روزنامہ مبلغ (آنلائن)
بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت
حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ
عالمگیر جماعت احمدیہ
انجمن اشاعت اسلام
عالمگیر جماعت احمدیہ
انجمن اشاعت اسلام
جمعرات جمعہ ۔9 ، 10 ستمبر ۲۰۱۴ء
۱۳، ۱۴ ذوالحج ۱۴۳۵ ہجری
شمارہ نمبر:44
Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com
اس ہفتہ کی کتاب
جمع قرآن
از حضرت مولانا محمد علیؒ
از حضرت مولانا محمد علیؒ
سیکشن نمبر 8 میں ملاحظہ فرمائیں
۱:کلامِ الٰہی
وَالْعَصْرِ
إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ
إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ
ترجمہ:۔ زمانہ گواہ ہے، کہ انسان نقصان میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لاتے اور اچھے عمل کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کرتے ہیں
تفسیر
ہر مسلمان کے اولین چار فرض
اول ایمان جس میں تمام عقائد صحیحہ آجاتے ہیں ۔
دوسرے اعمال جس سے مراد ہر قسم کی صلاحیت والے اعمال ہیں۔ تیسرے ایکدوسرے کو حق کا پہنچانا، جس میں یہ بتایا کہ انسان کا خود حق پر قائم ہو جانا بھی کافی نہیں جب تک کہ وہ دوسروں کو نہ پہنچائے اور
چوتھے صبر کی ایک دوسرے کو وصیت کرنا ۔
اور صبر یہ ہے کہ تمام مشکلات کا سامنا کرکے اللہ تعالیٰ کی طاعت پر انسان قائم ہوجائے
گویا ایک حق ہے اور ایک حق پر قائم ہونا ہے ۔ حق ایمان کے مقابل پر ہے اور صبر اعمال صالحہ کے مقابل پر ۔
انسان خود صحیح عقیدہ پر قائم ہو دوسروں کو صحیح عقیدہ پر قائم کرنے کی کوشش کرے ۔ خود اعمال صالحہ پر قائم ہو دوسروں کو اعمال صالحہ پر قائم کرنے کی کوشش کرے اور یہ ہر مسلمان کا فرض قرار دے کر بتا دیا کہ ہر مسلمان جب تک حق کو دوسروں تک نہیں پہنچاتا، بلکہ اس حق پر دوسروں کو قائم کرنے کےلئے پورا زور نہیں لگاتا، اسوقت تک وہ بھی نقصان میں ہے ۔
اس چھوٹی سی صورت میں کسقدر جامع تعلیم ہے اور یہی شہادت ہے اسبات پر کہ قرآن کریم کی ہر سورت بجائے خود ایک مکمل کتاب ہے خواہ کتنی بھی چھوٹی سورت کیوں نہ ہو اور امام شافعی سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا اگر اور کوئی سورت نازل ہوتی تو یہ سورت ہی لوگوں کےلئے کافی ہوتی
بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ
...................................................................................................................................................................
۲:حدیثِ نبویؐ
عبداللہ بن مسعودؓ روایت ہے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
حسد مت کرو سوائے دو باتوں کے جن میں (رشک ہو سکتا ہے)۔ایک وہ شخص کہ اللہ اسکو مال دے اور پھر اسے راہ حق میں خرچ کرنےپر مسلط کرے۔ دوسرا وہ شخص کہ اللہ اسے علم دے تو وہ اسکے مطابق فیصلہ کرے اور اسکی تعلیم دے
بخاری (۳:۱۵) کتاب: احادیث العمل صفحہ44، 45
از
حضرت مولانا محمدعلیؒ
بخاری (۳:۱۵) کتاب: احادیث العمل صفحہ44، 45
از
حضرت مولانا محمدعلیؒ
...................................................................................................................................................................
۳:سیرت خیر البشرؐ
باب سوئم
آنحضرتؐ سے پہلے ملک عرب کی اصلاح کی کوششیںلَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنْفَكِّينَ حَتَّىٰ تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ
(البینة:1،2)
جو لوگ اہل کتاب میں سے کافر ہیں اور مشرک آزاد ہونے والےنہ تھے یہاں تک کے انکے پاس کھلی دلیل آئے، یعنی اللہ کی طرف سے رسول جو پاک صحیفے پڑھتا ہے
از
حضرت مولانا محمد علی
نوٹ: حضرت مولانا محمد علیؒ کے اس عظیم الشان شاہکار اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ امی و ابی کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب سیرت خیرالبشر ؐ کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ
عیسائیت کی تبلیغ
" دوسری بڑی کوشش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی زمانہ میں ملک عرب کی اصلاح کےلئے عیسائیوں کی کوشش تھی ۔ عیسائی عرب میں تیسری صدی میں آنا شروع ہوئے ۔ سب سے پہلے نجران میں انھوں نے سکونت اختیار کر کے تبلیغی جدوجہد شروع کی ۔
عیسائیوں کی کوششوں کو دو طرف سے بڑی قوت پہنچتی تھی ۔ ایک حبش کی طرف سے جہاں قومی اور شاہی مذہب عیسویت تھا دوسرے شمال میں رومن ایمپائر کی طرف سے جس کاشاہی مذہب مذہب چوتھی صدی عیسوی کے ابتداء میں ہی عیسائی ہو چکا تھااور اسکے ساتھ ہی کثرت سے لوگ عیسائی مذہب میں داخل ہوگئے تھے۔
اس اثر اور خود عیسائی مبلغین کی کوششوں کا اثریہ ہوا کہ نجران کے اکثر باشندوں نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا ۔
دوسرے قبائل میں جیسے حمیر۔ غسان ۔ ربیعہ، تغلب وغیرہ اور حیرہ میں جو عراق عرب سے ملتا ہے، معدود اشخاص نے عیسائی مذہب اختیار کیا مگر کوئی بڑی کامیابی عرب کے اندر عیسائی مذہب کو حاصل نہ ہوئی ۔
پس عیسائی مذہب کی کوشش بھی ملک عرب میں اصلاح کرنے میں بکلی ناکام ثابت ہوئی " ۔
جاری ہے عیسائیوں کی کوششوں کو دو طرف سے بڑی قوت پہنچتی تھی ۔ ایک حبش کی طرف سے جہاں قومی اور شاہی مذہب عیسویت تھا دوسرے شمال میں رومن ایمپائر کی طرف سے جس کاشاہی مذہب مذہب چوتھی صدی عیسوی کے ابتداء میں ہی عیسائی ہو چکا تھااور اسکے ساتھ ہی کثرت سے لوگ عیسائی مذہب میں داخل ہوگئے تھے۔
اس اثر اور خود عیسائی مبلغین کی کوششوں کا اثریہ ہوا کہ نجران کے اکثر باشندوں نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا ۔
دوسرے قبائل میں جیسے حمیر۔ غسان ۔ ربیعہ، تغلب وغیرہ اور حیرہ میں جو عراق عرب سے ملتا ہے، معدود اشخاص نے عیسائی مذہب اختیار کیا مگر کوئی بڑی کامیابی عرب کے اندر عیسائی مذہب کو حاصل نہ ہوئی ۔
پس عیسائی مذہب کی کوشش بھی ملک عرب میں اصلاح کرنے میں بکلی ناکام ثابت ہوئی " ۔
کتاب سیرت خیرالبشرؐ،باب سوئم ، صفحہ28
...................................................................................................................................................................
۴:تاریخ خلافت راشدہؓ
از حضرت مولانا محمد علیؒ
حضرت ابوبکر صدیقؓ
زمانہ خلافت
۲ ربیع الاول ۱۱ ہجری تا ۲۲ جمادی الثانی ۱۳ ہجری
جون ۶۳۲ء تا اگست ۶۳۴ء
نوٹ: حضرت مولانا محمد علیؒ کے اس عظیم الشان شاہکار اور خلفائے راشدین کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب تاریخ خلافت راشدہ کو کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ
مدینہ میں خدمات اسلامی
"مکہ میں اسلام کی ضروریات محدود تھیں ۔ مدینہ میں ان میں بہت وسعت پیدا ہو گئی تھی اور جس رنگ میں بھی کسی خدمت دینی کا موقع نکلتا تھا ، حضرت ابوبکرؓ کا قدم سب سے آگے ہوتا تھا ۔ مسجد بنانے کی ضرورت پیش آئی تو زمین کی ساری قیمت حضرت ابوبکرؓ نے ادا کی ۔
لڑائیوں میں مال خرچ کرنے کی ضرورت پیش آتی تھی تو حضرت ابوبکرؓ سب سے آگے ہوتے تھے ۔
ایک موقع پر حضرت عمرؓ نے اپنا آدھا مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لا حاضر کیا اور خیال کیا کہ وہ اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ سے ضرور سبقت لے جائیں گے ۔ حضرت ابوبکرؓ آئے اور جو کچھ انکے پاس تھا سب کا سب حاضر کر دیا ۔رسول اللہ صلعم نے دریافت کیا کہ گھر میں کیا چھوڑ کر آئے ہو تو فرمایا کہ اللہ اور اسکا رسول ۔
اپنے غریب رشتہ داروں پر بڑی فیاضی سے خرچ کرتے تھے ۔ مدینہ میں کاروبار سلطنت میں رسول اللہ صلعم کے دست راست تھے ۔ لڑائیوں میں بھی شامل ہوتے اور دشمنوں کامقابلہ کرتے ۔ کوئی ایسی لڑئی نہیں ہوئی جس میں رسول اللہ صلعم شامل ہوئے ہوں اور حضرت ابوبکرؓ پیچھے رہ گئے ہوں "
لڑائیوں میں مال خرچ کرنے کی ضرورت پیش آتی تھی تو حضرت ابوبکرؓ سب سے آگے ہوتے تھے ۔
ایک موقع پر حضرت عمرؓ نے اپنا آدھا مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لا حاضر کیا اور خیال کیا کہ وہ اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ سے ضرور سبقت لے جائیں گے ۔ حضرت ابوبکرؓ آئے اور جو کچھ انکے پاس تھا سب کا سب حاضر کر دیا ۔رسول اللہ صلعم نے دریافت کیا کہ گھر میں کیا چھوڑ کر آئے ہو تو فرمایا کہ اللہ اور اسکا رسول ۔
اپنے غریب رشتہ داروں پر بڑی فیاضی سے خرچ کرتے تھے ۔ مدینہ میں کاروبار سلطنت میں رسول اللہ صلعم کے دست راست تھے ۔ لڑائیوں میں بھی شامل ہوتے اور دشمنوں کامقابلہ کرتے ۔ کوئی ایسی لڑئی نہیں ہوئی جس میں رسول اللہ صلعم شامل ہوئے ہوں اور حضرت ابوبکرؓ پیچھے رہ گئے ہوں "
جاری ہے
کتاب تاریخ خلافت راشدہ ،باب اول ، صفحہ5
...................................................................................................................................................................
۵:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ
"نبی تو اس امت میں آنے سے رہے"
ابؔ یاد رہے کہ اگرچہ قرآن کریم میں اس قسم کی بہت سی آیتیں ایسی ہیں کہ جو اس امت میں خلافت دائمی کی بشارت دیتی ہیں اور احادیث بھی اس بارے میں بہت سی بھری پڑی ہیں لیکن بالفعل اس قدر لکھنا ان لوگوں کے لئے کافی ہے جو حقائق ثابت شدہ کو دولت عظمیٰ سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں اور اسلام کی نسبت اس سے بڑھ کر اور کوئی بداندیشی نہیں کہ اس کو مردہ مذہب خیال کیا جائے اور اس کی برکات کو صرف قرن اول تک محدود رکھا جاوے۔
کیا وہ کتاب جو ہمیشہ کی سعادتوں کا دروازہ کھولتی ہے وہ ایسی پست ہمتی کا سبق دیتی ہے کہ کوئی برکت اورخلافت آگے نہیں بلکہ سب کچھ پیچھے رہ گیا ہے۔
نبی تو اس امت میں آنے کو رہے اب اگر خلفاء نبی بھی نہ آویں اور وقتاً فوقتاً روحانی زندگی کے کرشمے نہ دکھلاویں تو پھر اسلام کی روحانیت کا خاتمہ ہے.
اور پھر ایسےمذہب کو موسوی مذہب کی روحانی شوکت اور جلال سے نسبت ہی کیا ہے جس میں ہزارہا روحانی خلیفے چودہ۱۴۰۰ سو برس تک پیدا ہوتے رہے اور افسوس ہے کہ ہمارے معترض ذرہ نہیں سوچتے کہ اس صورت میں اسلام اپنی روحانیت کے لحاظ سے بہت ہی ادنٰے ٹھہرتا ہے اور نبی متبوع صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ کچھ بہت بڑا نبی ثابت نہیں ہوتا اور قران بھی کوئی ایسی کتاب ثابت نہیں ہوتی جو اپنی نورانیت میں قوی الاثر ہو
پھر یہ کہنا کہ یہ امت خیر الامم ہے اور دوسری امتوں کے لئے ہمیشہ روحانی فائدہ پہنچانے والی ہے اور یہ قرآن سب الٰہی کتابوں کی نسبت اپنے کمالات اور تاثیر وغیرہ میں اکمل واتم ہے اور یہ رسول تمام رسولوں سے اپنی قوت قدسیہ اور تکمیل خلق میں اکمل واتم ہے کیسا بے ہودہ اور بے معنی اور بے ثبوت دعویٰ ٹھہرے گا
اور پھر یہ ایک بڑا فساد لازم آئے گا کہ قرآن کی تعلیمات کا وہ حصہ جو انسان کو روحانی انوار اور کمالات میں مشابہ انبیاء بنانا چاہتا ہے ہمیشہ کے لئے منسوخ خیال کیا جائے گا کیونکہ جب کہ امت میں یہ استعداد ہی نہیں پائی جاتی کہ خلافت کے کمالات باطنی اپنے اندر پیدا کر لیں تو ایسی تعلیم جواس مرتبہ کے حاصل کرنے کے لئے تاکید کررہی ہے محض لا حاصل ہوگی۔
درحقیقت فقط ایسے سوال سے ہی کہ کیا اسلام اب ہمیشہ کے لئے ایک مذہب مردہ ہے جسؔ میں ایسے لوگ پیدا نہیں ہوتے جن کی کرامات معجزات کے قائم مقام اور جن کے الہامات وحی کے قائم مقام ہوں بدن کانپ اٹھتا ہے چہ جائیکہ کسی مسلمان کا نعوذ باللہ ایسا عقیدہ بھی ہو خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت کرے جو ان ملحدانہ خیالات میں اسیر ہیں۔"
کیا وہ کتاب جو ہمیشہ کی سعادتوں کا دروازہ کھولتی ہے وہ ایسی پست ہمتی کا سبق دیتی ہے کہ کوئی برکت اورخلافت آگے نہیں بلکہ سب کچھ پیچھے رہ گیا ہے۔
نبی تو اس امت میں آنے کو رہے اب اگر خلفاء نبی بھی نہ آویں اور وقتاً فوقتاً روحانی زندگی کے کرشمے نہ دکھلاویں تو پھر اسلام کی روحانیت کا خاتمہ ہے.
اور پھر ایسےمذہب کو موسوی مذہب کی روحانی شوکت اور جلال سے نسبت ہی کیا ہے جس میں ہزارہا روحانی خلیفے چودہ۱۴۰۰ سو برس تک پیدا ہوتے رہے اور افسوس ہے کہ ہمارے معترض ذرہ نہیں سوچتے کہ اس صورت میں اسلام اپنی روحانیت کے لحاظ سے بہت ہی ادنٰے ٹھہرتا ہے اور نبی متبوع صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ کچھ بہت بڑا نبی ثابت نہیں ہوتا اور قران بھی کوئی ایسی کتاب ثابت نہیں ہوتی جو اپنی نورانیت میں قوی الاثر ہو
پھر یہ کہنا کہ یہ امت خیر الامم ہے اور دوسری امتوں کے لئے ہمیشہ روحانی فائدہ پہنچانے والی ہے اور یہ قرآن سب الٰہی کتابوں کی نسبت اپنے کمالات اور تاثیر وغیرہ میں اکمل واتم ہے اور یہ رسول تمام رسولوں سے اپنی قوت قدسیہ اور تکمیل خلق میں اکمل واتم ہے کیسا بے ہودہ اور بے معنی اور بے ثبوت دعویٰ ٹھہرے گا
اور پھر یہ ایک بڑا فساد لازم آئے گا کہ قرآن کی تعلیمات کا وہ حصہ جو انسان کو روحانی انوار اور کمالات میں مشابہ انبیاء بنانا چاہتا ہے ہمیشہ کے لئے منسوخ خیال کیا جائے گا کیونکہ جب کہ امت میں یہ استعداد ہی نہیں پائی جاتی کہ خلافت کے کمالات باطنی اپنے اندر پیدا کر لیں تو ایسی تعلیم جواس مرتبہ کے حاصل کرنے کے لئے تاکید کررہی ہے محض لا حاصل ہوگی۔
درحقیقت فقط ایسے سوال سے ہی کہ کیا اسلام اب ہمیشہ کے لئے ایک مذہب مردہ ہے جسؔ میں ایسے لوگ پیدا نہیں ہوتے جن کی کرامات معجزات کے قائم مقام اور جن کے الہامات وحی کے قائم مقام ہوں بدن کانپ اٹھتا ہے چہ جائیکہ کسی مسلمان کا نعوذ باللہ ایسا عقیدہ بھی ہو خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت کرے جو ان ملحدانہ خیالات میں اسیر ہیں۔"
روحانی خزائن جلد 6 صفحات 355، 356
...................................................................................................................................................................
۶:دینی مسائل اور انکا حل
ارشاد مبارک حضرت مجدد اعظم و امام الزمان
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی رحمتہ اللہ علیہ راگ
بعض لوگ راگ سنتے ہیں آیا یہ جائز ہے ؟
"اس طرح سے بزرگان دین پر بد ظنی کرنا اچھا نہیں ۔ حسن ظن سے کام لینا چاہیے ۔ حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اشعار سنے تھے ۔ لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک صحابی مسجد میں شعر پڑھتا تھا ۔حضرت عمرؓ نے اسکو منع کیا ۔
اس نے جواب دیا، میں نبی کریم صلعم کے سامنے مسجد میں شعر پڑھا کرتا تھا ۔توکون ہے جو مجھے روک سکے ۔ یہ سنکر امیرالمومنین بالکل خاموش ہوگئے۔
قرآن شریف کو بھی خوش الحانی سےپڑھنا چاہیے ۔بلکہ اسقدر تاکید ہے کہ جو شخص قرآن شریف کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ اور خود اس میں ایک اثر ہے ۔
عمدہ تقریر اگر خوش الحانی سے کی جائے تو اسکا بھی اثر ہوتا ہے ۔ وہی تقریر ژولیدہ زبان سے کی جائے تو اس میں کوئی اثر نہیں ہوگا۔
جس شے میں خدا نے تاثیررکھی ہے اور اسکو اسلام کی طرف کھینچنے کا آلہ بنایا جاوے تو اس میں کیا حرج ہے ۔
حضرت داود کی زبور گیتوں میں تھی جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ جب حضرت داود علیہ السلام خدا کی مناجات تھے تو پہاڑ بھی اسکے ساتھ روتے تھے اور پرندے بھی اسکے ساتھ تسبیح کرتے تھے "
اس نے جواب دیا، میں نبی کریم صلعم کے سامنے مسجد میں شعر پڑھا کرتا تھا ۔توکون ہے جو مجھے روک سکے ۔ یہ سنکر امیرالمومنین بالکل خاموش ہوگئے۔
قرآن شریف کو بھی خوش الحانی سےپڑھنا چاہیے ۔بلکہ اسقدر تاکید ہے کہ جو شخص قرآن شریف کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ اور خود اس میں ایک اثر ہے ۔
عمدہ تقریر اگر خوش الحانی سے کی جائے تو اسکا بھی اثر ہوتا ہے ۔ وہی تقریر ژولیدہ زبان سے کی جائے تو اس میں کوئی اثر نہیں ہوگا۔
جس شے میں خدا نے تاثیررکھی ہے اور اسکو اسلام کی طرف کھینچنے کا آلہ بنایا جاوے تو اس میں کیا حرج ہے ۔
حضرت داود کی زبور گیتوں میں تھی جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ جب حضرت داود علیہ السلام خدا کی مناجات تھے تو پہاڑ بھی اسکے ساتھ روتے تھے اور پرندے بھی اسکے ساتھ تسبیح کرتے تھے "
البدر ۱۷ نومبر ۱۹۰۵ ء
...................................................................................................................................................................
۷:پیغام امیر قوم
حضرت مولانا محمدعلیؒ
حضرت مولانا محمدعلیؒ
خطبہ جمعہ
لنک ملاحظہ فرمائیں
...................................................................................................................................................................
۸:
ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف
مستقل سیکشن
انکی اپنی قلم سے
عقیدہ کس نے بدلا ؟
قادیانی جماعت کے پیشواء ثانی اور ہمنواوں نے
یا جماعت احمدیہ لاہور نے؟
میرا عقیدہ دربارہ نبوت مسیح موعودؑ کیاتھا؟ میں نے اسکو ابتدائے اختلاف ہی میں کھول کر بیان کردیا تھا ۔میں پہلے بھی اسی پر قائم تھا، اب بھی اسی پر قائم ہوں اور انہیں الفاظ میں پھر اپنے عقیدہ کو نقل کرتا ہوں
"میں یہ مانتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ شرعی اصطلاح میں نبی اور رسول نہ تھے ۔یعنی نبی اس لئے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ پر غیب کے اخبار ظاہر کرتا تھا اور رسول اس لئے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مامور کر کے اصلاح کےلئے بھیجا تھا ۔
یعنی آپ ان معنوں میں نبی اور رسول تھے جن معنوں میں اس امت کے دوسرے مجدد بھی نبی اور رسول کہلا سکتے ہیں "
......................
"اس امت کے دوسرے مجددوں پر آپؒ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپؒ کی آمد کے متعلق صریح پیشگوئیاں موجود ہیں ۔۔۔۔ پھر جس عظیم الشان فتنہ کی اصلاح کےلئے آپکو ؒ بھیجا گیا، دوسرے کسی مجدد کو اتنا عظیم الشان کام سپرد نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔
......................
ایسا ہی آپکوؒ کو جو علم کلام دیا گیا وہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس کو لیکر مسلمان کل مذاہب پر غالب آ سکتے ہیں ، دوسرے کسی مجدد کو ایسا علم کلام نہیں دیا گیا ۔"
......................
"میں حقیقی نبوت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم یقین کرتا ہوں ۔آپؐ کے بعد نہ کوئی پرانا نبی واپس آئے گا نہ کوئی نیا نبی مبعوث ہوگا"
منقول از میرے عقائد، مطبوعہ ۳۳ اگست ۱۹۱۴ء
......................
"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر قسم اٹھاتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ میرے علم میں ۱۹۰۱ ء سے لیکر ۱۹۰۸ء تک حضرت مسیح موعودؑ کا یہی عقیدہ تھا کہ انکا نہ ماننے والا بھی مسلمان اور دائرہ اسلام میں ہے اور انکا منکر کافر اور دائرہ اسلام سے خارج نہیں اور میرا بھی یہی عقیدہ ۱۹۰۱ء سے لیکر آج تک بربنائے عقیدہ حضرت مسیح موعودؑ ہے "
پیغام صلح ۔لاہور۔۲۱ستمبر ۱۹۴۴
......................
"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اس بات پر حلف اٹھاتا ہوں کہ میرا عقیدہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب قادیانی مجدد اور مسیح موعودؑ ہیں مگر نبی نہیں اور نہ انکے انکار سے کوئی شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے
اور یہی عقیدہ حضرت مرزا صاحب کا تھا
اے خدا اگر میں نے تیر نام لیکر اس قسم کے کھانے میں جھوٹ بولا ہے تو تو اپنی طرف سے ایسی عبرت ناک سزا مجھ پر بھیج جس میں انسانی ہاتھ کا کوئی دخل نہ ہو اور جس سے دنیا سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھا کرمخلوق خدا کو دھوکہ دینے والوں پر خدا تعالیٰ کی گرفت کتنی سخت اور درد ناک ہوتی ہے "
پیغام صلح ۔لاہور۔۱۱دسمبر ۱۹۴۶
......................
"ہم اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ ۱۹۰۱ ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دعوی میں تبدیلی کی"
ستر بزرگان لاہور کا حلف
......................
......................
حضرت مولانا نور الدینؒ کا عقیدہ
انکی اپنی قلم سے
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
دل چیر کر دیکھا یا دکھانا انسانی طاقت سے باہر ہے ۔قسم پر کوئی اعتبار کرے تو واللہ العظیم کے برابر کوئی قسم مجھے نظر نہیں آتی۔نہ آپ میرے ساتھ میری موت کے بعد ہونگے نہ کوئی اور میرے ساتھ سوائے میرے ایمان و اعمال کے ہوگا۔پس یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش ہونے والا ہے ۔
میں مرزا صاحب کو مجدد اس صدی کا یقین کرتا ہوں ۔میں انکو راستباز مانتاہوں ۔
حضرت محمد الرسول اللہ النبی العربی المکی المدنی خاتم النبیین کا غلام اور اسکی شریعت کا بدل خادم مانتا ہوں اور مرزا خود اپنے آپکو جاں نثار غلام نبی عربی محمدؐ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن مناف کامانتے تھے
نبی کے لغوی معنی پیش از وقت اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر خبر دینے والا ہم لوگ یقین کرتے ہیں نہ شریعت لانے والا۔
مرزا صاحب اور میں خود جو شخص ایک نقطہ بھی قرآن شریف کا اور شریعت محمدؐ رسول کا نہ مانے، میں اسے کافر اور لعنتی اعتقاد کرتا ہوں ۔
یہی میرا اعتقاد ہے اور یہی میرے نزدیک مرزا غلام احمد کا تھا ۔
کوئی رد کرے یا نہ مانے یا منافق کہے اس کا معاملہ حوالہ بخدا۔
نورالدین بقلم خود
۲۲ اکتوبر ۱۹۱۰ء
......................
قادیانی جماعت کے پیشواء
مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کا سابقہ عقیدہ
خود انکی اپنی قلم سے
"اس آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپؐ کے بعد کوئی شخص نہیں آئے گا جس کو نبوت کے مقام پر کھڑا کیا جائے اور وہ آپؐ کی تعلیم کو منسوخ کر دے اور نئی شریعت جاری کر دے ۔بلکہ جسقدر
اولیاء اللہ
ہونگے اور متقی اور پرھیز گار لوگ ہونگے سب کو آپؐ کی غلامی میں ہی ملے گیا جو کچھ ملے گا ۔
اس طرح خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ
آپؐ کی نبوت نہ صرف اس زمانہ کےلئے ہے بلکہ
آئندہ بھی کوئی نبی نہیں آئے گا"
تشحیذ الاذہان بابت اپریل ۱۹۱۰ء
......................
قادیانی جماعت کے ھیڈ
مولوی محمد سرور شاہ صاحب کا سابقہ عقیدہ
"لفظ نبی کے معنی اپنے مصدروں کے لحاظ سے دو ہیں ۔
اول اپنے خدا سے اخبار غیب پانے والا
دوئم عالی مرتبہ شخص ۔جس شخص کو اللہ تعالیٰ بکثرت شرف مکالمہ سے ممتاز کرے اور غیب کی خبروں پر مطلع کرے ، وہ نبی ہے
اس رنگ میں میرے نزدیک تمام مجددین سابق مختلف مدارج کے انبیاء گزرے ہیں "
بدر مورخہ ۱۶ فروری ۱۹۱۱ء
......................
مفتی محمد صادق صاحب کا سابقہ عقیدہ
اس کو عربی لغت میں نبی کہتے ہیں
"شبلی نے دریافت کیا کہ کیاہم لوگ مرزا صاحب کونبی مانتے ہیں ؟
میں نے عرض کیا کہ ہمارا عقیدہ اس معاملہ میں دیگر مسلمانوں کی طرح ہے کہ آنحضرت صلعم خاتم النبیین ہیں ۔
آپکے بعد کوئی دوسرا نبی آنیوالانہیں ۔نہ نیا نہ پرانا ۔
ہاں مکالمات الٰہیہ کا سلسلہ برابر جاری ہے وہ بھی آنحضرت صلعم کے طفیل آپؐ سے فیض حاصل کر کے اس امت میں ایسے آدمی ہوتے رہے جنکو الہام الٰہی سے مشرف کیا گیا اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے ۔
چونکہ حضرت مرزا صاحب بھی الہام الہی سے مشرف ہوتے رہے اور الہام الٰہی کے سلسلہ میں آپکو خدا تعالیٰ نے بہت سی آئندہ کی خبریں بطور پیشگوئی کے بتلائی تھیں جو پوری ہوتی رہیں اس واسطے مرزا صاحب ایک پیشگوئی کرنے والے تھے اور اسکو
عربی لغت میں نبی کہتے ہیں "
بدر۔جلد نمبر ۹ ، ۵۱/۵۲
......................
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)
ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام
"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "
روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹
......................
یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "
سراج منیر،صفحہ ۳
......................
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"
......................
روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209
......................
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر
روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65)
......................
انکے اپنے اشعار میں
ما مسلمانیم از فضلِ خدا
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا
اندریں دیں آمدہ از مادریم
ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم
آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست
بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست
یک قدم دوری ازاں روشن کتاب
نزد ماکفر است و خسران و تباب
آں رسولے کش محمدؐ ہست نام
دامنِ پاکش بدستِ ما مدام
مہرِ اوباشیرشداندربدن
جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن
ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام
(کتاب سراج منیر، ضمیمہ صفحہ ز)
ایک ضروری تجویز
بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ مزید جن احباب تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ
خدام و مبلغین
عالمگیرجماعت احمدیہ
انجمن اشاعت اسلام
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام
No comments :
Post a Comment