کے پھیلانے کےلئے ہو، اسلام میں جائز نہیں "
کتاب: مسیح ہندوستان میں
روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 4
روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 4
...................................................................................................................................................................
۶:دینی مسائل اور انکا حل
ارشاد مبارک حضرت مجدد اعظم و امام الزمان
مرزا غلام احمد قادیانی رحمتہ اللہ علیہ
نوٹوں پر کمیشن
سوال پیش ہوا کہ نوٹوں کے بدلے روپیہ لینے یا دینے کے وقت یا پونڈ یا روپیہ توڑانے کے وقت دستور ہے کہ کچھ پیسے زائد لئے یا دئیے جاتے ہیں ۔ کیا اس قسم کا کمیشن لینا یا دنیا جائز ہے ؟
حضور عالی مقام ؑ نے ارشاد فرمایا
حضور عالی مقام ؑ نے ارشاد فرمایا
"جو نوٹ لے کر روپیہ دیتا ہے اسمیں کچھ حرج نہیں کہ وہ کچھ مناسب کمیشن اس پر لے لے ۔ کیونکہ نوٹ یا روپیہ یا ریزگاری کے محفوظ رکھنے اور تیار رکھنے میں وہ خود بھی وقت اور محنت خرچ کرتا ہے ۔ "
البدر 26ستمبر 1907ء ص 6
...................................................................................................................................................................
۷:پیغام امیر قوم
حضرت مولانا محمدعلیؒ
"حضرت مرزا صاحبؒ کے بارے میں بڑے بڑے عقلمند یہ رائیں لگارہے ہیں کہ آپ مراقی تھے۔میں حیران ہوتا ہوں کہ بھلا کیسے اس بات کا یقین دلائیں گے انکو ، جو آپکے پاس بیٹھے ہیں ۔انکے تو چہرے پر ہی تبسم کھیلتا تھا ۔ہر وقت دوستوں میں خوش خوش رہتے اور ہنستے ہوئے باتیں کرتیں ۔ہم تو دن رات آپؒ کے پاس بیٹھے رہے ہیں ۔نہ صرف یہ کہ آپؒ کے اپنے چہرے پر کبھی پژ مردگی اور غم کے آثار نہ ہوتے تھے بلکہ آپکے چہرے کی طرف دیکھنے سے دوسروں کا بھی غم دور ہو جاتا تھا۔
حضرت مولانا محمدعلیؒ
حضرت مرزا صاحبؒ پر مراق کے الزام کا نہایت زبردست جواب
"حضرت مرزا صاحبؒ کے بارے میں بڑے بڑے عقلمند یہ رائیں لگارہے ہیں کہ آپ مراقی تھے۔میں حیران ہوتا ہوں کہ بھلا کیسے اس بات کا یقین دلائیں گے انکو ، جو آپکے پاس بیٹھے ہیں ۔انکے تو چہرے پر ہی تبسم کھیلتا تھا ۔ہر وقت دوستوں میں خوش خوش رہتے اور ہنستے ہوئے باتیں کرتیں ۔ہم تو دن رات آپؒ کے پاس بیٹھے رہے ہیں ۔نہ صرف یہ کہ آپؒ کے اپنے چہرے پر کبھی پژ مردگی اور غم کے آثار نہ ہوتے تھے بلکہ آپکے چہرے کی طرف دیکھنے سے دوسروں کا بھی غم دور ہو جاتا تھا۔
پھر جو کام آپؒ نے کیا ، جس طرح قرآن کی محبت دلوں میں ڈالی اور اسکو پھیلانے کا ایک جوش اور ولولہ پیدا کر دیا، اگر فی الوقعی مراقی اور مجنون بھی یہ کام کرلیا کرتے ہیں، تو میں کہتا ہوں کہ ان کم بختوں تندرستوں کو کیا ہو گیا ہے ؟ کہ ان سے کوئی اس قسم کا کام نہیں ہو سکتا ؟
آپ ؒ کی مجلس اور صحبت کے اندر وہ اثر تھا کہ میں علیٰ وجہ البصیرت گواہی دیتا ہوں کہ محض آپکی صحبت میں بیٹھنے سے ہی لوگوں کی زندگیاں بدل گئیں ۔ جو رشوت لینے کے عادی تھے، جب آپکی صحبت میں آکر بیٹھے تو رشوت کی عادت ان سے چھوٹ گئی ۔چور اور ڈاکو جب آپؒ کی صحبت سے متاثر ہوئے ، تو چوری اور ڈاکہ زنی سے وہ تائب ہو گئے ۔کیا کسی کبھی کسی مراقی اور مجنون کی یہ کیفیت آپ نے دیکھی ۔ لیکن نہیں ۔ان باتوں سے تو کوئی مطلب ہی نہیں ۔انہیں چند جہلا کو خوش کرنا مقصود ہے ۔
میں پوچھتا ہوں کہ اگر مراق کی بیماری حضرت مرزا صاحبؒ کو ہوتی، تو کس طرح اتنا بڑا کام کر سکتے تھے؟ کیونکر اتنے لوگ آپکے گرد جمع ہو سکتے تھے ۔ہاں اس میں شک نہیں کہ آپکو دوران سر کا مرض تھا لیکن اسکو مراق کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔جب وہ حالت دور ہو جاتی تھی تو پھر وہی مرزا صاحب ایسے ہشاش بشاش ہوتے تھے کہ گویا کوئی تکلیف ہی نہیں تھی ۔یہ مراق والے کی حالت نہیں ہوتی ۔لیکن لوگوں نے کسی نہ کسی طریق سے جھٹلانا ہے ۔ کسی نے مراق کہہ دیا ، کسی نے افتراء کہہ دیا، کسی نے سحر اور مسمریزم قرار دے دیا ۔
اصل بات یہ ہے کہ ایک صادق انسان کا معاملہ اس قدر مشکل ہوتا ہے کہ سوائے صحیح حل کے اور کسی بات پر انسان قائم نہیں رہ سکتا ۔تاہم یہی باتیں انکے پاس لے دے کے رہ گئی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صرف جھوٹا کہہ لینے سے کچھ نہیں بنتا، جب تک غور اور توجہ سے اسکے کلام کونہ دیکھا جائے، اسکے خیالات کو نہ سنا جائے، اسکے اعمال کو نہ دیکھا جائے۔افسوس کہ ہمارے مخالفین کو اس سے کچھ غرض نہیں ۔
لیکن یاد رکھئیے کہ آج یہ لوگ حضرت مرزاصاحب ؒ کو مفتری اور کذاب کہتے ہیں، کل انکی اولادیں ہونگی، جن کے سامنے جب حقائق آئیں گے اور جب اسکی خدمت اسلام کے کھلے اور روشن نتائج انکے سامنے ہونگے، تو وہ ان لوگوں کو ملامت کریں گے اور محسوس کریں گے کہ پھر ایک دفعہ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔اور وہ آخر کار غور کر کے حق و صداقت کو پا لیں گے ۔
ایک بیج ابتدا میں حقیر چیز سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جس بیج کو پانی مل جائے، وہ درخت بننے سے نہیں رہتا۔اسی طرح صداقت بھی ایک بیج ہے ۔یہ بھی ایک درخت بن کر رہتی ہے ۔راستبازوں کے ساتھ ہمیشہ یہی سلوک ہوتا چلا آیا ہے ۔ہر ایک راست باز کی یہی حالت ہے ۔تاہم اسکی راستبازی کو کوئی مٹا نہیں سکتا، اور آخرکار کامیاب ہو کر رہتا ہے ۔ "
پیغامِ صلح ، ۱۶ جولائی ۱۹۳۵ ء
خطبات مولانا محمد علیؒ
جلد ۱۳، اقباس از صفحہ ۱۳۹ تا ۱۴۱
...................................................................................................................................................................
۸:
ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف
مستقل سیکشن
انکی اپنی قلم سے
عقیدہ کس نے بدلا ؟
قادیانی جماعت کے پیشواء ثانی اور ہمنواوں نے
یا جماعت احمدیہ لاہور نے؟
میرا عقیدہ دربارہ نبوت مسیح موعودؑ کیاتھا؟ میں نے اسکو ابتدائے اختلاف ہی میں کھول کر بیان کردیا تھا ۔میں پہلے بھی اسی پر قائم تھا، اب بھی اسی پر قائم ہوں اور انہیں الفاظ میں پھر اپنے عقیدہ کو نقل کرتا ہوں
"میں یہ مانتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ شرعی اصطلاح میں نبی اور رسول نہ تھے ۔یعنی نبی اس لئے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ پر غیب کے اخبار ظاہر کرتا تھا اور رسول اس لئے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مامور کر کے اصلاح کےلئے بھیجا تھا ۔
یعنی آپ ان معنوں میں نبی اور رسول تھے جن معنوں میں اس امت کے دوسرے مجدد بھی نبی اور رسول کہلا سکتے ہیں "
......................
"اس امت کے دوسرے مجددوں پر آپؒ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپؒ کی آمد کے متعلق صریح پیشگوئیاں موجود ہیں ۔۔۔۔ پھر جس عظیم الشان فتنہ کی اصلاح کےلئے آپکو ؒ بھیجا گیا، دوسرے کسی مجدد کو اتنا عظیم الشان کام سپرد نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔
......................
ایسا ہی آپکوؒ کو جو علم کلام دیا گیا وہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس کو لیکر مسلمان کل مذاہب پر غالب آ سکتے ہیں ، دوسرے کسی مجدد کو ایسا علم کلام نہیں دیا گیا ۔"
......................
"میں حقیقی نبوت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم یقین کرتا ہوں ۔آپؐ کے بعد نہ کوئی پرانا نبی واپس آئے گا نہ کوئی نیا نبی مبعوث ہوگا"
منقول از میرے عقائد، مطبوعہ ۳۳ اگست ۱۹۱۴ء
......................
"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر قسم اٹھاتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ میرے علم میں ۱۹۰۱ ء سے لیکر ۱۹۰۸ء تک حضرت مسیح موعودؑ کا یہی عقیدہ تھا کہ انکا نہ ماننے والا بھی مسلمان اور دائرہ اسلام میں ہے اور انکا منکر کافر اور دائرہ اسلام سے خارج نہیں اور میرا بھی یہی عقیدہ ۱۹۰۱ء سے لیکر آج تک بربنائے عقیدہ حضرت مسیح موعودؑ ہے "
پیغام صلح ۔لاہور۔۲۱ستمبر ۱۹۴۴
......................
"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اس بات پر حلف اٹھاتا ہوں کہ میرا عقیدہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب قادیانی مجدد اور مسیح موعودؑ ہیں مگر نبی نہیں اور نہ انکے انکار سے کوئی شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے
اور یہی عقیدہ حضرت مرزا صاحب کا تھا
اے خدا اگر میں نے تیر نام لیکر اس قسم کے کھانے میں جھوٹ بولا ہے تو تو اپنی طرف سے ایسی عبرت ناک سزا مجھ پر بھیج جس میں انسانی ہاتھ کا کوئی دخل نہ ہو اور جس سے دنیا سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھا کرمخلوق خدا کو دھوکہ دینے والوں پر خدا تعالیٰ کی گرفت کتنی سخت اور درد ناک ہوتی ہے "
پیغام صلح ۔لاہور۔۱۱دسمبر ۱۹۴۶
......................
"ہم اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ ۱۹۰۱ ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دعوی میں تبدیلی کی"
ستر بزرگان لاہور کا حلف
......................
......................
حضرت مولانا نور الدینؒ کا عقیدہ
انکی اپنی قلم سے
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
دل چیر کر دیکھا یا دکھانا انسانی طاقت سے باہر ہے ۔قسم پر کوئی اعتبار کرے تو واللہ العظیم کے برابر کوئی قسم مجھے نظر نہیں آتی۔نہ آپ میرے ساتھ میری موت کے بعد ہونگے نہ کوئی اور میرے ساتھ سوائے میرے ایمان و اعمال کے ہوگا۔پس یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش ہونے والا ہے ۔
میں مرزا صاحب کو مجدد اس صدی کا یقین کرتا ہوں ۔میں انکو راستباز مانتاہوں ۔
حضرت محمد الرسول اللہ النبی العربی المکی المدنی خاتم النبیین کا غلام اور اسکی شریعت کا بدل خادم مانتا ہوں اور مرزا خود اپنے آپکو جاں نثار غلام نبی عربی محمدؐ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن مناف کامانتے تھے
نبی کے لغوی معنی پیش از وقت اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر خبر دینے والا ہم لوگ یقین کرتے ہیں نہ شریعت لانے والا۔
مرزا صاحب اور میں خود جو شخص ایک نقطہ بھی قرآن شریف کا اور شریعت محمدؐ رسول کا نہ مانے، میں اسے کافر اور لعنتی اعتقاد کرتا ہوں ۔
یہی میرا اعتقاد ہے اور یہی میرے نزدیک مرزا غلام احمد کا تھا ۔
کوئی رد کرے یا نہ مانے یا منافق کہے اس کا معاملہ حوالہ بخدا۔
نورالدین بقلم خود
۲۲ اکتوبر ۱۹۱۰ء
......................
قادیانی جماعت کے پیشواء
مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کا سابقہ عقیدہ
خود انکی اپنی قلم سے
"اس آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپؐ کے بعد کوئی شخص نہیں آئے گا جس کو نبوت کے مقام پر کھڑا کیا جائے اور وہ آپؐ کی تعلیم کو منسوخ کر دے اور نئی شریعت جاری کر دے ۔بلکہ جسقدر
اولیاء اللہ
ہونگے اور متقی اور پرھیز گار لوگ ہونگے سب کو آپؐ کی غلامی میں ہی ملے گیا جو کچھ ملے گا ۔
اس طرح خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ
آپؐ کی نبوت نہ صرف اس زمانہ کےلئے ہے بلکہ
آئندہ بھی کوئی نبی نہیں آئے گا"
تشحیذ الاذہان بابت اپریل ۱۹۱۰ء
......................
قادیانی جماعت کے ھیڈ
مولوی محمد سرور شاہ صاحب کا سابقہ عقیدہ
"لفظ نبی کے معنی اپنے مصدروں کے لحاظ سے دو ہیں ۔
اول اپنے خدا سے اخبار غیب پانے والا
دوئم عالی مرتبہ شخص ۔جس شخص کو اللہ تعالیٰ بکثرت شرف مکالمہ سے ممتاز کرے اور غیب کی خبروں پر مطلع کرے ، وہ نبی ہے
اس رنگ میں میرے نزدیک تمام مجددین سابق مختلف مدارج کے انبیاء گزرے ہیں "
بدر مورخہ ۱۶ فروری ۱۹۱۱ء
......................
مفتی محمد صادق صاحب کا سابقہ عقیدہ
اس کو عربی لغت میں نبی کہتے ہیں
"شبلی نے دریافت کیا کہ کیاہم لوگ مرزا صاحب کونبی مانتے ہیں ؟
میں نے عرض کیا کہ ہمارا عقیدہ اس معاملہ میں دیگر مسلمانوں کی طرح ہے کہ آنحضرت صلعم خاتم النبیین ہیں ۔
آپکے بعد کوئی دوسرا نبی آنیوالانہیں ۔نہ نیا نہ پرانا ۔
ہاں مکالمات الٰہیہ کا سلسلہ برابر جاری ہے وہ بھی آنحضرت صلعم کے طفیل آپؐ سے فیض حاصل کر کے اس امت میں ایسے آدمی ہوتے رہے جنکو الہام الٰہی سے مشرف کیا گیا اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے ۔
چونکہ حضرت مرزا صاحب بھی الہام الہی سے مشرف ہوتے رہے اور الہام الٰہی کے سلسلہ میں آپکو خدا تعالیٰ نے بہت سی آئندہ کی خبریں بطور پیشگوئی کے بتلائی تھیں جو پوری ہوتی رہیں اس واسطے مرزا صاحب ایک پیشگوئی کرنے والے تھے اور اسکو
عربی لغت میں نبی کہتے ہیں "
بدر۔جلد نمبر ۹ ، ۵۱/۵۲
......................
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)
ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام
"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "
روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹
......................
یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "
سراج منیر،صفحہ ۳
......................
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"
......................
روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209
......................
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر
روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65)
......................
انکے اپنے اشعار میں
ما مسلمانیم از فضلِ خدا
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا
اندریں دیں آمدہ از مادریم
ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم
آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست
بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست
یک قدم دوری ازاں روشن کتاب
نزد ماکفر است و خسران و تباب
آں رسولے کش محمدؐ ہست نام
دامنِ پاکش بدستِ ما مدام
مہرِ اوباشیرشداندربدن
جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن
ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام
(کتاب سراج منیر، ضمیمہ صفحہ ز)
ایک ضروری تجویز
بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ مزید جن احباب تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین
عالمگیرجماعت احمدیہ
انجمن اشاعت اسلام
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
No comments :
Post a Comment