Sunday, November 23, 2014

مبلغ(آن لائن)-23 نومبر 2014، ہفتہ وار شمارہ:50


 مبلغ (آنلائن)


روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان



بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت

 حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ

عالمگیر جماعت احمدیہ


 انجمن اشاعت اسلام


اتوار ۔۲۳ نومبر ۲۰۱۴ء

ہفتہ وار شمارہ نمبر:50

Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com




اس ہفتہ کی کتاب 
المصلح الموعود
از 
حضرت مولانا محمدعلیؒ 

 سیکشن نمبر 8 میں ملاحظہ فرمائیں 





۱:کلامِ الٰہی 


لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا

الفتح: 18



ترجمہ:۔ 

یقیناً اللہ مومنوں سے راضی ہوا جب وہ درخت نے نیچے تجھ سے بیعت کر رہے تھے، سو اس نے جان لیا جو کچھ ان کے دلوں میں تھا، پس ان پر تسکین نازل کی ۔۔۔اور انہیں بدلے میں ایک قریب فتح دی 
تفسیر

بیعت رضوان 
اسی آیت کی وجہ سے اس بیعت کا نام بیعت الرضوان مشہور ہے اور یہ حدیبیہ کے مقام پر ایک سمرہ یعنی کیکر کے درخت نے نیچے ہوئی۔ 
اصحاب بیعت رضوان کی تعداد تیرہ سو ، چودہ سو اور پندرہ سو بیان کی گئی ہےاور صحیح چودہ سو ہی ہے ۔

واقعات اس بیعت کے یہ ہیں جب آنحضرت صلعم ذیقعد ۶ ہجری کی پہلی تاریخ مدینہ سے ایک رویاء کی بنا پر نکل کر عمرہ کے ارادہ سے حدیبیہ کے مقام پر پہنچے جو مکہ سے نو میل ہے تو آپؐ    نے ایک شخص خراش نام کو قریش کے پاس اس غرض کےلئے  بھیجا کہ انہیں اطلاع دے کہ آپؐ   صرف عمرہ کےلئے آئے ہیں۔ اور کوئی غرض نہیں تاکہ انکی طرف سے کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ مگر انھوں نے اسکے اونٹ کو مار ڈالا اور خود اسے مار دینا چاہتے تھے مگر بعض لوگوں  نے روک دیا ۔ 

تب آپؐ   نے حضرت عثمانؓ کو بھیجا مگر قریش نے انکی بات کو بھی نہ سنا اور کہا کہ خود طواف کرنا چاہتے ہو تو کر لو۔ انھوں نے فرمایا کہ میں رسول اللہ صلعم کے بغیر نہیں کر سکتا ۔ تب انھوں نے حضرت عثمانؓ کو قید کر دیا ۔

ادھر رسول اللہ صلعم اور مسلمانوں کو یہ خبر پہنچی کہ حضرت عثمان ؓ قتل ہو گئے ہیں اور آپؐ    نے فرمایا کہ ہم نہیں جائیں گے جب تک ان سے بدلہ نہ لے لیں اور ایک منادی نے آواز دی کہ روح القدس آنحضرت صلعم پر نازل ہوئی ہے اور آپؐ   کو بیعت کا حکم دیا ہے ۔چنانچہ لوگوں نے آپؐ    سے بیعت کی (ر) اور بخاری میں ہے کہ یہ بیعت موت پر تھی ۔ اور مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ اس بات پر تھی کہ ہم بھاگیں گے نہیں اور بخاری میں سعید بن المسیب کا قول ہے کہ جب اگلے سال ہم نکلے تو اس درخت کا ہمیں پتہ نہ ملا  


بیعت سے قوت کا پیدا ہونا

اس بیعت کا نتیجہ بیان فرمایا ہے  فاانزل السکینة علیھم ۔یعنی انہیں اطمینان خاطر حاصل ہوااور انکے قلوب پر اللہ تعالیٰ کی طر ف سے سکینت نازل ہوئی اور انکے دل مضبوط ہوگئے۔ اور ہرقسم کا خوف انکے دلوں سے جاتا رہا۔

 اور تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود ایک طاقتور ردشمن کے عین گھر میں ہونے کے اسقدر دشمن کی بے رعبی انکے دلوں میں تھی کہ وہ ان شرائط پر بھی راضی نہ تھے اور مرنے مارنے کو تیار تھے۔ 

اور علم ما فی قلوبھم میں اشارہ انکے صدق و اخلاص کی طرف ہے اور اثابھم فتح قریبا میں جس قریبی فتح کا ذکر ہے وہ فتح خیبر ہے جو حدیبیہ سے واپسی کے جلد بعد ہی ظہور میں آگئی جیسا کہ ابن عباس ؓ قتادہ وغیرہما سے مروی ہے اور حسن نے فتح ہجر کہا ہے ۔ اور صحیح بخاری میں ہے کہ اہل بحرین سے آپؐ    نے صلح کی اور مجوس ہجر سے جزیہ لیا(ر)۔

مگر پہلا قول صحیح ہے کیونکہ آگے آیت ۲۷ میں صاف فرمایا 
فجعل من دون ذالک فتحا قریبا ۔یعنی یہ فتح قریب خانہ کعبہ کی زیارت اور طواف سے پہلے پہلے ہو گی ۔دیکھو نوٹ نمبر ۳۱۱۳ جہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ دوبارہ عمرہ کےلئے نکلنےسے پیشتر آپؐ   خیبر کو فتح کر چکے تھے ۔ اور اگلی آیت میں مغانم کثیرة سے مراد مغانم خیبر ہیں جیسا کہ احمد کی حدیث میں ہے (ر)۔

یا فتح قریب سے مراد فتح خیبر ہے اور مغانم کثیرة میں اشارہ اور فتوحات کی طرف ہے جیسے فتح مکہ حنین وغیرہ ۔میرے نزدیک دوسری بات کو ترجیح ہے دیکھو اگلا نوٹ۔

آنحضرت صلعم کا صحابہؓ سے اس موقع پر بیعت لینا حالانکہ وہ نہ صرف سچے دل سے مسلمان تھے بلکہ اسلام کے لئے اپنا سب کچھ فدا کر چکے تھے اور بارہا اپنی جانیں اور سر بھی خدا کی راہ میں پیش کر چکے تھے، بتاتا ہے کہ بعض وقت خاص ضروریات کےلئے بھی بیعت کی ضرورت واقع ہوجاتی ہے ۔ 

یہ وہ بیعت نہیں جو عام طور پر صوفیا لیتے ہیں بلکہ ایک خاص غرض کےلئے بیعت لی گئی اور اللہ تعالیٰ کے حکم ماتحت بیعت لی گئی جیسا کہ ان الفاظ سے ظاہر ہے جو اوپر نقل ہوئےکہ روح القدس نے آپؐ    پر نازل ہو کر آپکو حکم دیا ہے کہ بیعت لیں ۔

اسی طرح اگر اس امت میں کوئی مجدد  اللہ تعالیٰ کی طر ف مامور ہو کر اسی کے حکم سے بیعت لے تو مسلمانوں کا فرض ہے کہ لبیک کہیں ۔ یہ بیعت ایک قوت پیدا کرنے کا موجب ہوتی ہے ۔جیسے یہاں بھی اس بیعت پر اللہ تعالیٰ نے سکینت نازل فرمائی ۔ اسی قبیل سے وہ بیعت ہے جو اس صدی کے مجدد اوراس امت کے مسیح (حضرت مرزا غلام احمدؒ،ناقل) نے لی ۔ جسکی غرض صرف ایک قوی جماعت کا تیار کرنا ہے جو کسر صلیب کے کام کو اتمام کو پہنچائے۔



بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ

...................................................................................................................................................................


۲:حدیثِ نبویؐ
درود کیسے بھیجیں ؟

عبدالرحمن سے روایت ہے کہا ۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے کہا یا رسول اللہ ہم کسطرح آپؐ   پر درود بھیجیں ۔ فرمایا کہو


ائے اللہ محمدؐ پر اور محمدؐ کے سچے پیرووں پر رحمت بھیج جیسے تو نے ابراھیم اور ابراھیم کے پیرووں پر رحمت بھیجی تو تعریف کیا گیا بڑائی کا مالک ہے ائے اللہ محمدؐ اور محمدؐ کے سچے پیرووں پر برکتیں بھیج جس طرح تو نے ابراھیمؑ اور ابراھیمؑ کے پیرووں پر برکتیں بھیجیں تو تعریف کیا گیا بڑائی کا مالک ہے 

مشکوٰاة(4: 16 بروایت بخاری و مسلم )

نوٹ: یہ اسی درود کا ترجمہ ہے جو ہم بزبان عربی نماز میں پڑھتے ہیں۔ناقل


کتاب: احادیث العمل صفحہ167
از
 حضرت مولانا محمدعلیؒ 


...................................................................................................................................................................


۳:سیرت خیر البشرؐ
باب سوئم
آنحضرتؐ    سے پہلے ملک عرب کی اصلاح کی کوششیں

لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنْفَكِّينَ حَتَّىٰ تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ

(البینة:1،2)
جو لوگ اہل کتاب میں سے کافر ہیں اور مشرک آزاد ہونے والےنہ تھے یہاں تک کے انکے پاس کھلی دلیل آئے، یعنی اللہ کی طرف سے رسول جو پاک صحیفے پڑھتا ہے 
از
 حضرت مولانا محمد علی 

نوٹ:  حضرت مولانا محمد علیؒ  کے اس عظیم الشان شاہکار اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ امی و ابی کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب سیرت خیرالبشر ؐ کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ


تینوں(تحریکاتِ    اصلاح) کی ناکامی اور عرب کی گناہ کی غلامی

"علاوہ ازیں اوپر سے ایک عظیم الشان عیسائی سلطنت روما کا اثراور عرب قوموں کا جو عرب شام میں رہتی تھیں ، اس دین کو قبول کر لینا ۔

 یمن کی طرف سے عیسائی شاہانِ حبش کا اثر یمن کے ایک حصہ کا عیسائی ہوجانا بلکہ حیرہ اور غسان کی سلطنتوں پر بھی عیسائیت کا غالب آجانا، یہ وہ نہایت ہی قوی اسباب تھے جو شائد ہی کبھی کسی مذہب کو میسر آئے ہوں۔ اورا نکے ماتحت عرب کا عیسائی ہو جانا چند دن کا کام معلوم ہوتا تھا۔ 

مگر سوائے عرب کی شراب خوری، قمار بازی اور مرد و عورت کے معیوب تعلقات بڑھانے کے اور کوئی اثر اس مذہب کا بحیثیت مجموعی ملک عرب پر نہیں ہو۔"

جاری ہے 

کتاب سیرت خیرالبشرؐ،باب سوئم ، صفحہ29



...................................................................................................................................................................

۴:تاریخ خلافت راشدہؓ
از حضرت مولانا محمد علیؒ 
حضرت ابوبکر صدیقؓ
زمانہ خلافت
۲ ربیع الاول ۱۱ ہجری تا ۲۲ جمادی الثانی ۱۳ ہجری
جون ۶۳۲ء تا اگست ۶۳۴ء 

نوٹ:  حضرت مولانا محمد علیؒ  کے اس عظیم الشان شاہکار اور خلفائے راشدین کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب تاریخ خلافت راشدہ کو  کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ

حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کی دور اندیشی


"حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ کی دور اندیشی کا یہ نتیجہ تھا کہ اسلام ایک خطرناک مصیبت سے بچ گیا ورنہ اگر فوراً سقیفہ بنی ساعدہ میں نہ پہنچ جاتے اور اس سوال کو اپنی فراست صحیحہ سے حل نہ کر لیتے، یہاں تک کہ سب لوگ اس بات پر متفق ہوگئے، تو اسلام کو ایک سخت اندرونی تفرقہ کا سامنا کرناپڑتا۔

بلاشبہ ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیزوتکفین کا کام تھا اور وہ لوگ جنھوں نے چوتھائی صدی سے اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو آپؐ    پر قربان کر رکھا تھا، جو ایک لمحہ کےلئے آپؐ    سے علیحدگی کو گوارا نہ کر سکتے تھے ۔ انکا دل یہی چاہتا تھا کہ آپؐ   کی پیکر مبارک کو اپنے ہاتھوں سے تیارکریں، لیکن انھوں نے اپنی خواہشات پر قومی ضرورت کو مقدم کیا اور اسلام کی وہ خدمت کی جسکےلئے ہمیشہ ہر مسلمان انکا مرہون ِ منت رہے گا "



جاری ہے


کتاب تاریخ خلافت راشدہ ،باب اول ، صفحہ 7 تا 8

...................................................................................................................................................................

۵:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ 



پاکدامن رہنے کے پانچ علاج


اس جگہ یاد رہے کہ یہُ خلق جس کا نام احصان یا عفت ہے یعنی پاکدامنی۔ یہ اسی حالت میںُ خلق کہلائے گا جبکہ ایسا شخص جو بدنظری یا بدکاری کی استعداد اپنے اندر رکھتا ہے یعنی قدرت نے وہ قویٰ اس کو دے رکھے ہیں جن کے ذریعہ سے اس جرم کا ارتکاب ہو سکتا ہے۔ اس فعل شنیع سے اپنے تئیں بچائے اور اگر بباعث بچہ ہونے یا نامرد ہونے یا خوجہ ہونے یا پیر فرتوت ہونے کے یہ قوت اس میں موجود نہ 
ہو تو اس صورت میں ہم اس کو اسُ خلق سے جس کا نام احصان یا عفت ہے موصوف نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


لہذا خدا کی پاک کتاب میں دونوں مرد اور عورت کیلئے یہ تعلیم فرمائی گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایمانداروں کو جو مرد ہیں کہہ دے کہ آنکھوں کو نامحرم عورتوں کے دیکھنے سے بچائے رکھیں اور ایسی عورتوں کو کھلے طور سے نہ دیکھیں جو شہوت کا محل ہو سکتی ہوں اور ایسے موقعہ پر خوابیدہ نگاہ کی عادت پکڑیں اور اپنے ستر کی جگہ کو جس طرح ممکن ہو بچاویں۔ ایسا ہی کانوں کو نا محرموں سے بچاویں یعنی بیگانہ عورتوں کے گانے بجانے اور خوش الحانی کی آوازیں نہ سنیں۔ ان کے حسن کے قصے نہ سنیں۔ یہ طریق پاک نظر اور پاک دل رہنے کیلئے عمدہ طریق ہے۔ ایسا ہی ایماندار عورتوں کو کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو نامحرم مردوں کے دیکھنے سے بچائیں اور اپنے کانوں کو بھی نامحر موں سے  بچائیں یعنی ان کی ُ پرشہوت آوازیں نہ سنیں اور اپنے ستر کی جگہ کو پردہ میں رکھیں ۔اور اپنی زینت کے اعضاء کو کسی غیر محرم پر نہ کھولیں اور اپنی اوڑھنی کو اس طرح سر پر لیں کہ گریبان سے ہوکر سر پر آجائے یعنی گریبان اور دونوں کان اور سر اور کنپٹیاں سب چادر کے پردہ میں رہیں اور اپنے پیروں کو زمین پر ناچنے والوں کی طرح نہ ماریں۔ یہ وہ تدبیر ہے کہ جس کی پابندی ٹھوکر سے بچا سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 پاکدامن رہنے کیلئے پانچ علاج ان آیات میں خدا تعالیٰ نے خلق احصان یعنی عفت کے حاصل کرنے کیلئے صرف اعلیٰ تعلیم ہی نہیں فرمائی بلکہ انسان کو پاک دامن رہنے کیلئے پانچ علاج بھی بتلا دئیے ہیں۔ یعنی یہ کہ (۱)اپنی آ نکھوں کو نامحرم پر نظر ڈالنے سے بچانا(۲) کانوں کو نامحرموں کی آواز سننے سے بچانا۔ (۳)نامحرموں کے قصے نہ سننا(۴) اور دوسری تمام تقریبوں سے جن میں اس بدفعل کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے اپنے تئیں بچانا(۵) اگر نکاح نہ ہو تو روزہ رکھنا وغیرہ۔ 

اس جگہ ہم بڑے دعویٰ کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ اعلیٰ تعلیم ان سب تدبیروں کے ساتھ جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہیں صرف اسلام سے ہی خاص ہے اور اس جگہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ چونکہ انسان کی وہ طبعی حالت جو شہوات کا منبع ہے جس سے انسان بغیر کسی کامل تغیر کے الگ نہیں ہو سکتا یہی ہے کہ اس کے جذباتِ شہوت محل اور موقع پاکر جوش مارنے سے رہ نہیں سکتے یا یوں کہو کہ سخت خطرہ میں پڑ جاتے ہیں۔ 

اس لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی کہ ہم نامحرم عورتوں کو بلا تکلفؔ دیکھ تو لیا کریں اور ان کی تمام ز ینتوں پر نظر ڈال لیں۔ اور ان کے تمام انداز ناچنا وغیرہ مشاہدہ کرلیں لیکن پاک نظر سے دیکھیں اور نہ یہ تعلیم ہمیں دی ہے کہ ہم ان بیگانہ جوان عورتوں کا گانا بجانا سن لیں اور ان کے حسن کے قصے بھی سنا کریں لیکن پاک خیال سے سنیں بلکہ ہمیں تاکید ہے کہ ہم نامحرم عورتوں کو اور ان کی زینت کی جگہ کو ہرگز نہ دیکھیں۔ نہ پاک نظر سے اور نہ ناپاک نظر سے۔ اور ان کی خوش الحانی کی آوازیں اور ان کے حسن کے قصے نہ سنیں۔ نہ پاک خیال سے اور نہ ناپاک خیال سے۔ بلکہ ہمیں چاہئے کہ ان کے سننے اور دیکھنے سے نفرت رکھیں جیسا کہ مردار سے تا ٹھوکر نہ کھاویں۔ کیونکہ ضرور ہے کہ بے قیدی کی نظروں سے کسی وقت ٹھوکریں پیش آویں۔ سو چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی۔

اسلامی اصول کی فلاسفی
روحانی خزائن ، جلد 10، صفحہ، 340 تا  343
...................................................................................................................................................................


۶:دینی مسائل اور انکا حل

ارشاد مبارک حضرت مجدد اعظم و امام الزمان
مرزا غلام احمد قادیانی رحمتہ اللہ علیہ  

سود کا روپیہ بالکل حرام ہے 

حضور عالی مقام ؑ نے ارشاد فرمایا

"ہمارا مذہب ہے کہ سود کا روپیہ بالکل حرام ہے کہ کوئی شخص اسے اپنے نفس پر خرچ کرے اور کسی قسم کے بھی ذاتی مصارف میں خرچ کرے یا اپنے بال بچے کو دے یا کسی فقیر مسکین کو دے، کسی ہمسایہ کو دے یا مسافر کو دے سب حرام ہے ۔ سود کے روپیہ کا لینا اور خرچ کرنا سب گناہ ہے  "

اقتباس از البدر 29ستمبر 1905و الحکم 24 ستمبر 1905
...................................................................................................................................................................


۷:پیغام امیر قوم
حضرت مولانا محمدعلیؒ



استحکام جماعت کےلئے دلوں کا اتحاد ضروری ہے 

"دوستو اس جماعت کی زندگی اور توسیع کےلئے کوشش کرو ۔ سب کے سب اس مقصد کےلئے اٹھ کھڑے ہو۔ ہر ایک دوست کوئی نہ کوئی کام اپنے ذمہ لے لے ۔ بیشک ہم تھوڑے ہیں اور اس قلت کی وجہ سے ہمیں مشکلات کا سامنا بھی ہے۔ لیکن خلوص اور جوش سے کام کریں تو قلت کے باجود ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں اور بہت کچھ کیا ہے ۔ اور ہم معمولی کوشش کریں تو ہماری تعداد میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے ۔

اس لئے اس چھوٹی سی جماعت کے استحکام اور توسیع کی طرف جو خدمات اسلام کا اسقدر شاندار کام کر رہی ہے ، ہمیں خاص توجہ دینی چاہیے۔ 

استحکام جماعت کےلئے دلوں کا اتحاد ضروری ہے ۔ اس لئے میں تم کو نصیحت کرتاہوں کہ اگر تمھارے دل میں اپنے کسی بھائی کے خلاف کوئی رنجش یا غصہ ہو تو اسکو آج دور کردو۔ آج تمھیں اس خانہ خدا سے اسوقت تک باہر نہ جانا چاہیے جب تک اپنے دلوں کو اپنے بھائیوں کی طرف سے پاک و صاف نہ کر لو ۔ 

بغض و کینہ ہمارے دشمنوں کے دلوں میں ہمارے خلاف تھوڑا ہے؟ کہ ہم خود بھی ایک دوسرے کے خلاف رکھیں ۔ اس لئے  آج آپ سب اپنے دل کی تختیوں کو بغض و کینہ کے غبار سے پاک کر لیں ۔ دلوں کا اتحاد استحکام جماعت کےلئے زیادہ اہم اور اولین ہے ۔

استحکام جماعت کےلئے دوسری بات آپس کا میل ملاپ ہے ۔ ہمیں آپس کے تعلقات کو بڑھانا چاہیے اور ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشی و غمی میں حصہ لینا چاہیے ۔ جب کوئی دوست یا اسکا رشتہ دار بیمار ہو تو اسکی تیمار داری اور عیادت کرنی چاہیے ۔ اگر زیادہ تکلیف ہو تو مرکز میں اطلاع دینی چاہیے تاکہ تمام احباب شریک دعا ہو سکیں ۔

بیمار بھائیوں کی امداد ہمارے ڈاکٹر صاحبان خصوصیت سے کر سکتے ہیں اور خدا کے فضل سے کرتے بھی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ا ن امور کے لئے ہمارے نوجوان خاص طور پر کام کر سکتے ہیں ۔ جسطرح بڑی عمر کے آدمیوں کا دماغ زیادہ کام کرتا ہے اور انکا تجربہ پختہ ہوتا ہے ، اسی طرح نوجوانوں کے قویٰ مضبوط ہوتے ہیں اور ان میں جوش عمل زیادہ ہوتا ہے ۔

ہمارے نوجوانوں کافرض ہے کہ وہ استحکام جماعت کےلئے پوری کوشش کریں اور آپس میں میل ملاپ کو بڑھائیں ۔ اپنے لٹریچر کو پھیلائیں اور اپنے اخبارات پیغامِ صلح اور لائٹ کے مزید خریدار پیدا کریں ۔   "

پیغامِ صلح ، ۳ فروری    ۱۹۳۴ ء
خطبات مولانا محمد علیؒ
جلد ۹، اقباس از صفحہ ۱۵۴ تا ۱۵۵

...................................................................................................................................................................


۸:
 ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف

المصلح الموعود




مستقل سیکشن 

 عقائد حضرت مولانا محمد علی ؒ 
انکی اپنی قلم سے 

تبدیلی عقیدہ کے ناپاک الزام پر حلف
عقیدہ کس نے بدلا ؟
قادیانی جماعت کے پیشواء ثانی اور ہمنواوں نے 
یا جماعت احمدیہ لاہور نے؟



میرا عقیدہ دربارہ نبوت مسیح موعودؑ کیاتھا؟ میں نے اسکو ابتدائے اختلاف ہی میں کھول کر بیان کردیا تھا ۔میں پہلے بھی اسی پر قائم تھا، اب بھی اسی پر قائم ہوں اور انہیں الفاظ میں پھر اپنے عقیدہ کو نقل کرتا ہوں 



"میں یہ مانتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ شرعی اصطلاح میں نبی اور رسول نہ تھے بلکہ ان الفاظ کے لغوی معنوں کی رو سے نبی اور رسول تھے ۔یعنی نبی اس لئے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ پر غیب کے اخبار ظاہر کرتا تھا اور رسول اس لئے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مامور کر کے اصلاح کےلئے بھیجا تھا ۔

یعنی آپ ان معنوں میں نبی اور رسول تھے جن معنوں میں اس امت کے دوسرے مجدد بھی نبی اور رسول کہلا سکتے ہیں "
......................

"اس امت کے دوسرے مجددوں پر آپؒ   کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپؒ   کی آمد کے متعلق صریح پیشگوئیاں موجود ہیں ۔۔۔۔ پھر جس عظیم الشان فتنہ کی اصلاح کےلئے آپکو ؒ بھیجا گیا، دوسرے کسی مجدد کو اتنا عظیم الشان کام سپرد نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔


......................

ایسا ہی آپکوؒ کو جو علم کلام دیا گیا وہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس کو لیکر مسلمان کل مذاہب پر غالب آ سکتے ہیں ، دوسرے کسی مجدد کو ایسا علم کلام نہیں دیا گیا ۔"


......................
"میں حقیقی نبوت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم یقین کرتا ہوں ۔آپؐ    کے بعد نہ کوئی پرانا نبی واپس آئے گا نہ کوئی نیا نبی مبعوث ہوگا"

منقول از میرے عقائد، مطبوعہ ۳۳ اگست ۱۹۱۴ء



......................

"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر قسم اٹھاتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ میرے علم میں ۱۹۰۱ ء سے لیکر ۱۹۰۸ء تک حضرت مسیح موعودؑ کا یہی عقیدہ تھا کہ انکا نہ ماننے والا بھی مسلمان اور دائرہ اسلام میں ہے اور انکا منکر کافر اور دائرہ اسلام سے خارج نہیں اور میرا بھی یہی عقیدہ ۱۹۰۱ء سے لیکر آج تک بربنائے عقیدہ حضرت مسیح موعودؑ ہے "

پیغام صلح ۔لاہور۔۲۱ستمبر ۱۹۴۴



......................

"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اس بات پر حلف اٹھاتا ہوں کہ میرا عقیدہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب قادیانی مجدد اور مسیح موعودؑ ہیں مگر نبی نہیں اور نہ انکے انکار سے کوئی شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے 
اور یہی عقیدہ حضرت مرزا صاحب کا تھا



اے خدا اگر میں نے تیر نام لیکر اس قسم کے کھانے میں جھوٹ بولا ہے تو تو اپنی طرف سے ایسی عبرت ناک سزا مجھ پر بھیج جس میں انسانی ہاتھ کا کوئی دخل نہ ہو اور جس سے دنیا سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھا کرمخلوق خدا کو دھوکہ دینے والوں پر خدا تعالیٰ کی گرفت کتنی سخت اور درد ناک ہوتی ہے "

پیغام صلح ۔لاہور۔۱۱دسمبر ۱۹۴۶



......................

"ہم اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ ۱۹۰۱ ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دعوی میں تبدیلی کی"

ستر بزرگان لاہور کا حلف

......................


......................

حضرت مولانا نور الدینؒ کا عقیدہ
انکی اپنی قلم سے 

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ


دل چیر کر دیکھا یا دکھانا انسانی طاقت سے باہر ہے ۔قسم پر کوئی اعتبار کرے تو واللہ العظیم کے برابر کوئی قسم مجھے نظر نہیں آتی۔نہ آپ میرے ساتھ میری موت کے بعد ہونگے نہ کوئی اور میرے ساتھ سوائے میرے ایمان و اعمال کے ہوگا۔پس یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش ہونے والا ہے ۔
میں مرزا صاحب کو مجدد اس صدی کا یقین کرتا ہوں ۔میں انکو راستباز مانتاہوں ۔
حضرت محمد الرسول اللہ النبی العربی المکی المدنی خاتم النبیین کا غلام اور اسکی شریعت کا بدل خادم مانتا ہوں اور مرزا خود اپنے آپکو جاں نثار غلام نبی عربی محمدؐ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن مناف  کامانتے تھے 



نبی کے لغوی معنی پیش از وقت اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر خبر دینے والا ہم لوگ یقین کرتے ہیں نہ شریعت لانے والا۔



مرزا صاحب اور میں خود جو شخص ایک نقطہ بھی قرآن شریف کا اور شریعت محمدؐ رسول کا نہ مانے، میں اسے کافر اور لعنتی اعتقاد کرتا ہوں ۔



یہی میرا اعتقاد ہے اور یہی میرے نزدیک مرزا غلام احمد کا تھا ۔

کوئی رد کرے یا نہ مانے یا منافق کہے اس کا معاملہ حوالہ بخدا۔

نورالدین بقلم خود 
۲۲ اکتوبر  ۱۹۱۰ء 

......................

قادیانی جماعت کے پیشواء
مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کا سابقہ عقیدہ
خود انکی اپنی قلم سے 


"اس آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپؐ    کے بعد کوئی شخص نہیں آئے گا جس کو نبوت کے مقام پر کھڑا کیا جائے اور وہ آپؐ    کی تعلیم کو منسوخ کر دے اور نئی شریعت جاری کر دے ۔بلکہ جسقدر 

اولیاء اللہ 
ہونگے  اور متقی اور پرھیز گار لوگ ہونگے سب کو آپؐ   کی غلامی میں ہی ملے گیا جو کچھ ملے گا ۔
اس طرح خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ
 آپؐ    کی نبوت نہ صرف اس زمانہ کےلئے ہے بلکہ
آئندہ بھی کوئی نبی نہیں آئے گا"

تشحیذ الاذہان بابت اپریل ۱۹۱۰ء 


......................


قادیانی جماعت کے ھیڈ 

مولوی محمد سرور شاہ صاحب کا سابقہ عقیدہ


"لفظ نبی کے معنی اپنے مصدروں کے لحاظ سے دو ہیں ۔

اول اپنے خدا سے اخبار غیب پانے والا 
دوئم عالی مرتبہ شخص ۔جس شخص کو اللہ تعالیٰ بکثرت شرف مکالمہ سے ممتاز کرے اور غیب کی خبروں پر مطلع کرے ، وہ نبی ہے 



اس رنگ میں میرے نزدیک تمام مجددین سابق مختلف مدارج کے انبیاء گزرے ہیں "
بدر مورخہ ۱۶ فروری ۱۹۱۱ء 


......................

مفتی محمد صادق صاحب کا سابقہ عقیدہ 

اس کو عربی لغت میں نبی کہتے ہیں 



"شبلی نے دریافت کیا کہ کیاہم لوگ مرزا صاحب کونبی مانتے ہیں ؟

میں نے عرض کیا کہ ہمارا عقیدہ اس معاملہ میں دیگر مسلمانوں کی طرح ہے کہ آنحضرت صلعم خاتم النبیین ہیں ۔
آپکے بعد کوئی دوسرا نبی آنیوالانہیں ۔نہ نیا نہ پرانا ۔
ہاں مکالمات الٰہیہ کا سلسلہ برابر جاری ہے وہ بھی آنحضرت صلعم کے طفیل آپؐ    سے فیض حاصل کر کے اس امت میں ایسے آدمی ہوتے رہے جنکو الہام الٰہی سے مشرف کیا گیا اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے ۔



چونکہ حضرت مرزا صاحب بھی الہام الہی سے مشرف ہوتے رہے اور الہام الٰہی کے سلسلہ میں آپکو خدا تعالیٰ نے بہت سی آئندہ کی خبریں بطور پیشگوئی کے بتلائی تھیں جو پوری ہوتی رہیں اس واسطے مرزا صاحب ایک پیشگوئی کرنے والے تھے اور اسکو 

عربی لغت میں نبی کہتے ہیں "
بدر۔جلد نمبر ۹ ، ۵۱/۵۲



......................

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں 
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)

ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام

"نبوت کا دعوی نہیں بلکہ محدثیت کا دعوٰی ہے جو خدا تعالیٰ کےحکم سے کیا گیاہے"

"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "

" یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے؟"

روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹

......................

"میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اورنبی کے میری الہام میں میری نسبت خدا تعالٰی کی طرف سے بے شک ہیں  لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں اور جیسے یہ محمول نہیں ایسا ہی نبی کر کے پکارنا  جو حدیثوں میں مسیح موعودؑ کےلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔
 یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "

سراج منیر،صفحہ ۳
......................
"سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں ۔ آنے والے مسیح موعودؑ  کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویؐ سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور معمولی محاوہ مکالمات الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا؟"
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"
......................

یہ بھی یاد رہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے"
روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209



......................

"سمیت نبیا من اللہ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ"
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر 


روحانی خزائن جلد 22 صفحہ  689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65) 
......................
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب
 انکے اپنے اشعار میں 

ما مسلمانیم از فضلِ خدا 
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا

اندریں دیں آمدہ از مادریم 

ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم

آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست

بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست

یک قدم دوری ازاں روشن کتاب

نزد ماکفر است و خسران و تباب

آں رسولے کش محمدؐ ہست نام

دامنِ پاکش بدستِ ما مدام

مہرِ اوباشیرشداندربدن

 جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن 

ہست اوخیرالرسل خیرالانام

ہر نبوت را بروشد اختتام

(کتاب سراج منیر، ضمیمہ صفحہ ز)

 ایک ضروری تجویز

بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ

خدام و مبلغین 
عالمگیرجماعت احمدیہ 


 انجمن اشاعت اسلام
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام

Tuesday, November 11, 2014

مبلغ(آن لائن)-9نومبر 2014، ہفتہ وار شمارہ:49


 مبلغ (آنلائن)


روحِ اسلام و احمدیت کا حقیقی ترجمان



بیاد گار فخر اسلام و وارث احمدیت

 حضرت امیرقوم مولانا محمد علیؒ

عالمگیر جماعت احمدیہ


 انجمن اشاعت اسلام


اتوار ۔۹ نومبر ۲۰۱۴ء

ہفتہ وار شمارہ نمبر:49

Email
jamaateahmadiyyahalamgeer@gmail.com




اس ہفتہ کی کتاب 
مسیح موعودؑ اور ختم نبوت

از 
حضرت مولانا محمدعلیؒ 

 سیکشن نمبر 8 میں ملاحظہ فرمائیں 





۱:کلامِ الٰہی 

وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

البقرة: 23



ترجمہ:۔ 

 اور اگر تمھیں اس میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا ہے تو ایک سورت اس جیسی لے آو اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اپنے مددگاروں کو بلا لو اگر تم سچے ہو
تفسیر

یہ دعویٰ قرآن مجید میں کئی جگہ ہے کہیں اس رنگ میں کہ اس قرآن کی مثل لاو، کہیں یوں کہ دس سورتیں اس کی مثل بنا کر دکھاو اور آخری اور اقل مطالبہ یہ ہے کہ ایک ہی سورت اس کی مثل بنا کر لے آو۔ یہ تصریح نہیں کہ کس بارہ میں مثل ہو۔
مثل تین باتوں میں چاہیے :

 ایک کتاب یا کلام کا بے مثل ہونا تین باتوں میں ہوسکتا ہے ۔ الفاظ کی ظاہری بندش کے لحاظ سے ،کمال اور جامعیت مضامین میں اور اس اثر کے لحاظ سے جو اس کلام سے پیدا ہو۔

فصاحت و بلاغت و سکن :

فصاحت و بلاغت میں قرآن کا بے مثل ہونا خود اس سے ظاہر ہے کہ یہ زبان عربی میں فصاحت و بلاغت کا معیار مانا جاتا ہے حالانکہ اس وقت نازل ہوا جب عربی زبان میں نثر کا رواج نہ تھا۔

بلحاظ کمالِ مضامین میں یہ حالت ہے کہ نہ صرف تمام مذاہب کے اصول باطلہ کی تردید کرتا ہے بلکہ اصول حقہ کو کھول کر بیان کرتا ہے بلکہ تمدن اور معاشرت اور سیاست کے اصول کو بھی بیان کرتا ہے ۔ پھر جس بات کا دعوی کرتا ہے اسکے دلائل بھی ساتھ دیتا ہے ۔

جامعیت مضامین قرآن :

بلحاظ جامعیت مضامین چھوٹی سے چھوٹی سورت بھی اپنے اندر یہ کمال رکھتی ہے کہ ایک خاص مضمون کو کمال تک پہنچاتی ہے اور ایک کتاب کا حکم رکھتی ہے مگر سب سے واضح معیار مثل ہونے یا نہ ہونے کا یہ ہے کہ جو کام اس کتاب نے کر دکھایا ہے وہ دوسری کسی کتاب نے کر کے نہیں دکھایا ۔ اور چونکہ اس سورت کی ابتدا اس دعویٰ سے تھی کہ یہ کتاب ہدایت ہے پس اسی میں بے مثل ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے ۔ یعنی کوئی ایسی کتاب یا سورت لاو جو دنیا کےلئے اسی طرح موجب ہدایت بنی ہو ۔

قرآن کریم نے جو انقلاب دنیا میں پیدا کیا اور جس طرح نہایت پستی کی حالت سے ایک قوم کو اٹھا کر اوج کمال تک پہنچا دیا،  اسکے متعلق دنیا کو اعتراف ہے کہ ایسا کام کسی اور کتاب نے نہیں کر کے دکھایا۔



بیان القرآن، اردو ترجمہ و تفسیرحضرت مولانا محمدعلیؒ

...................................................................................................................................................................


۲:حدیثِ نبویؐ


(حضرت) جابرؓ سے  روایت ہے کہا کہ ابو حمید دودھ کا ایک پیالہ نقیع سے لایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایاکہ


اسے ڈھکا کیوں نہیں گو اس پر لکڑی ہی رکھ دیتے 


بخاری (74: 11)


کتاب: احادیث العمل صفحہ397
از
 حضرت مولانا محمدعلیؒ 


...................................................................................................................................................................


۳:سیرت خیر البشرؐ
باب سوئم
آنحضرتؐ    سے پہلے ملک عرب کی اصلاح کی کوششیں

لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنْفَكِّينَ حَتَّىٰ تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ

(البینة:1،2)
جو لوگ اہل کتاب میں سے کافر ہیں اور مشرک آزاد ہونے والےنہ تھے یہاں تک کے انکے پاس کھلی دلیل آئے، یعنی اللہ کی طرف سے رسول جو پاک صحیفے پڑھتا ہے 
از
 حضرت مولانا محمد علی 

نوٹ:  حضرت مولانا محمد علیؒ  کے اس عظیم الشان شاہکار اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ امی و ابی کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب سیرت خیرالبشر ؐ کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ


تینوں(تحریکاتِ    اصلاح) کی ناکامی اور عرب کی گناہ کی غلامی

"یہودیوں کا بنی اسماعیل یا عرب کے لوگوں کے ساتھ بھائی بھائی ہونے کا تعلق  تھا ۔ انکی زبانیں انکی عادات بہت کچھ باہم ملتی تھیں ۔ ابولانبیاء حضرت ابراھیم علیہ السلام کو دونوں قومیں یکساں عزت کی نگاہ سے دیکھتی تھیں ۔ یمن کے بادشاہ تک نے یہودیوں کے دین کو قبول کر لیا ۔ ظاہری اسباب کافی سے زیادہ مقدر ہو چکے تھے کہ ملک عرب سارے کا سارا اس اثر کے نیچے یہودیوں کے دین کو قبول کر لیتا ۔ مگر یہ تمام اسباب ملک عرب کی حالت عامہ میں کوئی تغیر پیدا نہ کر سکے۔ 

اسکے بعد عیسائیت آئی ۔ اس کی فرضی توحید کچھ کچھ عرب کی فرضی توحید سے ملتی تھی ۔ جس قسم کی بت پرستی ان میں مروج تھی، اسکی قسم کی یونانی بت پرستی کےاثر کے نیچے عیسائیت کے عقیدہ تثلیث نے پرورش پائی تھی اور موجودہ عیسائیت کے اصل بانی پولوس نے انبیائے بنی اسرائیل کی توحید پر بت پرستی کا ایسا رنگ چڑھایا تھا کہ بت پرست قومیں گروہ در گروہ اس دین میں داخل ہونا شروع ہو گئی تھیں ۔ 

پھر عیسائیت میں شریعت کی پابندی کی کوئی قید نہ تھی ۔اور عرب کی طبائع بھی قیود شرعی کے پابند نہ ہونے کی وجہ سے اور ہر قسم کی عیاشی میں پڑ جانے سے عیسائیوں کی طرح ہی اباحت پسند ہوچکی تھیں۔ اور یوں عرب کے لوگوں کے لئے عیسائیت سہل ترین مذہب تھا "

جاری ہے 

کتاب سیرت خیرالبشرؐ،باب سوئم ، صفحہ29



...................................................................................................................................................................

۴:تاریخ خلافت راشدہؓ
از حضرت مولانا محمد علیؒ 
حضرت ابوبکر صدیقؓ
زمانہ خلافت
۲ ربیع الاول ۱۱ ہجری تا ۲۲ جمادی الثانی ۱۳ ہجری
جون ۶۳۲ء تا اگست ۶۳۴ء 

نوٹ:  حضرت مولانا محمد علیؒ  کے اس عظیم الشان شاہکار اور خلفائے راشدین کی خدمت میں حضرت مولانا محمد علیؒ کی طرف سے اس عاجزانہ ہدیہ عقیدت یعنی کتاب تاریخ خلافت راشدہ کو  کو باب وار ترتیب سے شائع کیا جا رہا ہے ۔الحمدللہ

سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار کامشورہ
 اور حضرت ابوبکرؓ کی بیعت


"ملک عرب میں آج تک کسی قوم کو دوسری قوم پر بادشاہت حاصل نہ ہوئی تھی لیکن انکے دلوں میں قریش کی خاص عزت تھی ۔اس لئے کہ  وہ عرب کے روحانی مرکز خانہ کعبہ کے متولی تھے ۔ 

اول تو اہل عرب کے خون کے اندر آزادی ایسی رچی ہوئی تھی کہ ان کےلئے ایک بادشاہ یا امیر کا تسلیم کرنا مشکل کام تھا۔ ہر قوم اپنی جگہ آزادی کی خواہاں رہتی تھی ۔اور اگر وہ سب کے سب کسی شخص کوامیر تسلیم کرنے پر متفق بھی ہوتے تو سوائے قریش کے اور کسی قبیلہ کے آگے سر تسلیم خم نہ کرتے ۔

 اس لئے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قریش سے تھے ۔اور اس لئے بھی کہ قریش کو ملک عرب کی سب قوموں پر خاص امتیاز حاصل تھا ۔

حضرت ابو بکر ؓ کی دور اندیشی نے اس با ت کو سمجھ لیا تھا اور یہی بات انھوں نے انصار کے مجمع میں پیش کی ۔ انصار کی طرف سے پہلے یہ کہا گیا کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک قریش میں سے مگر اس سے بھی اتحاد ٹوٹتا تھا ۔

 آخر بہت سی بحث کے بعد انصار کو یہ بات سمجھ آگئی اور ان میں سے ایک شخص نے اٹھ کر کہا کہ ہم نے محض حصول رضائے الٰہی کےلئے اپنی جانیں اوراپنے مال خدا کی راہ میں دئیے تھے اور اب بھی اسلام کی بہتری کو مد نظر رکھ کر ہم اس بات پر راضی ہیں کہ قریش میں سے امیر کا انتخاب ہو اور ہم جس طرح رسول اللہ صلعم کے مددگار اور معاون تھے ، اسی طرح آپکے جانشین کے معاون رہیں گے ۔

 اور حضرت ابوبکر ؓ کا ہاتھ پکڑ کر بیعت کی ۔اور بعض روایات میں ہے کہ پہلے حضرت عمرؓ اور ابو عبیدہ نے بیعت کی پھر انصار نے ۔ صرف سعد بھی عبادہؓ رہ گئے  "



جاری ہے


کتاب تاریخ خلافت راشدہ ،باب اول ، صفحہ 7

...................................................................................................................................................................

۵:کلامِ امامؑ
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ 



بے جا جہاد کے مسئلوں کا مسلمانوں کے اخلاق پر اثر


*"بہتیرے مسلمان ایسے دیکھے جاتے ہیں کہ ان میں اور درندوں میں شاید کچھ تھوڑا ہی سا فرق ہوگا۔ اور ایک جین مت کا انسان اور یا بُدھ مذہب کا ایک پابند ایک مچھر یا پسّوکے مارنے سے بھی پرہیز کرتا اور ڈرتا ہے۔ مگر افسوس کہ ہم مسلمانوں میں سے اکثر ایسے ہیں کہ وہ ایک ناحق کا خون کرنے اور ایک بے گناہ انسان کی جان ضائع کرنے کے وقت بھی اُس قادر خدا کے مواخذہ سے نہیں ڈرتے جس نے زمین کے تمام جانوروں کی نسبت انسان کی جان کو بہت زیادہ قابلِ قدر قرار دیا ہے۔

اس قدر سخت دلی اور بے رحمی اور بے مہری کا کیا سبب ہے؟ یہی سبب ہے کہ بچپن سے ایسی کہانیاں اور قصّے اور بے جا طور پر جہاد کے مسئلے ان کے کانوں میں ڈالے جاتے اور اُن کے دل میں بٹھائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے رفتہ رفتہ ان کی اخلاقی حالت مردہ ہوجاتی ہے اور ان کے دل ان نفرتی کاموں کی بدی کو محسوس نہیں کر سکتے۔ بلکہ جو شخص ایک غافل انسان کو قتل کر کے اس کے اہل و عیال کو تباہی میں ڈالتا ہے وہ خیال کرتا ہے کہ گویا اُس نے بڑا ہی ثواب کا کام بلکہ قوم میں ایک فخر پیدا کرنے کا موقعہ حاصل کیا ہے۔

 اور چونکہ ہمارے اس ملک میں اس قسم کی بدیوں کے روکنے کے لئے وعظ نہیں ہوتے اور اگر ہوتے بھی ہیں تو نفاق سے ۔اس لئے عوام الناس کے خیالات کثرت سے ان فتنہ انگیز باتوں کی طرف جھکے ہوئے ہیں چنانچہ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ اپنی قوم کے حال پر رحم کر کے اردو اور فارسی اور عربی میں ایسی کتابیں لکھی ہیں جن میں یہ ظاہر کیا ہے کہ مسلمانوں میں جہاد کا مسئلہ اور کسی خونی امام کے آنے کے انتظار کا مسئلہ اور دوسری قوموں سے بُغض 
رکھنے کا مسئلہ یہ سب بعض کوتہ اندیش علماء کی غلطیاں ہیں

ورنہ اسلام میں بجز دفاعی طور کی جنگ یا ان جنگوں کے سوا جو بغرض سزائے ظالم یا آزادی قائم کرنے کی نیت سے ہوں اور کسی صورت میں دین کے لئے تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں اور دفاعی طور کی جنگ سے مراد وہ لڑائیاں ہیں جن کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب کہ مخالفوں کے بلوہ سے اندیشہ جان ہو یہ تین قسم کے شرعی جہاد ہیں بجز ان تین صورتوں کی جنگ کے اور کوئی صورت جو دین کے پھیلانے کےلئے ہو، اسلام میں جائز نہیں  "
کتاب: مسیح ہندوستان میں 
روحانی خزائن جلد 15 صفحہ  4 


...................................................................................................................................................................


۶:دینی مسائل اور انکا حل

ارشاد مبارک حضرت مجدد اعظم و امام الزمان
مرزا غلام احمد قادیانی رحمتہ اللہ علیہ  

نوٹوں پر کمیشن 
سوال پیش ہوا کہ نوٹوں کے بدلے روپیہ لینے یا دینے کے وقت یا پونڈ یا روپیہ توڑانے کے وقت دستور ہے کہ کچھ پیسے زائد لئے یا دئیے جاتے ہیں ۔ کیا اس قسم کا کمیشن لینا یا دنیا جائز ہے ؟

حضور عالی مقام ؑ نے ارشاد فرمایا

"جو نوٹ لے کر روپیہ دیتا ہے اسمیں کچھ حرج نہیں کہ وہ کچھ مناسب کمیشن اس پر لے لے ۔ کیونکہ نوٹ یا روپیہ یا ریزگاری کے محفوظ رکھنے اور تیار رکھنے میں وہ خود بھی وقت اور محنت خرچ کرتا ہے ۔  "

البدر 26ستمبر 1907ء ص 6
...................................................................................................................................................................


۷:پیغام امیر قوم
حضرت مولانا محمدعلیؒ



حضرت مرزا صاحبؒ پر مراق  کے الزام کا نہایت زبردست جواب

"حضرت مرزا صاحبؒ کے بارے میں بڑے بڑے عقلمند یہ رائیں لگارہے ہیں کہ آپ مراقی تھے۔میں حیران ہوتا ہوں کہ بھلا کیسے اس بات کا یقین دلائیں گے انکو ، جو آپکے پاس بیٹھے ہیں ۔انکے تو چہرے پر ہی تبسم کھیلتا تھا ۔ہر وقت دوستوں میں خوش خوش رہتے اور ہنستے ہوئے باتیں کرتیں ۔ہم تو دن رات آپؒ   کے پاس بیٹھے رہے ہیں ۔نہ صرف یہ کہ آپؒ   کے اپنے چہرے پر کبھی پژ مردگی اور غم کے آثار نہ ہوتے تھے بلکہ آپکے چہرے کی طرف دیکھنے سے دوسروں کا بھی غم دور ہو جاتا تھا۔

پھر جو کام آپؒ   نے کیا ، جس طرح قرآن کی محبت دلوں میں ڈالی اور اسکو پھیلانے کا ایک جوش اور ولولہ پیدا کر دیا، اگر فی الوقعی مراقی اور مجنون بھی یہ کام کرلیا کرتے ہیں، تو میں کہتا ہوں کہ ان کم بختوں تندرستوں کو کیا ہو گیا ہے ؟ کہ ان سے کوئی اس قسم کا کام نہیں ہو سکتا ؟ 

آپ ؒ کی مجلس اور صحبت کے اندر وہ اثر تھا کہ میں علیٰ وجہ البصیرت گواہی دیتا ہوں کہ محض آپکی صحبت میں بیٹھنے سے ہی لوگوں کی زندگیاں بدل گئیں ۔ جو رشوت لینے کے عادی تھے، جب آپکی صحبت میں آکر بیٹھے تو رشوت کی عادت ان سے چھوٹ گئی ۔چور اور ڈاکو جب آپؒ   کی صحبت سے متاثر ہوئے ، تو چوری اور ڈاکہ زنی سے وہ تائب ہو گئے ۔کیا کسی کبھی کسی مراقی اور مجنون کی یہ کیفیت آپ نے دیکھی ۔ لیکن نہیں ۔ان باتوں سے تو کوئی مطلب ہی نہیں ۔انہیں چند جہلا کو خوش کرنا مقصود ہے ۔

میں پوچھتا ہوں کہ اگر مراق کی بیماری حضرت مرزا صاحبؒ کو ہوتی، تو کس طرح اتنا بڑا کام کر سکتے تھے؟ کیونکر اتنے لوگ آپکے گرد جمع ہو سکتے تھے ۔ہاں اس میں شک نہیں کہ آپکو دوران سر کا مرض تھا لیکن اسکو مراق کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔جب وہ حالت دور ہو جاتی تھی تو پھر وہی مرزا صاحب ایسے ہشاش بشاش ہوتے تھے کہ گویا کوئی تکلیف ہی نہیں تھی ۔یہ مراق والے کی حالت نہیں ہوتی ۔لیکن لوگوں نے کسی نہ کسی طریق سے جھٹلانا ہے ۔ کسی نے مراق کہہ دیا ، کسی نے افتراء کہہ دیا، کسی نے سحر اور مسمریزم قرار دے دیا ۔ 

اصل بات یہ ہے کہ ایک صادق انسان کا معاملہ اس قدر مشکل ہوتا ہے کہ سوائے صحیح حل کے اور کسی بات پر انسان قائم نہیں رہ سکتا ۔تاہم یہی باتیں انکے پاس لے دے کے رہ گئی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صرف جھوٹا کہہ لینے سے کچھ نہیں بنتا، جب تک غور اور توجہ سے اسکے کلام کونہ دیکھا جائے، اسکے خیالات کو نہ سنا جائے، اسکے اعمال کو نہ دیکھا جائے۔افسوس کہ ہمارے مخالفین کو اس سے کچھ غرض نہیں ۔

لیکن یاد رکھئیے کہ آج یہ لوگ حضرت مرزاصاحب ؒ کو مفتری اور کذاب کہتے ہیں، کل انکی اولادیں ہونگی، جن کے سامنے جب حقائق آئیں گے اور جب اسکی خدمت اسلام کے کھلے اور روشن نتائج انکے سامنے ہونگے، تو وہ ان لوگوں کو ملامت کریں گے اور محسوس کریں گے کہ پھر ایک دفعہ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔اور وہ آخر کار غور کر کے حق و صداقت کو پا لیں گے ۔

ایک بیج ابتدا میں حقیر چیز سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جس بیج کو پانی مل جائے، وہ درخت بننے سے نہیں رہتا۔اسی طرح صداقت بھی ایک بیج ہے ۔یہ بھی ایک درخت بن کر رہتی ہے ۔راستبازوں کے ساتھ ہمیشہ یہی سلوک ہوتا چلا آیا ہے ۔ہر ایک راست باز کی یہی حالت ہے ۔تاہم اسکی راستبازی کو کوئی مٹا نہیں سکتا، اور آخرکار کامیاب ہو کر رہتا ہے ۔ "

پیغامِ صلح ، ۱۶ جولائی    ۱۹۳۵ ء
خطبات مولانا محمد علیؒ
جلد ۱۳، اقباس از صفحہ ۱۳۹ تا ۱۴۱

...................................................................................................................................................................


۸:
 ہماری مرکزی ویب سائٹ پر عظیم الشان اردو لٹریچر پر مبنی صفحہ کا تعارف

اس ہفتہ کی کتاب مسیح موعودؑ اور ختم نبوت




مستقل سیکشن 

 عقائد حضرت مولانا محمد علی ؒ 
انکی اپنی قلم سے 

تبدیلی عقیدہ کے ناپاک الزام پر حلف
عقیدہ کس نے بدلا ؟
قادیانی جماعت کے پیشواء ثانی اور ہمنواوں نے 
یا جماعت احمدیہ لاہور نے؟



میرا عقیدہ دربارہ نبوت مسیح موعودؑ کیاتھا؟ میں نے اسکو ابتدائے اختلاف ہی میں کھول کر بیان کردیا تھا ۔میں پہلے بھی اسی پر قائم تھا، اب بھی اسی پر قائم ہوں اور انہیں الفاظ میں پھر اپنے عقیدہ کو نقل کرتا ہوں 



"میں یہ مانتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ شرعی اصطلاح میں نبی اور رسول نہ تھے ۔یعنی نبی اس لئے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ پر غیب کے اخبار ظاہر کرتا تھا اور رسول اس لئے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مامور کر کے اصلاح کےلئے بھیجا تھا ۔

یعنی آپ ان معنوں میں نبی اور رسول تھے جن معنوں میں اس امت کے دوسرے مجدد بھی نبی اور رسول کہلا سکتے ہیں "
......................

"اس امت کے دوسرے مجددوں پر آپؒ   کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپؒ   کی آمد کے متعلق صریح پیشگوئیاں موجود ہیں ۔۔۔۔ پھر جس عظیم الشان فتنہ کی اصلاح کےلئے آپکو ؒ بھیجا گیا، دوسرے کسی مجدد کو اتنا عظیم الشان کام سپرد نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔


......................

ایسا ہی آپکوؒ کو جو علم کلام دیا گیا وہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس کو لیکر مسلمان کل مذاہب پر غالب آ سکتے ہیں ، دوسرے کسی مجدد کو ایسا علم کلام نہیں دیا گیا ۔"


......................
"میں حقیقی نبوت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم یقین کرتا ہوں ۔آپؐ    کے بعد نہ کوئی پرانا نبی واپس آئے گا نہ کوئی نیا نبی مبعوث ہوگا"

منقول از میرے عقائد، مطبوعہ ۳۳ اگست ۱۹۱۴ء



......................

"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر قسم اٹھاتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ میرے علم میں ۱۹۰۱ ء سے لیکر ۱۹۰۸ء تک حضرت مسیح موعودؑ کا یہی عقیدہ تھا کہ انکا نہ ماننے والا بھی مسلمان اور دائرہ اسلام میں ہے اور انکا منکر کافر اور دائرہ اسلام سے خارج نہیں اور میرا بھی یہی عقیدہ ۱۹۰۱ء سے لیکر آج تک بربنائے عقیدہ حضرت مسیح موعودؑ ہے "

پیغام صلح ۔لاہور۔۲۱ستمبر ۱۹۴۴



......................

"میں محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور اس بات پر حلف اٹھاتا ہوں کہ میرا عقیدہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب قادیانی مجدد اور مسیح موعودؑ ہیں مگر نبی نہیں اور نہ انکے انکار سے کوئی شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے 
اور یہی عقیدہ حضرت مرزا صاحب کا تھا



اے خدا اگر میں نے تیر نام لیکر اس قسم کے کھانے میں جھوٹ بولا ہے تو تو اپنی طرف سے ایسی عبرت ناک سزا مجھ پر بھیج جس میں انسانی ہاتھ کا کوئی دخل نہ ہو اور جس سے دنیا سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھا کرمخلوق خدا کو دھوکہ دینے والوں پر خدا تعالیٰ کی گرفت کتنی سخت اور درد ناک ہوتی ہے "

پیغام صلح ۔لاہور۔۱۱دسمبر ۱۹۴۶



......................

"ہم اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ ۱۹۰۱ ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دعوی میں تبدیلی کی"

ستر بزرگان لاہور کا حلف

......................


......................

حضرت مولانا نور الدینؒ کا عقیدہ
انکی اپنی قلم سے 

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ


دل چیر کر دیکھا یا دکھانا انسانی طاقت سے باہر ہے ۔قسم پر کوئی اعتبار کرے تو واللہ العظیم کے برابر کوئی قسم مجھے نظر نہیں آتی۔نہ آپ میرے ساتھ میری موت کے بعد ہونگے نہ کوئی اور میرے ساتھ سوائے میرے ایمان و اعمال کے ہوگا۔پس یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش ہونے والا ہے ۔
میں مرزا صاحب کو مجدد اس صدی کا یقین کرتا ہوں ۔میں انکو راستباز مانتاہوں ۔
حضرت محمد الرسول اللہ النبی العربی المکی المدنی خاتم النبیین کا غلام اور اسکی شریعت کا بدل خادم مانتا ہوں اور مرزا خود اپنے آپکو جاں نثار غلام نبی عربی محمدؐ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن مناف  کامانتے تھے 



نبی کے لغوی معنی پیش از وقت اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر خبر دینے والا ہم لوگ یقین کرتے ہیں نہ شریعت لانے والا۔



مرزا صاحب اور میں خود جو شخص ایک نقطہ بھی قرآن شریف کا اور شریعت محمدؐ رسول کا نہ مانے، میں اسے کافر اور لعنتی اعتقاد کرتا ہوں ۔



یہی میرا اعتقاد ہے اور یہی میرے نزدیک مرزا غلام احمد کا تھا ۔

کوئی رد کرے یا نہ مانے یا منافق کہے اس کا معاملہ حوالہ بخدا۔

نورالدین بقلم خود 
۲۲ اکتوبر  ۱۹۱۰ء 

......................

قادیانی جماعت کے پیشواء
مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کا سابقہ عقیدہ
خود انکی اپنی قلم سے 


"اس آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپؐ    کے بعد کوئی شخص نہیں آئے گا جس کو نبوت کے مقام پر کھڑا کیا جائے اور وہ آپؐ    کی تعلیم کو منسوخ کر دے اور نئی شریعت جاری کر دے ۔بلکہ جسقدر 

اولیاء اللہ 
ہونگے  اور متقی اور پرھیز گار لوگ ہونگے سب کو آپؐ   کی غلامی میں ہی ملے گیا جو کچھ ملے گا ۔
اس طرح خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ
 آپؐ    کی نبوت نہ صرف اس زمانہ کےلئے ہے بلکہ
آئندہ بھی کوئی نبی نہیں آئے گا"

تشحیذ الاذہان بابت اپریل ۱۹۱۰ء 


......................


قادیانی جماعت کے ھیڈ 

مولوی محمد سرور شاہ صاحب کا سابقہ عقیدہ


"لفظ نبی کے معنی اپنے مصدروں کے لحاظ سے دو ہیں ۔

اول اپنے خدا سے اخبار غیب پانے والا 
دوئم عالی مرتبہ شخص ۔جس شخص کو اللہ تعالیٰ بکثرت شرف مکالمہ سے ممتاز کرے اور غیب کی خبروں پر مطلع کرے ، وہ نبی ہے 



اس رنگ میں میرے نزدیک تمام مجددین سابق مختلف مدارج کے انبیاء گزرے ہیں "
بدر مورخہ ۱۶ فروری ۱۹۱۱ء 


......................

مفتی محمد صادق صاحب کا سابقہ عقیدہ 

اس کو عربی لغت میں نبی کہتے ہیں 



"شبلی نے دریافت کیا کہ کیاہم لوگ مرزا صاحب کونبی مانتے ہیں ؟

میں نے عرض کیا کہ ہمارا عقیدہ اس معاملہ میں دیگر مسلمانوں کی طرح ہے کہ آنحضرت صلعم خاتم النبیین ہیں ۔
آپکے بعد کوئی دوسرا نبی آنیوالانہیں ۔نہ نیا نہ پرانا ۔
ہاں مکالمات الٰہیہ کا سلسلہ برابر جاری ہے وہ بھی آنحضرت صلعم کے طفیل آپؐ    سے فیض حاصل کر کے اس امت میں ایسے آدمی ہوتے رہے جنکو الہام الٰہی سے مشرف کیا گیا اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے ۔



چونکہ حضرت مرزا صاحب بھی الہام الہی سے مشرف ہوتے رہے اور الہام الٰہی کے سلسلہ میں آپکو خدا تعالیٰ نے بہت سی آئندہ کی خبریں بطور پیشگوئی کے بتلائی تھیں جو پوری ہوتی رہیں اس واسطے مرزا صاحب ایک پیشگوئی کرنے والے تھے اور اسکو 

عربی لغت میں نبی کہتے ہیں "
بدر۔جلد نمبر ۹ ، ۵۱/۵۲



......................

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد
انکی اپنی تحریرات مبارکہ کی روشنی میں 
میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوں گا
(الہامِ پاک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؒ)

ہست اوخیرالرسل خیرالانام
ہر نبوت را بروشد اختتام

"نبوت کا دعوی نہیں بلکہ محدثیت کا دعوٰی ہے جو خدا تعالیٰ کےحکم سے کیا گیاہے"

"میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ان لوگوں نے مجھ پر افترا کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص نبی ہونے کا دعوٰ ی کرتا ہے "

" یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے؟"

روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۷۹

......................

"میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اورنبی کے میری الہام میں میری نسبت خدا تعالٰی کی طرف سے بے شک ہیں  لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں اور جیسے یہ محمول نہیں ایسا ہی نبی کر کے پکارنا  جو حدیثوں میں مسیح موعودؑ کےلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔
 یہ وہ علم ہے کو خدا نے مجھے دیا ہے ۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے "

سراج منیر،صفحہ ۳
......................
"سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں ۔ آنے والے مسیح موعودؑ  کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویؐ سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور معمولی محاوہ مکالمات الہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا؟"
روحانی خزائن ،جلد 11،حاشیہ صفحہ 28"
......................

یہ بھی یاد رہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے"
روحانی خزائن ،جلد14، صفحہ 209



......................

"سمیت نبیا من اللہ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ"
یعنی اللہ نے میرا نام مجاز کے طور پر نبی رکھاہےنہ کہ حقیقی طور پر 


روحانی خزائن جلد 22 صفحہ  689 ضمیمہ حقیقۃ الوحی (الاستفتاء صفحہ 65) 
......................
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کا مذہب
 انکے اپنے اشعار میں 

ما مسلمانیم از فضلِ خدا 
مصطفےٰ مارا امام و مقتدا

اندریں دیں آمدہ از مادریم 

ہم بریں از دارِ دنیا بگذریم

آں کتاب حق کہ قرآن نامِ اوست

بادہ عرفانِ ما از جامِ اوست

یک قدم دوری ازاں روشن کتاب

نزد ماکفر است و خسران و تباب

آں رسولے کش محمدؐ ہست نام

دامنِ پاکش بدستِ ما مدام

مہرِ اوباشیرشداندربدن

 جاں شد و باجاں بدر خواہد شدن 

ہست اوخیرالرسل خیرالانام

ہر نبوت را بروشد اختتام

(کتاب سراج منیر، ضمیمہ صفحہ ز)

 ایک ضروری تجویز

بہتر ہے کہ اس شمارہ کو اکیلے پڑھنے کی بجائے دیگر اہل خانہ کو بھی جمع کر کے اونچی آواز میں سنا دیا جائے ۔ اسطرح روزانہ درسِ اسلام ہو جایا کرے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

نوٹ: احباب سے درخواست ہے کہ وہ  مزید جن احباب  تک یہ روزنامہ پہنچا سکتے ہوں ان تک ضرور پہنچائیں۔ جزاکم اللہ

خدام و مبلغین 
عالمگیرجماعت احمدیہ 


 انجمن اشاعت اسلام
برائے
تزکیہ نفس و حفاظت اسلام