Sunday, October 19, 2014

مبلغ(آن لائن)-19 اکتوبر 2014، ہفتہ وار شمارہ: 47


 مبلغ (آنلائن)


روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان



بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت

 حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ

عالمگیر جماعت احمدیہ


 انجمن اشاعت اسلام


اتوار ۔۱۹ اکتوبر ۲۰۱۴ء

۲۳ ذوالحج ۱۴۳۵ ہجری


ہفتہ وار شمارہ نمبر:47

Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com



ایک ضروری اعلان بابت اشاعت روزنامہ 
مبلغ(آنلائن)

بعض احباب نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا ہے  کہ روزنامہ مبلغ کو ہفتہ وار ہونا چاہیے ۔ وجہ یہ ہے کہ اس قدر مواد کو یکسوئی کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر پڑھنا انکےلئے ممکن نہیں ۔

ہم خود بھی اس بات کو محسوس کر رہے ہیں کہ مبلغ(آنلائن)  سے روزنامہ میں شائع ہونا والے مواد کا حجم واقعی کافی بڑھ گیا ہے اور اگر قارئین روزانہ پڑھ ہی نہ سکتے ہوں تو ایسی صورت میں روزانہ اسقدر محنت سے مواد کو نکالنا اور ٹائپ کرنا بے سود ثابت ہوگا۔

ہمارا ارادہ تو محض قرآن، حدیث،کلامِ امامؑ  اور پیغام امیر قوم حضرت مولانام محمدعلیؒ پر مبنی صرف چار سیکشنز کے ساتھ اور نہایت مختصر مواد کے ساتھ اس شمارہ کو جاری کرنے کا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ سیکشنز اور ان سیکشنز میں موجود مواد کے حجم کو بھی بڑھانے کی ضرورت محسوس  ہوئی۔

لہذا اب قارئین کی سہولت کے پیش نظر، ایڈمن بلاگ مبلغ (آنلائن)کی باہمی  مشاورت سے، مبلغ (آنلائن) کے پلیٹ فارم سے  شمارہ کی اشاعت کو تو  ہفتہ وار کیا جارہا ہے ۔ البتہ مبلغ (آنلائن)  بوقت ضرورت اہم موضوعات پر مبنی پوسٹس وغیرہ کی اشاعت کو جاری رکھے گا اور ہر جمعہ کو خطبہ جمعہ کی بھی اشاعت بھی کی جائے گی۔ انشاللہ۔

مبلغ (آنلائن) سے ہفت روزہ شمارہ کی اشاعت انشا اللہ ہر اتوار کو کی جائے گی۔


اس ہفتہ کی کتاب 
مسیح موعودؑ اور ختم نبوت

از 
حضرت مولانا محمدعلیؒ 

 سیکشن نمبر 8 میں ملاحظہ فرمائیں 





۱:کلامِ الٰہی 


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ 

فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

16 :یونس

ترجمہ:۔ اور جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیتوں کے متعلق بے ہودہ باتیں کرتے ہیں تو ان سے منہ پھیر لے ۔یہاں تک کہ اسکے سوائے کسی دوسری بات میں لگ جائیں اور اگر شیطان تجھے بھلا دے تو یاد آجانے کے بعد ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھ


تفسیر


مجلس استہزا میں بیٹھنے سے روکنے کی وجہ
 غیرت دینی ہے 

یہاں مخاطب رسول اللہ صلعم نہیں ہیں بلکہ ہر ایک مسلمان سامع ہے ۔ ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے سے اس لئے روکا ہے کہ ان کی صحبت کے اثر سے متاثر ہوجائےگا اور دین کی عظمت دل سے نکل جائے گی ۔

قرآن کریم کی ہر ایک تعلیم اعلیٰ درجہ کے اعتدال پر مبنی ہے ۔ تنگدل لوگوں کی طرح عام اصول نہیں بنا دیا کہ فلاں قوم چونکہ تمھاری مخالف ہے اس لئے انکے پاس مت بیٹھو، ان سے بات چیت نہ کرو، نہ ہی افراط کا پہلو اختیار کیا ہے کہ صحبت بد کے اثرکی پرواہ ہی کوئی نہ کی ۔

صورت اول میں دنیا کے کاروبار رک جاتے، صورت ثانی میں لوگ اپنے اخلاق اور روحانیت کو تباہ کر بیٹھتے ۔ اس لئے فرمایا کہ ملکر بیٹھنے اور باتیں کرنے کی ضرورت تو ناگزیر ہیں مگر ایسا نہ ہو کہ ایسی صحبتوں کو عام کرتے کرتے یہاں تک نوبت پہنچے کہ مذہبی بے غیرتی کو قبول کر لو۔ اور اللہ تعالیٰ کی آیات پر اعلانیہ ہنسی ہو رہی ہو تو ایسی مجلسوں میں بھی شریک رہو۔

اس خاص بات کا ذکر اس لئے کیا کہ یہ روحانیت کو ایک بدیہی نقصان پہنچانے والی چیز ہے اور مطلب یہ ہے کہ جب انسان اپنی روحانیت کو کھلا کھلا نقصان پہنچتا دیکھے تو ایسی صحبت کو ترک کرے ۔

آج کل کی بیشتر تعلیم یافتہ مسلمانوں کی مجالس بھی اس نقصان سے خالی نہیں ۔بوجہ ناواقفیت دین کے یہ لوگ بجائے کوئی مفید گفتگو کرنے کے ایسی باتوں میں لگے رہتے ہیں جن کا اثر دین کو نقصان ہے ۔ کسی کی غیبت، کسی کی عیب جوئی کچھ ہنسی ٹھٹھا ہوتا ہے ۔ پھر رات کو بہت دیر تک یہ مجالس گرم رہتی ہیں نماز سے محروم رہتے ہیں ۔ صبح دیر سے اٹھتےہیں دین و دنیا دونوں کو برباد کرتے ہیں ۔

یہاں (اگلی آیت میں، ناقل) بتایا کہ ساتھ بیٹھنے سے یہ تو نہیں کہ انسان اسکے افعال کا ذمہ دار ہو جاتا ہے، بلکہ یہ ایک نصیحت ہے تاکہ مسلمان خود انکے بد اثر سے بچتے رہیں ۔ یا مراد یہ ہے کہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں کے پاس خاطر سے وہ لوگ بھی دین کے ساتھ استہزاء کرنے سے بچ جائیں گے ۔ 

بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ

...................................................................................................................................................................

۲:حدیثِ نبویؐ


 ابوھریرہؓ سے  روایت ہے کہ ایک سیاہ فام مرد یا سیاہ فام عورت مسجد کو جھاڑتی تھی۔ وہ مر گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکے متعلق دریافت فرمایا تو انہوں نے کہا کہ وہ مر گئی ۔ پس آپ ؐ نے فرمایا 

کیا تم نے مجھے اسکی خبر نہیں دی۔ مجھے اس مرد کی قبر یا کہا کہ عورت کی قبر پر لے چلو ۔اسکی قبر پر آئے اور اس پر جنازہ پڑھا

بخاری ( 72:8) 

کتاب: احادیث العمل صفحہ89
از
 حضرت مولانا محمدعلیؒ 


...................................................................................................................................................................


۳:سیرت خیر البشرؐ
باب سوئم
آنحضرتؐ    سے پہلے ملک عرب کی اصلاح کی کوششیں

لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنْفَكِّينَ حَتَّىٰ تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ

(البینة:1،2)
جو لوگ اہل کتاب میں سے کافر ہیں اور مشرک آزاد ہونے والےنہ تھے یہاں تک کے انکے پاس کھلی دلیل آئے، یعنی اللہ کی طرف سے رسول جو پاک صحیفے پڑھتا ہے 
از
 حضرت مولانا محمد علی 

نوٹ:  حضرت مولانا محمد علیؒ  کے اس عظیم الشان شاہکار اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ امی و ابی کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب سیرت خیرالبشر ؐ کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ


حنیف

"ان لوگوں میں زید بن عمرو بن نفیل حضرت عمرؓ کے چچا ہیں اور امیہ بن ابی الصلت جو ایک بہت مشہور شاعر اور طائف کا رئیس تھا۔ مگر اسکی شہادت ملتی ہے کہ انکے علاوہ اور بھی لوگ تھے اور گو یہ لوگ تبلیغ کےلئے کوئی خاص جوش نہ رکھتے تھے مگر اس میں بھی کچھ شک معلوم نہیں ہوتا کہ وہ بت پرستی کو اعلانیہ ناپسند کرتے اور توحید کو جسے وہ دین ابراھیمی قرار دیتے تھے علی الاعلان صحیح مذہب قرار دیتے تھے ۔ 

دیگر رسوم و رواجات سے انکو کوئی تعلق نہ تھا اور صرف بت پرستی کی  جگہ توحید الٰہی کی اقرار اسکی اصل غرض تھی۔ مگر عرب کے مذہب میں اس تحریک سے اتنا تغیر بھی پیدا نہ ہوا جس قدر عیسائیت سے ۔ بلکہ جس طرح عیسائیت کی تحریک یہودیت سے کمزور ثابت ہوئی اسی طرح یہ دین حنیفی کی تحریک عیسائیت سے بھی کمزور ثابت ہوئی ۔

جاری ہے 

کتاب سیرت خیرالبشرؐ،باب سوئم ، صفحہ28، 29



...................................................................................................................................................................

۴:تاریخ خلافت راشدہؓ
از حضرت مولانا محمد علیؒ 
حضرت ابوبکر صدیقؓ
زمانہ خلافت
۲ ربیع الاول ۱۱ ہجری تا ۲۲ جمادی الثانی ۱۳ ہجری
جون ۶۳۲ء تا اگست ۶۳۴ء 

نوٹ:  حضرت مولانا محمد علیؒ  کے اس عظیم الشان شاہکار اور خلفائے راشدین کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب تاریخ خلافت راشدہ کو  کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات



"ہجرت کا گیارہواں سال تھا ۔ ربیع الاول کی پہلی یا دوسری تاریخ تھی ۔ دو شنبہ کا دن تھا جب سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم رفیق اعلیٰ سے جا ملے ۔ 

ابھی فجر کی نما زکے وقت آپکی بیماری میں افاقہ تھا اور آپؐ   نے بعض لوگوں سے کچھ باتیں بھی کی تھیں ۔ حضرت ابو بکر ؓ آپکی حالت بہتر دیکھ کر اجازت لے کر اپنے اہل و عیال میں چلے گئے تھے، اس لئے بہت سے لوگوں کو یقین نہ آیا کہ آپ فوت ہو گئے ہیں اور حضرت عمر ؓنے خیال کیا کہ یونہی کسی منافق نے خبر اڑا دی ہے اور وہ مسجد میں تلوار لے کر کھڑے ہوگئے تا اس تشویشناک خبر پھیلانے سے روک دیں۔ 

حضرت ابوبکر ؓ کو اطلاع ملی تو فوراً آئے اور حضرت عائشہؓ کے حجرے میں داخل ہوئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ سے چادر اٹھا کر دیکھا کہ آپؐ    فوت ہو چکے ہیں ۔ پیشانی مبارک پر بوسہ دیا اور واپس مسجد میں آئے اور اپنا مشہور خطبہ پڑھا جس میں فرمایا کہ جو شخص تم میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو وہ جان لے کہ محمد صلعم وفات پا گئے ہیں اور جو کوئی تم میں سے اللہ کی عبادت کرتا تھا تو وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے وہ کبھی نہیں مرے گا۔
(بخاری باب مرض النبیؐ)

پھر قرآن شریف کی آیت(۳:۴۳) پڑھی جسکا مضمون یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک رسول ہیں آپؐ    سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ۔ پس ضروری تھا کہ آپؐ    بھی وفات پائیں "



جاری ہے


کتاب تاریخ خلافت راشدہ ،باب اول ، صفحہ6

...................................................................................................................................................................

۵:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ 



"نبی تو اس امت میں آنے سے رہے"


ابؔ   یاد رہے کہ اگرچہ قرآن کریم میں اس قسم کی بہت سی آیتیں ایسی ہیں کہ جو اس امت میں خلافت دائمی کی بشارت دیتی ہیں اور احادیث بھی اس بارے میں بہت سی بھری پڑی ہیں لیکن بالفعل اس قدر لکھنا ان لوگوں کے لئے کافی ہے جو حقائق ثابت شدہ کو دولت عظمیٰ سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں اور اسلام کی نسبت اس سے بڑھ کر اور کوئی بداندیشی نہیں کہ اس کو مردہ مذہب خیال کیا جائے اور اس کی برکات کو صرف قرن اول تک محدود رکھا جاوے۔

 کیا وہ کتاب جو ہمیشہ کی سعادتوں کا دروازہ کھولتی ہے وہ ایسی پست ہمتی کا سبق دیتی ہے کہ کوئی برکت اورخلافت آگے نہیں بلکہ سب کچھ پیچھے رہ گیا ہے۔

نبی تو اس امت میں آنے کو رہے اب اگر خلفاء نبی بھی نہ آویں اور وقتاً فوقتاً روحانی زندگی کے کرشمے نہ دکھلاویں تو پھر اسلام کی روحانیت کا خاتمہ ہے.

اور پھر ایسےمذہب کو موسوی مذہب کی روحانی شوکت اور جلال سے نسبت ہی کیا ہے جس میں ہزارہا روحانی خلیفے چودہ۱۴۰۰ سو برس تک پیدا ہوتے رہے اور افسوس ہے کہ ہمارے معترض ذرہ نہیں سوچتے کہ اس صورت میں اسلام اپنی روحانیت کے لحاظ سے بہت ہی ادنٰے ٹھہرتا ہے اور نبی متبوع صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ کچھ بہت بڑا نبی ثابت نہیں ہوتا اور قران بھی کوئی ایسی کتاب ثابت نہیں ہوتی جو اپنی نورانیت میں قوی الاثر ہو

پھر یہ کہنا کہ یہ امت خیر الامم ہے اور دوسری امتوں کے لئے ہمیشہ روحانی فائدہ پہنچانے والی ہے اور یہ قرآن سب الٰہی کتابوں کی نسبت اپنے کمالات اور تاثیر وغیرہ میں اکمل واتم ہے اور یہ رسول تمام رسولوں سے اپنی قوت قدسیہ اور تکمیل خلق میں اکمل واتم ہے کیسا بے ہودہ اور بے معنی اور بے ثبوت دعویٰ ٹھہرے گا

اور پھر یہ ایک بڑا فساد لازم آئے گا کہ قرآن کی تعلیمات کا وہ حصہ جو انسان کو روحانی انوار اور کمالات میں مشابہ انبیاء بنانا چاہتا ہے ہمیشہ کے لئے منسوخ خیال کیا جائے گا کیونکہ جب کہ امت میں یہ استعداد ہی نہیں پائی جاتی کہ خلافت کے کمالات باطنی اپنے اندر پیدا کر لیں تو ایسی تعلیم جواس مرتبہ کے حاصل کرنے کے لئے تاکید کررہی ہے محض لا حاصل ہوگی۔ 

درحقیقت فقط ایسے سوال سے ہی کہ کیا اسلام اب ہمیشہ کے لئے ایک مذہب مردہ ہے جسؔ میں ایسے لوگ پیدا نہیں ہوتے جن کی کرامات معجزات کے قائم مقام اور جن کے الہامات وحی کے قائم مقام ہوں بدن کانپ اٹھتا ہے چہ جائیکہ کسی مسلمان کا نعوذ باللہ ایسا عقیدہ بھی ہو خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت کرے جو ان ملحدانہ خیالات میں اسیر ہیں۔"


کتاب شہادت القرآن
روحانی خزائن جلد 6 صفحات 355، 356

...................................................................................................................................................................


۶:دینی مسائل اور انکا حل

ارشاد مبارک حضرت مجدد اعظم و امام الزمان
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی رحمتہ اللہ علیہ  

سفری تاجر کی نماز
 ایک شخص کا سوال پیش ہوا  کہ میں اور میرے بھائی ہمیشہ تجارت عطریات وغیرہ میں سفر کرتے ہیں ۔ نماز ہم دوگانہ پڑھیں یا پوری؟

حضرت مجدد اعظم ؒ نے فرمایا

"سفر تو وہ ہے جو ضرورتاً گاہے گاہے ایک شخص کو پیش آوے نہ یہ کہ اسکا پیشہ ہی یہ ہو ۔ آج یہاں کل وہاں اپنی تجارت کرتا پھرے ۔یہ تقوی کے خلاف ہے کہ ایسا آدمی اپنے آپکو مسافروں میں شامل کر کے ساری عمر نماز قصر کرنے ہی میں گزار دے "

البدر ۲۸ مارچ  ۱۹۰۷ ء صفحہ ۴ 
...................................................................................................................................................................


۷:پیغام امیر قوم
حضرت مولانا محمدعلیؒ

"روحانی طاقت اخلاقی طاقت سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے ۔ روحانی طاقت کہاں سے پیدا ہوتی ہے؟ روحانیت یا روحانی طاقت کا منبع کون سا ہے؟ 

روحانیت یا روحانی طاقت پیدا ہوتی ہے خدا کی طاقت سے ۔ جب انسان کا  خدا کے ساتھ کامل تعلق پیدا ہو جاتا ہے ۔جو تمام طاقتوں اور قدرتوں کا مالک ہے تو اس میں روحانی طاقت آجاتی ہے ۔ 

یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کا خدا کےساتھ کامل تعلق ہی تھا،جس نے انکے لئے ہر مشکل کو آسان کر دیا تھا ۔ پہاڑ انکے سامنے کوئی حقیقت نہ رکھتے تھے ، سمندر انکے سامنےکوئی حقیقت نہ رکھتے تھے۔ 

غرضیکہ روحانیت اس طاقت کا نام ہے جو خدا کے ساتھ کامل تعلق سے پیدا ہوتی ہے ۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں جو کبھی موجود تھی اور اب نہیں ۔ 

نہیں! جسطرح خدا اب بھی موجود ہے، اسی طرح یہ طاقت بھی موجود ہے ۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ انسان خدا کے ساتھ کامل تعلق پیدا کرے ۔ تعلق کامل ہوگا تو یہ طاقت بھی کامل ہو گی اور پوری طرح کام کرے گی"
پیغامِ صلح ۱۵ جنوری ۱۹۱۶ء
خطبات مولانا محمد علی جلد ۱۲ صفحہ ۱۸

...................................................................................................................................................................


۸:
 ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف

اس ہفتہ کی کتاب دامن کو ذرا دیکھ 




مستقل سیکشن 

 عقائد حضرت مولانا محمد علی ؒ 
انکی اپنی قلم سے 

تبدیلی عقیدہ کے ناپاک الزام پر حلف
عقیدہ کس نے بدلا ؟
قادیانی جماعت کے پیشواء ثانی اور ہمنواوں نے 
یا جماعت احمدیہ لاہور نے؟



میرا عقیدہ دربارہ نبوت مسیح موعودؑ کیاتھا؟ میں نے اسکو ابتدائے اختلاف ہی میں کھول کر بیان کردیا تھا ۔میں پہلے بھی اسی پر قائم تھا، اب بھی اسی پر قائم ہوں اور انہیں الفاظ میں پھر اپنے عقیدہ کو نقل کرتا ہوں 



"میں یہ مانتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ شرعی اصطلاح میں نبی اور رسول نہ تھے ۔یعنی نبی اس لئے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ پر غیب کے اخبار ظاہر کرتا تھا اور رسول اس لئے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مامور کر کے اصلاح کےلئے بھیجا تھا ۔

یعنی آپ ان معنوں میں نبی اور رسول تھے جن معنوں میں اس امت کے دوسرے مجدد بھی نبی اور رسول کہلا سکتے ہیں "
......................

"اس امت کے دوسرے مجددوں پر آپؒ   کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپؒ   کی آمد کے متعلق صریح پیشگوئیاں موجود ہیں ۔۔۔۔ پھر جس عظیم الشان فتنہ کی اصلاح کےلئے آپکو ؒ بھیجا گیا، دوسرے کسی مجدد کو اتنا عظیم الشان کام سپرد نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔


......................

ایسا ہی آپکوؒ کو جو علم کلام دیا گیا وہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس کو لیکر مسلمان کل مذاہب پر غالب آ سکتے ہیں ، دوسرے کسی مجدد کو ایسا علم کلام نہیں دیا گیا ۔"


......................
"میں حقیقی نبوت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم یقین کرتا ہوں ۔آپؐ    کے بعد نہ کوئی پرانا نبی واپس آئے گا نہ کوئی نیا نبی مبعوث ہوگا"

منقول از میرے عقائد، مطبوعہ ۳۳ اگست ۱۹۱۴ء



......................

"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر قسم اٹھاتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ میرے علم میں ۱۹۰۱ ء سے لیکر ۱۹۰۸ء تک حضرت مسیح موعودؑ کا یہی عقیدہ تھا کہ انکا نہ ماننے والا بھی مسلمان اور دائرہ اسلام میں ہے اور انکا منکر کافر اور دائرہ اسلام سے خارج نہیں اور میرا بھی یہی عقیدہ ۱۹۰۱ء سے لیکر آج تک بربنائے عقیدہ حضرت مسیح موعودؑ ہے "

پیغام صلح ۔لاہور۔۲۱ستمبر ۱۹۴۴



......................

"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اس بات پر حلف اٹھاتا ہوں کہ میرا عقیدہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب قادیانی مجدد اور مسیح موعودؑ ہیں مگر نبی نہیں اور نہ انکے انکار سے کوئی شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے 
اور یہی عقیدہ حضرت مرزا صاحب کا تھا



اے خدا اگر میں نے تیر نام لیکر اس قسم کے کھانے میں جھوٹ بولا ہے تو تو اپنی طرف سے ایسی عبرت ناک سزا مجھ پر بھیج جس میں انسانی ہاتھ کا کوئی دخل نہ ہو اور جس سے دنیا سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھا کرمخلوق خدا کو دھوکہ دینے والوں پر خدا تعالیٰ کی گرفت کتنی سخت اور درد ناک ہوتی ہے "

پیغام صلح ۔لاہور۔۱۱دسمبر ۱۹۴۶



......................

"ہم اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ ۱۹۰۱ ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دعوی میں تبدیلی کی"

ستر بزرگان لاہور کا حلف

......................


......................

حضرت مولانا نور الدینؒ کا عقیدہ
انکی اپنی قلم سے 

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ


دل چیر کر دیکھا یا دکھانا انسانی طاقت سے باہر ہے ۔قسم پر کوئی اعتبار کرے تو واللہ العظیم کے برابر کوئی قسم مجھے نظر نہیں آتی۔نہ آپ میرے ساتھ میری موت کے بعد ہونگے نہ کوئی اور میرے ساتھ سوائے میرے ایمان و اعمال کے ہوگا۔پس یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش ہونے والا ہے ۔
میں مرزا صاحب کو مجدد اس صدی کا یقین کرتا ہوں ۔میں انکو راستباز مانتاہوں ۔
حضرت محمد الرسول اللہ النبی العربی المکی المدنی خاتم النبیین کا غلام اور اسکی شریعت کا بدل خادم مانتا ہوں اور مرزا خود اپنے آپکو جاں نثار غلام نبی عربی محمدؐ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن مناف  کامانتے تھے 



نبی کے لغوی معنی پیش از وقت اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر خبر دینے والا ہم لوگ یقین کرتے ہیں نہ شریعت لانے والا۔



مرزا صاحب اور میں خود جو شخص ایک نقطہ بھی قرآن شریف کا اور شریعت محمدؐ رسول کا نہ مانے، میں اسے کافر اور لعنتی اعتقاد کرتا ہوں ۔



یہی میرا اعتقاد ہے اور یہی میرے نزدیک مرزا غلام احمد کا تھا ۔

کوئی رد کرے یا نہ مانے یا منافق کہے اس کا معاملہ حوالہ بخدا۔

نورالدین بقلم خود 
۲۲ اکتوبر  ۱۹۱۰ء 

......................

قادیانی جماعت کے پیشواء
مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کا سابقہ عقیدہ
خود انکی اپنی قلم سے 


"اس آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپؐ    کے بعد کوئی شخص نہیں آئے گا جس کو نبوت کے مقام پر کھڑا کیا جائے اور وہ آپؐ    کی تعلیم کو منسوخ کر دے اور نئی شریعت جاری کر دے ۔بلکہ جسقدر 

اولیاء اللہ 
ہونگے  اور متقی اور پرھیز گار لوگ ہونگے سب کو آپؐ   کی غلامی میں ہی ملے گیا جو کچھ ملے گا ۔
اس طرح خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ
 آپؐ    کی نبوت نہ صرف اس زمانہ کےلئے ہے بلکہ
آئندہ بھی کوئی نبی نہیں آئے گا"

تشحیذ الاذہان بابت اپریل ۱۹۱۰ء 


......................


قادیانی جماعت کے ھیڈ 

مولوی محمد سرور شاہ صاحب کا سابقہ عقیدہ


"لفظ نبی کے معنی اپنے مصدروں کے لحاظ سے دو ہیں ۔

اول اپنے خدا سے اخبار غیب پانے والا 
دوئم عالی مرتبہ شخص ۔جس شخص کو اللہ تعالیٰ بکثرت شرف مکالمہ سے ممتاز کرے اور غیب کی خبروں پر مطلع کرے ، وہ نبی ہے 



اس رنگ میں میرے نزدیک تمام مجددین سابق مختلف مدارج کے انبیاء گزرے ہیں "
بدر مورخہ ۱۶ فروری ۱۹۱۱ء 


......................

مفتی محمد صادق صاحب کا سابقہ عقیدہ 

اس کو عربی لغت میں نبی کہتے ہیں 



"شبلی نے دریافت کیا کہ کیاہم لوگ مرزا صاحب کونبی مانتے ہیں ؟

میں نے عرض کیا کہ ہمارا عقیدہ اس معاملہ میں دیگر مسلمانوں کی طرح ہے کہ آنحضرت صلعم خاتم النبیین ہیں ۔
آپکے بعد کوئی دوسرا نبی آنیوالانہیں ۔نہ نیا نہ پرانا ۔
ہاں مکالمات الٰہیہ کا سلسلہ برابر جاری ہے وہ بھی آنحضرت صلعم کے طفیل آپؐ    سے فیض حاصل کر کے اس امت میں ایسے آدمی ہوتے رہے جنکو الہام الٰہی سے مشرف کیا گیا اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے ۔



چونکہ حضرت مرزا صاحب بھی الہام الہی سے مشرف ہوتے رہے اور الہام الٰہی کے سلسلہ میں آپکو خدا تعالیٰ نے بہت سی آئندہ کی خبریں بطور پیشگوئی کے بتلائی تھیں جو پوری ہوتی رہیں اس واسطے مرزا صاحب ایک پیشگوئی کرنے والے تھے اور اسکو 

عربی لغت میں نبی کہتے ہیں "
بدر۔جلد نمبر ۹ ، ۵۱/۵۲



......................

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں 
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)

ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام

"نبوت کا دعوی نہیں بلکہ محدثیت کا دعوٰی ہے جو خدا تعالیٰ کےحکم سے کیا گیاہے"

"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "

" یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے؟"

روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹

......................

"میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اورنبی کے میری الہام میں میری نسبت خدا تعالٰی کی طرف سے بے شک ہیں  لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں اور جیسے یہ محمول نہیں ایسا ہی نبی کر کے پکارنا  جو حدیثوں میں مسیح موعودؑ کےلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔
 یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "

سراج منیر،صفحہ ۳
......................
"سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں ۔ آنے والے مسیح موعودؑ  کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویؐ سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور معمولی محاوہ مکالمات الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا؟"
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"
......................

یہ بھی یاد رہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے"
روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209



......................

"سمیت نبیا من اللہ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ"
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر 


روحانی خزائن جلد 22 صفحہ  689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65) 
......................
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب
 انکے اپنے اشعار میں 

ما مسلمانیم از فضلِ خدا 
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا

اندریں دیں آمدہ از مادریم 

ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم

آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست

بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست

یک قدم دوری ازاں روشن کتاب

نزد ماکفر است و خسران و تباب

آں رسولے کش محمدؐ ہست نام

دامنِ پاکش بدستِ ما مدام

مہرِ اوباشیرشداندربدن

 جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن 

ہست اوخیرالرسل خیرالانام

ہر نبوت را بروشد اختتام

(کتاب سراج منیر، ضمیمہ صفحہ ز)

 ایک ضروری تجویز

بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ

خدام و مبلغین 
عالمگیرجماعت احمدیہ 


 انجمن اشاعت اسلام
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام

No comments :

Post a Comment